مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آنکھوں دیکھے پر چلنے کی بجائے ایمان پر چلیں

آنکھوں دیکھے پر چلنے کی بجائے ایمان پر چلیں

آنکھوں دیکھے پر چلنے کی بجائے ایمان پر چلیں

‏”‏ہم ایمان پر چلتے ہیں نہ کہ آنکھوں دیکھے پر۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۷‏۔‏

۱.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ پولس رسول ایمان پر چلتا تھا نہ کہ آنکھوں دیکھے پر؟‏

سن ۵۵ میں پولس رسول نے کُرنتھس میں رہنے والے مسیحیوں کو ایک خط لکھا۔‏ اُسے مسیحی مذہب اپناتے ہوئے تقریباً ۲۰ سال ہو چکے تھے۔‏ اتنے سال گزر جانے کے باوجود وہ مضبوطی سے اپنے ایمان پر قائم رہا تھا۔‏ پولس رسول نے اپنی آنکھوں سے آسمان میں خدا کے جلال کو تو نہیں دیکھا تھا لیکن پھر بھی اُسکا ایمان مضبوط تھا۔‏ اُس نے اپنے خط میں کُرنتھس کی کلیسیا کے ممسوح مسیحیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے لکھا کہ ”‏ہم ایمان پر چلتے ہیں نہ کہ آنکھوں دیکھے پر۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۷‏۔‏

۲،‏ ۳.‏ (‏ا)‏ ایمان پر چلنے کا کیا مطلب ہے؟‏ (‏ب)‏ آنکھوں دیکھے پر چلنے سے کیا مُراد ہے؟‏

۲ ایمان پر چلنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم خدا پر بھروسہ رکھیں۔‏ ہمیں اس بات کا پورا یقین ہونا چاہئے کہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمیں زندگی میں کونسی راہ اختیار کرنی چاہئے۔‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۶۶‏)‏ اسکا یہ بھی مطلب ہے کہ ہم کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت ”‏اندیکھی چیزوں“‏ یعنی خدا کے وعدوں کو بھی خاطر میں لائیں۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۱‏)‏ ہمیں پکا یقین ہونا چاہئے کہ خدا ”‏نئے آسمان اور نئی زمین“‏ کو لانے والا ہے۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳‏)‏ اسکے برعکس جو شخص آنکھوں دیکھے پر چلتا ہے وہ صرف اُن چیزوں پر بھروسہ کرتا ہے جو اُسے نظر آتی ہیں۔‏ اور وہ انہی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالتا ہے۔‏ ایسا کرنے سے وہ خدا کی راہنمائی کو نظرانداز کرنے کے خطرے میں ہوتا ہے۔‏—‏زبور ۸۱:‏۱۲؛‏ واعظ ۱۱:‏۹‏۔‏

۳ ہو سکتا ہے کہ ہم ”‏چھوٹے گلّے“‏ میں سے ہوں یعنی آسمان میں جینے کی اُمید رکھتے ہوں۔‏ یا پھر شاید ہمارا شمار ’‏دوسری بھیڑوں‘‏ میں ہو جو زمین پر جینے کی اُمید رکھتے ہیں۔‏ ہماری اُمید جو بھی ہو،‏ ہم سب کو ایمان پر چلنے کی اس نصیحت پر عمل کرنا چاہئے۔‏ (‏لوقا ۱۲:‏۳۲؛‏ یوحنا ۱۰:‏۱۶‏)‏ جب ہم ایسا کریں گے تو ہم میں ”‏گُناہ کا چند روزہ لطف اُٹھانے“‏ کی خواہش نہیں پیدا ہوگی۔‏ ہم دولت کے پھندے میں نہیں پھنسیں گے اور ہم یہ نہیں بھولیں گے کہ ہم اخیر زمانے میں رہ رہے ہیں۔‏ اس مضمون میں ہم انہی باتوں پر غور کریں گے۔‏ اسکے علاوہ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ آنکھوں دیکھے پر چلنا ہمارے لئے خطرناک کیوں ہو سکتا ہے۔‏—‏عبرانیوں ۱۱:‏۲۵‏۔‏

‏’‏گُناہ کا لطف اُٹھانے‘‏ سے انکار کریں

۴.‏ موسیٰ نے کونسا فیصلہ کِیا اور کیوں؟‏

۴ اسرائیلی ہونے کے باوجود موسیٰ نے مصر کے شاہی خاندان میں پرورش پائی تھی۔‏ وہ ایک شاندار زندگی گزار رہا تھا۔‏ شہرت،‏ قوت،‏ دولت یہ سب اُسکی پہنچ میں تھیں۔‏ لیکن موسیٰ نے یہ سوچ کر خود کو تسلی نہیں دی کہ ’‏مَیں کلام اور کام میں قوت والا ہوں۔‏ اس اختیار کی بِنا پر مَیں اپنے عبرانی بھائیوں کی مدد ضرور کروں گا۔‏ لیکن ایسا کرنے کیلئے لازمی نہیں کہ مَیں شاہی دربار کی آسائشوں کو چھوڑ کر چلا جاؤں۔‏‘‏ (‏اعمال ۷:‏۲۲‏)‏ اسکی بجائے موسیٰ نے ”‏خدا کی اُمت کیساتھ بدسلوکی برداشت کرنا زیادہ پسند کِیا۔‏“‏ موسیٰ نے ایسا فیصلہ کیوں کِیا تھا؟‏ بائبل میں اسکا جواب یوں دیا گیا ہے:‏ ”‏ایمان ہی سے [‏موسیٰ]‏ نے بادشاہ کے قہر کا خوف نہ کرکے مصرؔ کو چھوڑ دیا۔‏ اسلئے کہ وہ اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابت قدم رہا۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۲۴-‏۲۷‏)‏ موسیٰ کو یقین تھا کہ یہوواہ اُسے وفاداری کا اجر ضرور دے گا۔‏ اسلئے موسیٰ نے شاہی دربار میں ایک باآسائش لیکن بدچلن زندگی گزارنے سے انکار کر دیا تھا۔‏

۵.‏ ہم موسیٰ کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۵ ہمیں بھی اکثر ایسے مسئلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جنکے بارے میں فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔‏ مثال کے طور پر اگر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہماری ایک عادت خدا کو ناپسند ہے تو کیا ہم اسے چھوڑنے کو تیار ہیں؟‏ یا پھر اگر ہم اپنی ملازمت کی وجہ سے خدا کی عبادت میں بڑھ‌چڑھ کر حصہ نہ لے سکیں لیکن ہماری تنخواہ اچھی ہو،‏ تو پھر ہمارا فیصلہ کیا ہوگا؟‏ کسی بھی معاملے میں فیصلہ کرتے وقت ہمیں اس دُنیا کے وعدوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیں ”‏اندیکھے“‏ یعنی یہوواہ خدا کی راہنمائی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔‏ موسیٰ کی طرح ہمیں دُنیا کی آسائشیں حاصل کرنے کی بجائے خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ عیسو نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ آنکھوں دیکھے پر چلتا ہے؟‏ (‏ب)‏ عیسو کی بُری مثال سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۶ موسیٰ کی مثال کے برعکس اضحاق کے بیٹے عیسو کی مثال پر غور کریں۔‏ پیٹ کی آگ بجھانے کی اُسکو اتنی جلدی تھی کہ اُس نے خدا کے وعدوں کو ناچیز جانا۔‏ (‏پیدایش ۲۵:‏۳۰-‏۳۴‏)‏ جلدبازی سے کام لیتے ہوئے عیسو نے ”‏ایک وقت کے کھانے کے عوض اپنے پہلوٹھے ہونے کا حق بیچ ڈالا۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۱۶‏)‏ ایسا کرتے ہوئے اُس نے یہ نہ سوچا کہ یہوواہ خدا میری اس حرکت کو کیسا خیال کرے گا؟‏ اُس نے یہ بھی نہیں سوچا کہ پہلوٹھے کے حق کو بیچ ڈالنے سے وہ اپنی اولاد کا بھی حق چھین رہا ہے۔‏ وہ خدا کی برکتوں کی قدر نہیں کرتا تھا۔‏ واقعی عیسو آنکھوں دیکھے پر چلتا تھا نہ کہ ایمان پر۔‏

۷ عیسو کی بُری مثال سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۱‏)‏ یہ دُنیا جو شیطان کے قبضے میں ہے ہمیں صبر کا سبق نہیں سکھاتی۔‏ اسکی بجائے وہ ہمیں کہتی ہے کہ اپنی ہر خواہش کو فوراً پورا کرو۔‏ لہٰذا کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ کیا مَیں عیسو کی طرح جلدبازی کر رہا ہوں؟‏ اپنی اس خواہش کو پورا کرنے سے کیا میرے پاس خدا کی خدمت کرنے کیلئے کم ہی وقت بچے گا؟‏ کیا یہوواہ خدا میرے اس فیصلے سے خوش ہوگا اور مجھے مستقبل میں برکتوں سے نوازے گا؟‏ ایسا فیصلہ کرنے سے کیا مَیں دوسروں کیلئے اچھی مثال قائم کر رہا ہوں؟‏ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ اُن لوگوں کو برکتوں سے نوازتا ہے جو اُسکے وعدوں کی قدر کرتے ہیں۔‏—‏امثال ۱۰:‏۲۲‏۔‏

دولت کے پھندے میں نہ پھنسیں

۸.‏ یسوع نے لودیکیہ کے مسیحیوں کو کس بات سے آگاہ کِیا اور اس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۸ یوحنا رسول نے سن ۹۶ کے لگ‌بھگ لودیکیہ کی کلیسیا کو یسوع مسیح کا ایک پیغام پہنچایا۔‏ یہ مسیحی بہت دولت‌مند تھے۔‏ لیکن یسوع نے اُنہیں آگاہ کِیا کہ روحانی طور پر وہ بالکل غریب ہیں۔‏ ایمان پر چلنے کی بجائے وہ اپنے مال‌ودولت پر بھروسہ کرنے لگے تھے۔‏ وہ خدا کے وعدوں پر بھروسہ کرنا بھول گئے تھے اور اندھوں کی طرح دُنیاوی روشوں پر بھٹک رہے تھے۔‏ (‏مکاشفہ ۳:‏۱۴-‏۱۸‏)‏ مال‌ودولت حاصل کرنے کی خواہش ہمیں بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔‏ اس جستجو میں اُلجھ کر ہمارا ایمان کمزور پڑ جاتا ہے اور ہم زندگی کی راہ پر ’‏صبر سے دوڑنا‘‏ چھوڑ دیتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۱‏)‏ ہمیں خبردار رہنا چاہئے۔‏ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی زندگی کی ”‏عیش‌وعشرت میں پھنس“‏ کر خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیں۔‏—‏لوقا ۸:‏۱۴‏۔‏

۹.‏ ہم دولت کی دُھن میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

۹ لیکن ہم دولت کی دُھن میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ جو کچھ ہمارے پاس ہے اس پر ہمیں راضی اور خوش رہنا چاہئے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳۱؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۶-‏۸‏)‏ جب ہم ایمان پر چلتے ہیں تو ہمارے پاس خوش ہونے کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہم رُوحانی فردوس کا حصہ ہونے پر خوشی محسوس کرتے ہیں۔‏ اور جب ہم اُس روحانی خوراک پر نظر کرتے ہیں جو خدا ہمیں فراہم کرتا ہے تو کیا ہم ”‏دل کی خوشی سے“‏ خدا کی حمد نہیں کرنا چاہتے ہیں؟‏ (‏یسعیاہ ۶۵:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ اسکے علاوہ ہم اُن لوگوں کیساتھ میل‌ملاپ رکھنے پر بھی خوش ہیں جنکے چال‌چلن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کی روح کا پھل پیدا کر رہے ہیں۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔‏ ہمیں انہی سے اپنی روح کو تازہ کرنا اور خوشی حاصل کرنی چاہئے۔‏

۱۰.‏ ہمیں خود کو جانچنے کیلئے کونسے سوال کرنے چاہئیں؟‏

۱۰ ہمیں اپنے آپکو جانچنے کیلئے ایسے سوال کرنے چاہئیں:‏ ’‏مال‌ودولت جمع کرنا میرے لئے کتنا اہم ہے؟‏ میرے پاس جو کچھ ہے کیا مَیں اسے خدا کی خدمت کرنے کیلئے وقف کر رہا ہوں یا پھر ایک آرام‌دہ زندگی گزارنے کیلئے؟‏ کیا بائبل کی پڑھائی کرنے اور کلیسیا میں عبادت کیلئے جانے سے مَیں اتنی ہی خوشی محسوس کرتا ہوں جتنی تفریح کرتے وقت؟‏ جب مجھے ہفتہ اتوار کی چھٹی ہوتی ہے تو کیا مَیں دونوں دن سیر کرنے کو نکل جاتا ہوں یا پھر کیا مَیں اپنی مسیحی ذمہ‌داریاں پوری کرنے کیلئے وقت نکالتا ہوں؟‏‘‏ ایمان پر چلنے کا یہی مطلب ہے کہ ہم خدا کی خدمت میں مصروف رہیں اور پکا یقین رکھیں کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرے گا۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۸‏۔‏

جان لیں کہ ہم آخری زمانے میں رہ رہے ہیں

۱۱.‏ ایمان پر چلنے سے ہم کیا جان گئے ہیں؟‏

۱۱ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ’‏ابھی تو خاتمہ آنے میں بہت دیر ہے۔‏ اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ خاتمہ کبھی آئے ہی نہ۔‏‘‏ ایسے لوگ بائبل کی پیشینگوئیوں پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں۔‏ لیکن ہم ایمان پر چلتے ہیں اسلئے ہم ان لوگوں کی باتوں میں نہیں آتے۔‏ ہم جانتے ہیں کہ آجکل جو کچھ ہو رہا ہے یہ اُن پیشینگوئیوں کی تکمیل میں ہے جو صدیوں پہلے خدا کے کلام میں درج کی گئی تھیں۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۳،‏ ۴‏)‏ مثال کے طور پر لوگوں کے چال‌چلن اور طورطریقوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ”‏اخیر زمانہ“‏ کے بُرے دنوں میں رہ رہے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏)‏ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حالات ہمیشہ سے اتنے بُرے نہیں تھے بلکہ یہ تو ’‏مسیح کے آنے اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان‘‏ ہیں۔‏—‏متی ۲۴:‏۱-‏۱۴‏۔‏

۱۲.‏ لوقا ۲۱:‏۲۰،‏ ۲۱ میں درج یسوع کی پیشینگوئی نے پہلی صدی میں کیسے تکمیل پائی؟‏

۱۲ ذرا پہلی صدی میں ہونے والے ایک واقعہ پر غور کریں۔‏ جب یسوع مسیح زمین پر تھا تو اُس نے اپنے شاگردوں کو اس آنے والے واقعے کے بارے میں یوں آگاہ کِیا:‏ ”‏جب تُم یرؔوشلیم کو فوجوں سے گھرا ہوا دیکھو تو جان لینا کہ اسکا اُجڑ جانا نزدیک ہے۔‏ اس وقت جو یہوؔدیہ میں ہوں پہاڑوں پر بھاگ جائیں اور جو یرؔوشلیم کے اندر ہوں باہر نکل جائیں۔‏“‏ (‏لوقا ۲۱:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ یسوع کی یہ پیشینگوئی سن ۶۶ میں تکمیل پانے لگی جب رومی فوج نے یروشلیم پر گھیرا ڈال دیا۔‏ پھر رومی فوج اچانک وہاں سے کوچ کر گئی۔‏ یہی وہ موقع تھا جسکا ذکر یسوع نے کِیا تھا۔‏ یسوع کی آگاہی پر عمل کرتے ہوئے یروشلیم کے مسیحی ”‏پہاڑوں پر بھاگ“‏ گئے۔‏ اسکے بعد سن ۷۰ میں رومی فوج نے واپس آ کر یروشلیم پر حملہ کِیا اور یہودیوں کی عبادت‌گاہ کو تباہ کر دیا۔‏ یہودیوں کے ایک تاریخ‌دان یوسیفس کے مطابق اس حملے میں تقریباً ۱۰ لاکھ یہودی مارے گئے اور ۰۰۰،‏۹۷ کو اسیر کر دیا گیا۔‏ واقعی خدا نے یہودیوں پر اپنا عذاب نازل کِیا۔‏ لیکن جو لوگ ایمان پر چلتے تھے اُنہوں نے یسوع کی آگاہی پر عمل کِیا اور اپنی جان بچا لی۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ (‏ا)‏ مستقبل قریب میں کیا ہونے والا ہے؟‏ (‏ب)‏ ایمان پر چلنے سے ہم کن باتوں سے آگاہ رہیں گے؟‏

۱۳ کچھ اسی قسم کا واقعہ ہمارے زمانے میں بھی ہونے والا ہے۔‏ خدا اقوامِ‌متحدہ کے ذریعے تمام جھوٹے مذاہب پر اپنا عذاب نازل کرے گا۔‏ پہلی صدی میں رومی فوج نے امن اور سلامتی لانے کی ذمہ‌داری اپنے سر لی۔‏ آج اقوامِ‌متحدہ کی تنظیم یہ ذمہ‌داری اپنے سر لیتی ہے۔‏ لیکن رومی فوج نے امن لانے کی بجائے یروشلیم کو تباہ کر دیا تھا۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ اسی طرح اقوامِ‌متحدہ جھوٹے مسیحیوں پر دھاوا بول کر انہیں تباہ کر دے گی۔‏ اسکے بعد باقی تمام جھوٹے مذاہب کو تباہ کر دیا جائے گا جو بڑے بابل کا حصہ ہیں۔‏—‏مکاشفہ ۱۷:‏۱۲-‏۱۷‏۔‏

۱۴ بڑی مصیبت کا آغاز جھوٹے مذہب کی تباہی سے ہی ہوگا۔‏ اس مصیبت کے دوران خدا شیطان کے بُرے نظام کو بالکل تباہ کر دے گا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۲۹،‏ ۳۰؛‏ مکاشفہ ۱۶:‏۱۴،‏ ۱۶‏)‏ ایمان پر چلنے سے ہم جان جاتے ہیں کہ آجکل جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب بائبل کی پیشینگوئیوں کی تکمیل میں ہو رہا ہے۔‏ ہم کبھی اس فریب میں نہیں پڑیں گے کہ اقوامِ‌متحدہ جیسی انسانی تنظیم دُنیابھر میں واقعی امن اور سلامتی لانے والی ہے۔‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا روزِعظیم قریب ہے۔‏“‏ (‏صفنیاہ ۱:‏۱۴‏)‏ کیا ہمارے چال‌چلن سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ہم اس بات سے آگاہ ہیں؟‏

آنکھوں دیکھے پر چلنے کے خطرے

۱۵.‏ بنی‌اسرائیل ایک ڈھالے ہوئے بچھڑے کی پوجا کیوں کرنے لگے؟‏

۱۵ جو شخص آنکھوں دیکھے پر چلتا ہے اُسکا ایمان کمزور پڑ جاتا ہے۔‏ اسکی ایک مثال بنی‌اسرائیل کی ہے۔‏ اُنکی آنکھوں سامنے خدا نے مصریوں پر ۱۰ آفتیں لا کر اُنکے ایک ایک دیوتا کو نیچا دکھایا۔‏ پھر یہوواہ خدا نے بحرِقلزم کو دو حصوں میں تقسیم کرکے بنی‌اسرائیل کو مصری فوج کے قہر سے بچا لیا۔‏ اسکے باوجود جب ”‏موسیٰؔ نے پہاڑ سے اُترنے میں دیر لگائی“‏ تو وہ صبر نہ کر سکے۔‏ اور اُنہوں نے ایک ڈھالے ہوئے بچھڑے کی پوجا کرنا شروع کر دی۔‏ (‏خروج ۳۲:‏۱-‏۴‏)‏ جی‌ہاں،‏ بےچینی کے عالم میں اُنہوں نے آنکھوں دیکھے پر چلنا شروع کر دیا۔‏ ایسا کرنے میں اُنہوں نے یہوواہ خدا کی توہین کی۔‏ لہٰذا خدا نے اُن پر اپنا عذاب نازل کِیا۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏قریباً تین ہزار مرد“‏ مار ڈالے گئے۔‏ (‏خروج ۳۲:‏۲۵-‏۲۹‏)‏ آج بھی جب یہوواہ کا ایک خادم اپنے فیصلوں اور چال‌چلن سے ظاہر کرتا ہے کہ وہ خدا کے وعدوں میں بھروسہ نہیں رکھتا تو یہ کتنے افسوس کی بات ہوتی ہے۔‏

۱۶.‏ آنکھوں دیکھے پر چلنے کی وجہ سے بنی‌اسرائیل پر کیسا اثر پڑا؟‏

۱۶ آنکھوں دیکھے پر چلنے کی وجہ سے بنی‌اسرائیل کو اَور بھی بہت سے مسئلوں سے نپٹنا پڑا۔‏ مثال کے طور پر وہ اپنے دُشمنوں سے ڈرنے لگے۔‏ ‏(‏گنتی ۱۳:‏۲۸،‏ ۳۲؛‏ استثنا ۱:‏۲۸‏)‏ اُنہوں نے خدا کے نمائندے موسیٰ کے خلاف اکثر بغاوت بھی کی۔‏ وہ ہر چھوٹی‌بڑی بات پر بڑبڑانے لگتے تھے۔‏ اُنکا ایمان اتنا کمزور تھا کہ وہ ملکِ‌موعود کی طرف چل دینے کی بجائے مصر واپس لوٹنے کے منصوبے باندھنے لگے۔‏ (‏گنتی ۱۴:‏۱-‏۴؛‏ زبور ۱۰۶:‏۲۴‏)‏ ایسا کرنے میں اُنہوں نے اپنے خدا کی توہین کی۔‏ یہوواہ خدا کو انکے اس رویے پر کتنا دُکھ ہوا ہوگا!‏

۱۷.‏ سموئیل نبی کے زمانے میں بنی‌اسرائیل نے یہوواہ خدا کی حکمرانی کو ترک کیوں کر دیا؟‏

۱۷ سموئیل نبی کے زمانے میں بھی بنی‌اسرائیل نے آنکھوں دیکھے پر چلنا شروع کر دیا تھا۔‏ اُس وقت تک اُن پر کوئی انسان حکمرانی نہیں کر رہا تھا بلکہ یہوواہ خدا ہی اُنکا بادشاہ تھا۔‏ لیکن اب وہ ایک ایسا بادشاہ چاہتے تھے جسکو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے۔‏ واقعی وہ ایمان پر نہیں چل رہے تھے۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۸:‏۴-‏۹‏)‏ یہوواہ خدا کی راہنمائی اور حکمرانی کو قبول کرنے کی بجائے وہ دوسری قوموں کی مانند ہونا چاہتے تھے جن پر انسان حکمرانی کرتے تھے۔‏ اس میں بنی‌اسرائیل کا ہی نقصان تھا۔‏—‏۱-‏سموئیل ۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

۱۸.‏ بنی‌اسرائیل کیساتھ جو کچھ ہوا تھا ہمیں اس سے کونسا سبق سیکھنا چاہئے؟‏

۱۸ یہوواہ کی قربت ہمیں عزیز ہے۔‏ اُسکے کلام میں جتنی باتیں لکھی گئیں ہیں ہم اُنکو سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۴‏)‏ بنی‌اسرائیل کیساتھ جو کچھ ہوا تھا ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہئے۔‏ جب بھی وہ آنکھوں دیکھے پر چلنے لگتے تو وہ بھول جاتے کہ خدا ہی اپنے بندے موسیٰ کے ذریعے اُنکی راہنمائی کر رہا تھا۔‏ آج مسیحی کلیسیا کی راہنمائی یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کر رہے ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۱:‏۱۲-‏۱۶‏)‏ وہ ایسا اپنی زمینی تنظیم کے ذریعے کرتے ہیں۔‏ ہمیں خبردار رہنا چاہئے کہ ہم اس حقیقت کو کبھی نہ بھولیں۔‏ ورنہ بنی‌اسرائیل کی طرح ہم بھی خدا کے نمائندوں کے خلاف بڑبڑانے لگیں گے۔‏ اور ہم اُس روحانی خوراک کی قدر بھی نہیں کریں گے جو یہوواہ ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ جماعت کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔‏—‏متی ۲۴:‏۴۵‏۔‏

ایمان پر چلنے کا پکا ارادہ کر لیں

۱۹،‏ ۲۰.‏ ہمیں کس بات کا پکا ارادہ کرنا چاہئے اور یہ اتنا ضروری کیوں ہے؟‏

۱۹ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏ہمیں خون اور گوشت سے کشتی نہیں کرنا ہے بلکہ حکومت والوں اور اختیار والوں اور اس دُنیا کی تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی ان روحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں۔‏“‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۲‏)‏ جی‌ہاں،‏ شیطان ہی ہمارا سب سے بڑا دُشمن ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ خدا پر ہمارا ایمان ختم ہو جائے۔‏ شیطان ہمیں اپنے جال میں پھنسانے کیلئے بہت سی چالیں چلتا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۸‏)‏ لیکن جب ہم ایمان پر چلتے ہیں تو ہم اُسکے جال میں نہیں پھنسیں گے۔‏ ہمیں یقین ہونا چاہئے کہ یہوواہ خدا اپنے ایک ایک وعدے کو ضرور پورا کرے گا۔‏ تب ہمارے ’‏ایمان کا جہاز کبھی غرق نہیں ہوگا۔‏‘‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۹‏)‏ اسلئے آئیے ہم ایمان پر چلنے کا پکا ارادہ کرتے ہیں یہ جان کر کہ یہوواہ ہمیں برکتوں سے ضرور نوازے گا۔‏ اسکے ساتھ ساتھ ہمیں ان سب باتوں سے بچنے کی دُعا بھی کرنی چاہئے جو مستقبل میں ہونے والی ہیں۔‏—‏لوقا ۲۱:‏۳۶‏۔‏

۲۰ ایمان پر چلنے کی سب سے اچھی مثال یسوع مسیح نے قائم کی تھی۔‏ اُسکے بارے میں خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”‏مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اُسکے نقشِ‌قدم پر چلو۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱‏)‏ جسطرح یسوع مسیح ایمان پر چلتا تھا اسی طرح ہمیں بھی چلنا چاہئے۔‏ اگلے مضمون میں ہم اسی بات پر غور کریں گے۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• ہم موسیٰ اور عیسو کی مثال سے ایمان پر چلنے کی اہمیت کو کیسے جان سکتے ہیں؟‏

‏• ہم دولت کی دُھن میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

‏• ایمان پر چلنے سے ہم خاتمہ کے بارے میں کونسا غلط نظریہ نہیں اپنائیں گے؟‏

‏• آنکھوں دیکھے پر چلنے کے کونسے خطرے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

خدا کا نبی موسیٰ ایمان پر چلتا تھا

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

کیا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آپ تفریح میں مشغول ہونے کی وجہ سے خدا کی خدمت کیلئے وقت نہیں نکالتے؟‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

خدا کے کلام پر غور کرنے سے ہم کن خطروں سے بچے رہیں گے؟‏