خود میں خاکساری کی خوبی پیدا کریں
خود میں خاکساری کی خوبی پیدا کریں
”[یہوواہ] اگرچہ بلندوبالا ہے توبھی خاکسار کا خیال رکھتا ہے۔“—زبور ۱۳۸:۶۔
۱، ۲. انسانی حکمرانوں میں کس خوبی کی کمی ہے؟
مصر کی سیر کرتے وقت آپکو بڑے بڑے مقبرے نظر آئیں گے۔ یہ اُن بادشاہوں کی شان کی گواہی دیتے ہیں جنہوں نے ایک زمانے میں اس مُلک پر حکومت کی تھی۔ ان کے علاوہ اسور کے بادشاہ سنحیرب، یونان کا سکندرِاعظم اور رومی قیصر جولیس نے بھی انسانی تاریخ پر اپنا نام کندہ ہے۔ البتہ ان تمام حاکموں میں سے کسی ایک کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ خاکسار تھا۔—متی ۲۰:۲۵، ۲۶۔
۲ ان حاکموں میں سے ایک بھی اپنی رعایا کے محتاجوں کو تلاش کرکے اُنکو تسلی نہ دیتا۔ اور نہ ہی وہ اپنی سلطنت کے کسی غریب علاقے میں جا کر وہاں کے لوگوں کا حوصلہ بڑھاتا۔ ان انسانی حکمرانوں کے برعکس کائنات کا حاکمِاعلیٰ یہوواہ خدا محتاجوں اور مسکینوں کی فکر رکھتا ہے۔
فروتنی کی سب سے عمدہ مثال
۳. کائنات کا حاکمِاعلیٰ اپنے خادموں سے کیسے پیش آتا ہے؟
۳ یہوواہ خدا کی عظمت ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ اس کے باوجود اُس کی ”آنکھیں ساری زمین پر پھرتی ہیں تاکہ وہ اُنکی امداد میں جنکا دل اُسکی طرف کامل ہے اپنے تیئں قوی دکھائے۔“ (۲-تواریخ ۱۶:۹) جب یہوواہ خدا جان جاتا ہے کہ اُسکا ایک خادم آزمائشوں کی وجہ سے شکستہدل ہے تو وہ اپنی پاک روح کے ذریعے ”اُسکے ساتھ“ رہتا ہے۔ ایسا کرنے سے وہ ’فروتنوں کی رُوح کو زندہ کرتا اور شکستہدلوں کو حیات بخشتا ہے۔‘ (یسعیاہ ۵۷:۱۵) اسطرح اُسکے خادم تازہدم ہو کر اُسکی خدمت کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ واقعی خدا اپنے بندوں کیساتھ فروتنی سے پیش آتا ہے۔
۴، ۵. (ا) زبورنویس نے کائنات کے حاکم یہوواہ خدا کے بارے میں کیا لکھا تھا؟ (ب) خدا کس لحاظ میں ’فروتنی سے مسکین کو خاک سے اُٹھا لیتا ہے‘؟
۴ انسانی حاکموں کے برعکس یہوواہ خدا گنہگار انسانوں کی مدد کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہے۔ اسلئے زبورنویس نے لکھا: ”[یہوواہ] سب قوموں پر بلندوبالا ہے۔ اُسکا جلال آسمان سے برتر ہے۔ [یہوواہ] ہمارے خدا کی مانند کون ہے جو عالمِبالا پر تختنشین ہے جو فروتنی سے آسمانوزمین پر نظر کرتا ہے؟ وہ مسکین کو خاک سے اور محتاج کو مزبلہ پر سے اُٹھا لیتا ہے۔“—زبور ۱۱۳:۴-۷۔
۵ انسان ”شیخی“ بگھارتا ہے لیکن یہوواہ خدا ایسا نہیں کرتا کیونکہ وہ پاک ہے۔ (مرقس ۷:۲۲، ۲۳) اُسکے بارے میں زبور ۱۱۳:۶ میں لکھا ہے کہ وہ ’فروتنی سے مسکین کو خاک سے اُٹھا لیتا ہے۔‘ ایک فروتن شخص اپنے رُتبے کا خیال نہ کرتے ہوئے اپنے سے نیچا درجہ رکھنے والے شخص کی مدد کرتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ وہ اپنے سے کم حیثیت رکھنے والے شخص کی مدد کرنے کی خاطر اُسکے درجے تک جھکنے کو تیار ہے۔ یہ بات یہوواہ خدا کے بارے میں کتنی سچ ہے۔ واقعی وہ اپنے عیبدار خادموں کی مدد کرتے وقت فروتنی سے پیش آتا ہے۔
یسوع کی فروتنی مثالی تھی
۶. یہوواہ خدا نے بےمثال فروتنی کیسے ظاہر کی؟
۶ یہوواہ خدا کی فروتنی اس وجہ سے بھی بےمثال ہے کہ اُس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو زمین پر بھیجا تاکہ وہ ہماری نجات کا باعث بن سکے۔ (یوحنا ۳:۱۶) جب یسوع زمین پر تھا تو اُس نے لوگوں کو یہوواہ خدا کے بارے میں سچائی سکھائی۔ پھر اُس نے ’دُنیا کا گُناہ اُٹھا لے جانے‘ کیلئے اپنی بےعیب زندگی قربان کر دی۔ (یوحنا ۱:۲۹؛ ۱۸:۳۷) یہوواہ خدا کی طرح یسوع بھی فروتنی کی خوبی کا مالک تھا۔ اسلئے وہ خدا کی ہر بات پر عمل کرنے کو تیار تھا۔ خدا کی تمام مخلوق میں سے یسوع کی فروتنی بےمثال ہے۔ لیکن بہت سے لوگ یسوع کی اس خوبی کی قدر نہیں کرتے تھے۔ اُسکے دُشمن تو اُسے تمام ”آدمیوں میں سے ادنیٰ آدمی“ سمجھتے تھے۔ (دانیایل ۴:۱۷) لیکن پولس رسول نے مسیحیوں کو یسوع کی مانند بننے کو کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ اُنہیں دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھنا تھا۔—۱-کرنتھیوں ۱۱:۱؛ فلپیوں ۲:۳، ۴۔
۷، ۸. (ا) یسوع اتنا فروتن کیوں تھا؟ (ب) یسوع نے لوگوں کو کیا کرنے کی دعوت دی؟
۷ یسوع کی بےمثال فروتنی کے بارے میں پولس نے یوں لکھا: ”ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح کا بھی تھا۔ اُس نے اگرچہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپکو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔ اور انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپکو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔“—فلپیوں ۲:۵-۸۔
۸ شاید آپ پوچھیں کہ یسوع اتنا فروتن کیوں تھا؟ دراصل یسوع مُدتوں سے آسمان میں یہوواہ خدا کے پاس رہا تھا۔ اُس نے ”ماہر کاریگر“ کے طور پر تمام باقی مخلوق بنانے میں خدا کا ساتھ دیا تھا۔ (امثال ۸:۳۰) آدم اور حوا کی نافرمانی کے بعد یسوع نے دیکھا کہ یہوواہ گنہگار انسانوں کیساتھ کتنی فروتنی سے پیش آتا ہے۔ اسلئے جب وہ زمین پر آیا تو وہ بھی لوگوں کیساتھ فروتنی سے پیش آتا تھا۔ اور اسی وجہ سے یسوع لوگوں کو یہ دعوت بھی دے سکتا تھا: ”میرا جؤا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔ کیونکہ مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔ تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی۔“—متی ۱۱:۲۹؛ یوحنا ۱۴:۹۔
۹. (ا) یسوع کو بچوں سے اتنا پیار کیوں تھا؟ (ب) ایک بچے کو پاس بلا کر یسوع نے اپنے شاگردوں کو کونسا سبق سکھایا؟
مرقس ۱۰:۱۳-۱۶) یسوع کو بچوں سے اتنا پیار کیوں تھا؟ دراصل بچوں میں کچھ ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو بالغوں میں کم ہی نظر آتی ہیں۔ عام طور پر بچے اپنے بڑوں کا کہنا مانتے ہیں اور اُن سے سیکھنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اُن میں اتنا گھمنڈ بھی نہیں ہوتا جتنا بڑوں میں ہوتا ہے۔ ایک دن یسوع نے ایک بچے کو پاس بلا کر اپنے شاگردوں سے کہا: ”اگر تُم توبہ نہ کرو اور بچوں کی مانند نہ بنو تو آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہوگے۔ پس جو کوئی اپنے آپکو اِس بچے کی مانند چھوٹا بنائے گا وہی آسمان کی بادشاہی میں بڑا ہوگا۔“ (متی ۱۸:۳، ۴) دراصل یسوع اپنے شاگردوں کو اِس اصول کا سبق دے رہا تھا: ”جو کوئی اپنے آپکو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کِیا جائے گا اور جو اپنے آپکو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کِیا جائے گا۔“—لوقا ۱۴:۱۱؛ ۱۸:۱۴؛ متی ۲۳:۱۲۔
۹ چونکہ یسوع سب کیساتھ فروتنی سے پیش آتا تھا اسلئے چھوٹے بچے بھی اُسکے پاس جانا پسند کرتے تھے۔ یسوع کو بھی بچوں سے بہت پیار تھا۔ وہ اُنکے لئے وقت ضرور نکالتا تھا۔ (۱۰. ہم اب کن سوالوں پر غور کریں گے؟
۱۰ یسوع کی بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کیلئے مسیحیوں کو فروتنی کی خوبی پیدا کرنی چاہئے۔ لیکن ہمیں ایسا کرنا اتنا مشکل کیوں لگتا ہے؟ آزمائشوں اور اذیتوں کا سامنا کرتے وقت ہمیں اپنے غرور پر قابو پانا مشکل کیوں لگتا ہے؟ اور ہم فروتنی یعنی خاکساری کی خوبی کو پیدا کرنے میں کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟—یعقوب ۴:۶، ۱۰۔
غرور پر قابو پانا مشکل کیوں ہے؟
۱۱. ہمیں اپنے غرور پر قابو پانا مشکل کیوں لگتا ہے؟
۱۱ اگر آپکو بھی اپنے غرور پر قابو پانا مشکل لگتا ہے تو ہمت نہ ہاریں۔ سن ۱۹۲۰ میں شائع ہونے والے مینارِنگہبانی کے ایک شمارے میں اس سلسلے میں لکھا تھا کہ ”یسوع فروتنی کی خوبی کو بہت ہی اہم خیال کرتا تھا۔ ہم اُسکے شاگرد ہیں اِسلئے ہمیں بھی روزانہ اس خوبی کو ظاہر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ . . . خدا کے کلام میں باربار اس خوبی کو پیدا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ لیکن اسکے باوجود اُسکے خادموں کو ایسا کرنا بہت ہی مشکل لگتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ خوبی انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ اسلئے باقی تمام خوبیوں کی نسبت اس خوبی کو کام میں لانا بہت ہی مشکل ہے۔“ ہم سب آدم اور حوا کی اولاد ہیں۔ اُنہوں نے خدا کے حکم پر عمل کرنے کی بجائے اپنی مرضی کی۔ (رومیوں ۵:۱۲) یہ خامی انسانی فطرت کا ایک جُز بن گئی ہے۔ اسی وجہ سے سچے مسیحیوں کو خاکساری ظاہر کرنا مشکل لگتا ہے۔
۱۲، ۱۳. (ا) اس دُنیا میں خاکساری پیدا کرنا مشکل کیوں ہے؟ (ب) ہمیں تکبّر کرنے پر کون اُکساتا ہے؟
۱۲ ہمیں ایک اَور وجہ سے بھی خود میں خاکساری پیدا کرنا مشکل لگتا ہے۔ ہمارے اِردگِرد رہنے والے زیادہتر لوگ اسی کوشش میں ہیں کہ وہ سب سے بڑے بن جائیں۔ وہ ”جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش“ کو حاصل کرنے کی جستجو میں ہیں۔ اسکے علاوہ وہ ”زندگی کی شیخی“ بگھارنے یعنی اپنے مالودولت کا مظاہرہ کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔ (۱-یوحنا ۲:۱۶) یسوع کے شاگرد ایسی دُنیاوی خواہشات نہیں رکھتے۔ وہ خدا کی مرضی کو بجا لانے کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیتے ہیں۔ اسلئے وہ ایک سادہ زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔—متی ۶:۲۲-۲۴، ۳۱-۳۳؛ ۱-یوحنا ۲:۱۷۔
۱۳ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس دُنیا پر شیطان حکمرانی کر رہا ہے۔ اُس نے پہلے انسانی جوڑے کو تکبّر کرنے پر اُکسایا تھا۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۴؛ ۱-تیمتھیس ۳:۶) اور آج بھی وہ لوگوں کو غرور کرنے پر اُکسا رہا ہے۔ مثال کے طور پر شیطان نے یسوع کو ”دُنیا کی سب سلطنتیں اور اُنکی شانوشوکت“ پیش کی۔ اسکے بدلے میں وہ چاہتا تھا کہ یسوع اُسکے سامنے ایک بار سجدہ کرے۔ یسوع نے شیطان کی اس پیشکش کو ترک کر دیا۔ (متی ۴:۸، ۱۰) شیطان مسیحیوں کو بھی شانوشوکت حاصل کرنے پر اُکساتا ہے۔ لیکن مسیحی جانتے ہیں کہ یسوع کی طرح اُنہیں بھی اپنی نہیں بلکہ صرف یہوواہ خدا کی بڑائی کرنی چاہئے۔—مرقس ۱۰:۱۷، ۱۸۔
خود میں خاکساری کی خوبی پیدا کریں
۱۴. خاکساری کے سلسلے میں ہمیں کس بات سے خبردار رہنا چاہئے؟
۱۴ پولس رسول نے کلسے کی کلیسیا کو ایسے لوگوں سے خبردار کِیا جو خاکساری کا محض دکھاوا کرتے تھے۔ ایسے لوگ عزت حاصل کرنے اور اپنا نام چمکانے کیلئے ایسا کرتے ہیں۔ لیکن دراصل یہ لوگ غرور سے ”پھول“ کر روحانی طور پر کمزور ہو گئے ہیں۔ (کلسیوں ۲:۱۸، ۲۳) یسوع نے اپنے زمانے کے مذہبی پیشواؤں کو اسی بات کیلئے ٹوکا۔ روزہ رکھتے وقت وہ اپنی صورت اُداس کرتے تاکہ لوگ جان جائیں کہ اُنہوں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ اسکے علاوہ وہ سڑکوں اور بازاروں میں کھڑے ہو کر دُعا کرنے کا دکھاوا کرتے تھے۔ لیکن یسوع نے اپنے شاگردوں کو کہا کہ خدا صرف ایسی دُعاؤں کو قبول کرتا ہے جو دلی خاکساری سے مانگی جاتی ہیں۔—متی ۶:۵، ۶، ۱۶۔
۱۵. (ا) ہم خود میں خاکساری کی خوبی کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ (ب) چند ایسے لوگوں کی مثال دیجئے جنہوں نے خاکساری ظاہر کی ہے۔
۱۵ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی فروتنی پر غور کرنے سے مسیحی خود میں خاکساری کی خوبی پیدا کر سکتے ہیں۔ اسکا مطلب ہے کہ اُنہیں باقاعدگی سے بائبل کی اور اُن کتابوں اور رسالوں کی بھی پڑھائی کرنی چاہئے جو ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ شائع کرتا ہے۔ (متی ۲۴:۴۵) یہ خاص طور پر کلیسیا کے بزرگوں کیلئے اہم ہے تاکہ ’اُنکے دل میں غرور نہ ہو کہ وہ اپنے بھائیوں کو حقیر جانیں۔‘ (استثنا ۱۷:۱۹، ۲۰؛ ۱-پطرس ۵:۱-۳) ہمیں اُن لوگوں کی مثال پر غور کرنا چاہئے جنکو خدا نے اُنکی خاکساری کے لئے برکتوں سے نوازا تھا، جیسے روت، حنّہ اور الیشبع وغیرہ۔ (روت ۱:۱۶،۱۷؛ ۱-سموئیل ۱:۱۱،۲۰؛لوقا ۱:۴۱-۴۳) اسکے علاوہ داؤد، یوسیاہ، یوحنا بپتسمہ دینے والا اور پولس رسول جیسے لوگوں کی مثال پر بھی غور کریں۔ خدا کی خدمت میں نام حاصل کرنے کے باوجود وہ خاکساری کی خوبی ظاہر کرتے رہے۔ (۲-تواریخ ۳۴:۱، ۲، ۱۹، ۲۶-۲۸؛ زبور ۱۳۱:۱؛ یوحنا ۱:۲۶، ۲۷؛ ۳:۲۶-۳۰؛ اعمال ۲۱:۲۰-۲۶؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۹) اسکے علاوہ آج بھی کلیسیاؤں میں بہت سے بہنبھائی خاکساری کی مثال قائم کر رہے ہیں۔ ان تمام لوگوں کی زندگیوں پر غور کرنے سے سچے مسیحی ”ایک دوسرے کی خدمت کیلئے فروتنی سے کمربستہ“ رہیں گے۔—۱-پطرس ۵:۵۔
۱۶. مُنادی کرتے وقت خاکساری ہمارے کیسے کام آ سکتی ہے؟
۱۶ باقاعدگی سے مُنادی کے کام میں حصہ لینے سے بھی ہم خاکساری کا سبق سیکھ سکتے ہیں۔ غیروں سے خدا کے بارے میں ۱-پطرس ۳:۱۵) خدا کے بہت سے خادموں نے خاکساری ظاہر کرتے ہوئے اپنا آبائی شہر یا وطن چھوڑ دیا ہے تاکہ وہ کسی غیرقوم کے لوگوں کو بائبل کا پیغام پہنچا سکیں۔ ایسا کرنے میں اکثر اُنکو رہنسہن کے نئے طریقے اور ایک نئی زبان بھی سیکھنی پڑتی ہے۔ واقعی یہ کتنا مشکل کام ہے۔ ہم اُنکی خاکساری کی بہت قدر کرتے ہیں۔—متی ۲۸:۱۹، ۲۰۔
باتچیت کرنے میں خاکساری کی خوبی ہمارے بہت کام آ سکتی ہے۔ یہ خاص طور پر اُس وقت سچ ہے جب لوگ خوشخبری پر کان نہیں لگاتے یا پھر ہماری مخالفت کرتے ہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ ہمیں اپنے ایمان کیلئے دلیلیں پیش کرنے کو کہتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہم خاکساری سے کام لیتے ہوئے اُنکے سوالوں کا جواب ”حلم اور خوف کیساتھ“ دیتے ہیں۔ (۱۷. کن فرائض کو نبھاتے وقت خاکساری ہمارے کام آ سکتی ہے؟
۱۷ خاندان میں دوسروں کا حق ادا کرنے میں بھی خاکساری ہمارے کام آ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر جب ایک باپ بہت مصروف ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو بائبل کے بارے میں سکھانے کیلئے وقت نکالتا ہے تو وہ خاکساری ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح جب بچے اپنے والدین کا کہنا مانتے ہیں اور اُنکا احترام کرتے ہیں تو وہ خاکساری ظاہر کرتے ہیں۔ (افسیوں ۶:۱-۴) جب ایک مسیحی عورت کا شوہر اُسکے مذہب کا نہیں ہوتا تو اُسے خاکساری سے اپنے شوہر کے تابع رہنا چاہئے۔ اسطرح شاید اُسکا شوہر اپنی بیوی کے ”پاکیزہ چالچلن اور خوف“ کو دیکھ کر خود بھی یسوع کا شاگرد بن جائے۔ (۱-پطرس ۳:۱، ۲) اسکے علاوہ اپنے عمررسیدہ یا بیمار والدین کی تیمارداری کرتے وقت بھی ہمیں خاکساری اور محبت سے کام لینا چاہئے۔—۱-تیمتھیس ۵:۴۔
خاکساری ظاہر کرنے سے مسئلوں کو حل کریں
۱۸. جب دو مسیحیوں میں غلطفہمیاں کھڑی ہو جاتی ہیں تو وہ خاکساری کو کیسے کام میں لا سکتے ہیں؟
۱۸ تمام انسان خطا کرتے ہیں۔ (یعقوب ۳:۲) اسلئے کبھیکبھار دو مسیحیوں میں غلطفہمیاں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ شاید ایک نے اپنے بھائی کا حق دبایا ہے اور اسلئے وہ ایک دوسرے سے خفا ہیں۔ ایسی صورتحال میں اس نصیحت پر عمل کرنا بہت فائدہمند ہے: ”اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے [یہوواہ] نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تُم بھی کرو۔“ (کلسیوں ۳:۱۳) یہ درست ہے کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہے لیکن خاکساری کی خوبی کو کام میں لاتے ہوئے ہم دوبارہ سے ایک دوسرے کے قریب ہو سکتے ہیں۔
۱۹. جب ایک مسیحی ہمارا حق دباتا ہے تو ہمیں اُسکو منانے کی کوشش کیسے کرنی چاہئے؟
متی ۱۸:۱۵) اکثر جب دو مسیحی ایک دوسرے سے خفا رہتے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ دونوں یا اُن میں سے ایک غرور میں آ کر اپنا قصور ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس مسیحی کا حق دبایا گیا ہے، وہ اپنے مسیحی بھائی کو سمجھانے کی بجائے اُس کی نکتہچینی کرتا ہے۔ لیکن جب ہم خاکساری کو کام میں لاتے ہیں تو ایسے تمام مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔
۱۹ لیکن کبھیکبھار جب ایک مسیحی کا حق دبایا جاتا ہے تو اُسے لگتا ہے کہ وہ اِس بات کو کچھ کہے بغیر نظرانداز نہیں کر سکتا۔ تب اُسے خاکساری کو کام میں لا کر اپنے مسیحی بھائی کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایسا کرتے وقت اُسے اپنے بھائی کے دل کو جیت لینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ (۲۰، ۲۱. خود میں خاکساری کی خوبی پیدا کرنے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۲۰ کیا آپ خود میں خاکساری کی خوبی پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ توپھر خدا سے التجا کریں کہ وہ اپنی پاک روح سے آپکی مدد کرے۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ خدا صرف ”فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔“ اِس ”توفیق“ میں خدا کی پاک روح بھی شامل ہے۔ (یعقوب ۴:۶) اسلئے اگر دو مسیحیوں میں پھوٹ پڑ بھی جائے تو اُنکو یہوواہ سے دُعا کرنی چاہئے کہ وہ اُنکو اپنے اپنے قصور کو ماننے میں مدد دے۔ اسکے علاوہ اگر کسی بھائی نے آپکو ٹھیس پہنچائی ہے اور وہ دل سے آپ سے معافی مانگتا ہے تو اُسے معاف کر دیں۔ اگر آپکو ایسا کرنا مشکل لگتا ہے تو یہوواہ خدا سے دُعا کریں کہ وہ آپکے دل سے غرور کو مٹانے میں آپکی مدد کرے۔ یہی خاکساری کی راہ ہے۔
۲۱ واقعی فروتنی یا خاکساری ظاہر کرنے کے بہت فائدے ہوتے ہیں۔ اسلئے ہمیں اس خوبی کو پیدا کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں یہوواہ خدا اور یسوع مسیح نے ہمارے لئے کتنی اچھی مثال قائم کی ہے۔ انکی مثال پر عمل کرتے وقت ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ”دولت اور عزتوحیات [یہوواہ] کے خوف اور فروتنی کا اجر ہیں۔“—امثال ۲۲:۴۔
ان باتوں پر غور کریں
• فروتنی کے سلسلے میں سب سے اچھی مثال کن دو ہستیوں نے قائم کی ہے؟
• ہمیں خاکساری کی خوبی کو پیدا کرنا اتنا مشکل کیوں لگتا ہے؟
• ہم خود میں خاکساری کی خوبی کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
• مسیحیوں کیلئے خاکساری پیدا کرنا اتنا اہم کیوں ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
یسوع مسیح دل کا فروتن تھا
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
دُنیا ہمیں شانوشوکت حاصل کرنے کے سپنے دکھاتی ہے
[تصویر کا حوالہ]
WHO photo by L. Almasi/K. Hemzǒ
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
مُنادی کے کام میں خاکساری ہمارے کام آ سکتی ہے
[صفحہ ۳۰ پر تصویریں]
اگر کوئی ہمارا حق دباتا ہے تو ہمیں اُسکو دل سے معاف کر لینا چاہئے
[صفحہ ۳۱ پر تصویریں]
مسیحی اپنی زندگی کے بہت سے پہلوؤں میں خاکساری ظاہر کر سکتے ہیں