مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

میرے والدین کے نمونے نے مجھے مضبوط کِیا

میرے والدین کے نمونے نے مجھے مضبوط کِیا

میری کہانی میری زبانی

میرے والدین کے نمونے نے مجھے مضبوط کِیا

از یانیز ریکل

یہ ۱۹۵۸ کی بات ہے۔‏ مَیں اور میری بیوی ستانکا یوگوسلاویہ اور آسٹریا کی مشترکہ سرحد پر واقع کاراوانکن کے پہاڑوں پر کھڑے تھے۔‏ ہم یوگوسلاویہ کی سرحد پار کرکے آسٹریا جانے کی کوشش کر رہے تھے۔‏ ایسا کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا کیونکہ یوگوسلاویہ کے سرحدی فوجیوں نے اس بات کا عزم کر رکھا تھا کہ وہ کسی کو بھی سرحد پار نہیں کرنے دیں گے۔‏ چلتے چلتے ہم پہاڑ کے کنارے پر پہنچ گئے جہاں سے ہم نیچے گر سکتے تھے۔‏ ستانکا اور مَیں نے آسٹریا کے پہاڑوں کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔‏ ہم مشرقی سمت میں تب تک چلتے رہے جبتک ہم ایک ناہموار اور پتھریلی ڈھلوان تک نہ پہنچ گئے۔‏ جو ترپال ہم نے اُٹھا رکھا تھا اسے ہم نے اپنے اُوپر لپیٹ لیا۔‏ اسکے بعد پھسلتے ہوئے ہم پہاڑ سے نیچے کی طرف چلے گئے۔‏ ہم اس بات سے بےخبر تھے کہ ہمارے ساتھ کیا واقع ہوگا۔‏

آئیے مَیں آپکو بتاتا ہوں کہ ہم اس صورتحال میں کیسے پڑ گئے اور میرے والدین کے ایمان نے مجھے مشکل اوقات میں یہوواہ کا وفادار رہنے کی تحریک کیسے دی۔‏

میری پرورش یورپ کے ایک چھوٹے سے مُلک سلووینیا میں ہوئی۔‏ یہ یورپ کے پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔‏ اسکے مشرق میں ہنگری،‏ مغرب میں اٹلی،‏ شمال میں آسٹریا اور جنوب میں کروشیا واقع ہے۔‏ تاہم،‏ جب میرے والدین فرانٹس اور روزیلیا ریکل سلووینیا میں پیدا ہوئے تو اُس وقت وہ آسٹرو ہنگرین حکومت کا حصہ تھا۔‏ پہلی جنگِ‌عظیم کے خاتمے پر سلووینیا ایک نئی ریاست کا حصہ بن گیا جو سربوں،‏ کروشیوں اور سلووینیوں کی سلطنت کہلانے لگی۔‏ سن ۱۹۲۹ میں،‏ اس مُلک کا نام بدل کر یوگوسلاویہ یعنی جنوبی سلاویہ رکھ دیا گیا۔‏ مَیں اسی سال جنوری ۹ کو بلیڈ کی خوبصورت جھیل کے قریب واقع ایک گاؤں پوڈہوم میں پیدا ہوا۔‏

میری والدہ نے ایک کیتھولک گھرانے میں پرورش پائی تھی۔‏ اُنکے ایک چچا پادری تھے اور تین پھوپھیاں راہبائیں تھیں۔‏ میری والدہ کی شدید خواہش تھی کہ اسکے پاس اپنی بائبل ہو جسے وہ پڑھ اور سمجھ سکے۔‏ جبکہ میرے والد مذہب میں خاص دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔‏ انہیں پہلی جنگِ‌عظیم میں مذہب کی شمولیت کی وجہ سے مذہب سے چڑ ہو گئی تھی۔‏

سچائی سیکھنا

جنگ کے کچھ عرصہ بعد میری والدہ کا کزن جینز براجیک اور اُسکی بیوی اینکا بائبل سٹوڈنٹس بن گئے۔‏ اُس وقت یہوواہ کے گواہ اسی نام سے پہچانے جاتے تھے۔‏ اُس وقت وہ آسٹریا میں رہتے تھے۔‏ تقریباً ۱۹۳۶ سے اینکا کئی مرتبہ میری والدہ سے ملنے آئی۔‏ اُس نے میری والدہ کو سلوونین زبان میں ایک بائبل،‏ مینارِنگہبانی اور دیگر مطبوعات دیں جنہیں میری والدہ نے جلد ہی پڑھ لیا۔‏ سن ۱۹۳۸ میں جب ہٹلر نے آسٹریا پر قبضہ کر لیا تو جینز اور اینکا واپس سلووینیا چلے گئے۔‏ مجھے یاد ہے کہ وہ دونوں میاں‌بیوی یہوواہ خدا سے حقیقی محبت رکھنے کے علاوہ،‏ پڑھے لکھے اور سمجھدار تھے۔‏ وہ اکثر میری والدہ کیساتھ بائبل سچائیوں کے بارے میں بات‌چیت کرتے تھے۔‏ اسی وجہ سے میری والدہ کو اپنی زندگی یہوواہ خدا کیلئے مخصوص کرنے کی تحریک ملی۔‏ اُنہوں نے ۱۹۳۸ میں بپتسمہ لیا۔‏

میری والدہ کے غیرصحیفائی عقائد اور رسوم جیسےکہ کرسمس منانے،‏ ساسیج (‏ایسا گوشت جس میں خون ملا ہوتا ہے)‏ کھانے سے انکار کرنے اور خاص طور پر گھر میں موجود علامتوں اور تصویروں کو جلانے سے علاقے میں ہلچل مچ گئی۔‏ بہت جلد اسے مخالفت کا سامنا ہونے لگا۔‏ امی کی اُن پھوپھیوں نے اُسے خط لکھے جو راہبائیں تھیں۔‏ اُنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ واپس مریم کی پرستش شروع کر دے اور کیتھولک چرچ میں چلی جائے۔‏ تاہم،‏ جب امی نے خط کے ذریعے اُن سے بائبل سوالات کے جواب پوچھے تو اُنہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔‏ میرے نانا نے بھی میری والدہ کی سخت مخالفت کی۔‏ بذاتِ‌خود تو وہ اچھے شخص تھے۔‏ لیکن اُنہیں برادری اور رشتہ‌داروں کی طرف سے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا تھا۔‏ اسلئے اُنہوں نے کئی مرتبہ امی کا بائبل لٹریچر پھاڑ دیا لیکن اُنکی بائبل کو ہاتھ نہیں لگایا۔‏ اُنہوں نے میری والدہ سے چرچ واپس آنے کیلئے بہت منت‌سماجت کی۔‏ یہانتک کہ اُنہوں نے امی کو چاقو دکھا کر خوفزدہ کرنے کی بھی کوشش کی۔‏ تاہم،‏ میرے والد نے انہیں بتایا کہ وہ ایسا رویہ بالکل برداشت نہیں کریں گے۔‏

میرے والد بائبل پڑھنے اور اپنی مرضی سے اپنے اعتقادات کے مطابق زندگی گزارنے میں والدہ کی حمایت کرتے رہے۔‏ سن ۱۹۴۶ میں میرے والد نے بھی بپتسمہ لے لیا۔‏ اس بات پر سوچ‌بچار کرنے سے کہ یہوواہ خدا نے میری والدہ کو مخالفت کے باوجود ثابت‌قدم رہنے میں کیسے مدد دی اور اُسکے ایمان کا اَجر دیا۔‏ ان تمام باتوں سے مجھے تحریک ملی کہ مَیں بھی خدا کیساتھ ذاتی رشتہ قائم کروں۔‏ میری امی مجھے اُونچی آواز میں بائبل اور بائبل پر مبنی مطبوعات پڑھ کر سناتی تھی جو میرے لئے بہت فائدہ‌مند ثابت ہوا۔‏

میری والدہ نے اپنی چھوٹی بہن ماریا رپی کیساتھ بھی بارہا بائبل میں سے بات‌چیت کی۔‏ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ مَیں نے اور میری خالہ نے جولائی ۱۹۴۲ کے وسط میں بپتسمہ لے لیا۔‏ ایک بھائی تقریر پیش کرنے کیلئے ہمارے گھر آیا اور ہم نے گھر میں موجود لکڑی کے ایک بڑے ٹب میں بپتسمہ لیا۔‏

دوسری عالمی جنگ کے دوران بیگاری

سن ۱۹۴۲ میں،‏ دوسری عالمی جنگ کے وسط میں اٹلی اور جرمنی نے سلووینیا پر حملہ کرکے اسے ہنگری اور اپنے درمیان تقسیم کر لیا۔‏ میرے والدین نے نازیوں کی تنظیم والکس‌بنڈ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔‏ مَیں نے سکول میں ”‏ہائل ہٹلر“‏ کہنے سے انکار کر دیا۔‏ میرے ٹیچر نے اس صورتحال سے حکام کو مطلع کر دیا۔‏

ہمیں ایک ریل‌گاڑی میں بیویریا کے گاؤں ہوٹن‌بیک کے نزدیک ایک قلعے میں لیجایا گیا جسے ایک بیگار کیمپ کے طور پر استعمال کِیا جاتا تھا۔‏ میرے والد نے میرے لئے ایک مقامی بیکری والے کیساتھ کام کرنے کا بندوبست کِیا اور مَیں اسکے خاندان کیساتھ ہی رہنے لگا۔‏ اس دوران مَیں نے بیکری کے کام کے متعلق بہت کچھ سیکھا جو بعدازاں میرے لئے مفید ثابت ہوا۔‏ کچھ دیر بعد میرے خاندان کے باقی افراد کو (‏جن میں میری خالہ ماریا اور اسکا خاندان بھی شامل تھا)‏ گن‌زین‌ہوسن میں ایک کیمپ میں بھیج دیا گیا۔‏

جنگ کے اختتام پر مَیں نے ایک ایسے گروہ کیساتھ سفر کرنے کا بندوبست بنایا جو اُس جگہ جا رہا تھا جہاں میرے والدین تھے۔‏ لیکن جس شام ہمیں روانہ ہونا تھا اُسی شام اچانک میرے والد وہاں آ گئے۔‏ مَیں اس بات سے بےخبر تھا کہ وہ لوگ قابلِ‌بھروسا نہیں تھے اور اگر مَیں اُن کیساتھ چلا جاتا تو نہ جانے میرے ساتھ کیا واقع ہوتا۔‏ ایک مرتبہ پھر مَیں نے یہوواہ خدا کی پُرمحبت فکر کو محسوس کِیا جس نے میرے والدین کو میری حفاظت اور تربیت کرنے کیلئے استعمال کِیا۔‏ مَیں اور میرے والد تین دن پیدل چل کر اپنے خاندان سے ملنے گئے۔‏ جون ۱۹۴۵ میں ہم سب گھر واپس لوٹ آئے۔‏

جنگ کے بعد صدر یوسپ بروز ٹیٹو کی قیادت میں یوگوسلاویہ پر کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی۔‏ یہوواہ کے گواہوں کیلئے حالات پھر بھی نہ بدلے۔‏

سن ۱۹۴۸ میں آسٹریا سے ایک بھائی آیا اور اُس نے ہمارے ساتھ ایک وقت کا کھانا کھایا۔‏ جہاں جہاں وہ گیا پولیس نے اُسکا تعاقب کِیا اور اُن بھائیوں کو گرفتار کر لیا جن سے وہ ملا تھا۔‏ میرے والد کو بھی مہمان‌نوازی کرنے اور پولیس کو اطلاع نہ دینے کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا۔‏ انہیں دو سال جیل میں گزارنے پڑے۔‏ یہ وقت میری والدہ کیلئے بہت مشکل تھا نہ صرف اسلئےکہ میرے والد ہمارے ساتھ نہیں تھے بلکہ اسلئے بھی کہ بہت جلد مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو غیرجانبداری کے امتحان کا سامنا کرنا تھا۔‏

مقدونیہ میں قید

نومبر ۱۹۴۹ میں مجھے فوجی خدمت کیلئے بلایا گیا۔‏ مَیں وہاں گیا اور انہیں اس خدمت کیلئے انکار کرنے کے بارے میں بتایا۔‏ حکام نے میری بات سننے سے انکار کر دیا اور مجھے دیگر لوگوں کیساتھ ریل‌گاڑی کے ذریعے یوگوسلاویہ کے دوسرے کنارے پر واقع مقدونیہ بھیج دیا گیا۔‏

تین سال تک میرا اپنے خاندان اور مسیحی بھائیوں سے کوئی رابطہ نہ ہوا اور میرے پاس بائبل اور کوئی لٹریچر بھی نہیں تھا۔‏ یہ بہت مشکل صورتحال تھی۔‏ مَیں یہوواہ خدا اور اُسکے بیٹے یسوع مسیح کے نمونے پر غوروخوض کرنے سے ثابت‌قدم رہنے کے قابل ہوا۔‏ میرے والدین کے نمونے نے مجھے تقویت فراہم کی۔‏ مزیدبرآں،‏ باقاعدگی سے طاقت کیلئے دُعا کرنے سے مَیں مایوسی پر قابو پانے کے قابل ہوا۔‏

آخرکار مجھے سکوپجی کے نزدیک ایک جیل اڈریزو میں بھیج دیا گیا۔‏ اس جیل میں قیدیوں سے مختلف کام کرائے جاتے تھے۔‏ مَیں نے صفائی اور دفتروں کے درمیان قاصد کے طور پر کام کِیا۔‏ اگرچہ ایک قیدی کا رویہ مجھ سے بُرا تھا جو خفیہ پولیس کا سابقہ رُکن تھا توبھی باقی سب کیساتھ میرے تعلقات اچھے تھے۔‏ ان میں گارڈز،‏ قیدی،‏ یہانتک‌کہ جیل کی فیکٹری کا مینیجر بھی شامل تھا۔‏

بعدازاں،‏ مجھے پتہ چلا کہ جیل کی بیکری میں کام کرنے کیلئے ایک بیکر کی ضرورت ہے۔‏ اسکے چند روز بعد مینیجر حاضری کیلئے آیا۔‏ وہ میری طرف آیا اور مجھ سے پوچھا،‏ ”‏کیا تم ایک بیکر ہو؟‏“‏ مَیں نے جواب دیا:‏ ”‏جی‌ہاں،‏ جناب“‏ اس نے جواب میں کہا:‏ ”‏کل بیکری میں جانا۔‏“‏ وہ قیدی جو مجھ سے بُری طرح پیش آتا تھا اکثر بیکری کے پاس سے گزرتا تھا لیکن وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا۔‏ مَیں نے ۱۹۵۰ میں،‏ فروری سے جولائی تک وہاں کام کِیا۔‏

اس کے بعد مجھے بیرکس میں بھیج دیا گیا جو ولکودیری کہلاتی تھیں اور مقدونیہ کے جنوب میں پریسپا کی جھیل کے قریب واقع تھیں۔‏ اسکے نزدیک واقع قصبے اوٹیسوو سے مَیں اپنے گھر والوں کو خط لکھ سکتا تھا۔‏ مَیں کبھی‌کبھار قیدیوں کے ایک گروہ کیساتھ کام کرتا تھا جو سڑکیں بناتے تھے لیکن زیادہ‌تر مَیں بیکری میں کام کرتا تھا۔‏ مجھے نومبر ۱۹۵۲ میں رِہا کر دیا گیا۔‏

جتنا عرصہ مَیں پوڈہوم سے دُور رہا اس دوران وہاں ایک نئی کلیسیا قائم ہو گئی۔‏ پہلے تو کلیسیا سپوڈنجی گورجی کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں جمع ہوتی تھی۔‏ بعدازاں،‏ میرے والد نے کلیسیا کے جمع ہونے کیلئے ہمارے گھر میں ایک کمرہ فراہم کِیا۔‏ جب مَیں مقدونیہ سے واپس آیا تو مَیں ان سے مل کر بہت خوش تھا۔‏ مَیں ستانکا سے بھی ملا جس سے میری جیل جانے سے پہلے ملاقات ہوئی تھی۔‏ اپریل ۲۴،‏ ۱۹۵۴ میں ہماری شادی ہوگئی۔‏ تاہم،‏ میری آزادی کے یہ دن جلد ہی ختم ہونے والے تھے۔‏

ماریبور میں قید

ستمبر ۱۹۵۴ میں،‏ مجھے ایک مرتبہ پھر گرفتار کر لیا گیا۔‏ اس مرتبہ مجھے ساڑھے تین سال کیلئے سلووینیا کے انتہائی جنوب میں واقع ماریبور کے قیدخانہ میں ڈال دیا گیا۔‏ جیسے ہی مَیں کاغذ اور پینسل خریدنے کے قابل ہو گیا۔‏ مَیں نے وہ تمام باتیں لکھنا شروع کر دیں جو صحائف،‏ مینارِنگہبانی اور دیگر مسیحی مطبوعات سے مجھے یاد تھیں۔‏ مَیں روزانہ اپنے نوٹس پڑھتا اور مزید باتیں یاد کرکے تحریر کرتا تھا۔‏ اسی طرح مَیں نے قیدخانہ میں ایک کتاب مکمل کرلی اور اس بات نے مجھے اپنی نظریں سچائی پر جمائے رکھنے اور روحانی طور پر مضبوط رہنے میں مدد دی۔‏ دُعا اور غوروخوض نے بھی میری روحانی پختگی میں اضافہ کِیا اور دوسروں کو سچائی سنانے کے قابل بنایا۔‏

یہ وہ وقت تھا جب مجھے اپنے عزیزوں کی طرف سے مہینے میں ایک خط اور ۱۵ منٹ تک ملاقات کرنے کی اجازت تھی۔‏ ستانکا کو اس مختصر سی ملاقات کیلئے ایک پوری رات ریل‌گاڑی پر آنے اور اُسی دن واپس جانے کیلئے سفر کرنا پڑتا تھا۔‏ یہ ملاقاتیں میرے لئے بہت ہی حوصلہ‌افزا تھیں۔‏ پھر مَیں نے ایک بائبل حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا۔‏ ستانکا اور مَیں ملاقات کے دوران ایک میز پر آمنےسامنے بیٹھ کر بات‌چیت کرتے اور گارڈ ہماری نگرانی کرتا تھا۔‏ جب گارڈ کی نظر دوسری طرف ہوئی تو مَیں نے ستانکا کے بیگ پر تحریر کِیا کہ اگلی مرتبہ میرے لئے ایک بائبل لے کر آنا۔‏

ستانکا اور میرے والدین کا خیال تھا کہ ایسا کرنا بہت خطرناک ہو سکتا ہے اسکے باوجود اُنہوں نے مسیحی یونانی صحائف کی ایک کاپی کے صفحات کو چھوٹے چھوٹے برگربن کے اندر ڈالکر لانے کا منصوبہ بنایا۔‏ اسطرح مَیں نے اپنی ضروری چیز بائبل حاصل کر لی۔‏ اسی طریقے سے مَیں نے ستانکا کے ہاتھ سے لکھے ہوئے مینارِنگہبانی رسالے بھی حاصل کئے۔‏ مَیں فوراً ان تحریروں کو اپنی لکھائی میں نقل کر لیتا اور اصل تحریر ضائع کر دیتا تھا تاکہ کوئی یہ نہ جان سکے کہ مَیں یہ کہاں سے حاصل کرتا ہوں۔‏

میرے مسلسل منادی کرنے کی وجہ سے میرے ساتھی قیدیوں نے کہا کہ یہ چیز تمہارے لئے مشکل پیدا کر سکتی ہے۔‏ ایک موقع پر،‏ مَیں اپنے ساتھی قیدی کیساتھ بائبل میں سے بات‌چیت کرنے میں خوب مشغول تھا۔‏ ہم نے دیکھا کہ گارڈ تالا کھول کر سیدھا ہماری طرف آ رہا ہے۔‏ مَیں سمجھ گیا کہ اب مجھے اُس کوٹھڑی میں بھیج دیا جائے گا جہاں مجھے تنہا رہنا ہوگا۔‏ لیکن گارڈ اس مقصد سے اندر نہیں آیا تھا۔‏ وہ ہماری بات‌چیت سن کر ہمارے ساتھ شریک ہونا چاہتا تھا۔‏ وہ اپنے سوالوں کے تسلی‌بخش جواب حاصل کرنے کے بعد تالا لگا کر چلا گیا۔‏

میری سزا کے آخری مہینے میں قیدیوں کی اصلاح کرنے والے کمشنر نے سچائی پر قائم رہنے کے میرے مؤقف کی بہت تعریف کی۔‏ مَیں نے محسوس کِیا کہ یہ دوسروں کو یہوواہ کے نام سے واقف کرنے کی میری کوششوں کا عمدہ اَجر ہے۔‏ مئی ۱۹۵۸ میں،‏ مَیں ایک مرتبہ پھر جیل سے آزاد ہو گیا۔‏

پہلے آسٹریا پھر آسٹریلیا کی طرف فرار

اگست ۱۹۵۸ میں میری والدہ وفات پا گئی۔‏ وہ کچھ عرصے سے بیمار تھی۔‏ ستمبر ۱۹۵۸ میں مجھے تیسری مرتبہ گرفتار کر لیا گیا۔‏ اس شام ستانکا اور مَیں نے ایک اہم فیصلہ کِیا کہ ہم پہاڑوں کی طرف سے سرحد پار کرکے آسٹریا چلے جائیں گے جیسےکہ شروع میں بھی بیان کِیا گیا ہے۔‏ کسی کو خبر کئے بغیر،‏ ہم نے بیگ میں سامان ڈالا اور ایک ترپال لیکر کھڑکی سے باہر نکل گئے۔‏ یہ سب چیزیں لے کر ہم آسٹریا سرحد میں داخل ہوئے اور پہاڑوں کی مغربی طرف روانہ ہو گئے۔‏ ایسا لگ رہا تھا کہ یہوواہ نے ہمارے لئے راہ تیار کی ہے کیونکہ اس وقت ہمیں واقعی آرام کی ضرورت تھی۔‏

آسٹریا کی حکومت نے ہمیں سالزبرگ کے قریب ایک پناہ‌گزین کیمپ میں بھیج دیا۔‏ ان چھ مہینوں کے دوران ہمارا زیادہ‌تر وقت مقامی گواہوں کیساتھ گزرتا تھا اور ہم تھوڑے وقت کیلئے کیمپ میں رہتے تھے۔‏ کیمپ میں رہنے والے دیگر لوگ بہت حیران تھے کہ ہم نے اسقدر جلد اتنے دوست کیسے بنا لئے ہیں۔‏ اسی دوران ہم اپنی پہلی اسمبلی پر بھی حاضر ہوئے تھے۔‏ نیز ہم پہلی مرتبہ آزادی کیساتھ گھرباگھر منادی کرنے کے قابل بھی ہوئے۔‏ جب ہمیں واپس آنا پڑا تو ان عزیز دوستوں کو چھوڑنا بہت مشکل لگ رہا تھا۔‏

آسٹریا کے حکام نے ہمیں آسٹریلیا جانے کا انتخاب پیش کِیا۔‏ ہم نے کبھی خواب میں بھی اسقدر دُور جانے کی بابت نہیں سوچا تھا۔‏ ہم ریل‌گاڑی کے ذریعے سفر کرتے ہوئے پہلے جنوآ،‏ اٹلی پہنچے اور پھر بحری جہاز سے آسٹریلیا گئے۔‏ ہم نے نیو ساؤتھ ویلز کے شہر والن‌گانگ میں مستقل قیام کِیا۔‏ مارچ ۳۰،‏ ۱۹۶۵ میں،‏ یہاں ہمارا بیٹا فلپس پیدا ہوا۔‏

آسٹریلیا میں رہتے ہوئے ہمارے لئے خدمت کے مختلف راستے کھل گئے اس میں ایسے لوگوں کو منادی کرنا شامل تھا جو سابقہ یوگوسلاویہ سے نقل‌مکانی کرکے آئے ہوتے تھے۔‏ ہم یہوواہ کی برکات کیلئے بہت شکرگزار ہیں جس میں خاندان کے طور پر ملکر خدمت کرنا شامل ہے۔‏ فلپس اور اُسکی بیوی سُوزی کو یہوواہ کے گواہوں کی آسٹریلیا برانچ میں خدمت کرنے کا شرف حاصل ہے اور وہ دو سال تک سلووینیا برانچ میں خدمت کرنے کے قابل بھی ہوئے ہیں۔‏

بڑھاپے اور صحت کے مسائل کے باوجود،‏ میری بیوی اور مَیں یہوواہ کی خدمت کرنے سے مسلسل خوشی حاصل کر رہے ہیں۔‏ مَیں اپنے والدین کے عمدہ نمونے کیلئے بےحد شکرگزار ہوں!‏ یہ ابھی تک مجھے تقویت دیتا اور پولس رسول کے الفاظ پر عمل کرنے میں مدد کرتا ہے کہ ”‏اُمید میں خوش۔‏ مصیبت میں صابر۔‏ دُعا کرنے میں مشغول رہو۔‏“‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۲‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۶ اور ۱۷ پر تصویر]‏

سن ۱۹۲۰ میں،‏ میرے والدین

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

میری والدہ بالکل دائیں طرف اور اینکا جس نے میری والدہ کو سچائی سکھائی تھی

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

اپنی بیوی ستانکا کیساتھ شادی کے فوراً بعد

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

سن ۱۹۵۵ میں،‏ ہمارے گھر پر جمع ہونے والی کلیسیا

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

اپنی بیوی،‏ اپنے بیٹے فلپس اور بہو سُوزی کیساتھ