مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏وہ موت کو ہمیشہ کیلئے نابود کریگا“‏

‏”‏وہ موت کو ہمیشہ کیلئے نابود کریگا“‏

‏”‏وہ موت کو ہمیشہ کیلئے نابود کریگا“‏

ذرا تصور کریں کہ آپ اخبار میں ایک بچی کی خودکشی کی خبر کی بجائے یہ خبر پڑھتے ہیں:‏ موت کو ہمیشہ کیلئے نابود کر دیا گیا ہے۔‏ یہ سچ ہے کہ اخبار میں ایسی خبر کبھی نہیں آئی۔‏ لیکن یہ الفاظ ایک ایسی کتاب میں پائے جاتے ہیں جو ہزاروں سال پُرانی ہے۔‏ یہ کتاب خدا کا کلام بائبل ہے۔‏

خدا کا کلام موت کے بارے میں بہت سے سوالوں کا جواب دیتا ہے۔‏ اِس میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم کیوں مرتے ہیں،‏ مُردے کس حالت میں ہیں اور یہ بھی کہ ہم اپنے مُردہ عزیزوں کیلئے کیا اُمید رکھ سکتے ہیں۔‏ خدا کا کلام ہمیں ایک ایسے شاندار وقت کے بارے میں بتاتا ہے جب خدا ”‏موت کو ہمیشہ کیلئے نابود کرے گا۔‏“‏—‏یسعیاہ ۲۵:‏۸‏۔‏

خدا کا کلام ہمیں آسان الفاظ میں موت کے بارے میں سمجھاتا ہے۔‏ مثال کے طور پر کئی صحیفوں میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ موت ”‏نیند“‏ کی طرح ہے اور جو لوگ مر چکے ہیں وہ ’‏سو رہے ہیں۔‏‘‏ (‏زبور ۱۳:‏۳؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۴:‏۱۳؛‏ یوحنا ۱۱:‏۱۱-‏۱۴‏)‏ اسکے علاوہ خدا کے کلام میں موت کو ایک ”‏دُشمن“‏ کہا جاتا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۶‏)‏ خدا کے کلام کو پڑھنے سے ہم جان جاتے ہیں کہ ہم کیوں مرتے ہیں،‏ موت کو ایک گہری نیند کیوں کہا جاتا ہے اور اِنسان کے اِس دُشمن کا خاتمہ کیسے ہوگا۔‏

ہم موت کی گرفت میں کیسے آئے؟‏

بائبل کی پہلی کتاب میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ خدا نے پہلے انسان آدم کو بنا کر اُسے باغِ‌عدن میں رکھا۔‏ (‏پیدایش ۲:‏۷،‏ ۱۵‏)‏ پوری زمین کو ایک فردوس‌نما باغ میں تبدیل کرنے کی ذمہ‌داری خدا نے آدم کو دی۔‏ لیکن اس ذمہ‌داری کیساتھ ساتھ اُس نے آدم پر ایک پابندی بھی عائد کی۔‏ باغِ‌عدن کے ایک درخت کے بارے میں خدا نے آدم سے کہا کہ اس سے ”‏کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔‏“‏ * (‏پیدایش ۲:‏۱۷‏)‏ لہٰذا آدم جانتا تھا کہ خدا کے حکم کی نافرمانی کرنے کا نتیجہ موت ہے۔‏

افسوس کی بات ہے کہ آدم اور حوا نے خدا کی نافرمانی کی۔‏ اُنہوں نے جان‌بوجھ کر خدا کے حکم کی خلاف‌ورزی کی اور اِسلئے اُنہیں اِس غلط فیصلے کا نتیجہ بھی بھگتنا پڑا۔‏ خدا نے اُنکو گناہ کی سزا سنائی اور کہا:‏ ”‏تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا۔‏“‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۹‏)‏ اس گناہ کی وجہ سے اُن پر داغ لگ گیا۔‏ اسکا مطلب تھا کہ وہ آہستہ آہستہ بوڑھے ہونے لگے اور آخرکار مر گئے۔‏

اس داغ کو یعنی گناہ کو آدم اور حوا کی اولاد نے ورثے میں پایا ہے۔‏ آدم نے نہ صرف اپنے لئے ہمیشہ کی زندگی گنوا دی،‏ بلکہ اُسکی اولاد بھی ہمیشہ کی زندگی جینے کا موقع کھو بیٹھی۔‏ اِسطرح تمام انسان گناہ کی گرفت میں آ گئے۔‏ خدا کا کلام بیان کرتا ہے:‏ ”‏ایک آدمی کے سبب سے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اسلئے کہ سب نے گُناہ کِیا۔‏“‏—‏رومیوں ۵:‏۱۲‏۔‏

‏”‏گُناہ دُنیا میں آیا“‏

گناہ کا یہ داغ اُس اخلاقی اور روحانی عیب کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ہم میں پیدائشی طور پر پایا جاتا ہے۔‏ اِسکا اثر ہم جسمانی طور پر بھی محسوس کرتے ہیں۔‏ تاہم خدا نے اِس ”‏گناہ“‏ کو مٹانے کا بندوبست کِیا ہے۔‏ پولس رسول نے اِس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”‏گُناہ کی مزدوری موت ہے مگر خدا کی بخشش ہمارے خداوند مسیح یسوؔع میں ہمیشہ کی زندگی ہے۔‏“‏ (‏رومیوں ۶:‏۲۳‏)‏ کرنتھیوں کے نام اپنے پہلے خط میں پولس رسول نے لکھا کہ ”‏جیسے آؔدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۲‏۔‏

اِس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گناہ اور موت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دینے میں یسوع کا ایک بہت اہم کردار ہے۔‏ یسوع نے کہا تھا کہ وہ زمین پر اِسلئے آیا تاکہ وہ ”‏اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔‏“‏ (‏متی ۲۰:‏۲۸‏)‏ جب ایک شخص کو اغوا کر لیا جاتا ہے تو عام طور پر اُسکو چھڑانے کیلئے ایک بھاری رقم ادا کی جاتی ہے۔‏ اسی طرح ہمیں گناہ کے داغ سے چھڑانے کیلئے یسوع نے اپنی جان ہمارے لئے فدیہ میں دے دی یعنی قربان کر دی۔‏ *‏—‏اعمال ۱۰:‏۳۹-‏۴۳‏۔‏

خدا نے یسوع کو اپنی زندگی قربان کرنے کے لئے بھیجا تھا۔‏ خدا نے ”‏دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے .‏ .‏ .‏ ہمیشہ کی زندگی پائے۔‏“‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ اپنی جان قربان کرنے سے پہلے یسوع نے ’‏حق پر گواہی دی۔‏‘‏ (‏یوحنا ۱۸:‏۳۷‏)‏ اُس نے مختلف موقعوں پر لوگوں کو موت کے بارے میں سچائی بھی سکھائی۔‏

‏’‏لڑکی سو رہی ہے‘‏

جب یسوع زمین پر تھا تو اُسے اپنے عزیزوں کی موت پر بہت صدمہ ہوا۔‏ وہ جانتا تھا کہ اُسے بھی موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‏ (‏متی ۱۷:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ یسوع کی موت کے کچھ عرصہ پہلے اُسکا بیمار دوست لعزر فوت ہو گیا۔‏ اِس واقعہ پر غور کرنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یسوع موت کے بارے میں کیسے خیال کرتا تھا۔‏

جب یسوع کو پتہ چلا کہ لعزر فوت ہو گیا ہے تو اُس نے کہا:‏ ”‏ہمارا دوست لعزؔر سو گیا ہے لیکن مَیں اسے جگانے جاتا ہوں۔‏“‏ یسوع کے شاگردوں کو معلوم نہیں تھا کہ لعزر مر چکا تھا۔‏ وہ سوچنے لگے کہ اگر لعزر آرام کر رہا ہے تو وہ تندرست ہو جائے گا۔‏ اِسلئے یسوع نے اُنہیں صاف کہہ دیا کہ ”‏لعزر مر گیا۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۱۱-‏۱۴‏)‏ یسوع موت کو نیند کی طرح خیال کرتا تھا۔‏ اپنے شاگردوں کو یہ سمجھانے کیلئے کہ موت کیا ہوتی ہے یسوع نے اسکا نیند کیساتھ مقابلہ کِیا۔‏ جب ہم گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں تو ہمیں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔‏ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہمارے اِردگِرد کیا ہو رہا ہے کیونکہ ہم بےہوشی کے عالم میں ہوتے ہیں۔‏ خدا کا کلام مُردوں کی حالت کو ایسے ہی بیان کرتا ہے:‏ ”‏مُردے کچھ بھی نہیں جانتے۔‏“‏—‏واعظ ۹:‏۵‏۔‏

یسوع نے موت کا مقابلہ نیند سے اِسلئے بھی کِیا تھا کیونکہ جسطرح ہمیں نیند سے جگایا جا سکتا ہے اسی طرح مُردوں کو بھی موت سے جگایا جا سکتا ہے۔‏ ایک مرتبہ یسوع ایسے والدین سے ملنے کے لئے گیا جنکی بچی ابھی ابھی فوت ہو گئی تھی۔‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏لڑکی مری نہیں بلکہ سوتی ہے۔‏“‏ پھر یسوع نے لڑکی کے پاس جا کر اُسکا ہاتھ پکڑا اور وہ ”‏اُٹھی“‏ یعنی وہ دوبارہ سے زندہ ہو گئی۔‏—‏متی ۹:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

اسی طرح یسوع نے اپنے دوست لعزر کو بھی دوبارہ زندہ کر دیا تھا۔‏ لیکن یہ معجزہ کرنے سے پہلے یسوع نے لعزر کی بہن مرتھا کو تسلی دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏تیرا بھائی جی اُٹھے گا۔‏“‏ مرتھا نے جواب دیا:‏ ’‏مَیں جانتی ہوں کہ قیامت میں آخری دن پر وہ جی اُٹھے گا۔‏‘‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ جی‌ہاں،‏ مرتھا کو یقین تھا کہ مستقبل میں خدا اپنے خادموں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔‏

یوحنا ۱۱:‏۲۴ میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏قیامت“‏ سے کِیا گیا ہے اُسکا مطلب ”‏اُٹھ کھڑا ہونا“‏ یعنی موت سے جی اُٹھنا ہے۔‏ شاید کئی لوگوں کو یہ بات ناقابلِ‌یقین لگے کہ مُردے ایک دن دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔‏ لیکن جب یسوع نے کہا تھا کہ مُردے اُسکی آواز سُن کر قبروں سے نکلیں گے تو اُس نے یہ بھی کہا کہ ”‏اِس سے تعجب نہ کرو۔‏“‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸‏)‏ جب یسوع زمین پر تھا تو اُس نے مُردوں کو دوبارہ زندہ کِیا۔‏ اِسلئے ہم خدا کے کلام میں پائے جانے والے اِس وعدے پر پورا بھروسہ رکھ سکتے ہیں:‏ ”‏سمندر نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیا اور موت اور عالمِ‌ارواح [‏یعنی قبر]‏ نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیا۔‏“‏—‏مکاشفہ ۲۰:‏۱۳‏۔‏

جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں یسوع نے اپنے دوست لعزر کو زندہ کِیا تھا۔‏ لیکن آخرکار لعزر پھر سے مر گیا۔‏ مستقبل میں جب یسوع مُردوں کو زندہ کرے گا تو کیا وہ بھی پھر سے مر جائیں گے؟‏ جی‌نہیں۔‏ خدا کا کلام ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب ’‏موت نہ رہے گی۔‏‘‏ اِسکا مطلب ہے کہ اُس وقت نہ تو کوئی بوڑھا ہوگا اور نہ ہی کوئی مرے گا۔‏—‏مکاشفہ ۲۱:‏۴‏۔‏

انسان کیلئے موت ایک دُشمن کے برابر ہے۔‏ اسکے علاوہ انسان کو بیماری اور بڑھاپے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ خدا وعدہ کرتا ہے کہ وہ انسان کے ان دُشمنوں کو ختم کر دے گا اور ”‏سب سے پچھلا دُشمن جو نیست کِیا جائے گا وہ موت ہے۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۶‏۔‏

جب خدا اِن وعدوں کو پورا کرے گا توپھر اِنسان گناہ اور موت کے بغیر ایک خوشحال زندگی گزار سکے گا۔‏ تب تک ہمیں یہ جان کر تسلی ملتی ہے کہ ہمارے عزیز جو مر چکے ہیں ایک گہری نیند سو رہے ہیں اور وقت آنے پر خدا اُنہیں جی اُٹھائے گا۔‏

تسلی کا باعث

جب ہم سمجھ جاتے ہیں کہ ہم کیوں مرتے ہیں اور یہ بھی کہ مُردے کس حالت میں ہیں تو اِسکا ہماری زندگی پر اچھا اثر پڑتا ہے۔‏ اِیئن جسکا ذکر پچھلے مضمون میں کِیا گیا،‏ اُس نے خدا کے کلام سے ان سوالوں کے جواب پائے۔‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏مَیں نے خود کو یقین دِلا دیا تھا کہ میرے والد کی روح کہیں نہ کہیں موجود ہے۔‏ اسلئے جب مَیں نے خدا کے کلام سے سیکھا کہ میرے والد موت کی نیند سو رہے ہیں تو پہلے تو مَیں اُداس ہو گیا۔‏“‏ لیکن پھر اِیئن نے سیکھا کہ خدا مُردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔‏ یہ جان کر کہ وہ اپنے والد سے پھر مل سکے گا،‏ اُسکی خوشی کی حد نہ رہی۔‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏زندگی میں پہلی بار میرے دل کو سکون ملا۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ موت کے بارے میں جاننے سے اِیئن کو تسلی ملی۔‏

کلائیو اور برینڈا کا ۲۱ سالہ بیٹا فٹ‌بال ٹیم کے اُس حادثے میں مارا گیا تھا جسکا ذکر پچھلے مضمون میں ہوا ہے۔‏ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ خدا کا کلام موت کے بارے میں کیا کہتا ہے،‏ پھربھی اُنہیں اپنے بیٹے کی موت پر گہرا صدمہ ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ موت ایک دُشمن ہے اور اِسکا زخم بہت گہرا ہوتا ہے۔‏ چونکہ کلائیو اور برینڈا جانتے ہیں کہ اُنکا بیٹا موت کی نیند سو رہا ہے اور وہ پھر سے جی اُٹھے گا اسلئے اُنکے غم کی شدت کم ہونے لگی ہے۔‏ برینڈا کہتی ہے:‏ ”‏موت کے بارے میں سچائی جاننے سے ہمیں سکون ملتا ہے۔‏ لیکن پھربھی ہم اُس دِن کا بےچینی سے انتظار کر رہے ہیں جب ہمارا بیٹا دوبارہ زندہ ہو جائے گا۔‏“‏

‏”‏موت تیرا ڈنک کہاں؟‏“‏

لہٰذا ہمیں موت سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‏ موت کے سائے سے آزاد ہو کر ہم زندگی کا زیادہ لطف اُٹھا سکتے ہیں۔‏ ہم جان گئے ہیں کہ زندگی محض چند دنوں کی مہمان نہیں اسلئے ہم نااُمیدی کے عالم میں عیاشی کرنے پر نہیں اُتر آئیں گے۔‏ ہمارے ایسے عزیز جو فوت ہو گئے ہیں موت کی گہری نیند سو رہے ہیں اور خدا اُنکو دوبارہ زندہ کرے گا۔‏ یہ جان کر ہمیں تسلی ملتی ہے۔‏

جی‌ہاں،‏ ہم اُس لمحے کا بےچینی سے انتظار کر رہے ہیں جب خدا اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے موت کو ہمیشہ کیلئے نابود کر دے گا۔‏ وہ دِن خوشیوں سے بھرا ہوگا جب ہم آخرکار کہہ پائیں گے:‏ ”‏اَے موت!‏ تیری فتح کہاں رہی؟‏ اَے موت تیرا ڈنک کہاں رہا؟‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۵‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 6 خدا کے کلام میں موت کا یہ پہلا ذکر ہے۔‏

^ پیراگراف 11 ہمیں موت سے چھڑانے کیلئے ایک بیداغ جان کی قربانی کی ضرورت تھی۔‏ اسکی وجہ یہ ہے کہ گناہ کرنے سے پہلے آدم بھی ایک بیداغ جان تھا۔‏ آدم کے گناہ کی وجہ سے ہر اِنسان کو داغ لگ گیا ہے اِسلئے کوئی انسان اپنی جان دے کر دوسروں کو موت سے نہیں چھڑا سکتا۔‏ اِس وجہ سے خدا نے یسوع کو جس میں کوئی عیب نہ تھا،‏ ہمارے لئے قربان ہونے کیلئے بھیجا۔‏ (‏زبور ۴۹:‏۷-‏۹‏)‏ وضاحت کیلئے یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتاب علم جو ہمیشہ کی زندگی کا باعث ہے کے باب ۷ کو پڑھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

آدم اور حوا کی نافرمانی کی سزا موت تھی

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

یسوع نے مُردہ لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور وہ اُٹھ گئی

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

بہتیرے لوگ اُس وقت کے انتظار میں ہیں جب لعزر کی طرح اُنکے عزیز بھی موت کی نیند سے جی اُٹھیں گے