یہوواہ اُنکو برکت دیتا ہے جو اُسکی راہ پر چلتے ہیں
میری کہانی میری زبانی
یہوواہ اُنکو برکت دیتا ہے جو اُسکی راہ پر چلتے ہیں
از رمولد ستاوسکی
ستمبر ۱۹۳۹ میں جب دوسری جنگِعظیم شروع ہوئی تو شمالی پولینڈ میں شدید لڑائی ہو رہی تھی۔ اُس وقت مَیں نو سال کا تھا۔ مجھے اس لڑائی کو دیکھنے کا بہت تجسّس تھا اسلئے مَیں قریبی میدانِجنگ میں چلا گیا۔ جوکچھ مَیں نے دیکھا وہ بہت ہی خوفزدہ کر دینے والا تھا۔ زمین پر ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھی۔ ہوا میں چاروں طرف دھواں ہی دھواں تھا جسکی وجہ سے دم گھٹ رہا تھا۔ اگرچہ اُس وقت میری پہلی فکر یہ تھی کہ مَیں صحیح سلامت گھر پہنچ جاؤں توبھی میرے ذہن میں چند سوال آ رہے تھے: ”خدا نے ایسی خطرناک حالتوں کی اجازت کیوں دی ہے؟ وہ کس کی طرف ہے؟
جب جنگ ختم ہونے والی تھی تو نوجوانوں کو مجبور کِیا جانے لگا کہ وہ جرمن حکومت کیلئے کام کریں۔ اگر کوئی انکار کرنے کی جرأت کرتا تو اُسے ”غدار“ یا ”تخریبکار“ قرار دے کر درخت یا پُل کیساتھ لٹکا دیا جاتا۔ ہمارے علاقے کا نام گڈنیا تھا جو سوویت اور جرمن فوجوں کے درمیان واقع تھا۔ جب ہم پانی لانے کیلئے اپنے علاقے سے باہر نکلتے تھے تو گولیاں اور بم ہمارے سروں کے اُوپر سے گزرتے تھے۔ اسی وجہ سے میرا چھوٹا بھائی ہنرک مارا گیا۔ اس خطرناک صورتحال میں میری والدہ نے ہم چاروں بہنبھائیوں کیساتھ ایک تہہخانے میں پناہ لینے کا فیصلہ کِیا۔ وہاں میرا دو سالہ بھائی یوجنز خناق کی بیماری کی وجہ سے وفات پا گیا۔
اُس وقت مَیں نے پھر خود سے پوچھا: ”خدا کہاں ہے؟ وہ انسانوں کو دُکھ کیوں اُٹھانے دے رہا ہے؟ اگرچہ مَیں ایک سرگرم کیتھولک تھا اور باقاعدگی سے چرچ جاتا تھا توبھی مجھے ان سوالوں کے جواب نہیں ملے۔
بائبل سچائی قبول کرنا
مجھے میرے سوالوں کے جواب ایک ایسے ذریعے سے ملے جنکی مجھے اُمید تک نہ تھی۔ جنگ ۱۹۴۵ میں ختم ہوگئی اور ۱۹۴۷ کے شروع میں گڈنیا میں یہوواہ کی ایک گواہ ہمارے گھر آئی۔ میری والدہ نے اس کیساتھ باتچیت کی۔ اس دوران مَیں نے بھی انکی چند باتیں سنی۔ اسکی باتیں ہمیں بہت اچھی لگیں۔ اسلئے ہم نے اُنکی عبادت پر حاضر ہونے کی دعوت قبول کر لی۔ صرف ایک ماہ بعد بائبل سچائی کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کے باوجود، مَیں گواہوں کیساتھ مل کر دوسروں کو جنگ اور ظلموتشدد سے پاک ایک بہتر دُنیا کے بارے میں بتانے لگا۔ اس کام سے مجھے بہت خوشی حاصل ہوئی۔
مَیں نے ستمبر ۱۹۴۷ میں پولینڈ کے ایک دوسرے علاقے ساپٹ میں منعقد ہونے والی سرکٹ اسمبلی پر بپتسمہ لے لیا۔ مَیں نے اگلے سال مئی میں باقاعدہ پائنیر کے طور پر خدمت شروع کر دی اور اپنا زیادہتر وقت بائبل پیغام دوسروں تک پہنچانے میں صرف کرنے لگا۔ مقامی پادریوں نے ہمارے کام کی شدید مخالفت کی اور ہمارے ساتھ بہت بُرا سلوک کِیا۔ ایک مرتبہ، ایک غضبناک ہجوم نے ہم پر حملہ کر دیا، ہم پر پتھر برسائے اور ہمیں بہت زیادہ مارا پیٹا۔ ایک اَور موقع پر، مقامی راہباؤں اور فادروں نے لوگوں کے ایک گروہ کو ہم پر حملہ کرنے کیلئے کہا۔ ہم نے ایک پولیس سٹیشن میں پناہ لی لیکن اس ہجوم نے اس عمارت کو گھیرے میں لے لیا اور ہمیں ڈرانے دھمکانے لگا۔ آخرکار، پولیس کے کچھ اَور افسروں نے آکر ہمیں سخت پہرے میں وہاں سے نکالا۔
اُس وقت ہمارے علاقے میں کوئی کلیسیا نہیں تھی۔ بعضاوقات ہمیں کھلے آسمان کے نیچے جنگل میں رات گزارنی پڑتی تھی۔ ہم ایسے حالات میں بھی منادی کا کام کرنے سے خوش تھے۔ آجکل، اس علاقے میں مضبوط کلیسیائیں قائم ہیں۔
بیتایل خدمت اور گرفتاری
مجھے ۱۹۴۹ میں، لاڈز میں بیتایل خدمت کی دعوت دی گئی۔ ایسی جگہ پر خدمت کرنا واقعی بہت بڑا شرف تھا! افسوس کی بات ہے کہ مَیں وہاں زیادہ عرصہ خدمت نہ کر سکا۔ جون ۱۹۵۰ میں ہمارے کام پر پابندی عائد ہونے سے ایک ماہ پہلے مجھے اور بیتایل کے دیگر بھائیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ مجھے جیل لیجایا گیا اور مجھ سے پوچھگچھ کی گئی۔
میرے والد ایک بحری جہاز پر کام کرتے تھے جو اکثر نیو یارک جاتا تھا اسلئے تفتیش کرنے والے افسر نے مجھ سے یہ بات قبول کرانے کی کوشش کی کہ وہ امریکہ کے جاسوس ہیں۔ مجھے یہ ہولناک پوچھگچھ برداشت کرنا پڑی۔ مزیدبرآں، چار افسروں نے الگالگ میرے پاس آکر مجھے مجبور کِیا کہ مَیں بھائی ولہلم شیڈر کے خلاف گواہی دوں جو پولینڈ میں ہمارے کام کی نگرانی کر رہا تھا۔ اُنہوں نے میری ایڑیوں پر ایک موٹے ڈنڈے سے مارنا شروع کر دیا یہانتک کہ میری ایڑیوں سے خون بہنے لگا۔ فرش پر لیٹے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ اب مَیں اَور برداشت نہیں کر سکتا تو مَیں چلّایا، ”یہوواہ میری مدد کر!“ مجھے مارنے والے حیران ہوگئے اور مجھے مارنا بند کر دیا۔ چند منٹ کے بعد وہ سو گئے۔ اس سے مجھے سکون ملا اور میری طاقت بحال ہونے لگی۔ اس سے مجھے یہ یقین ہو گیا کہ یہوواہ اپنے مخصوصشُدہ خادموں کی سنتا ہے جب وہ اس سے التجا کرتے ہیں۔ اس سے میرے ایمان کو تقویت ملی اور مَیں نے خدا پر مکمل بھروسا رکھنا سیکھ لیا۔
تفتیش کی حتمی رپورٹ منگھڑت جھوٹی گواہی پر مبنی تھی جو انکے بقول میری تھی۔ میرے شکایت کرنے پر ایک افسر نے مجھے بتایا، ”اب تم عدالت میں یہی بیان دو گے!“ ایک ساتھی قیدی نے مجھے پریشان نہ ہونے کا مشورہ دیا کیونکہ حتمی رپورٹ کی تصدیق ایک سرکاری وکیل نے کرنی تھی اور یوں
مجھے اس جھوٹی گواہی کی تردید کرنے کا موقع مل جائے گا۔ بعد میں واقعی ایسا ہی ہوا۔کلیسیاؤں کا دورہ کرنا اور ایک اَور قید
مجھے جنوری ۱۹۵۱ میں رِہا کر دیا گیا۔ ایک ماہ بعد مَیں نے کلیسیاؤں کا دورہ کرنے والے سفری نگہبان کے طور پر خدمت کرنا شروع کر دی۔ قانونی پابندی اور سیکورٹی سروسز کی کڑی نگرانی کے باوجود مَیں نے پریشان کلیسیاؤں کی مضبوطی اور ساتھی گواہوں کی مدد کیلئے دوسرے بھائیوں کیساتھ مل کر کام کِیا۔ ہم نے خدمتگزاری کو جاری رکھنے کیلئے بھائیوں کی مدد کی۔ بعد کے سالوں میں ان بھائیوں نے دلیری سے سفری نگہبانوں کی مدد کی اور بائبل مطبوعات کی خفیہ چھپائی اور تقسیم کا کام کرتے رہے۔
اپریل ۱۹۵۱ میں، ایک دن عبادت کے بعد میری نگرانی پر مقرر سیکورٹی افسران نے مجھے گلی میں گرفتار کر لیا۔ جب مَیں نے انکے سوالوں کے جواب دینے سے انکار کر دیا تو وہ مجھے باڈوزکس کی ایک جیل میں لے گئے اور مجھ سے پوچھگچھ شروع کر دی۔ مجھے چھ دن تک بغیر کھائے پئے ایک دیوار کیساتھ کھڑا ہونے کا حکم دیا گیا۔ افسروں کی سگریٹنوشی کی وجہ سے اس جگہ تمباکو کا دھواں پھیلا ہوا تھا۔ اُنہوں نے مجھے ایک ڈنڈے سے مارا اور میرے جسم کو سگریٹ کیساتھ جگہ جگہ سے جلانے لگے۔ جب مَیں بےہوش ہو گیا تو اُنہوں نے مجھ پر پانی پھینکا اور دوبارہ پوچھگچھ شروع کر دی۔ مَیں نے یہوواہ خدا سے برداشت کیلئے دُعا کی اور اس نے میری مدد کی۔
باڈوزکس کی جیل میں رہنے کے کچھ فائدے بھی ہوئے۔ وہاں مَیں اُن لوگوں کو بائبل سچائی سنانے کے قابل ہوا جن تک ویسے پہنچنا مشکل تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے پاس گواہی دینے کے بہت سے مواقع تھے۔ افسردگی اور نااُمیدی کی وجہ سے قیدی خوشخبری سننے کیلئے تیار تھے۔
دو اہم تبدیلیاں
جلد ہی ۱۹۵۲ میں مجھے رِہا کر دیا گیا۔ اسی سال میری ملاقات نیلا سے ہوئی جو ایک سرگرم پائنیر تھی۔ وہ پولینڈ کے جنوبی علاقوں میں منادی کرتی تھی۔ بعدازاں وہ لٹریچر کی چھپائی کی خفیہ جگہ پر کام کرنے لگی جسے ہم ”بیکری“ کہتے تھے۔ یہ ایک مشکل کام تھا اور اسے کرنے کیلئے ہوشیاری کی ضرورت تھی اور دوسروں کیلئے اپنی جان تک دے دینے کے جذبے کی بھی۔ ہماری شادی ۱۹۵۴ میں ہوئی۔ ہم نے اپنی بیٹی لیڈیا کی پیدائش تک کُلوقتی خدمت جاری رکھی۔ اسکے بعد ہم نے فیصلہ کِیا کہ میرے سفری کام کو جاری رکھنے کی صورت میں نیلا کو اپنی کُلوقتی خدمت چھوڑ کر بیٹی کی دیکھبھال کرنی پڑے گی۔
اسی سال ہمیں ایک اَور اہم فیصلہ کرنا پڑا۔ مجھے ڈسٹرکٹ نگہبان کے طور پر اُس علاقے میں خدمت کرنے کیلئے کہا گیا جو پولینڈ کے ایک تہائی حصے پر مشتمل تھا۔ ہم نے دُعا میں اس معاملے پر غوروخوض کِیا۔ مَیں اس بات کو جانتا تھا کہ پابندی کے باعث بھائیوں کو تقویت دینا کتنا ضروری ہے۔ اس دوران بہت سے بھائی گرفتار ہو چکے تھے اسلئے انہیں روحانی مدد اور حوصلہافزائی کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔ نیلا کی مدد سے مَیں نے اس تفویض کو قبول کر لیا۔ یہوواہ خدا کی مدد سے مَیں ۳۸ سال تک یہ خدمت کرنے کے لائق ہوا۔
”خفیہ جگہوں“ کی دیکھبھال کرنا
اُن دنوں میں ”خفیہ جگہوں“ کی دیکھبھال کرنے کی ذمہداری ڈسٹرکٹ نگہبان پر ہوتی تھی جو شہر سے دُور ہوا کرتی تھیں۔ پولیس مسلسل ہمارا
تعاقب کرتی رہی تاکہ ہمارے چھپائی کے کام کو بند کر سکے۔ بعضاوقات وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو جاتے تھے لیکن ہمیں ہماری ضرورت کے مطابق روحانی خوراک باقاعدگی سے ملتی رہی۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ یہوواہ اس مشکل وقت میں ہماری حفاظت کر رہا تھا۔چھپائی کے مشکل اور خطرناک کام کیلئے بلائے جانے والے ہر شخص کو فرمانبردار، وفادار، ہوشیار اور دوسروں کیلئے قربانی دینے کا جذبہ رکھنے والا ہونا چاہئے تھا۔ یہ خوبیاں خفیہ جگہ کے کام کو محفوظ طریقے سے جاری رکھنا ممکن بناتی تھیں۔ چھپائی کیلئے کوئی مناسب جگہ تلاش کرنا بہت مشکل تھا۔ بعض جگہیں تو مناسب تھیں لیکن وہاں کے بھائی اتنے زیادہ ہوشیار نہیں تھے۔ دوسری جگہیں مناسب نہیں تھی لیکن بھائی ہر قسم کی قربانیاں دینے کیلئے تیار تھے۔ مَیں ان تمام بہن بھائیوں کی دل سے قدر کرتا ہوں جنکے ساتھ مجھے کام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
خوشخبری کا دفاع کرنا
ان مشکل سالوں میں ہم پر مسلسل یہ الزام تھا کہ ہم باغیانہ اور غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اسی وجہ سے ہمیں عدالت میں لے جایا گیا۔ یہ بہت بڑا مسئلہ تھا کیونکہ کوئی وکیل ہمارا مقدمہ لڑنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ کچھ وکیل ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ہمارا ساتھ دینا چاہتے تھے مگر اپنی شہرت خراب ہونے سے خوفزدہ تھے کیونکہ وہ حکام کو ناخوش کرنے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ تاہم یہوواہ خدا ہماری ضروریات سے باخبر تھا اور وقتِمقررہ پر اُس نے تمام معاملات کو حل کر دیا۔
کراکو سے ایک سفری نگہبان آلوئزی پروستاک سے پوچھگچھ کے دوران اتنا بُرا سلوک کِیا گیا کہ اُسے جیل کے ہسپتال لیجانا پڑا۔ ذہنی اور جسمانی اذیت کے باوجود ثابتقدم رہنے کی وجہ سے ہسپتال میں موجود دوسرے قیدی اسکی بہت تعریف اور عزت کرتے تھے۔ ان میں سے ایک ولٹولڈ لس-لاسزسکی نامی وکیل ہمارے بھائی کی دلیری سے بہت متاثر ہوا تھا۔ اس وکیل نے کئی بار بھائی پروستاک سے باتچیت کی اور وعدہ کِیا، ”جیسے ہی مَیں آزاد ہوکر اپنی پریکٹس شروع کروں گا مَیں یہوواہ کے گواہوں کا دفاع کروں گا۔“ اس نے جیسا کہا تھا بالکل ویسا ہی کِیا۔
مسٹر لاسزسکی کی وکیلوں کی اپنی ایک ٹیم تھی جنکا عزم واقعی قابلِتعریف تھا۔ مخالفت کے اس شدید دَور میں بھی اُنہوں نے ایک ماہ میں تقریباً ۳۰ مقدموں میں بھائیوں کا دفاع کِیا۔ جو فی دن ایک مقدمہ تھا۔ مسٹر لاسزسکی کو تمام مقدموں کے بارے میں مکمل تفصیلات کی ضرورت ہوتی تھی۔ اسلئے مجھے مسلسل اُس سے رابطہ رکھنے کیلئے کہا گیا۔ مَیں نے ۱۹۶۰ اور ۱۹۷۰ کے دہوں میں سات سال تک اُس کیساتھ کام کِیا۔
اُن دنوں میں، مَیں نے قانون کے متعلق بہت کچھ سیکھا۔ مَیں اکثر مقدموں میں وکیلوں کے مثبت اور منفی تبصروں اور ساتھی ایمانداروں کی گواہیاں سننے کیساتھ ساتھ قانونی دفاع کے طریقوں کا بھی جائزہ لیتا تھا۔ یہ سب کچھ دوسرے بھائیوں کی مدد کرنے کیلئے بہت مفید تھا بالخصوص اُنکی جنہیں گواہی دینے کیلئے بلایا جاتا تھا کہ انہیں عدالت میں کیا کہنا ہے اور کب چپ رہنا ہے۔
جب کوئی مقدمہ چل رہا ہوتا تھا تو مسٹر لاسزسکی یہوواہ کے گواہوں کے گھروں میں رات بھی رُکتا تھا۔ اسلئے نہیں کہ ہوٹل میں ٹھہرنے کیلئے اُسکے پاس پیسے نہیں تھے بلکہ ایک مرتبہ اُس نے کہا کہ ”مقدمے سے پہلے مَیں آپ جیسی سوچ رکھنا چاہتا ہوں۔“ اسکی مدد کی بدولت بہت سے مقدموں کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوا تھا۔ اس نے کئی بار میرا دفاع کِیا اور کبھی مجھ سے فیس نہیں لی۔ ایک اَور موقع پر، اُس نے ۳۰ مقدموں کی فیس لینے سے انکار کر دیا۔ کیوں؟ اُس نے کہا، ”مَیں آپکے کام میں حقیر سا حصہ ڈالنا چاہتا ہوں۔“ یہ کوئی معمولی رقم نہیں تھی۔ مسٹر لاسزسکی کی ٹیم حکام کی نظروں سے چھپ نہ سکی۔ لیکن یہ بات انہیں ہماری مدد کرنے سے روک نہ پائی۔
ان مقدموں کے دوران ہمارے بھائیوں کی عمدہ گواہی کے بارے میں بیان کرنا مشکل ہے۔ بہتیرے عدالتوں میں مقدموں کی سماعت دیکھنے آئے اور اُن بھائیوں کو تقویت دی جن پر الزام لگایا گیا تھا۔ اُس وقت کے دوران مقدموں کی سماعت کیلئے ایک سال میں تقریباً ۰۰۰،۳۰ لوگ آئے۔ یہ واقعی گواہوں کا ایک بڑا گروہ تھا!
ایک نئی تفویض
سن ۱۹۸۹ سے ہمارے کام پر سے پابندی ہٹا دی گئی۔ تین سال بعد ایک نئے برانچ دفتر کی تعمیر اور مخصوصیت ہوئی۔ مجھے ہسپتال کے معلوماتی شعبہ میں کام کرنے کی دعوت دی گئی جسے مَیں نے خوشی سے قبول کِیا۔ ہماری اعمال ۱۵:۲۹۔
ٹیم تین اشخاص پر مشتمل تھی۔ ہم نے اپنے بھائیوں کی خون کے مسئلے کا سامنا کرنے اور راستی پر قائم رہنے کیلئے مدد کی جو اُنکے مسیحی ضمیر کے مطابق تھی۔—میری بیوی اور مَیں منادی میں یہوواہ کی خدمت کرنے کے شرف کے لئے بہت شکرگزار ہیں۔ نیلا نے ہمیشہ میری مدد اور حوصلہافزائی کی ہے۔ مَیں اس بات کے لئے ہمیشہ اُس کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جب کبھی مَیں مسیحی سرگرمیوں میں مصروف ہوتا یا مجھے جیل بھیج دیا جاتا تو وہ میری گھر سے غیرحاضری کی شکایت نہیں کرتی تھی۔ مشکل اوقات میں وہ بےحوصلہ ہونے کی بجائے ہمیشہ دوسروں کو تسلی دیتی تھی۔
مثال کے طور پر، ۱۹۷۴ میں مجھے دوسرے سفری نگہبانوں کیساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ کچھ بھائی جو اس بات سے واقف تھے وہ میری بیوی کو بڑی موقعشناسی سے یہ بات بتانا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے میری بیوی سے کہا، ”بہن نیلا، کیا آپ ایک بُری خبر سننے کیلئے تیار ہے؟“ پہلے تو اسے خوف سے سکتہ سا ہو گیا کیونکہ اُس نے سوچا کہ مَیں مر گیا ہوں۔ لیکن جب اسے پتہ چلا کہ حقیقت میں کیا واقع ہوا ہے، تو اس نے اطمینان سے کہا: ”وہ زندہ ہے! یہ اسکی پہلی قید نہیں ہے۔“ بعدازاں بھائیوں نے مجھے بتایا کہ وہ میری بیوی کے مثبت رویے سے بہت متاثر ہوئے تھے۔
اگرچہ ہمیں ماضی میں بہت سے تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا توبھی یہوواہ نے ہمیشہ ہمیں اپنی راہوں پر چلتے رہنے کی وجہ سے برکت دی ہے۔ ہم کتنے خوش ہیں کہ ہماری بیٹی لیڈیا اور اسکا شوہر الفریڈ ڈیروشا ایک مثالی جوڑا ثابت ہوئے ہیں۔ وہ اپنے بیٹوں کرسٹوفر اور جوناتھن کی خدا کے مخصوصشُدہ خادم بننے کیلئے پرورش کر رہے ہیں جس سے ہماری خوشی میں اضافہ ہوا ہے۔ میرا بھائی رسزرڈ اور بہن اُرسلا بھی کئی سالوں سے وفاداری سے خدمت کر رہے ہیں۔
یہوواہ نے ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑا اور ہم پورے دل سے اسکی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے زبور ۳۷:۳۴ کی صداقت کا تجربہ کِیا ہے: ”خداوند کی آس رکھ اور اُسی کی راہ پر چلتا رہ اور وہ تجھے سرفراز کرکے زمین کا وارث بنائے گا۔“ ہم پورے دل سے اُس وقت کے منتظر ہیں۔
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
سن ۱۹۶۴ میں کراکو میں ایک بھائی کے باغ میں ہونے والی اسمبلی
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
سن ۱۹۶۸ میں اپنی بیوی نیلا اور بیٹی لیڈیا کیساتھ
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
ایک چھوٹے لڑکے کیساتھ جسکا خون کے بغیر دل کا آپریشن ہونے والا تھا
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
ڈاکٹر واٹز کیساتھ کاٹووائس کے ایک ہسپتال میں بغیر خون بچوں کے دل کا آپریشن کرنے کے ماہر
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
سن ۲۰۰۲ میں نیلا کیساتھ