مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کے ”‏کلام“‏ کو اپنی حفاظت کرنے دیں

یہوواہ کے ”‏کلام“‏ کو اپنی حفاظت کرنے دیں

یہوواہ کے ”‏کلام“‏ کو اپنی حفاظت کرنے دیں

میراتھن کی تاریخی لڑائی ۴۹۰ قبل‌ازمسیح میں لڑی گئی۔‏ اس لڑائی میں ۱۰ سے ۲۰ ہزار پر مشتمل یونانی فوج نے اپنی فوج سے کہیں بڑی فارسی فوج کا مقابلہ کِیا تھا۔‏ اس لڑائی میں یونانیوں کی جنگی چال نے بنیادی کردار ادا کِیا۔‏ وہ گہری صفوں میں منظم ہو گئے۔‏ اُنہوں نے ایک دوسرے کو ڈھانکتے ہوئے بندھی ہوئی ڈھالوں اور لمبے بھالوں کیساتھ جنگ کی۔‏ اس نے ان کیلئے حفاظتی دیوار کا کام کِیا۔‏ گہری صفوں میں منظم ہوکر جنگ کرنے سے یونانیوں نے اپنے سے بڑی فارسی فوج کے دانت کھٹے کر دئے۔‏ انہیں نامور فتح حاصل ہوئی۔‏

سچے مسیحی روحانی جنگ لڑ رہے ہیں۔‏ انکی لڑائی طاقتور فوجوں یعنی اس شریر دُنیا کے نادیدہ حاکموں سے ہے جنہیں بائبل میں ”‏اس دُنیا کی تاریکی کے حاکم اور شرارت کی .‏ .‏ .‏ روحانی فوجیں“‏ کہا گیا ہے ”‏جو آسمانی مقاموں میں ہیں۔‏“‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۲؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ اس لڑائی میں خدا کے لوگوں کا پلہ ہمیشہ بھاری رہا ہے لیکن اپنے بل‌بوتے پر نہیں۔‏ ان فتوحات کا سہرا یہوواہ کے سر ہے جو انہیں ہدایات دیتا اور اُنکی حفاظت کرتا ہے جیساکہ زبور ۱۸:‏۳۰ بیان کرتی ہے:‏ ”‏خداوند کا کلام تایا ہوا ہے۔‏ وہ اُن سب کی سپر ہے جو اُس پر بھروسا رکھتے ہیں۔‏“‏

جی‌ہاں،‏ اپنے تائے ہوئے ”‏کلام“‏ کے ذریعے یہوواہ اپنے وفادار لوگوں کو روحانی نقصان سے تحفظ بخشتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۹:‏۷-‏۱۱؛‏ ۱۱۹:‏۹۳‏)‏ خدا کے کلام میں پائی جانے والی حکمت کا ثبوت سلیمان کے الفاظ سے ملتا ہے۔‏ اس نے لکھا:‏ ”‏حکمت کو ترک نہ کرنا۔‏ وہ تیری حفاظت کرے گی۔‏ اُس سے محبت رکھنا۔‏ وہ تیری نگہبان ہوگی۔‏“‏ (‏امثال ۴:‏۶؛‏ واعظ ۷:‏۱۲‏)‏ خدائی حکمت ہمیں روحانی تحفظ کیسے بخشتی ہے؟‏ قدیم اسرائیل کی مثال پر غور کریں۔‏

خدائی حکمت کے ذریعے تحفظ

یہوواہ کی شریعت نے زندگی کے ہر پہلو میں اسرائیلیوں کی راہنمائی کی اور انہیں محفوظ رکھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ خوراک،‏ حفظانِ‌صحت اور چھوت کی بیماری والے مریضوں کو الگ رکھنے کی بابت اصول فراہم کئے گئے۔‏ اسکی وجہ یہ تھی کہ اسرائیلی اُن بیماریوں سے محفوظ رہیں جو دوسری قوموں کی تباہی کا باعث تھیں۔‏ سائنس تو ۱۹ ویں صدی میں بیکٹیریا (‏جراثیم)‏ کی دریافت کے بعد خدائی شریعت میں پائے جانے والے معیار تک پہنچی ہے۔‏ زمین کی ملکیت،‏ چھڑانا،‏ قرضے کی ادائیگی اور نفع حاصل کرنے سے متعلق اصولوں کا اطلاق کرنے سے اسرائیلی ایک مضبوط اور مستحکم قوم بن گئے۔‏ (‏استثنا ۷:‏۱۲،‏ ۱۵؛‏ ۱۵:‏۴،‏ ۵‏)‏ یہوواہ کی شریعت نے اسرائیل کی زمین کو اچھی حالت میں رکھنے کیلئے بھی مدد کی۔‏ (‏خروج ۲۳:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ جھوٹی پرستش کے خلاف دئے گئے حکموں نے لوگوں کو روحانی تحفظ بخشا۔‏ ان حکموں کے ذریعے وہ بےجان بتوں کے آگے ماتھا ٹیکنے جیسے ذلت‌آمیز کاموں کے علاوہ،‏ بدروحوں کے قبضے،‏ بچوں کی قربانی اور دیگر کئی برائیوں سے محفوظ رہے۔‏—‏خروج ۲۰:‏۳-‏۵؛‏ زبور ۱۱۵:‏۴-‏۸‏۔‏

بِلاشُبہ،‏ یہوواہ کا ”‏کلام“‏ اسرائیل کیلئے ”‏بےسود“‏ ثابت نہیں ہوا۔‏ اس پر عمل کرنے والوں کو زندگی اور عمر کی درازی حاصل ہوئی۔‏ (‏استثنا ۳۲:‏۴۷‏)‏ اگرچہ آجکل مسیحی شریعت کے تابع نہیں توبھی یہ بات خدا کے کلام پر دھیان دینے والوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔‏ (‏گلتیوں ۳:‏۲۴،‏ ۲۵؛‏ عبرانیوں ۸:‏۸‏)‏ درحقیقت قوانین کی بجائے بائبل اصول مسیحیوں کی راہنمائی کرتے اور انہیں تحفظ بخشتے ہیں۔‏

اصولوں کے ذریعے تحفظ

قوانین مختصر عرصے کیلئے ہو سکتے ہیں اور اسکا اطلاق محدود پیمانے پر ہو سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ بائبل اصول بنیادی سچائیاں ہیں اور انکا اطلاق وسیع اور دیرپا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ یعقوب ۳:‏۱۷ میں درج اصول پر غور کریں جہاں لکھا ہے:‏ ”‏جو حکمت اُوپر سے آتی ہے اوّل تو وہ پاک ہوتی ہے۔‏ پھر ملنسار۔‏“‏ آجکل یہ بنیادی سچائی خدا کے لوگوں کو کیسے تحفظ فراہم کرتی ہے؟‏

پاک ہونے کا مطلب اخلاقی پاکیزگی ہے۔‏ پاکیزگی کی اہمیت سمجھنے والے لوگ نہ صرف بداخلاقی بلکہ اسکی طرف مائل کرنے والی تمام چیزوں سے دُور رہتے ہیں۔‏ ان چیزوں میں شہوت‌انگیز تصورات اور فحش تصاویر دیکھنا بھی شامل ہیں۔‏ (‏متی ۵:‏۲۸‏)‏ شادی کی غرض سے ایک دوسرے کو پسند کرنے والے اشخاص یعقوب ۳:‏۱۷ میں درج مشورت پر دھیان دیتے ہوئے ایک دوسرے کے اتنا قریب جانے سے گریز کرتے ہیں جس میں انکے لئے خود پر قابو رکھنا مشکل ہو جائے۔‏ خدائی اصولوں پر چلنے کی وجہ سے وہ اپنی پاکدامنی برقرار رکھتے ہیں۔‏ وہ کبھی بھی یہ نہیں سوچتے کہ جب تک وہ خدا کے حکم نہیں توڑتے اُنکے چال‌چلن کو خدا کی مقبولیت حاصل ہے۔‏ وہ جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا ”‏دل پر نظر کرتا ہے“‏ اور اسکے مطابق بدلہ دیتا ہے۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۶:‏۷؛‏ ۲-‏تواریخ ۱۶:‏۹‏)‏ دانشمندی سے یہوواہ کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے وہ خود کو جنسی طور پر لگنے والی بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔‏ اس کیساتھ ساتھ انہیں ذہنی اور جذباتی طور پر بھی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔‏

یعقوب ۳:‏۱۷ بیان کرتی ہے کہ خدائی حکمت ”‏ملنسار“‏ بھی ہے۔‏ ہم جانتے ہیں کہ شیطان ہمارے دلوں میں تشدد کرنے کا جذبہ پیدا کرنے سے ہمیں یہوواہ خدا سے دُور کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔‏ اُسکا ایک خاص طریقہ قابلِ‌اعتراض لٹریچر،‏ فلموں،‏ موسیقی اور قتل‌وغارت اور ظلم‌وتشدد کی طرف مائل کرنے والی بعض کمپیوٹر گیمز ہیں جو کھیلنے والوں کو خیالی طور پر ظلم یا قتل کرنے کیلئے اُبھارتی ہیں۔‏ (‏زبور ۱۱:‏۵‏)‏ شیطان کے اپنی اس کوشش میں کامیاب ہونے کا ثبوت تشددآمیز جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔‏ ان جرائم کے بارے میں کچھ سال پہلے آسڑیلیا کے دی سڈنی مارننگ ہیرلڈ میں ”‏جنونی قاتل“‏ کی اصطلاح متعارف کرانے والے رابرٹ ریسلر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا۔‏ سن ۱۹۷۰ میں ریسلر نے جن قاتلوں کا انٹرویو لیا تھا اُنہوں نے اس وقت کے فحش مواد کی وجہ سے شدید ردِعمل ظاہر کِیا جو ”‏آجکل کے فحش مواد سے کہیں درجے کم فحش تھا۔‏“‏ ریسلر نے ”‏مستقبل کی بابت ایک افسردہ نقطۂ‌نظر“‏ کا اظہار کِیا۔‏ اُس نے بیان کِیا کہ ”‏ایک ایسی نئی صدی آنے والی ہے جس میں کئی قاتل ہوں گے اور کئی مقتول۔‏“‏

اس خبر کے کچھ ماہ بعد ڈبلن،‏ سکاٹ‌لینڈ میں ایک گن‌مین نے چھوٹے بچوں کے ایک سکول میں ۱۶ بچوں اور اُنکی ٹیچر کو مارنے کے بعد خودکُشی کر لی۔‏ اگلے ہی مہینے پورٹ آرتھر،‏ آسٹریلیا کے ایک پُرامن علاقے میں ایک گن‌مین نے ۳۲ لوگوں کو قتل کر دیا۔‏ حالیہ سالوں میں،‏ امریکہ کے سکولوں میں خون‌ریزی کے واقعات میں اضافے نے امریکیوں کو یہ پوچھنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟‏ جون ۲۰۰۱ میں،‏ جاپان کی اس خبر نے پوری دُنیا کو چونکا دیا کہ ایک جنونی شخص نے ایک سکول میں داخل ہوکر پہلی اور دوسری کلاس کے آٹھ بچوں کو قتل اور ۱۵ اشخاص کو شدید زخمی کر دیا۔‏ درحقیقت،‏ ایسی بُرائیوں کی بہت ساری وجوہات ہیں۔‏ لیکن اسکی سب سے اہم وجہ میڈیا (‏ٹی‌وی،‏ فلمیں اور انٹرنیٹ وغیرہ)‏ پر دکھایا جانے والا تشدد ہے۔‏ آسٹریلیوی کالم‌نگار فلپ آڈمز نے لکھا:‏ ”‏اگر ۶۰ سیکنڈ کے ایک اشتہار سے چیزوں کی فروخت میں حیران‌کُن اضافہ ہو سکتا ہے تو یہ بات ناقابلِ‌تردید ہے کہ لاکھوں روپے کی لاگت سے بننے والی دو گھنٹے کی فلم لوگوں کے رویوں پر کسطرح اثرانداز نہ ہوتی ہو گی۔‏“‏ دلچسپی کی بات ہے کہ پورٹ آرتھر کے گن‌مین کے گھر سے پولیس کو ۰۰۰،‏۲ پُرتشدد اور فحش فلمیں ملی تھیں۔‏

بائبل اصولوں پر عمل کرنے والے اپنے ذہن اور دل کو تفریح کی ایسی تمام اقسام سے محفوظ رکھتے ہیں جو تشدد کی طرف مائل کر سکتی ہیں۔‏ وہ ”‏دُنیا کی روح“‏ کو اپنی سوچ اور خواہشات پر اثرانداز نہیں ہونے دیتے۔‏ اسکی بجائے،‏ وہ خدا کی روح سے سیکھتے اور اسکے پھلوں کیلئے محبت پیدا کرتے ہیں جن میں اطمینان بھی شامل ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۲،‏ ۱۳؛‏ گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ ایسا کرنے کیلئے وہ باقاعدگی سے بائبل مطالعہ،‏ دُعا اور غوروخوض کرتے ہیں۔‏ وہ تشدد کا میلان رکھنے والے لوگوں سے رفاقت رکھنے کی بجائے اُن لوگوں سے رفاقت رکھتے ہیں جو یہوواہ خدا کی پُرامن نئی دُنیا میں جانے کے خواہشمند ہیں۔‏ (‏زبور ۱:‏۱-‏۳؛‏ امثال ۱۶:‏۲۹‏)‏ واقعی،‏ خدائی حکمت تحفظ فراہم کرتی ہے۔‏

یہوواہ کے ”‏کلام“‏ کو اپنے دل کی حفاظت کرنے دیں

یسوع مسیح نے بیابان میں اپنی آزمائش کے وقت خدا کے کلام کا حوالہ دیتے ہوئے شیطان کی مزاحمت کی۔‏ (‏لوقا ۴:‏۱-‏۱۳‏)‏ وہ شیطان کیساتھ اس بحث میں نہیں اُلجھا کہ کون زیادہ ذہین ہے۔‏ یسوع نے صحائف کے ذریعے اپنا دفاع کرتے ہوئے جو کچھ بھی کہا وہ اسکے دل کی آواز تھی۔‏ یہی وجہ تھی کہ شیطان کی کوشش عدن میں تو کامیاب ہوئی لیکن یسوع مسیح کے سلسلے میں اُسے مُنہ کی کھانی پڑی۔‏ اگر ہم اپنے دل کو یہوواہ کے کلام سے معمور کر لیں تو ہمارے معاملے میں بھی شیطان کے منصوبے ناکام ہو جائیں گے۔‏ پس،‏ اپنے دل کو یہوواہ کے کلام سے معمور کرنا اشد ضروری ہے کیونکہ ”‏زندگی کا سرچشمہ وہی [‏دل]‏ ہے۔‏“‏—‏امثال ۴:‏۲۳‏۔‏

مزیدبرآں،‏ ہمیں ہمت ہارے بغیر اپنے دل کی مسلسل حفاظت کرنی چاہئے۔‏ شیطان بیابان میں ناکام ہو گیا لیکن اسکے باوجود اُس نے یسوع مسیح کو آزمانا نہیں چھوڑا۔‏ (‏لوقا ۴:‏۱۳‏)‏ اسی طرح وہ مختلف چالوں سے ہماری راستی کو توڑنے کی کوشش کرے گا۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۷‏)‏ پس،‏ آئیے یسوع مسیح کے نمونے کی نقل کرتے ہوئے خدا کے کلام کیلئے گہری محبت پیدا کریں اور اسکی روح‌القدس اور حکمت حاصل کرنے کیلئے بِلاناغہ دُعا کرتے رہیں۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۷؛‏ عبرانیوں ۵:‏۷‏)‏ کیونکہ یہوواہ خدا وعدہ کرتا ہے کہ اُسے اپنی پناہ‌گاہ بنانے والے تمام لوگ ہر قسم کے روحانی نقصان سے محفوظ رہیں گے۔‏—‏زبور ۹۱:‏۱-‏۱۰؛‏ امثال ۱:‏۳۳‏۔‏

خدا کا کلام کلیسیا کو تحفظ بخشتا ہے

شیطان ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کے بڑی مصیبت سے بچ نکلنے کی راہ میں رُکاوٹ نہیں بن سکتا۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۴‏)‏ وہ مسیحیوں کو گمراہ کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ یہوواہ کی خوشنودی کھو دیں۔‏ اس نے قدیم اسرائیل کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی۔‏ نتیجتاً،‏ موعودہ ملک میں داخل ہونے سے ذرا پہلے ۰۰۰،‏۲۴ لوگ موت کا شکار ہوگئے۔‏ (‏گنتی ۲۵:‏۱-‏۹‏)‏ تاہم،‏ غلطی کرنے کے بعد حقیقی توبہ کرنے والے مسیحی روحانی طور پر بحال ہونے کیلئے پُرمحبت مدد کو قبول کرتے ہیں۔‏ لیکن ماضی کے زمری کی طرح غیرتائب گنہگار دوسروں کی اخلاقی اور روحانی فلاح کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں۔‏ (‏گنتی ۲۵:‏۱۴‏)‏ گہری صفوں میں منظم فوجی دستے اگر اپنی ڈھالیں پھینک دیں تو خود کو اور دوسروں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔‏ اسی طرح غیرتائب گنہگار دوسروں کی اخلاقی اور روحانی فلاح کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں۔‏

بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏اگر کوئی بھائی کہلا کر حرامکار یا لالچی یا بت‌پرست یا گالی دینے والا یا شرابی یا ظالم ہو تو اُس سے صحبت نہ رکھو بلکہ ایسے کیساتھ کھانا تک نہ کھانا۔‏ .‏ .‏ .‏ اُس شریر آدمی کو اپنے درمیان سے نکال دو۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۱،‏ ۱۳‏)‏ کیا آپ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ یہ دانشمندانہ ”‏کلام“‏ مسیحی کلیسیا کی اخلاقی اور روحانی پاکیزگی کے تحفظ میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔‏

اسکے برعکس،‏ دُنیائےمسیحیت کے بہتیرے چرچوں اور برگشتہ اشخاص نے بائبل کے اُن حصوں کو ماننا بالکل چھوڑ دیا ہے جو زمانۂ‌جدید کے اخلاقی معیاروں سے میل نہیں کھاتے۔‏ یہانتک کہ پادری بھی بڑے بڑے گناہوں کیلئے عذر پیش کرتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۳،‏ ۴‏)‏ غور کریں کہ امثال ۳۰:‏۵ میں یہوواہ کے ”‏کلام“‏ کا حوالہ سپر کے طور پر دینے کے بعد ۶ آیت میں حکم دیا گیا:‏ ”‏اُس [‏خدا]‏ کے کلام میں کچھ نہ بڑھانا۔‏ مبادا وہ تجھکو تنبیہ کرے اور تُو جھوٹا ٹھہرے۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ خدا کے کلام میں آمیزش کرنے والے لوگ روحانی طور پر جھوٹے ہیں۔‏ یہ تمام جھوٹوں سے زیادہ ملامت کے لائق ہیں۔‏ (‏متی ۱۵:‏۶-‏۹‏)‏ یقیناً،‏ ہم ایسی تنظیم کا حصہ ہونے کیلئے جو خدا کے کلام کا گہرا احترام کرتی ہے شکرگزار ہیں۔‏

خوشبو کے ذریعے تحفظ

خدا کے لوگ بائبل معیاروں پر عمل کرتے اور اسکے تسلی‌بخش پیغام کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔‏ اسطرح وہ زندگی کی بخور جیسی ”‏خوشبو“‏ پھیلاتے ہیں جس سے یہوواہ خدا خوش ہوتا ہے۔‏ جو اس زندگی‌بخش پیغام کو رد کر دیتے ہیں اُنکے لئے یہ ”‏موت کی بُو“‏ ہے۔‏ شیطان کے موجودہ نظام نے شریروں کے سونگھنے کی حس کو خراب کر دیا ہے اسلئے وہ ”‏مسیح کی خوشبو“‏ پھیلانے والوں کی موجودگی میں بےچینی محسوس کرتے اور اُنکے دشمن بن جاتے ہیں۔‏ دوسری طرف سرگرمی سے خوشخبری پھیلانے والے ”‏نجات پانے والوں .‏ .‏ .‏ کیلئے مسیح کی خوشبو ہیں۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۴-‏۱۶‏)‏ یہ خلوصدل اشخاص ریاکاری اور جھوٹے مذہب کی نمایاں خصلت جھوٹ کی وجہ سے بیزار ہیں۔‏ اسلئے جب ہم خدا کا کلام کھولتے اور انہیں بادشاہتی پیغام سناتے ہیں تو وہ مسیح کی طرف کھنچے چلے آتے اور مزید سیکھنا چاہتے ہیں۔‏—‏یوحنا ۶:‏۴۴‏۔‏

چنانچہ،‏ جب کچھ لوگ بادشاہتی پیغام کیلئے جوابی‌عمل نہیں دکھاتے تو بےحوصلہ نہ ہوں۔‏ اسکی بجائے ”‏مسیح کی خوشبو“‏ کو روحانی تحفظ کا ایک ذریعہ سمجھیں۔‏ اسلئےکہ یہ خوشبو خدا کے لوگوں کی روحانیت کیلئے خطرہ بننے والے اشخاص کو اُن سے دُور رکھتی ہے۔‏ لیکن خلوصدل لوگوں کو کھینچ لیتی ہے۔‏—‏یسعیاہ ۳۵:‏۸،‏ ۹‏۔‏

میراتھن کی لڑائی میں یونانی سپاہیوں کو گہری صفوں میں رہنے اور اپنی ڈھالوں کو تھامے رکھنے کی وجہ سے ناموافق حالات کے باوجود فتح حاصل ہوئی۔‏ اسی طرح یہوواہ کے وفادار گواہ روحانی جنگ میں مکمل فتح‌یابی کا یقین رکھتے ہیں۔‏ اسلئےکہ یہ فتح‌یابی اُنکی ”‏میراث“‏ ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۵۴:‏۱۷‏)‏ پس،‏ ”‏زندگی کا کلام“‏ مضبوطی سے تھامے رہیں اور یہوواہ کی پناہ‌گاہ میں رہیں۔‏—‏فلپیوں ۲:‏۱۶‏۔‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویریں]‏

‏”‏جو حکمت اُوپر سے آتی ہے اول تو وہ پاک ہوتی ہے پھر ملنسار“‏