مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

غلط سوچ میں نہ پڑیں

غلط سوچ میں نہ پڑیں

غلط سوچ میں نہ پڑیں

خدا کے بندے ایوب پر ایک کے بعد ایک آفت گزر رہی تھی۔‏ جب اُسکے تین دوستوں الیفز،‏ بلدد اور ضوفر کو یہ خبر ملی تو وہ ایوب کو تسلی دینے کیلئے اُسکے پاس آئے۔‏ (‏ایوب ۲:‏۱۱‏)‏ الیفز ان تینوں میں سے عمر اور حیثیت کے لحاظ سے بڑا تھا۔‏ اسلئے اُسی نے سب سے پہلے ایوب سے بات کرنا شروع کی اور اُس نے اپنے دوستوں کی نسبت زیادہ دیر تک بات بھی کی۔‏ آئیے دیکھتے ہیں کہ الیفز کی باتوں میں کس کی سوچ کی جھلک پائی جاتی ہے۔‏

الیفز ایک رویا کا ذکر کرتا ہے جو اُس نے دیکھا تھا۔‏ وہ کہتا ہے کہ ”‏ایک روح میرے سامنے سے گذری اور میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔‏ وہ چپ‌چاپ کھڑی ہو گئی پر مَیں اُسکی شکل پہچان نہ سکا۔‏ ایک صورت میری آنکھوں کے سامنے تھی اور سناٹا تھا۔‏ پھر مَیں نے ایک آواز سنی۔‏“‏ (‏ایوب ۴:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ الیفز کی سوچ پر کس قسم کی روح نے اثر کِیا تھا؟‏ جب ہم اُس روح کی باتوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ خدا کی سوچ نہیں رکھتی تھی۔‏ لہٰذا یہ روح خدا کا ایک فرشتہ نہیں تھا بلکہ اسے شیطان کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔‏ (‏ایوب ۴:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر خدا الیفز اور اُسکے ساتھیوں کو جھوٹی باتیں کرنے پر ٹوکتا کیوں؟‏ (‏ایوب ۴۲:‏۷‏)‏ جی‌ہاں،‏ الیفز کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شیطان کی سوچ میں پڑ گیا تھا۔‏

لیکن الیفز کیسے خیالات رکھتا تھا؟‏ ہمیں ایسی سوچ سے خبردار کیوں رہنا چاہئے؟‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم غلط سوچ میں نہ پڑیں؟‏

‏”‏اُسے اپنے خادموں کا اعتبار نہیں“‏

الیفز تین مرتبہ ایوب سے مخاطب ہوتا ہے۔‏ وہ باربار اس بات پر زور دیتا ہے کہ خدا اپنے بندوں کیساتھ سختی سے پیش آتا ہے۔‏ وہ اُن سے اتنے اونچے توقعات رکھتا ہے کہ وہ ان پر پورا نہیں اُتر سکتے۔‏ الیفز ایوب سے کہتا ہے کہ ”‏دیکھ اُسے اپنے خادموں کا اعتبار نہیں اور وہ اپنے فرشتوں پر حماقت کو عائد کرتا ہے۔‏“‏ (‏ایوب ۴:‏۱۸‏)‏ الیفز خدا کے بارے میں یہ بھی کہتا ہے:‏ ”‏دیکھ!‏ وہ اپنے قدسیوں کا اعتبار نہیں کرتا بلکہ آسمان بھی اُسکی نظر میں پاک نہیں۔‏“‏ (‏ایوب ۱۵:‏۱۵‏)‏ پھر الیفز ایوب سے پوچھتا ہے کہ ”‏کیا تیرے صادق ہونے سے قادرِمطلق کو کوئی خوشی ہے؟‏“‏ (‏ایوب ۲۲:‏۳‏)‏ بلدد اُس کی اس بات سے متفق تھا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏دیکھ!‏ چاند میں بھی روشنی نہیں اور تارے اُسکی نظر میں پاک نہیں۔‏“‏—‏ایوب ۲۵:‏۵‏۔‏

ایسی سوچ بہت خطرناک ہوتی ہے۔‏ جب ہم سوچنے لگتے ہیں کہ ہم اپنی تمام کوششوں کے باوجود خدا کی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکتے تو ہم خدا سے دُور ہو جاتے ہیں۔‏ ایسی صورتحال میں ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔‏ پھر جب ایک شخص ہمیں اپنی کسی غلطی کا احساس دلاتا ہے تو ہمارا ”‏دل [‏یہوواہ]‏ سے بیزار ہوتا ہے“‏ اور ہم اُسکی اصلاح کو قبول نہیں کرتے۔‏ (‏امثال ۱۹:‏۳‏)‏ واقعی ایسی سوچ یہوواہ خدا اور ہمارے بیچ میں ایک دیوار بن سکتی ہے۔‏

‏”‏کیا کوئی انسان خدا کے کام آ سکتا ہے؟‏“‏

ایوب سے تیسری بار مخاطب ہوتے ہوئے الیفز پوچھتا ہے کہ ”‏کیا کوئی انسان خدا کے کام آ سکتا ہے؟‏“‏ (‏ایوب ۲۲:‏۲‏)‏ الیفز یہ کہنا چاہتا ہے کہ خدا کے نزدیک انسان کی کوئی حیثیت نہیں۔‏ خدا انسان کے ہر کام کا عیب نکالتا ہے۔‏ اسی طرح بلدد بھی سوال کرتا ہے کہ ”‏انسان کیونکر خدا کے حضور راست ٹھہر سکتا ہے؟‏ یا وہ جو عورت سے پیدا ہوا ہے کیونکر پاک ہو سکتا ہے؟‏“‏ (‏ایوب ۲۵:‏۴‏)‏ دراصل اُن دونوں کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر خدا کسی بھی انسان کو راست نہیں ٹھہراتا توپھر ایوب خود کو راست کیسے کہہ سکتا ہے؟‏

بعض لوگ خود کو بہت ہی حقیر،‏ بہت ہی چھوٹا خیال کرتے ہیں۔‏ شاید وہ اپنی پرورش،‏ دنیا کے دباؤ یا پھر نسلی تعصب کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنے بارے میں ایسی سوچ رکھتے ہیں۔‏ اسکے علاوہ شیطان بھی ہمارے اعتماد کو کچلنا چاہتا ہے۔‏ وہ جانتا ہے کہ اگر ہم سوچنے لگیں کہ خدا کی نظروں میں ہماری کوئی حیثیت نہیں تو ہم افسردگی کا شکار بن سکتے ہیں۔‏ اس سوچ میں پڑ کر ہم آہستہ آہستہ خدا سے دُور ہونے لگتے ہیں اور اُس سے پھر جانے کے خطرے میں ہوتے ہیں۔‏—‏عبرانیوں ۲:‏۱؛‏ ۳:‏۱۲‏۔‏

ہم بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے بھی افسردگی کا شکار ہو سکتے ہیں۔‏ کیونکہ اس حالت میں ہم خدا کی خدمت میں اتنا وقت نہیں لگا سکتے جتنا ہم اُس وقت لگاتے تھے جب ہم جوان اور تندرست تھے۔‏ لیکن ہمیں جان لینا چاہئے کہ شیطان ہی ہمیں یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ خدا ہماری کوششوں سے خوش نہیں ہے۔‏ اسلئے ہمیں ایسی سوچ سے خبردار رہنا چاہئے۔‏

غلط سوچ کو ترک کریں

شیطان ایوب پر طرح طرح کی آزمائشیں لاتا رہا۔‏ لیکن ان سب کے باوجود ایوب نے کہا کہ ”‏مَیں مرتے دم تک اپنی راستی کو ترک نہ کروں گا۔‏“‏ (‏ایوب ۲۷:‏۵‏)‏ ایوب کو خدا سے گہری محبت تھی۔‏ اسلئے اُس نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ خدا کا وفادار رہے گا۔‏ ایوب کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم غلط سوچ میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔‏ ہمیں خدا کی محبت کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے اور اس محبت کیلئے شکرگزاری کا احساس پیدا کرنا چاہئے۔‏ اور ہمیں خود بھی خدا سے گہری محبت رکھنی چاہئے۔‏ ایسا کرنے کیلئے خدا کے کلام کو پڑھنا اور اس پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔‏

مثال کے طور پر ہم یوحنا ۳:‏۱۶ کے الفاظ پر غور کر سکتے ہیں،‏ جہاں لکھا ہے:‏ ”‏خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا کو انسانوں سے گہری محبت ہے۔‏ اُسکے کلام میں درج واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ سے اپنے بندوں کیساتھ محبت سے پیش آتا رہا ہے۔‏ ان واقعات پر غور کرنے سے ہمارے دل میں خدا کیلئے محبت کا احساس بڑھے گا اور ہم غلط سوچ میں نہیں پڑیں گے۔‏

اس سلسلے میں چند مثالوں پر غور کیجئے۔‏ جب ابرہام کو پتہ چلا کہ یہوواہ خدا سدوم اور عمورہ کو تباہ کرنے والا ہے تو اُس نے آٹھ مرتبہ خدا سے اس عدالت کے بارے میں سوال کِیا۔‏ کیا اس پر یہوواہ اُس سے ناراض ہوا؟‏ ہرگز نہیں،‏ بلکہ اُس نے بڑی نرمی سے ابرہام کو تسلی دی۔‏ (‏پیدایش ۱۸:‏۲۲-‏۳۳‏)‏ سدوم کو تباہ کرنے سے پہلے خدا نے لوط اور اُسکے خاندان کو پہاڑوں میں بھاگ جانے کو کہا۔‏ لیکن لوط نے پہاڑوں کی بجائے ایک شہر میں پناہ لینے کی اجازت مانگی۔‏ اس پر یہوواہ نے کہا:‏ ”‏دیکھ مَیں اِس بات میں بھی تیرا لحاظ کرتا ہوں کہ اِس شہر کو جسکا تُو نے ذکر کِیا غارت نہیں کروں گا۔‏“‏ (‏پیدایش ۱۹:‏۱۸-‏۲۲‏)‏ ان دو واقعات پر غور کرنے کے بعد ہم جان جاتے ہیں کہ یہوواہ خدا مہربان اور رحیم ہے۔‏ وہ اپنے بندوں سے محبت رکھتا ہے اور اُنکے دُکھ‌درد کو سمجھتا ہے۔‏ وہ اپنے بندوں سے سختی سے پیش نہیں آتا اور نہ ہی انہیں حقیر جانتا ہے۔‏

شیطان کی اس سوچ کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جسکے مطابق خدا اپنے بندوں میں عیب نکالتا ہے؟‏ ہارون،‏ داؤد اور منسی کیساتھ ہونے والے واقعات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔‏ ہارون نے اپنی زندگی میں تین سنگین گُناہ کئے تھے۔‏ اُس نے ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنایا اور اپنے بھائی موسیٰ کی بُرائی کی۔‏ اسکے علاوہ اُس نے مریبہ کے چشمہ پر خدا کی بڑائی کرنے کی بجائے اپنی بڑائی کی۔‏ لیکن ان گُناہوں کے باوجود یہوواہ خدا نے جان لیا کہ ہارون دل کا اچھا ہے۔‏ اسلئے یہوواہ نے ہارون کو اُسکی موت تک سردارکاہن کے عہدے پر فائز رہنے دیا۔‏—‏خروج ۳۲:‏۳،‏ ۴؛‏ گنتی ۱۲:‏۱،‏ ۲؛‏ ۲۰:‏۹-‏۱۳‏۔‏

بادشاہ داؤد نے بھی اپنی حکمرانی کے دوران کئی سنگین گُناہ کئے۔‏ اُس نے زِنا کرنے کیساتھ ساتھ ایک بےقصور شخص کو قتل کروایا۔‏ اسکے علاوہ اُس نے خدا کی مرضی کے خلاف اسرائیل کا شمار بھی کروایا۔‏ لیکن داؤد ان گُناہوں کی وجہ سے بہت دُکھی تھا۔‏ اسلئے یہوواہ نے اُسے معاف کر دیا۔‏ اسکے علاوہ یہوواہ نے داؤد کی سلطنت کو ہمیشہ تک قائم رکھنے کا اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے داؤد کو اُسکی موت تک بادشاہ کے عہدے پر قائم رکھا۔‏—‏۲-‏سموئیل ۱۲:‏۹؛‏ ۱-‏تواریخ ۲۱:‏۱-‏۷‏۔‏

یہوداہ کے بادشاہ منسی نے نہ صرف مُلک میں جگہ جگہ بعلیم کیلئے مذبحے بنائے بلکہ یہوواہ کے گھر میں بھی اپنے دیوتاؤں کیلئے مذبحے کھڑے کئے۔‏ اُس نے اپنے بیٹوں کو آگ میں چلوایا اور وہ جادوگروں کا دوست بھی تھا۔‏ یہوواہ خدا نے اُسے اپنے دُشمن کے ہاتھوں اسیر ہونے دیا۔‏ لیکن جب منسی نے پورے دل سے یہوواہ سے معافی مانگی تو یہوواہ نے اُسے معاف کر دیا اور منسی کو دوبارہ سے یہوداہ کا بادشاہ بنا دیا۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۳۳:‏۱-‏۱۳‏)‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کا عیب نہیں نکالتا بلکہ اُنکو راست ٹھہراتا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ ہم اُسکی نظروں میں اہمیت رکھتے ہیں۔‏

الزام لگانے والا خود ملزم ثابت ہوا

شیطان نے خدا کے بارے میں جو جھوٹ پھیلائے ہیں یہ شیطان ہی کے بارے میں سچ ثابت ہوئے ہیں۔‏ خدا نہیں بلکہ شیطان انسانوں سے سختی سے پیش آتا ہے۔‏ یہ قدیم زمانے میں بُت‌پرستوں کی ایک رسم سے ظاہر ہوتا ہے۔‏ جب بنی‌اسرائیل یہوواہ خدا کی عبادت چھوڑ کر بُتوں کی پوجہ کرنے لگتے تھے تو وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو آگ میں جلاتے۔‏ یہوواہ خدا کو اس رسم سے گھن تھی۔‏ اُسکے دل میں ایسی رسم کا خیال تک نہ آیا تھا۔‏—‏یرمیاہ ۷:‏۳۱‏۔‏

اسکے علاوہ خدا نہیں بلکہ شیطان لوگوں کا عیب نکالتا ہے۔‏ مکاشفہ ۱۲:‏۱۰ میں کہا گیا ہے کہ شیطان ’‏ہمارے بھائیوں پر الزام لگانے والا ہے جو رات دن ہمارے خدا کے آگے اُن پر الزام لگایا کرتا ہے۔‏‘‏ لیکن یہوواہ خدا کے بارے میں زبورنویس یوں لکھتا ہے:‏ ”‏اَے [‏یاہ]‏!‏ اگر تُو بدکاری کو حساب میں لائے تو اَے [‏یہوواہ]‏!‏ کون قائم رہ سکے گا؟‏“‏ پھر وہ کہتا ہے کہ گُناہ بخشنا ’‏خدا کے ہاتھ میں ہے۔‏‘‏—‏زبور ۱۳۰:‏۳،‏ ۴‏۔‏

شیطانی سوچ کا خاتمہ

جب شیطان کو اُسکے فرشتوں سمیت آسمان سے نکال دیا گیا تھا تو خدا کے فرشتوں نے کتنی خوشی منائی ہوگی۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۷-‏۹‏)‏ اس واقعے کے بعد آسمان پر خدا کے فرشتوں پر شیطان کا اثر ختم ہو گیا تھا۔‏—‏دانی‌ایل ۱۰:‏۱۳‏۔‏

اسی طرح وہ وقت آنے والا ہے جب زمین پر بھی شیطان کا اثر ختم ہو جائے گا۔‏ جلد ہی ایک فرشتہ آسمان سے اُتر آئے گا۔‏ اُسکے ہاتھ میں اتھاہ‌گڑھے کی کُنجی اور ایک بڑی زنجیر ہوگی۔‏ وہ شیطان کو باندھ کر اُسے قید کر دے گا۔‏ پھر شیطان زمین پر رہنے والے لوگوں پر اثر نہیں کر سکے گا۔‏ (‏مکاشفہ ۲۰:‏۱-‏۳‏)‏ اسکے بعد زمین کے باشندے بھی خوشی منائیں گے۔‏

لیکن جب تک یہ سب کچھ واقع نہ ہو ہمیں غلط قسم کی سوچ میں پڑنے سے خبردار رہنا چاہئے۔‏ جب بھی ہمارے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں تو ہمیں اُس گہری محبت پر غور کرنا چاہئے جو یہوواہ خدا ہمارے لئے رکھتا ہے۔‏ جب ہم ایسا کریں گے تو ’‏خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے ہمارے دلوں اور خیالوں کو محفوظ رکھے گا۔‏‘‏—‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

ایوب نے اپنے ساتھیوں کی غلط سوچ کو ردّ کر دیا

‏[‏صفحہ ۲۸ پر تصویر]‏

لوط جان گیا کہ یہوواہ خدا کو اپنے بندوں سے ہمدردی ہے