مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہم یہوواہ اپنے خدا کے نام سے چلیں گے

ہم یہوواہ اپنے خدا کے نام سے چلیں گے

ہم یہوواہ اپنے خدا کے نام سے چلیں گے

‏”‏ہم ابدالآباد تک خداوند اپنے خدا کے نام سے چلیں گے۔‏“‏—‏میکاہ ۴:‏۵‏۔‏

۱.‏ نوح کے دنوں میں اخلاقی حالت کیسی تھی اور نوح کیسے مختلف تھا؟‏

حنوک پہلا شخص تھا جسکا نام بائبل میں خدا کیساتھ ساتھ چلنے والے کے طور پر آیا ہے۔‏ دوسرا شخص نوح تھا۔‏ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”‏نوؔح مردِراستباز اور اپنے زمانہ کے لوگوں میں بےعیب تھا اور نوؔح خدا کیساتھ ساتھ چلتا رہا۔‏“‏ (‏پیدایش ۶:‏۹‏)‏ نوح کے دنوں میں لوگ سچی پرستش سے پھر چکے تھے۔‏ اُس وقت حالتیں اَور زیادہ بگڑ گئیں جب نافرمان فرشتوں نے انسانی بدن اختیار کئے اور زمین پر آکر عورتوں کیساتھ جنسی تعلقات قائم کئے۔‏ ان تعلقات کے نتیجے میں جو اولاد پیدا ہوئی وہ جبار کہلائی۔‏ یہ اُس زمانے کے ”‏سُورما“‏ یا ”‏بڑے نامور“‏ تھے۔‏ لہٰذا،‏ زمین ظلم سے بھر گئی!‏ (‏پیدایش ۶:‏۲،‏ ۴،‏ ۱۱‏)‏ اسکے باوجود،‏ نوح بےعیب اور ”‏راستبازی کی منادی“‏ کرنے والا تھا۔‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۵‏)‏ جب خدا نے نوح کو زندگی بچانے کیلئے کشتی بنانے کا حکم دیا تو اُس نے ”‏جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا ویسا ہی عمل“‏ کرتے ہوئے فرمانبرداری کی۔‏ (‏پیدایش ۶:‏۲۲‏)‏ واقعی،‏ نوح خدا کیساتھ ساتھ چلتا رہا تھا۔‏

۲،‏ ۳.‏ نوح نے ہمارے لئے کونسا اچھا نمونہ قائم کِیا؟‏

۲ پولس رسول نے وفادار گواہوں کی فہرست میں نوح کا نام شامل کرتے ہوئے لکھا:‏ ”‏ایمان ہی کے سبب سے نوؔح نے اُن چیزوں کی بابت جو اُس وقت تک نظر نہ آتی تھیں ہدایت پا کر خدا کے خوف سے اپنے گھرانے کے بچاؤ کیلئے کشتی بنائی جس سے اُس نے دُنیا کو مجرم ٹھہرایا اور اُس راستبازی کا وارث ہوا جو ایمان سے ہے۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۷‏)‏ کیا ہی شاندار مثال!‏ نوح کو مکمل اعتماد تھا کہ یہوواہ کے الفاظ ضرور پورے ہوں گے۔‏ لہٰذا،‏ اُس نے خدا کے حکموں کو ماننے کیلئے اپنے وقت،‏ توانائی اور وسائل کو بھرپور طریقے سے استعمال کِیا۔‏ اسی طرح،‏ آجکل بہتیرے مسیحیوں کو دُنیا میں پیسہ بنانے کے کئی مواقع ملتے ہیں لیکن وہ بھی نوح کی طرح ان موقعوں کو رد کر دیتے ہیں۔‏ وہ اپنے وقت،‏ توانائی اور وسائل کو یہوواہ کے حکموں کی فرمانبرداری کرنے میں صرف کرتے ہیں۔‏ اُنکا ایمان قابلِ‌تعریف ہے اور یہ اُنکی اور دوسروں کی نجات کا باعث ہوگا۔‏—‏لوقا ۱۶:‏۹؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱۶‏۔‏

۳ ایمان پر چلتے رہنا نوح اور اُسکے خاندان کیلئے بھی اُتنا ہی مشکل تھا جتناکہ حنوک کیلئے جسکا پچھلے مضمون میں ذکر کِیا گیا ہے۔‏ حنوک کے دنوں کی طرح،‏ نوح کے زمانہ میں بھی سچے پرستاروں کی تعداد بہت کم تھی۔‏ صرف آٹھ ایماندار لوگ طوفان سے بچے۔‏ نوح نے ایک ظالم اور بدکار دُنیا میں راستبازی کی منادی کی۔‏ اسکے علاوہ،‏ نوح اور اُسکے خاندان نے عالمگیر طوفان سے بچنے کیلئے لکڑی کی ایک بہت بڑی کشتی بنائی حالانکہ اس سے پہلے کبھی ایسا طوفان نہیں آیا تھا۔‏ یہ سب کچھ دیکھنے والوں کو بہت عجیب لگا ہوگا۔‏

۴.‏ یسوع مسیح نے نوح کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے کس بات کو نمایاں کِیا؟‏

۴ دلچسپی کی بات ہے کہ یسوع نے نوح کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے اُس وقت کی سنگین حالتوں مثلاً،‏ ظلم،‏ جھوٹی پرستش اور بدکاری پر گفتگو نہ کی۔‏ یسوع مسیح نے اس بات کو نمایاں کِیا کہ اُس وقت کے لوگوں نے آگاہی پر دھیان دینے سے انکار کر دیا تھا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏لوگ کھاتےپیتے اور بیاہ‌شادی کرتے تھے اُس دن تک کہ نوؔح کشتی میں داخل ہوا۔‏“‏ آپ شاید سوچیں کہ کھانےپینے اور بیاہ‌شادی کرنے میں کیا خرابی ہے؟‏ یہ تو روزمرّہ کا ”‏معمول“‏ ہے!‏ لیکن غور کریں کہ طوفان آنے والا تھا اور نوح راستبازی کی منادی کر رہا تھا۔‏ اُسکا پیغام اور چال‌چلن اُن لوگوں کیلئے ایک آگاہی تھا۔‏ اسکے باوجود،‏ ”‏جب تک طوفان آکر اُن سب کو بہا نہ لے گیا اُنکو خبر نہ ہوئی۔‏“‏—‏متی ۲۴:‏۳۸،‏ ۳۹‏۔‏

۵.‏ نوح اور اُسکے خاندان کو کن خوبیوں کی ضرورت تھی؟‏

۵ نوح کے دنوں پر غور کرنے سے ہم اُسکے طرزِزندگی سے ظاہر ہونے والی حکمت دیکھتے ہیں۔‏ بِلاشُبہ،‏ طوفان سے پہلے،‏ دوسروں سے فرق رہنے کیلئے دلیری کی ضرورت تھی۔‏ نوح اور اُسکے خاندان کو ایک بڑی کشتی بنانے اور اُس میں مختلف جانوروں کو جوڑا جوڑا جمع کرنے کیلئے پُختہ یقین کی ضرورت تھی۔‏ کیا ان چند ایماندار لوگوں نے کبھی اس بات کی خواہش کی ہوگی کہ وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح ”‏معمول“‏ کی زندگی گزاریں؟‏ اگر ایسے خیالات اُنکے ذہن میں آئے بھی ہوں گے توبھی وہ اپنی راستی پر قائم رہے۔‏ کئی سالوں بعد وفادار نوح طوفان سے بچ گیا۔‏ یہ وقت اُس وقت سے کہیں زیادہ طویل تھا جو ہمیں اس دُنیا میں برداشت کرنا ہوگا۔‏ یہوواہ نے اُن سب کی عدالت کی جو ”‏معمول“‏ کے مطابق زندگی بسر کر رہے اور اپنے زمانے کی اہمیت کو نہیں سمجھ رہے تھے۔‏

انسان پھر ظلم‌وستم کی لپیٹ میں

۶.‏ طوفان کے بعد بھی کونسی حالت موجود تھی؟‏

۶ جب طوفان کا پانی اُتر گیا تو انسانوں نے ایک نیا آغاز کِیا۔‏ تاہم،‏ انسان ابھی تک ناکامل تھے اور اُنکے ”‏دل کا خیال لڑکپن سے بُرا“‏ تھا۔‏ (‏پیدایش ۸:‏۲۱‏)‏ اگرچہ شیاطین اب انسانی جسم اختیار نہیں کر سکتے تھے توبھی وہ سرگرمِ‌عمل تھے۔‏ بیدین انسانوں پر مشتمل دُنیا نے جلد ہی یہ ظاہر کر دیا کہ وہ ”‏شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی“‏ تھی اور آجکل کی طرح سچے پرستاروں کو ”‏ابلیس کے منصوبوں“‏ کے خلاف لڑنا پڑا تھا۔‏—‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹؛‏ افسیوں ۶:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

۷.‏ طوفان کے بعد ظلم‌وستم میں کیسے اضافہ ہوتا چلا گیا؟‏

۷ طوفان کے بعد،‏ نمرود کے وقت میں زمین ایک مرتبہ پھر انسانوں کے ظلم‌وستم سے بھر گئی۔‏ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے ظلم‌وستم میں اضافہ ہوتا گیا۔‏ ابتدائی سالوں میں تلواریں،‏ بھالے،‏ تیرکمان اور رتھ استعمال کئے جاتے تھے۔‏ کچھ عرصہ پہلے تک بندوق اور توپیں تھیں۔‏ پھر بیسویں صدی کے اوائل تک رائفل اور جدید اسلحہ استعمال کِیا جانے لگا۔‏ پہلی جنگِ‌عظیم میں مزید جنگی ہتھیاروں مثلاً،‏ ہوائی جہاز،‏ ٹینک،‏ آبدوزیں اور زہریلی گیس کو متعارف کرایا گیا۔‏ اس جنگ میں استعمال ہونے والے ان ہتھیاروں نے لاکھوں زندگیاں لے لیں۔‏ کیا یہ سب کچھ اچانک واقع ہوا تھا؟‏ جی‌نہیں۔‏

۸.‏ مکاشفہ ۶:‏۱-‏۴ کی تکمیل کیسے ہو رہی ہے؟‏

۸ سن ۱۹۱۴ میں،‏ یسوع مسیح خدا کی آسمانی بادشاہت کا بادشاہ مقرر ہوا اور ”‏خداوند کے دن“‏ کا آغاز ہو گیا۔‏ (‏مکاشفہ ۱:‏۱۰‏)‏ مکاشفہ کی کتاب میں ایک رویا بیان کرتی ہے کہ یسوع مسیح بطور فاتح بادشاہ سفید گھوڑے پر سوار ہے۔‏ دیگر گُھڑسوار اسکے بعد نکلتے ہیں۔‏ ان میں سے ہر ایک انسانوں پر آنے والی مصیبتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔‏ ان میں سے ایک لال گھوڑے پر سوار ہے اور اسے یہ اختیار دیا گیا کہ ”‏زمین پر سے صلح اُٹھا لے تاکہ لوگ ایک دوسرے کو قتل کریں اور اُسے ایک بڑی تلوار دی گئی۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۶:‏۱-‏۴‏)‏ یہ گھوڑا اور اُسکا سوار جنگ کی تصویرکشی کرتے ہیں اور بڑی تلوار جنگ اور جدید طاقتور ہتھیاروں سے ہونے والی تباہی کی نمائندگی کرتی ہے۔‏ آجکل ان ہتھیاروں میں نیوکلیئر آلات بھی شامل ہیں جن میں سے ہر ایک ہزاروں لوگوں کو ہلاک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‏ راکٹوں کے ذریعے یہ آلات ہزاروں میل تک مار کر سکتے ہیں۔‏ انکے علاوہ کیمیائی اور جراثیمی ہتھیار بھی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔‏

یہوواہ کی آگاہیوں پر دھیان دیں

۹.‏ طوفان سے پہلے کی دُنیا کے مقابلے میں آجکل کی دُنیا کیسی ہے؟‏

۹ زمانۂ‌نوح میں یہوواہ خدا جبار اور شریر انسانوں کے ظلم‌وستم کی وجہ سے لوگوں پر تباہی لایا تھا۔‏ آجکل کی بابت کیا ہے؟‏ کیا اب زمین پر اُس وقت کے مقابلے میں کم ظلم ہو رہا ہے؟‏ ہرگز نہیں!‏ مزیدبرآں،‏ نوح کے دنوں کی طرح آجکل بھی لوگ اپنے روزمرّہ کے کاموں میں مصروف ہیں اور ”‏معمول“‏ کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔‏ وہ آگاہیوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔‏ (‏لوقا ۱۷:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ توپھر ہمارے پاس شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہوواہ خدا انسانوں پر دوبارہ تباہی لائے گا۔‏

۱۰.‏ (‏ا)‏ بائبل پیشینگوئیوں میں بارہا کونسی آگاہی دی گئی ہے؟‏ (‏ب)‏ آجکل دانشمندانہ روش کونسی ہے؟‏

۱۰ طوفان سے ہزاروں سال پہلے،‏ حنوک نے تباہی کی بابت پیشینگوئی کی جو ہمارے زمانے میں آئے گی۔‏ (‏یہوداہ ۱۴،‏ ۱۵‏)‏ یسوع مسیح نے بھی آنے والی ”‏بڑی مصیبت“‏ کے بارے میں بتایا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۲۱‏)‏ دیگر نبیوں نے بھی اس وقت کے بارے میں آگاہیاں دیں۔‏ (‏حزقی‌ایل ۳۸:‏۱۸-‏۲۳؛‏ دانی‌ایل ۱۲:‏۱؛‏ یوایل ۲:‏۳۱،‏ ۳۲‏)‏ مکاشفہ کی کتاب میں ہم اِس حتمی تباہی کے بارے میں واضح بیان پڑھتے ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۱۹:‏۱۱-‏۲۱‏)‏ ہم سب بھی نوح کی نقل کرتے ہوئے راستبازی کے منادوں کے طور پر سرگرمی سے کام کرتے ہیں۔‏ ہم یہوواہ کی آگاہیوں پر دھیان دیتے اور اپنے پڑوسیوں کی بھی ایسا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔‏ اسطرح ہم بھی نوح کی طرح خدا کیساتھ ساتھ چلتے ہیں۔‏ بِلاشُبہ،‏ زندگی کی خواہش رکھنے والے ہر شخص کیلئے خدا کیساتھ ساتھ چلنا ضروری ہے۔‏ اس دُنیا کے روزمرّہ کے دباؤ کے باوجود ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ہمیں یہوواہ خدا کے مقاصد کی تکمیل پر پُختہ ایمان رکھنا چاہئے۔‏—‏عبرانیوں ۱۱:‏۶‏۔‏

خراب زمانے میں خدا کیساتھ ساتھ چلتے رہیں

۱۱.‏ ہم پہلی صدی کے مسیحیوں کی نقل کیسے کرتے ہیں؟‏

۱۱ پہلی صدی میں ممسوح مسیحیوں کا ذکر ”‏طریق“‏ پر چلنے والوں کے طور پر کِیا جاتا تھا۔‏ (‏اعمال ۹:‏۲‏)‏ اُنکی زندگی کا محور یہوواہ خدا اور یسوع مسیح پر ایمان تھا۔‏ وہ اپنے اُستاد کی راہ پر چلتے رہے۔‏ آجکل بھی وفادار مسیحی ایسا ہی کرتے ہیں۔‏

۱۲.‏ یسوع مسیح کے معجزانہ طور پر بِھیڑ کو کھانا کھلانے کے بعد کیا واقع ہوا؟‏

۱۲ ایمان کی اہمیت یسوع مسیح کی خدمتگزاری کے دوران پیش آنے والے ایک واقعہ سے ظاہر ہوتی ہے۔‏ ایک موقع پر،‏ یسوع مسیح نے معجزانہ طور پر تقریباً ۰۰۰،‏۵ آدمیوں پر مشتمل بِھیڑ کو کھانا کھلایا۔‏ لوگ بہت حیران اور خوش تھے۔‏ غور کریں کہ اسکے بعد کیا ہوا۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏جو معجزہ اُس نے دکھایا وہ لوگ اسے دیکھ کر کہنے لگے کہ جو نبی دُنیا میں آنے والا تھا فی‌الحقیقت یہی ہے۔‏ پس یسوؔع یہ معلوم کرکے کہ وہ آکر مجھے بادشاہ بنانے کیلئے پکڑا چاہتے ہیں پھر پہاڑ پر اکیلا چلا گیا۔‏“‏ (‏یوحنا ۶:‏۱۰-‏۱۵‏)‏ اسی رات وہ کسی دوسری جگہ چلا گیا۔‏ یسوع مسیح کے بادشاہ بننے سے انکار کرنے پر بہت سے لوگ مایوس ہوئے ہوں گے۔‏ بہرحال،‏ اس نے یہ ضرور ظاہر کر دیا کہ بادشاہ بننے کیلئے اسکے پاس نہ صرف حکمت ہے بلکہ لوگوں کی جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کی طاقت بھی۔‏ تاہم،‏ اسے بادشاہ بنانے کیلئے یہوواہ کا وقت ابھی نہیں آیا تھا۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ یسوع مسیح کی بادشاہت زمینی نہیں بلکہ آسمانی تھی۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ بہتیروں نے کیسا نقطۂ‌نظر ظاہر کِیا اور انکا ایمان کیسے آزمایا گیا؟‏

۱۳ بِھیڑ یسوع مسیح کے پیچھے پیچھے جاتی اور یوحنا کے بیان کے مطابق ”‏جھیل کے پار“‏ اسے ڈھونڈ لیتی ہے۔‏ اگرچہ یسوع مسیح بادشاہ بننے سے انکار کر چکا تھا توبھی بِھیڑ یسوع مسیح کے پیچھے کیوں جاتی ہے؟‏ بہتیروں نے جسمانی نقطۂ‌نظر ظاہر کِیا۔‏ اُنہوں نے واضح طور پر مادی فراہمیوں کا ذکر کِیا جو یہوواہ نے موسیٰ کے دنوں میں بیابان میں ممکن بنائی تھیں۔‏ بِھیڑ کا مقصد یہ تھا کہ یسوع مسیح انکے لئے خوراک فراہم کرتا رہے۔‏ یسوع مسیح اُنکے غلط محرکات کو جان لیتا ہے اور اُنہیں روحانی باتوں کی تعلیم دیتا ہے تاکہ وہ اپنی سوچ کو درست کر سکیں۔‏ (‏یوحنا ۶:‏۱۷،‏ ۲۴،‏ ۲۵،‏ ۳۰،‏ ۳۱،‏ ۳۵-‏۴۰‏)‏ نتیجتاً،‏ بعض اُسکے خلاف بڑبڑانے لگتے ہیں بالخصوص اُس وقت جب وہ یہ تمثیل پیش کرتا ہے:‏ ”‏مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک تُم ابنِ‌آدم کا گوشت نہ کھاؤ اور اُسکا خون نہ پیو تُم میں زندگی نہیں۔‏ جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُسکی ہے اور مَیں اُسے آخری دن پھر زندہ کروں گا۔‏“‏—‏یوحنا ۶:‏۵۳،‏ ۵۴‏۔‏

۱۴ یسوع مسیح کی تمثیلوں نے اکثر لوگوں کو یہوواہ کیساتھ ساتھ چلنے کی خواہش کا اظہار کرنے کی تحریک دی۔‏ یہ بات اس تمثیل کے سلسلے میں بھی سچ تھی۔‏ اسے سن کر شدید ردِعمل دکھایا گیا۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏اُسکے شاگردوں میں سے بہتوں نے سنکر کہا کہ یہ کلام ناگوار ہے۔‏ اسے کون سن سکتا ہے؟‏“‏ یسوع مسیح نے واضح کِیا کہ اُنہیں ان الفاظ کے روحانی مفہوم پر غور کرنا چاہئے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏زندہ کرنے والی تو روح ہے۔‏ جسم سے کچھ فائدہ نہیں۔‏ جو باتیں مَیں نے تُم سے کہی ہیں وہ روح ہیں اور زندگی بھی ہیں۔‏“‏ بہتیروں نے یسوع کی بات نہ سنی جیساکہ اگلا بیان کہتا ہے:‏ ”‏اس پر اُسکے شاگردوں میں سے بہتیرے اُلٹے پھر گئے اور اِسکے بعد اُسکے ساتھ نہ رہے۔‏“‏—‏یوحنا ۶:‏۶۰،‏ ۶۳،‏ ۶۶‏۔‏

۱۵.‏ یسوع مسیح کے بعض شاگردوں نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟‏

۱۵ تاہم،‏ یسوع مسیح کے تمام شاگردوں نے ایسا ردِعمل نہیں دکھایا۔‏ یہ سچ ہے کہ وفادار شاگرد بھی یسوع کی بات کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پائے تھے۔‏ اسکے باوجود،‏ اُنہیں اس پر پورا بھروسا تھا۔‏ وفادار شاگردوں میں ایک شاگرد پطرس نے تمام شاگردوں کے احساسات بیان کرتے ہوئے لکھا:‏ ”‏اَے خداوند!‏ ہم کس کے پاس جائیں؟‏ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۶:‏۶۸‏)‏ کسقدر عمدہ رُجحان اور کیا ہی شاندار مثال!‏

۱۶.‏ ہم کیسے آزمائے جا سکتے ہیں اور ہمیں کونسا مناسب نقطۂ‌نظر اپنانا چاہئے؟‏

۱۶ ان ابتدائی شاگردوں کی طرح ہم بھی آزمائے جا سکتے ہیں۔‏ کیسے؟‏ شاید ہم اس بات سے مایوس ہو جائیں کہ یہوواہ کے وعدے ہماری توقع کے مطابق پورے نہیں ہو رہے ہیں۔‏ شاید ہم یہ محسوس کریں کہ بائبل پر مبنی ہماری مطبوعات میں صحائف کی وضاحت کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔‏ کسی ساتھی مسیحی کا رویہ ہمیں بےحوصلہ کر سکتا ہے۔‏ کیا ان وجوہات کی بِنا پر خدا کیساتھ ساتھ نہ چلنا مناسب ہوگا؟‏ ہرگز نہیں!‏ جن شاگردوں نے یسوع مسیح کو رد کر دیا اُنہوں نے یہ ظاہر کِیا کہ وہ جسمانی سوچ رکھتے ہیں۔‏ ہمیں ان جیسا رُجحان رکھنے سے گریز کرنا چاہئے۔‏

‏”‏ہم ہٹنے والے نہیں“‏

۱۷.‏ ہم خدا کیساتھ ساتھ چلنے کیلئے مدد کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏

۱۷ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏ہر ایک صحیفہ .‏ .‏ .‏ خدا کے الہام سے ہے۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶‏)‏ بائبل کے ذریعے یہوواہ خدا صاف طور پر ہمیں بتاتا ہے:‏ ”‏راہ یہی ہے اس پر چل۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳۰:‏۲۱‏)‏ خدا کے کلام پر عمل کرنے سے ہماری یہ دیکھنے میں مدد ہوتی ہے کہ ہم کسطرح چلتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۱۵‏)‏ بائبل کا مطالعہ کرنا اور سیکھی ہوئی باتوں پر غوروخوض کرنا ہمیں سچائی پر چلتے رہنے کے قابل بناتا ہے۔‏ (‏۳-‏یوحنا ۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ جیسا یسوع مسیح نے کہا،‏ ”‏زندہ کرنے والی .‏ .‏ .‏ روح ہے۔‏ جسم سے کچھ فائدہ نہیں۔‏“‏ ہمارے قدموں کی راہنمائی کا واحد،‏ قابلِ‌اعتماد ذریعہ یہوواہ کے کلام،‏ اسکی روح اور اسکی تنظیم کے ذریعے حاصل ہونے والی روحانی ہدایات ہیں۔‏

۱۸.‏ (‏ا)‏ بعض لوگ کونسی غیردانشمندانہ روش اختیار کر لیتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کس قسم کا ایمان رکھنا چاہئے؟‏

۱۸ آجکل وہ لوگ جو جسمانی سوچ رکھتے یا اپنی توقعات پوری نہ ہونے کی وجہ سے برہم ہو جاتے ہیں اکثر دُنیاوی کاموں میں پڑ جاتے ہیں۔‏ وہ نازک زمانے کی اہمیت کو بھول کر ”‏جاگتے“‏ رہنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔‏ اُنہوں نے بادشاہتی کاموں کو اپنی زندگیوں میں پہلا درجہ دینے کی بجائے خودغرضانہ نشانوں کے پیچھے بھاگنے کا انتخاب کِیا ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۲‏)‏ یہ روش غیردانشمندانہ ہے۔‏ پولس رسول کے الفاظ پر غور کریں:‏ ”‏ہم ہٹنے والے نہیں کہ ہلاک ہوں بلکہ ایمان رکھنے والے ہیں کہ جان بچائیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۳۹‏)‏ حنوک اور نوح کی طرح ہم بھی خراب زمانے میں رہتے ہیں۔‏ لیکن اُنکی طرح ہمیں بھی خدا کیساتھ ساتھ چلنے کا شرف حاصل ہے۔‏ ایسا کرنے سے ہمیں یہ اعتماد حاصل ہوگا کہ ہم یہوواہ کے وعدوں کی تکمیل دیکھیں گے۔‏ بدکاری ختم ہو جائے گی اور راست نئی دُنیا قائم ہو جائے گی۔‏ یہ کتنی شاندار اُمید ہے!‏

۱۹.‏ میکاہ نے سچے پرستاروں کے بارے میں کیا کہا؟‏

۱۹ میکاہ نبی نے الہام سے دُنیا کی مختلف قوموں کے بارے میں لکھا کہ وہ ”‏اپنے اپنے معبود کے نام سے چلیں گی۔‏“‏ اسکے بعد اُس نے اپنے اور دیگر وفادار پرستاروں کے بارے میں کہا:‏ ”‏ہم ابدالآباد تک خداوند اپنے خدا کے نام سے چلیں گے۔‏“‏ (‏میکاہ ۴:‏۵‏)‏ اگر آپ بھی میکاہ کی طرح کا عزم رکھتے ہیں تو حالات خواہ کتنے ہی بُرے کیوں نہ ہو آپ یہوواہ کے نزدیک رہیں گے۔‏ (‏یعقوب ۴:‏۸‏)‏ دُعا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اب اور ہمیشہ تک یہوواہ اپنے خدا کیساتھ ساتھ چلتا رہے!‏

آپ کیسے جواب دیں گے؟‏

‏• نوح اور ہمارے زمانے میں کونسی حالتیں ایک جیسی ہیں؟‏

‏• نوح اور اُسکے خاندان نے کیسی روش اختیار کی اور ہم اُنکے ایمان کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟‏

‏• یسوع مسیح کے بعض شاگردوں نے کونسا غلط نقطۂ‌نظر ظاہر کِیا؟‏

‏• سچے مسیحی کیا کرنے کا عزم رکھتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویریں]‏

نوح کے زمانے کی طرح لوگ روزمرّہ کے کاموں میں اُلجھے ہوئے ہیں

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

بادشاہتی منادوں کے طور پر ”‏ہم ہٹنے والے نہیں“‏