اَے اولاد والو! آپ اپنے بچوں کیلئے کیسا مستقبل چاہتے ہیں؟
اَے اولاد والو! آپ اپنے بچوں کیلئے کیسا مستقبل چاہتے ہیں؟
”اَے نوجوانو اور کنواریو! . . . یہ سب خداوند کے نام کی حمد کریں۔“—زبور ۱۴۸:۱۲، ۱۳۔
۱. والدین اپنے بچوں کے لئے کیسی فکرمندی رکھتے ہیں؟
ایسے کونسے والدین ہیں جو اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں پریشان نہیں ہوتے؟ بچے کے اس دُنیا میں آنے سے پہلے ہی والدین اس کیلئے فکرمند ہونا شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں بچے کی صحت اور قدوقامت کی فکر ہوتی ہے۔ جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو والدین کی فکریں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ بہرحال، والدین اپنی اولاد کے دامن کو خوشیوں سے بھر دینا چاہتے ہیں۔—۱-سموئیل ۱:۱۱، ۲۷، ۲۸؛ زبور ۱۲۷:۳-۵۔
۲. آجکل کیوں بہتیرے والدین اپنے بچوں کیلئے خوشحال زندگی کی خواہش رکھتے ہیں؟
۲ آجکل کی دُنیا میں والدین کے لئے اپنے بچوں کے دامن کو خوشیوں سے بھر دینا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ بہتیرے والدین نے زندگی میں جنگوں، سیاسی تبدیلیوں، معاشی مشکلات، جسمانی یا جذباتی پریشانیوں وغیرہ کا تجربہ کِیا ہے۔ قدرتی بات ہے کہ یہ اُنکی دلی خواہش ہے کہ جن مشکلات کا سامنا انہیں کرنا پڑا ہے وہ اُنکے بچوں پر نہ آئیں۔ دُنیا کے ترقییافتہ ممالک میں رہنے والے لوگ اپنے دوستوں اور رشتہداروں کے بچوں کو ترقی کرتا ہوا دیکھ کر اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہ اُنکے بچے بھی بڑے ہوکر کسی حد تک خوشحال اور اچھی زندگی گزاریں۔—واعظ ۳:۱۳۔
خوشحال زندگی کا انتخاب کرنا
۳. مسیحیوں نے کونسا انتخاب کِیا ہے؟
۳ یسوع مسیح کے شاگردوں کے طور پر، مسیحیوں نے اپنی زندگی یہوواہ کیلئے مخصوص کرنے کا انتخاب کِیا ہے۔ اُنہوں نے یسوع کی اس بات پر سنجیدگی کیساتھ غور کِیا ہے: ”اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی سے انکار کرے اور ہر روز اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے۔“ لوقا ۹:۲۳؛ ۱۴:۲۷) جیہاں، ایک مسیحی کی زندگی حقیقت میں خودایثاری کی زندگی ہے۔ تاہم، یہ زندگی اُسے کسی چیز سے محروم کرنے والی اور مصیبتبھری زندگی نہیں ہے۔ اسکے برعکس، یہ مطمئن زندگی ہے۔ یہ خوشحال زندگی ہے کیونکہ یسوع کی بات کے مطابق اس میں دینا شامل ہے۔ اُس نے خود فرمایا ہے: ”دینا لینے سے مبارک ہے۔“—اعمال ۲۰:۳۵۔
(۴. یسوع نے اپنے شاگردوں کو کیا کرنے کا حکم دیا؟
۴ یسوع کے دنوں میں لوگ مشکل حالات میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ انہیں رومی حکومت کے ظلم اور اُس زمانے کی رسموں پر چلنے والے مذہبپرستوں کے بوجھ کو بھی برداشت کرنا پڑا تھا۔ (متی ۲۳:۲-۴) اسکے باوجود، بہتیروں نے یسوع کی بات پر دھیان دیا۔ اُنہوں نے خوشی کیساتھ ذاتی مفادات یہانتککہ اپنے پیشے کو بھی ترک کر دیا اور اُسکے شاگرد بن گئے۔ (متی ۴:۱۸-۲۲؛ ۹:۹؛ کلسیوں ۴:۱۴) کیا وہ شاگرد اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا رہے تھے؟ یسوع کی بات پر غور کریں: ”جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یا بچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اُسکو سو گُنا ملے گا اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوگا۔“ (متی ۱۹:۲۹) یسوع نے اپنے شاگردوں کو یقین دلایا کہ آسمانی باپ اُنکی ضروریات کو جانتا ہے۔ اس نے اُنہیں تاکید کی: ”تُم پہلے اُسکی بادشاہی اور اُسکی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تمکو مل جائیں گی۔“—متی ۶:۳۱-۳۳۔
۵. بعض والدین یسوع کی اس یقیندہانی کی بابت کیسا محسوس کرتے ہیں کہ خدا اپنے خادموں کی فکر کرے گا؟
۵ آجکل بھی حالتیں ویسی ہی ہیں۔ یہوواہ ہماری ضروریات جانتا ہے اور جو لوگ اپنی زندگی میں بادشاہتی مفادات کو پہلا درجہ دیتے ہیں، خاصکر کُلوقتی خدمت کو اختیار کرتے ہیں انہیں یہ یقیندہانی حاصل ہے کہ وہ انکی فکر کرتا ہے۔ (ملاکی ۳:۶، ۱۶؛ ۱-پطرس ۵:۷) تاہم، بعض والدین اس سلسلے میں مختلف خیال رکھتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ اپنے بچوں کو یہوواہ کی خدمت میں ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں جس میں کُلوقتی خدمت کو اختیار کرنا شامل ہو سکتا ہے۔ لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ آجکل نوکریاں ملنا دنبدن مشکل ہوتا جا رہا ہے تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ نوجوانوں کو پہلے اچھی تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسطرح انہیں اچھی نوکری کیلئے ضروری اہلیت یا کمازکم کچھ لیاقت تو ضرور حاصل ہو جائے گی۔ ایسے والدین جب اچھی تعلیم کی بات کرتے ہیں تو انکا مطلب اعلیٰ تعلیم ہوتا ہے۔
مستقبل کی تیاری کرنا
۶. مینارِنگہبانی کے اس مضمون میں ”اعلیٰ تعلیم“ سے مُراد کونسی تعلیم ہے؟
۶ ہر مُلک کا اپنا تعلیمی نظام ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان میں دسویں کلاس تک بنیادی تعلیم ہے۔ اسکے بعد، طالبعلم مزید چار یا اس سے زیادہ سال کیلئے کالج یا یونیورسٹی جانے کا انتخاب کر سکتا ہے۔ وہ بی. اے یا بی. کام یا بی. ایس. سی کی ڈگری حاصل کر سکتا یا اس کے بعد پیشے کے لئے طب، قانون، انجینئرنگ وغیرہ میں ماسٹر یا ڈاکٹریٹ کر سکتا ہے۔ مینارِنگہبانی کے اس مضمون میں ”اعلیٰ تعلیم“ سے مُراد یونیورسٹی کی یہی تعلیم ہے۔ اسکے دوسری جانب، ٹیکنیکل سکول بھی ہوتے ہیں جو مختصر مدت کیلئے کورسز کراتے اور کسی کاروبار یا کام میں سند یا ڈپلومہ دیتے ہیں۔
۷. ہائی سکول میں طالبعلموں پر کس قسم کا دباؤ ہوتا ہے؟
۷ آجکل ثانوی سکول یا کالجوں کا رُجحان اپنے طالبعلموں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے تیار کرنا ہے۔ اس مقصد کے لئے زیادہتر ہائی سکول اعلیٰ تعلیمی مضامین پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں تاکہ طالبعلم یونیورسٹی کے امتحانوں میں بیٹھنے کے لئے اچھے نمبر حاصل کریں۔ وہ ایسے کورسز پر توجہ نہیں دیتے جو طالبعلموں کو ملازمت کیلئے لیس کر سکیں۔ آجکل ہائی سکول کے طالبعلموں پر ٹیچروں، مشیروں اور ساتھی طالبعلموں کا بہت زیادہ دباؤ ہے کہ انکا اندراج بہترین یونیورسٹیوں میں ہونا چاہئے۔ جہاں انہیں ایسی ڈگریاں حاصل ہو جو انہیں پُرکشش اور اچھی تنخواہ والی نوکریاں دلائے۔
۸. مسیحی والدین کو کونسے انتخاب کرنے پڑتے ہیں؟
۸ ایسی صورتحال میں مسیحی والدین کیا کرتے ہیں؟ بیشک، وہ چاہتے ہیں کہ انکے بچے سکول میں کامیاب ہوں اور مستقبل کیلئے ضروری مہارتیں حاصل کریں۔ (امثال ۲۲:۲۹) لیکن کیا اُنہیں اپنے بچوں کو مادی ترقی اور کامیابی کیلئے مقابلہبازی کے جذبے سے اثرپذیر ہونے دینا چاہئے؟ وہ اپنے قولوفعل سے بچوں کی کس قسم کے نشانے قائم کرنے کی حوصلہافزائی کرتے ہیں؟ بعض والدین کافی محنت سے پیسہ جمع کرتے ہیں تاکہ وقت پڑنے پر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھیج سکیں۔ بعض والدین تو اس مقصد کے لئے قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ تاہم، ایسے فیصلے کے نفعونقصان کا اندازہ پیسے سے نہیں لگایا جا سکتا۔ آجکل اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے کونسی قیمت چکانی پڑتی ہے؟—لوقا ۱۴:۲۸-۳۳۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی قیمت
۹. آجکل اعلیٰ تعلیم کی مالی قیمت کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟
۹ جب ہم قیمت کی بات کرتے ہیں تو ہم عام طور پر مالی اخراجات کی بابت سوچتے ہیں۔ بعض ممالک میں، حکومتیں اعلیٰ تعلیم کی معاونت کرتی ہیں اور لائق طالبعلموں کو فیس ادا نہیں کرنی پڑتی۔ تاہم، بعض ممالک میں، اعلیٰ تعلیم بہت مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ ایک اخبار کے مطابق، ”اعلیٰ تعلیم کو کامیابیوں کا دروازہ خیال کِیا جاتا ہے۔ فیزمانہ اعلیٰ تعلیم دولتمند ہونے اور نہ ہونے میں پائی جانے والی خلیج کی تصدیق کر رہی ہے۔“ دیگر الفاظ میں، اعلیٰ تعلیم دولتمندوں اور اثرورسوخ رکھنے والوں کیلئے بڑی تیزی کیساتھ توجہ کا مرکز بن رہی ہے۔ یہ دولتمند اپنے بچوں کو اسلئے اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں کہ اُنکے بچے بھی دُنیا کے امیرترین اور اثرورسوخ رکھنے والے اشخاص بن جائیں۔ کیا مسیحی والدین کو اپنے بچوں کیلئے ایسے نشانوں کا انتخاب کرنا چاہئے؟—فلپیوں ۳:۷، ۸؛ یعقوب ۴:۴۔
۱۰. اعلیٰ تعلیم اس نظام کو ترقی دینے سے کیسے تعلق رکھتی ہے؟
۱۰ جہاں اعلیٰ تعلیم مُفت دستیاب ہے وہاں بھی خاص ذمہداریاں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، انگریزی کے ایک جریدے کی رپورٹ کے مطابق ایک جنوبمشرقی ایشیائی مُلک میں حکومت ”ایسے طریقے سے سکول چلاتی ہے جو ارادتاً بہترین طالبعلموں کو اعلیٰ مقام تک پہنچنے کی تحریک دیتے ہیں۔“ ”اعلیٰ مقام“ کا مطلب دُنیا کے بڑے اداروں میں مقام حاصل کرنا ہے۔ اس میں انگلستان میں اوکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی، امریکہ میں ہارورڈ اور یئل یونیورسٹیوں اور دیگر سکولوں اور کالجوں میں داخلہ لینا شامل ہے۔ حکومت اتنے لمبے پروگرام کیوں فراہم کرتی ہے؟ ایک رپورٹ کے مطابق، ”ملک کی معیشت کو دھکا دینے کیلئے۔“ تعلیم تو مُفت ہو سکتی ہے لیکن جو قیمت طالبعلموں کو چکانی پڑتی ہے وہ موجودہ نظام کو ترقی دینے میں مگن ہو جانا ہے۔ اگرچہ دُنیا میں ایسے طرزِزندگی کے پیچھے بھاگا جاتا ہے توبھی کیا مسیحی والدین اپنے بچوں کیلئے یہی کچھ چاہتے ہیں؟—یوحنا ۱۵:۱۹؛ ۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷۔
۱۱. یونیورسٹی کے طالبعلموں میں شرابنوشی اور جنسی بداخلاقی کی بابت رپورٹیں کیا ظاہر کرتی ہیں؟
۱۱ اسکے بعد ان جگہوں کے ماحول پر غور کریں۔ یونیورسٹی اور کالج کیمپس بُرے کاموں کیلئے بدنام ہیں۔ اس میں منشیات اور شرابنوشی، بداخلاقی، بددیانتی اور نئے داخل ہونے والے طالبعلموں کو پریشان کرنے کے علاوہ بہتیرے اَور کام شامل ہیں۔ ذرا شرابنوشی پر غور کریں۔ پارٹیوں میں شرابنوشی کرنے پر رپورٹ دیتے ہوئے انگریزی کے ایک رسالے نے بیان کِیا: ”تقریباً ۴۴ فیصد [امریکہ میں یونیورسٹی طالبعلم] دو ہفتوں میں کم ازکم ایک مرتبہ ایسی شرابنوشی میں ملوث ہوتے ہیں۔“ آسڑیلیا، برطانیہ، روس اور دیگر ممالک میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ جہاں تک جنسی بداخلاقی کا تعلق ہے تو طالبعلموں میں ”ایک رات کی بات“ عام ہے جسے ایک رسالے کی رپورٹ کے مطابق ”ایک مرتبہ اتفاقاً جنسی ملاقات بیان کِیا گیا ہے۔ یہ ملاقات ایسے واقفکاروں کے ۱-کرنتھیوں ۵:۱۱؛ ۶:۹، ۱۰۔
درمیان بوسوکنار سے لیکر مباشرت تک ہو سکتی ہے جو اسکے بعد ایک دوسرے کیساتھ بات تک کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔“ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ۶۰ تا ۸۰ فیصد طالبعلم اس قسم کے کاموں میں ملوث ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، ”اگر آپ کالج کے طالبعلم ہیں تو آپ ایسا ضرور کریں گے۔“—۱۲. طالبعلموں کو کس قسم کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
۱۲ بُرے ماحول کے علاوہ، سکول کے کام اور امتحانوں کا دباؤ بھی ہوتا ہے۔ یہ فطرتی بات ہے کہ طالبعلموں کو امتحان پاس کرنے کیلئے پڑھائی کرنے اور ہومورک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض طالبعلم پڑھائی کیساتھ ساتھ جزوقتی نوکری بھی کرتے ہیں۔ یہ سب بہت زیادہ وقت اور توانائی کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد روحانی کارگزاریوں کیلئے کتنا وقت بچتا ہے؟ جب دباؤ بڑھتا ہے تو کس چیز کو ترک کر دیا جاتا ہے؟ کیا اس وقت بھی بادشاہتی مفادات پہلا درجہ رکھتے ہیں یا پھر انہیں ترک کر دیا جاتا ہے؟ (متی ۶:۳۳) بائبل مسیحیوں کو تاکید کرتی ہے: ”غور سے دیکھو کہ کسطرح چلتے ہو۔ نادانوں کی طرح نہیں بلکہ داناؤں کی مانند چلو۔ اور وقت کو غنیمت جانو کیونکہ دن بُرے ہیں۔“ (افسیوں ۵:۱۵، ۱۶) کتنے افسوس کی بات ہے کہ بعض ایمان سے گِر چکے ہیں! اسکی وجہ یہ تھی کہ کالج نے انکا بہت سا وقت اور توانائی لے لی یا وہ وہاں غیرصحیفائی چالچلن میں پڑ گئے!
۱۳. مسیحی والدین کو کن سوالات پر غور کرنا چاہئے؟
۱۳ بیشک، بداخلاقی، بُرا طرزِعمل اور دباؤ صرف کالج یا یونیورسٹی کیمپس تک ہی محدود نہیں ہے۔ بہتیرے دُنیاوی نوجوان ایسی باتوں کو محض تعلیم کا حصہ سمجھتے ہیں اور اسے قابلِقبول خیال کرتے ہیں۔ کیا مسیحی والدین کو اس سب کے باوجود اپنے بچوں کو ایسے ماحول میں چار یا اس سے زیادہ سالوں کیلئے چھوڑ دینا چاہئے؟ (امثال ۲۲:۳؛ ۲-تیمتھیس ۲:۲۲) کیا اعلیٰ تعلیم سے حاصل ہونے والے فوائد کی خاطر یہ خطرہ مول لینے کا جواز بنتا ہے؟ سب سے بڑھکر، نوجوانوں کو کالج یا یونیورسٹی میں جوکچھ سکھایا جا رہا ہے کیا وہ انکی زندگیوں میں مقدم ہونا چاہئے؟ (فلپیوں ۱:۱۰؛ ۱-تھسلنیکیوں ۵:۲۱) والدین کو ان سوالات پر سنجیدگی سے دُعائیہ غوروفکر کرنا چاہئے۔ انہیں اپنے بچوں کو کسی دوسرے شہر یا مُلک بھیجنے کے خطرات پر بھی غور کرنا چاہئے۔
اعلیٰ تعلیم کا متبادل؟
۱۴، ۱۵. (ا) مقبولِعام رائے کے برعکس، آجکل کس بائبل مشورت کا اطلاق ہوتا ہے؟ (ب) نوجوان خود سے کونسے سوال پوچھ سکتے ہیں؟
۱۴ آجکل، مقبولِعام رائے یہ ہے کہ نوجوانوں کو کامیاب ہونے کیلئے صرف اور صرف یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔ تاہم، مسیحی مقبولِعام رائے پر چلنے کی بجائے بائبل کی نصیحت پر دھیان دیتے ہیں: ”اس جہاں کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔“ (رومیوں ۱۲:۲) اس اخیر زمانے میں نوجوانوں اور عمررسیدہ اشخاص کیلئے خدا کی کیا مرضی ہے؟ پولس نے تیمتھیس کو تاکید کی: ”تُو سب باتوں میں ہوشیار رہ۔ دُکھ اُٹھا۔ بشارت کا کام انجام دے۔ اپنی خدمت کو پورا کر۔“ یہ الفاظ ہم سب پر عائد ہوتے ہیں۔—۲-تیمتھیس ۴:۵۔
۱۵ اس دُنیا کی مادہپرستانہ روح کی گرفت میں آنے کی بجائے ہم سب کو ”ہوشیار“ رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں روحانی رُجحان برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ نوجوان ہیں تو خود سے پوچھیں: کیا مَیں ”اپنی خدمت کو پورا“ کرنے کیلئے پوری کوشش کر رہا ہوں تاکہ مَیں خدا کے کلام کا لائق خادم بن سکوں؟ اپنی خدمت کو ”پورا“ کرنے کیلئے میرا کیا عزم ہے؟ کیا مَیں نے کُلوقتی خدمت کو ایک پیشے کے طور پر اختیار کرنے کے بارے میں سوچا ہے؟ یہ سوال خاصکر اُس وقت مشکل ہو سکتے ہیں جب آپ دوسرے نوجوانوں کو خودغرضانہ حاصلات میں مگن اور ”امورِعظیم کی تلاش“ کرتے دیکھتے ہیں۔ اُنکے خیال میں یہ چیزیں ان کے مستقبل کو روشن بنائیں گی۔ (یرمیاہ ۴۵:۵) لہٰذا، مسیحی والدین دانشمندی سے اپنے بچوں کیلئے بچپن سے اچھا روحانی ماحول اور تربیت فراہم کرتے ہیں۔—امثال ۲۲:۶؛ واعظ ۱۲:۱؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱۴، ۱۵۔
۱۶. مسیحی والدین دانشمندی سے اپنے بچوں کیلئے درست قسم کا روحانی ماحول کیسے فراہم کر سکتے ہیں؟
۱۶ ایک مسیحی خاندان میں تین لڑکے تھے۔ انکی ماں کئی سالوں سے کُلوقتی خدمت کر رہی تھی۔ اس خاندان کا بڑا بیٹا یاد کرتا ہے: ”ہماری ماں ہماری رفاقت پر بڑی نظر رکھتی تھی۔ ہم اپنے ہممکتبوں کیساتھ رفاقت نہیں رکھتے تھے۔ ہم صرف کلیسیا کے روحانی عادات کے مالک بہنبھائیوں کیساتھ رفاقت رکھتے تھے۔ ہماری ماں کُلوقتی خادموں یعنی مشنریوں، سفری نگہبانوں، برانچ دفتر میں کام کرنے والوں اور پائنیروں کو گھر میں بلایا کرتی تھیں۔ انکے تجربات سننے اور انکی خوشی کو دیکھنے سے ہمارے دلوں میں کُلوقتی خدمت کی خواہش پیدا ہوئی۔“ کسقدر خوشی کی بات ہے کہ آجکل اس بہن کے تینوں بیٹے کُلوقتی خادم ہیں۔ ان میں سے ایک یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر میں کام کر رہا ہے، دوسرے نے منسٹریل ٹریننگ سکول سے تربیت حاصل کی ہے اور تیسرا پائنیر خدمت کر رہا ہے۔
۱۷. والدین کو سکول کے مضامین اور فنی مہارتوں کے انتخاب میں کیسی ہدایت فراہم کرنی چاہئے؟ (صفحہ ۲۹ پر بکس دیکھیں۔)
۱۷ اچھا روحانی ماحول فراہم کرنے کے علاوہ، والدین کو سکول کے مضامین اور فنی مہارتوں کے انتخاب میں جتنی جلدی ممکن ہو مناسب
ہدایت فراہم کرنی چاہئے۔ ایک اَور نوجوان جو اس وقت یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر میں کام کر رہا ہے بیان کرتا ہے: ”میرے امی اور ابو نے شادی کرنے سے پہلے اور بعد میں پائنیر خدمت کی۔ اُنہوں نے سارے خاندان میں پائنیر جذبہ پیدا کرنے کیلئے پوری کوشش کی۔ جب کبھی ہم سکول کے مضامین کا انتخاب کرتے یا اپنے مستقبل کے سلسلے میں فیصلے کرتے تو وہ ہماری حوصلہافزائی کرتے کہ زندگی میں ایسا فیصلہ کریں جس سے ہمیں جزوقتی کام کیساتھ ساتھ پائنیر خدمت کرنے کا موقع بھی مل سکے۔“ یونیورسٹی کی طرف لیجانے والے اعلیٰ تعلیمی مضامین چننے کی بجائے، والدین اور بچوں کو ایسے مضامین کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہے جو خدا کی خدمت کرنے کے اہم کام میں مفید ثابت ہو سکیں۔۱۸. نوجوان کن نوکریوں کے متعلق سوچ سکتے ہیں؟
۱۸ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ بہتیرے ممالک میں، یونیورسٹی گریجوئٹس کی بجائے محنت مزدوری کرنے والوں کی سخت ضرورت ہے۔ انگریزی کے ایک رسالے کے مطابق، ”آئندہ سالوں میں کام کرنے والے ۷۰ فیصد لوگوں کو چار سالہ کالج کی ڈگری کی بجائے ہائی سکول کے سرٹیفکیٹ یا کسی قسم کے ٹیکنیکل سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوگی۔“ ایسے بہتیرے ادارے شارٹ کورس کرواتے ہیں۔ ان کورسز میں دفتری اُمور، گاڑی کی مرمت، کمپیوٹر کی مرمت، پلمبر کا کام، اور حجام کے علاوہ دیگر کام سکھائے جاتے ہیں۔ کیا یہ پسندیدہ کام ہیں؟ یقیناً! شاید ان میں اتنی کشش نہ ہو جیسا بعض نے تصور کِیا ہو، لیکن یہ وسائل ضرور فراہم کرتے ہیں۔ مزیدبرآں، ان کاموں میں سہولت بھی دستیاب ہوتی ہے کہ کوئی اپنی مرضی سے کتنے گھنٹے کام کرنا چاہتا ہے۔ یہوواہ کی خدمت کرنے والے ایسا ہی چاہتے ہیں۔—۲-تھسلنیکیوں ۳:۸۔
۱۹. کونسی روش خوشی اور تسکین بخشتی ہے؟
۱۹ ”اَے نوجوانو اور کنواریو!“ بائبل کہتی ہے، ”یہ سب [یہوواہ] کے نام کی حمد کریں۔ کیونکہ صرف اُسی کا نام ممتاز ہے۔ اُسکا جلال زمین اور آسمان سے بلند ہے۔“ (زبور ۱۴۸:۱۲، ۱۳) جو مقام اور اَجر دُنیا پیش کرتی ہے ذرا اسکا مقابلہ یہوواہ کی کُلوقتی خدمت سے کریں۔ یہ خدمت یقیناً خوشی اور تسکین بخشتی ہے۔ بائبل کی یقیندہانی پر سنجیدگی سے غور کریں: ”خداوند ہی کی برکت دولت بخشتی ہے اور وہ اُسکے ساتھ دُکھ نہیں ملاتا۔“—امثال ۱۰:۲۲۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• محفوظ مستقبل کیلئے مسیحی کس پر بھروسا رکھتے ہیں؟
• اپنے بچوں کے مستقبل کے سلسلے میں مسیحی والدین کن مشکلات کا سامنا کرتے ہیں؟
• اعلیٰ تعلیم کے فوائد اور نقصانات کے سلسلے میں مسیحیوں کو کس بات پر غور کرنا چاہئے؟
• مسیحی والدین یہوواہ کی خدمت کو ایک پیشہ بنانے میں اپنے بچوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۹ پر بکس]
اعلیٰ تعلیم کی قدروقیمت
بیشتر لوگ یونیورسٹی میں اس لئے داخلہ لیتے ہیں کہ وہ ایک ڈگری لینے کے اُمیدوار ہوتے ہیں جو انہیں اچھی تنخواہ والی نوکری عطا کرے گی۔ حکومتی رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ کالج جانے والوں کا تقریباً ۲۵ فیصد چھ سال میں ڈگری حاصل کرتا ہے۔ کامیابی کا یہ تناسب مایوسکُن ہے۔ کیا ڈگری حاصل کرنے والے ہر شخص کو اچھی نوکری مل جاتی ہے؟ غور کریں کہ حالیہ تحقیق کیا ظاہر کرتی ہے۔
”ہارورڈ یا ڈیوک یونیورسٹی میں جانے سے خودبخود اچھی نوکری نہیں مل جاتی۔ . . . کمپنیاں نوکری کے خواہشمند نوجوان کے متعلق نہیں جانتی ہیں۔ اگرچہ ایک اچھی ڈگری متاثرکُن تو ہو سکتی ہے توبھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ لوگ اسکے بعد کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے۔“—نیوزویک، نومبر ۱، ۱۹۹۹۔
”آجکل ماضی کی نسبت ایک خاص نوکری کیلئے اعلیٰ مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ . . . ان نوکریوں کے لئے درکار مہارتیں ہائی سکول کی سطح کی مہارتیں ہیں جن میں نویں کلاس کی سطح کی ریاضی اور پڑھائی لکھائی شامل ہے۔ کالج کی سطح کی مہارتیں نہیں۔ . . . طالبعلموں کو اچھی نوکری حاصل کرنے کیلئے کالج جانے کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں ہائی سکول کی سطح کی مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔“—امریکن ایجوکیٹر، سپرنگ ۲۰۰۴۔
”بیشتر کالج طالبعلموں کو کالج کے بعد، دُنیا میں کام کرنے کے لائق بنانے کے سلسلے میں حقیقتپسندی سے کام نہیں لیتے۔ ٹیکنیکل سکول . . . اچانک سے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ انکا اندراج ۱۹۹۶ سے ۲۰۰۰ تک ۴۸ فیصد بڑھ گیا ہے۔ . . . دریںاثنا، زیادہ وقت لینے والے کالج ڈپلوموں کی قدروقیمت گھٹتی جا رہی ہے۔“—ٹائم، جنوری ۲۴، ۲۰۰۵۔
”یو.ایس ڈیپارٹمنٹ آف لیبر نے سال ۲۰۰۵ کے دوران ہولناک امکان کو ظاہر کِیا کہ چار سالہ کالج کی ڈگری والے ایک تہائی طالبعلموں کو انکی ڈگری کے مطابق نوکری نہیں مل سکے گی۔“—دی فیوچرسٹ، جولائی/اگست ۲۰۰۰۔
اس تمام کے پیشِنظر، زیادہ سے زیادہ طالبعلم آجکل اعلیٰ تعلیم کی قدروقیمت کی بابت شکوک کا شکار ہو رہے ہیں۔ رسالہ فیوچرسٹ افسوس کیساتھ بیان کرتا ہے: ”ہم نامناسب نشانوں کیلئے لوگوں کی تربیت کر رہے ہیں۔“ اسکے برعکس، غور کریں کہ بائبل خدا کی بابت کیا بیان کرتی ہے: ”مَیں ہی خداوند تیرا خدا ہوں جو تجھے مفید تعلیم دیتا ہوں اور تجھے اُس راہ میں جس میں تجھے جانا ہے لے چلتا ہوں۔ کاش کہ تو میرے احکام کا شنوا ہوتا اور تیری سلامتی نہر کی مانند اور تیری صداقت سمندر کی موجوں کی مانند ہوتی۔“—یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸۔
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
وہ اپنے ذاتی کام چھوڑ کر یسوع کے پیچھے ہو لئے
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
مسیحی والدین دانشمندی سے اپنے بچوں کو بچپن سے اچھا روحانی ماحول فراہم کرتے ہیں