مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خفا ہونے کی بابت بائبل کا نقطۂ‌نظر

خفا ہونے کی بابت بائبل کا نقطۂ‌نظر

خفا ہونے کی بابت بائبل کا نقطۂ‌نظر

بائبل واعظ ۷:‏۹ میں بیان کرتی ہے:‏ ”‏تُو اپنے جی میں خفا ہونے میں جلدی نہ کر کیونکہ خفگی احمقوں کے سینوں میں رہتی ہے۔‏“‏ یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ جب کوئی شخص ہمیں ناراض کرتا ہے تو ہمیں یہ بات دل کو لگا لینے کی بجائے اُسے معاف کر دینا چاہئے۔‏

تاہم کیا واعظ ۷:‏۹ یہ کہتی ہے کہ ہمیں کسی بھی شخص یا کسی بھی بات سے خفا ہونے کی بجائے معاف کر دینا چاہئے خواہ یہ انتہائی سنگین ہو اور اسکی بابت کچھ نہیں کرنا چاہئے؟‏ کیا ہمیں اپنی باتوں اور کاموں سے دوسروں کو پریشان کرنے کی بابت لاپرواہ ہو جانا چاہئے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ دوسرے ہمیں معاف کر دیں گے؟‏ جی‌نہیں،‏ ایسا نہیں ہے۔‏

یہوواہ خدا محبت کرنے والا،‏ رحیم،‏ درگزر کرنے والا اور تحمل کرنے والا ہے۔‏ تاہم،‏ بائبل میں ایسے بہت سے واقعات کا ذکر ملتا ہے جب وہ ناراض ہوا۔‏ جب خطائیں بہت بڑھ گئی تو اُس نے خطاکاروں کے خلاف کارروائی کی۔‏ چند مثالوں پر غور کریں۔‏

یہوواہ کے خلاف گُناہ

پہلا سلاطین ۱۵:‏۳۰ یربعام کے گُناہوں کے بارے میں بیان کرتی ہے،‏ ”‏جن سے اُس نے اؔسرائیل سے گُناہ کرایا اور اُسکے اُس غصہ دلانے کے سبب سے جس سے اُس نے خداوند اؔسرائیل کے خدا کے غضب کو بھڑکایا۔‏“‏ دوسری تواریخ ۲۸:‏۲۵ آیت میں بائبل یہوداہ کے بادشاہ آخز کے سلسلے میں بیان کرتی ہے:‏ ”‏غیرمعبودوں کے آگے بخور جلانے کیلئے اُونچے مقام بنائے اور خداوند اپنے باپ‌دادا کے خدا کو غصہ دلایا۔‏“‏ ایک اَور مثال قضاۃ ۲:‏۱۱-‏۱۴ میں ملتی ہے:‏ ”‏بنی‌اسرائیل نے خداوند کے آگے بدی کی اور بعلیم کی پرستش کرنے لگے۔‏ .‏ .‏ .‏ اور خداوند کو غصہ دلایا۔‏ .‏ .‏ .‏ خداوند کا قہر اؔسرائیل پر بھڑکا اور اُس نے اُنکو غارتگروں کے ہاتھ میں کر دیا۔‏“‏

یہوواہ خدا کو ناراض کرنے والی اَور بھی بہت سی باتیں ہیں جنکے خلاف شدید کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ خروج ۲۲:‏۱۸-‏۲۰ میں ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏جادوگرنی کو جینے نہ دینا۔‏ جو کوئی کسی جانور سے مباشرت کرے وہ قطعی جان سے مارا جائے۔‏ جو کوئی واحد خداوند کو چھوڑ کر کسی اَور معبود کے آگے قربانی چڑھائے وہ بالکل نابود کر دیا جائے۔‏“‏

یہوواہ خدا نے قدیم اسرائیلیوں کی باربار کی جانے والی خطاؤں کو ہمیشہ معاف نہ کِیا۔‏ جب اُنہوں نے حقیقی توبہ نہ کی اور نہ ہی اپنے کاموں سے یہ ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ کی بات مان رہے ہیں تو یہوواہ خدا نے اُنکو ہلاک کر دیا۔‏ یہ تباہی ۶۰۷ قبل‌ازمسیح میں بابلیوں کے ذریعے اور ۷۰ء میں رومیوں کے ہاتھوں ہوئی تھی۔‏

جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا اُن لوگوں سے ناراض ہوتا ہے جو بُری باتیں کہتے اور بُرے کام کرتے ہیں۔‏ وہ غیرتائب گنہگاروں کو سزا دیتا ہے۔‏ لیکن کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ واعظ ۷:‏۹ کے مطابق اسکی خفگی غلط ہے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ وہ سنگین خطاؤں کے باعث ناراض ہونے کیلئے حق‌بجانب ہے اور ہمیشہ انصاف کرتا ہے۔‏ بائبل یہوواہ خدا کی بابت یوں بیان کرتی ہے:‏ ”‏وہ وہی چٹان ہے۔‏ اُسکی صنعت کامل ہے۔‏ کیونکہ اُسکی سب راہیں انصاف کی ہیں۔‏ وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔‏ وہ منصف اور برحق ہے۔‏“‏—‏استثنا ۳۲:‏۴‏۔‏

دوسروں کے خلاف سنگین خطائیں

قدیم اسرائیل میں شریعت کے مطابق دوسروں کے خلاف سنگین خطائیں کرنے والوں کو سنگین نتائج بھگتنے پڑتے تھے۔‏ مثال کے طور پر،‏ اگر کوئی چور رات کے وقت کسی گھر میں داخل ہوتے وقت پکڑا جاتا اور اُس گھر کا مالک اُسے مار ڈالتا تو وہ خون کا مجرم نہیں ٹھہرتا تھا۔‏ وہ بےقصور تھا۔‏ اسکی بابت ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏اگر چور سیندھ مارتے ہوئے پکڑا جائے اور [‏گھر کے مالک سے]‏ اُس پر اَیسی مار پڑے کہ وہ مر جائے تو اُسکے خون کا کوئی جُرم نہیں۔‏“‏—‏خروج ۲۲:‏۲‏۔‏

کسی عورت کے ساتھ زیادتی کرنا خدا کی نظر میں ایک سنگین گُناہ ہے۔‏ ایسی صورت میں کسی عورت کا شدید غصے میں آنا جائز ہے۔‏ موسوی شریعت میں کسی عورت کے ساتھ زیادتی کرنے والے شخص کو مار ڈالا جاتا تھا ”‏یہ بات ایسی ہی تھی جیسے کوئی اپنے ہمسایہ پر حملہ کرے اور اُسے مار ڈالے۔‏“‏ (‏استثنا ۲۲:‏۲۵،‏ ۲۶‏)‏ اگرچہ ہم شریعت کے ماتحت نہیں توبھی اس سے ہم یہ سبق سیکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا زنابالجبر کو کتنا بڑا گُناہ خیال کرتا ہے۔‏

ہمارے زمانے میں بھی عورتوں کے ساتھ زیادتی جیسے سنگین جُرم کی سخت سزا ہے۔‏ زیادتی کا شکار ہونے والی عورتوں کو پولیس میں رپورٹ درج کرانے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔‏ اس طرح حکام مجرم کو سزا دیتے ہیں۔‏ اگر کسی بچے کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو والدین کارروائی کر سکتے ہیں۔‏

معمولی خطائیں

تاہم،‏ تمام خلاف‌ورزیوں کے لئے حکام کی طرف سے کارروائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔‏ لہٰذا ہمیں دوسروں کی معمولی خطاؤں پر غیرضروری طور پر پریشان ہونے کی بجائے انہیں معاف کر دینا چاہئے۔‏ ہمیں کتنی مرتبہ معاف کرنا چاہئے؟‏ پطرس رسول نے یسوع مسیح سے پوچھا:‏ ”‏اَے خداوند اگر میرا بھائی میرا گُناہ کرتا رہے تو مَیں کتنی دفعہ اُسے معاف کروں؟‏ کیا سات بار تک؟‏“‏ یسوع مسیح نے جواب دیا:‏ ”‏مَیں تجھ سے یہ نہیں کہتا کہ سات بار بلکہ سات دفعہ کے ستر بار تک۔‏“‏—‏متی ۱۸:‏۲۱،‏ ۲۲‏۔‏

دوسری طرف ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ دوسروں کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔‏ اس طرح ہم اپنی مسیحی شخصیت کو بہتر بنا رہے ہوں گے۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب آپ دوسروں کے ساتھ کسی معاملہ پر بات‌چیت کرتے ہیں تو کیا آپ بدتمیزی کرتے،‏ بےسوچےسمجھے بولتے یا کسی کی بےعزتی کرتے ہیں؟‏ اس طرح کے رویے سے کسی کو بھی تکلیف پہنچ سکتی ہے۔‏ متاثرہ شخص کو قصوروار سمجھنے اور یہ محسوس کرنے کی بجائے کہ اُس نے ایسے ہی بُرا منایا ہے،‏ جس شخص کی وجہ سے وہ ناراض ہوا ہے اُسے اُس کو معاف کر دینا چاہئے۔‏ قصوروار شخص کو اس بات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ دوسرے شخص کو اس کی وجہ سے تکلیف پہنچی ہے۔‏ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ قصوروار کو اپنے کاموں اور گفتگو پر قابو پانے کی ضرورت ہے تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے۔‏ اس کوشش سے ہم بار بار دوسروں کا دل نہیں دُکھائیں گے۔‏ بائبل ہمیں یاددہانی کراتی ہے:‏ ”‏بےتامل بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں لیکن دانشمند کی زبان صحت‌بخش ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۲:‏۱۸‏)‏ اگر ہم انجانے میں بھی دوسروں کا دل دُکھاتے ہیں تو ہمارے معافی مانگ لینے سے صورتحال بگڑنے کی بجائے بہتر ہو جائے گی۔‏

خدا کا کلام ظاہر کرتا ہے کہ ہم ”‏ان باتوں کے طالب رہیں جن سے میل‌ملاپ اور باہمی ترقی ہو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۱۹‏)‏ جب ہم موقع‌شناسی اور مہربانی سے کام لیتے ہیں تو امثال کی اس مشورت پر عمل کر رہے ہوتے ہیں کہ ”‏باموقع باتیں روپہلی ٹوکریوں میں سونے کے سیب ہیں۔‏“‏ (‏امثال ۲۵:‏۱۱‏)‏ یہ کتنا خوشگوار اور اچھا اثر چھوڑتی ہے!‏ نرمی اور موقع‌شناسی سے کی گئی باتیں دوسروں کے تلخ رویے کو بھی بدل سکتی ہیں:‏ ”‏نرم زبان ہڈی کو بھی توڑ ڈالتی ہے۔‏“‏—‏امثال ۲۵:‏۱۵‏۔‏

خدا کا کلام ہمیں مشورت دیتا ہے:‏ ”‏تمہارا کلام ہمیشہ ایسا پُرفضل اور نمکین ہو کہ تمہیں ہر شخص کو مناسب جواب دینا آ جائے۔‏“‏ (‏کلسیوں ۴:‏۶‏)‏ ”‏نمکین“‏ کا مطلب ہے کہ ہم اپنی باتوں کو دوسروں کے لئے خوشگوار بنائیں تاکہ آزردگی کا خطرہ کم ہو سکے۔‏ اپنے کام اور کلام دونوں میں مسیحیوں کو بائبل کی مشورت کا اطلاق کرنا چاہئے:‏ ”‏صلح کا طالب ہو اور اُس کی کوشش میں رہے۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۱‏۔‏

پس واعظ ۷:‏۹ کا درحقیقت یہ مطلب ہے کہ ہمیں دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے ناراض نہیں ہونا چاہئے۔‏ خواہ یہ انسانی ناکاملیت کی وجہ سے ہوں یا جان‌بوجھ کر کی جائیں۔‏ تاہم،‏ یہ سنگین نہ ہوں۔‏ اگر خطائیں سنگین نوعیت کی ہیں تو یہ معقول بات ہے کہ جس شخص کو تکلیف پہنچائی گئی ہے وہ کوئی موزوں قدم اُٹھا سکتا ہے۔‏—‏متی ۱۸:‏۱۵-‏۱۷

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویر]‏

یہوواہ خدا نے غیرتائب اسرائیل کو ۷۰ء میں رومیوں کے ہاتھوں تباہ کر دیا

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

‏”‏باموقع باتیں .‏ .‏ .‏ سونے کے سیب ہیں“‏