”وہ کہاں ہیں؟“
”وہ کہاں ہیں؟“
”چھ سال کی بچی نے خودکشی کر لی۔“ یہ افسوسناک خبر جیکی نامی ایک چھوٹی لڑکی کی موت کے بارے میں تھی۔ حال ہی میں جیکی کی ماں بہت بیمار ہونے کی وجہ سے فوت ہو گئی۔ ایک چلتی ہوئی ریلگاڑی کے سامنے کودنے سے پہلے جیکی نے اپنے بہنبھائیوں سے کہا: ”مَیں ایک فرشتہ بن کر ماں کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔“
اٹھارہ سالہ اِیئن کے والد کینسر کی وجہ سے فوت ہو گئے۔ جب اِیئن نے اپنے پادری سے پوچھا کہ میرے والد کو کیوں مرنا پڑا تو پادری نے جواب دیا: ”تمہارے والد اتنے اچھے اِنسان تھے کہ خدا نے اُنہیں اپنے پاس بلا لیا۔“ یہ سُن کر اِیئن نے فیصلہ کِیا کہ وہ ایک ایسے خدا کو نہیں ماننا چاہتا جو لوگوں کے عزیزوں کو اُن سے چھین لیتا ہے۔ اِیئن کے خیال میں زندگی کا کوئی مقصد نہیں رہا تھا اسلئے وہ عیاشی میں مبتلا ہو گیا۔ شراب کے نشے، منشیات کے استعمال اور بداخلاقی میں جکڑے رہنے سے اُسکی زندگی برباد ہو گئی۔
”زندہ جانتے ہیں کہ وہ مریں گے“
اِن دُکھ بھرے واقعات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موت کے صدمے سے لوگوں کی زندگی کیسے برباد ہو جاتی ہے، خاص کرکے جب ایک عزیز اچانک ہی فوت ہو جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ”زندہ جانتے ہیں کہ وہ مریں گے۔“ (واعظ ۹:۵) لیکن بہتیرے لوگ اِس حقیقت کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا آپ بھی ایسا کرتے ہیں؟ آجکل مصروفیات اتنی بڑھ گئی ہیں کہ ہم موت کے بارے میں سوچتے تک نہیں۔ شاید ہمیں ایسا لگے کہ موت اتنی دُور ہے کہ وہ ہمارے دامن کو چھو تک نہیں سکتی۔
ایک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق ”بہتیرے لوگ موت سے ڈرتے ہیں اِسلئے وہ اِسکے بارے میں نہیں سوچتے۔“ لیکن ایک خوفناک حادثہ یا ایک جانلیوا بیماری ہمیں موت کا سامنا کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ یا پھر ایک عزیز دوست یا رشتہدار کی موت ہمیں اِس بات کی یاد دلا سکتی ہے کہ ہر شخص کی زندگی چند دنوں کی مہمان ہوتی ہے۔
کسی عزیز کے فوت ہو جانے کے بعد آہستہ آہستہ ہمارا دُکھ بھرنے لگتا ہے۔ وقت اِس قدر تیزی سے گزرتا ہے کہ ہمیں اِسکا پتہ ہی نہیں چلتا۔ جلد ہی ہمیں بڑھاپے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تب ہمیں موت اتنی دُور نہیں لگتی جتنی ایک زمانے میں لگا کرتی تھی۔ زندگیبھر کے دوست اور ساتھی موت کی وجہ سے ہم سے جُدا ہونے لگتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بہتیرے بوڑھے لوگ پریشانی کے عالم میں شاید سوچنے لگیں کہ بہت جلد میری بھی باری آئے گی۔
مختلف نظریے
موت ایک ایسی حقیقت ہے جسے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ بہتیرے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے اور وہ اِسکے بارے میں مختلف نظریے رکھتے ہیں۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ اِس بات پر بحث کرنا فضول ہے کیونکہ مرنے کے بعد اصل میں کیا ہوتا ہے یہ کسی کو معلوم نہیں۔ اَوروں کا
کہنا ہے کہ ”ہم ایک ہی بار جیتے ہیں اِسلئے ہمیں زندگی کا بھرپور لطف اُٹھانا چاہئے۔“اِس کے برعکس کئی لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مرنے کے بعد انسان کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ یقین کیساتھ نہیں کہہ سکتے کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ زندگی کسی پُرسکون جگہ پر جاری رہتی ہے۔ دوسرے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی اَور روپ میں پھر سے جئیں گے۔
جن لوگوں کے عزیز فوت ہو گئے ہیں وہ اکثر پوچھتے ہیں: ”مرنے پر ایک شخص کہاں جاتا ہے؟“ کئی سال پہلے ایک فٹبال ٹیم میچ کھیلنے جا رہی تھی کہ اچانک ایک ٹرک اُنکی بس سے ٹکرائی۔ بس سڑک پر اُلٹ گئی اور ٹیم کے پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔ ایک ماں جسکا بیٹا اس حادثے میں ہلاک ہو گیا تھا وہ اپنے بیٹے کی موت کے صدمے میں جینا بھول گئی ہے۔ اُسے یہی سوال ستا رہا ہے کہ میرا بیٹا کہاں ہے؟ وہ باقاعدگی سے اپنے بیٹے کی قبر پر جاتی ہے اور اُس سے گھنٹوں باتیں کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے: ”مَیں یہ نہیں مان سکتی کہ موت کے بعد انسان کا وجود ختم ہو جاتا ہے، لیکن یہ کون جان سکتا ہے؟“
ہم موت کے بارے میں جیسا بھی نظریہ رکھتے ہیں، اِسکا ہماری زندگی پر اثر ہوتا ہے۔ ایک شخص کے مر جانے پر لوگوں کے ذہن میں بہت سے سوال اُٹھتے ہیں۔ مثلاً، موت کے بارے میں سوچنے کی بجائے کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم جینے پر توجہ دیں؟ کیا ہمیں اپنی زندگی موت کے سائے میں جینی چاہئے؟ کیا ہم کبھی جان پائیں گے کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ کیا موت ہمیشہ تک راج کرے گی؟