مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

پہلی صدی کے یہودی خوشخبری سنتے ہیں

پہلی صدی کے یہودی خوشخبری سنتے ہیں

پہلی صدی کے یہودی خوشخبری سنتے ہیں

سن ۴۹ میں یوحنا،‏ پطرس اور یسوع کا بھائی یعقوب جو مسیحی ”‏کلیسیا کے رُکن“‏ تھے،‏ یروشلیم میں جمع ہوئے۔‏ پولس رسول اور اُسکا ساتھی برنباس بھی اُنکی مجلس میں شامل ہوئے۔‏ اُن پانچوں نے کس موضوع پر بات‌چیت کی؟‏ اُنہیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ دُنیابھر میں خوشخبری پھیلانے کیلئے کونسے علاقوں میں کس کو بھیجا جائے۔‏ پولس نے اِس مجلس کے فیصلہ کو یوں بیان کِیا:‏ ”‏[‏اُنہوں نے]‏ مجھے اور برؔنباس کو دہنا ہاتھ دیکر شریک کر لیا تاکہ ہم غیرقوموں کے پاس جائیں اور وہ مختونوں کے پاس۔‏“‏—‏گلتیوں ۲:‏۱،‏ ۹‏۔‏ *

ہمیں اس فیصلے کو کیسے سمجھنا چاہئے؟‏ کیا اسکا مطلب تھا کہ کچھ بھائیوں کو صرف یہودیوں اور نومریدوں کو تبلیغ کرنے کو کہا گیا تھا اور دوسروں کو صرف غیرقوموں کو گواہی دینے کو؟‏ یا کیا اُنکو محض مختلف علاقوں میں بھیجا گیا تھا؟‏ اس سوال کا جواب دینے کیلئے ہمیں دُنیابھر میں رہنے والی یہودی برادریوں کے بارے میں کچھ تاریخی معلومات پر غور کرنا چاہئے۔‏

پہلی صدی کی یہودی آبادیاں

ایک کتاب پہلی صدی کی یہودی آبادی کے متعلق یوں بیان کرتی ہے:‏ ”‏اسکی صحیح تعداد دریافت کرنا کافی مشکل ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق سن ۷۰ سے پہلے یہودیہ میں تقریباً ۲۵ لاکھ یہودی آباد تھے جبکہ رومی سلطنت کے باقی علاقوں میں ۴۰ لاکھ سے زائد یہودی رہتے تھے۔‏ .‏ .‏ .‏ ہو سکتا ہے کہ رومی سلطنت کی کُل آبادی میں سے ۱۰ فیصد یہودی تھے اور اسکے مشرقی صوبوں کے بعض شہروں کی آبادی میں سے ۲۵ فیصد سے زائد یہودی تھے۔‏“‏

سُوریہ،‏ ایشیائےکوچک،‏ بابل اور مصر کی یہودی آبادی بہت بڑی تھی۔‏ یورپ میں اُنکی تعداد نسبتاً کم تھی لیکن وہاں بھی بہت سے علاقوں میں یہودی برادریاں آباد تھیں۔‏ پہلی صدی کے بعض نامور مسیحی بھی یہودی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔‏ مثلاً کُپرس کا برنباس،‏ اکوِلہ اور پرِسکلہ جو پہلے پُنطُس میں اور بعد میں رومہ میں رہتے تھے،‏ اسکندریہ کا اپلوس،‏ اور پولس رسول جو ترسس کا رہنا والا تھا۔‏—‏اعمال ۴:‏۳۶؛‏ ۱۸:‏۲،‏ ۲۴؛‏ ۲۲:‏۳‏۔‏

دُنیابھر میں پھیلی ہوئی یہودی برادریاں اپنے وطن کیساتھ گہرا تعلق رکھتی تھیں۔‏ ایک عالم کا کہنا ہے کہ ”‏غیرملکی یہودی برادریاں یروشلیم کی عبادتگاہ کے لئے چندہ جمع کِیا کرتی تھیں اور امیر افراد تو اس چندے کے علاوہ بھی رقمیں دیتے تھے۔‏“‏ ان چندوں کے ذریعے غیرملکی یہودی یروشلیم کی عبادتگاہ میں ہونے والی عبادت میں شریک ہوتے تھے۔‏

اسکے علاوہ،‏ ہر سال ہزاروں یہودی عیدوں کو منانے کیلئے یروشلیم کا سفر کرتے تھے۔‏ اعمال ۲:‏۹-‏۱۱ میں سن ۳۳ میں ہونے والی ایک ایسی عید کے بارے میں بتایا گیا ہے۔‏ اُس موقع پر پارتھیا،‏ مادی،‏ عیلام،‏ مسوپتامیہ،‏ کپدُکیہ،‏ پُنطُس،‏ آسیہ،‏ فروگیہ،‏ پمفیلیہ،‏ مصر،‏ رومہ،‏ کریتے اور عرب سے آنے والے یہودی مسافر پنتِکُست کی عید منانے کیلئے آئے تھے۔‏

یروشلیم کے مذہبی رہنما غیرملکی یہودی برادریوں کیساتھ خطوط کے ذریعے رابطہ رکھتے تھے۔‏ مثال کے طور پر گملی‌ایل نامی ایک عالم جسکا ذکر اعمال ۵:‏۳۴ میں ہوا ہے،‏ اُس نے شہر بابل اور دیگر جگہوں میں رہنے والے یہودیوں کے نام خط بھیجے تھے۔‏ جب سن ۵۹ میں پولس رسول کو قید کرکے رومہ پہنچایا گیا تو وہاں کے ”‏یہودیوں کے رئیسوں“‏ نے پولس سے کہا کہ ”‏نہ ہمارے پاس یہوؔدیہ سے تیرے بارے میں خط آئے نہ بھائیوں میں سے کسی نے آ کر تیری کچھ خبر دی نہ بُرائی بیان کی۔‏“‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یروشلیم سے رومہ تک باقاعدگی سے خط بھیجے جاتے تھے۔‏—‏اعمال ۲۸:‏۱۷،‏ ۲۱‏۔‏

یہودی اُس زمانے میں بائبل کے پُرانے عہدنامے کا یونانی زبان میں ترجمہ استعمال کِیا کرتے تھے جسکو سپتواجنتا کہا جاتا ہے۔‏ ایک لغت میں بیان کِیا گیا ہے کہ ”‏بائبل کا سپتواجنتا ترجمہ دُنیابھر کے یہودیوں میں بہت ہی مقبول تھا۔‏“‏ لہٰذا،‏ ابتدائی مسیحی بھی اپنے تبلیغی کام میں اِس ترجمے کو استعمال کرتے تھے۔‏

شروع میں جس مجلس کا ذکر ہوا ہے اس پر حاضر ہونے والے مسیحی بزرگ اور رسول اِن تمام حقائق سے خوب واقف تھے۔‏ اُس وقت تک سُوریہ کے شہروں دمشق اور انطاکیہ کے علاوہ چند دوسرے علاقوں میں رہنے والے یہودیوں کو بھی خوشخبری سنائی جا چکی تھی۔‏ (‏اعمال ۹:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ ۱۱:‏۱۹؛‏ ۱۵:‏۲۳،‏ ۴۱؛‏ گلتیوں ۱:‏۲۱‏)‏ اُس مجلس پر جو فیصلہ کِیا گیا تھا،‏ اسکے نتیجے میں خوشخبری اَور بھی علاقوں میں پہنچائی گئی اور بہت سے یہودیوں اور نومریدوں نے مسیحی مذہب اپنا لیا۔‏ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کے کلام میں اس ترقی کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے۔‏

پولس رسول کے سفر

اپنی مسیحی خدمت کے آغاز پر پولس رسول کو ”‏قوموں،‏ بادشاہوں اور بنی‌اسرائیل پر [‏یسوع مسیح کا]‏ نام ظاہر کرنے“‏ کو کہا گیا تھا۔‏ * (‏اعمال ۹:‏۱۵‏)‏ سن ۴۹ میں ہونے والی مجلس کے بعد پولس دُوردراز علاقوں کا سفر کرتا رہا۔‏ جہاں بھی وہ جاتا،‏ وہ یہودیوں کو تبلیغ کرنے کی کوشش کرتا۔‏ (‏صفحہ ۱۴ پر بکس ”‏پولس رسول نے کن کن شہروں میں گواہی دی؟‏“‏ کو دیکھیں۔‏)‏ پولس اور برنباس مغرب کی جانب چل دئے جبکہ دوسرے بھائی یہودیہ اور مشرقی علاقوں کے یہودیوں میں مُنادی کرتے رہے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولس اور برنباس کو خاص طور پر ایسے علاقوں میں مُنادی کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا جہاں پر اُس وقت تک خوشخبری نہیں سنائی گئی تھی۔‏

پولس اور برنباس،‏ سُوریہ کے شہر انطاکیہ سے اپنے دوسرے تبلیغی دَورے کیلئے روانہ ہوئے۔‏ وہ ایشیائےکوچک سے گزر کر تروآس پہنچے۔‏ وہاں ’‏خدا نے اُنہیں مکدنیوں کو خوشخبری دینے کیلئے بلایا۔‏‘‏ اسلئے وہ سمندر پار کرکے مکدنیہ کو چل دئے۔‏ اسکے کچھ عرصہ بعد یورپ کے چند شہروں میں،‏ مثلاً اتھینے اور کرنتھس میں،‏ مسیحی کلیسیائیں وجود میں آئیں۔‏—‏اعمال ۱۵:‏۴۰،‏ ۴۱؛‏ ۱۶:‏۶-‏۱۰؛‏ ۱۷:‏۱–‏۱۸:‏۱۸‏۔‏

سن ۵۶ کے لگ‌بھگ اپنے تیسرے تبلیغی دَورے کے اختتام پر پولس نے مغرب کی جانب سفر کرتے ہوئے نئی منزلیں طے کرنے کا اِرادہ کِیا۔‏ اُس نے انکا ذکر کرتے ہوئے لکھا:‏ ”‏مَیں تُم کو بھی جو رؔومہ میں ہو خوشخبری سنانے کو حتیٰ‌المقدور تیار ہوں۔‏“‏ اور ”‏تمہارے پاس ہوتا ہوا اِؔسفانیہ [‏یعنی سپین]‏ کو جاؤں گا۔‏“‏ (‏رومیوں ۱:‏۱۵؛‏ ۱۵:‏۲۴،‏ ۲۸‏)‏ لیکن بادشاہت کی خوشخبری مشرقی علاقوں میں رہنے والے یہودیوں تک کیسے پہنچائی گئی؟‏

مشرق میں یہودی برادریاں

پہلی صدی عیسوی کے دوران غیرملکی یہودیوں کی سب سے بڑی آبادیاں مصر میں واقع تھیں،‏ خاص طور پر اسکے دارالحکومت سکندریہ میں۔‏ تجارت اور تہذیب کے اس مرکز میں لاکھوں یہودی آباد تھے اور شہر میں جگہ جگہ یہودی عبادت‌خانے نظر آتے تھے۔‏ یہودی عالم فیلو جو سکندریہ کا رہنے والا تھا اُسکا کہنا تھا کہ مصر میں ۱۰ لاکھ سے زیادہ یہودی رہتے تھے۔‏ سکندریہ کے قریب،‏ مُلک لبوآ (‏لیبیا)‏ کے شہر کُرینے میں بھی بڑی تعداد میں یہودی آباد تھے۔‏

ان علاقوں میں رہنے والے چند یہودیوں نے مسیحی مذہب اپنا لیا تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ خدا کے کلام میں ”‏اپلوؔس نام ایک یہودی“‏ کا ذکر کِیا گیا ہے جسکی پیدائش ”‏اسکندؔریہ“‏ میں ہوئی تھی۔‏ ”‏لوکیسؔ کُرینی“‏ کا بھی ذکر ہوا ہے جو سُوریہ کے شہر انطاکیہ میں مسیحی کلیسیا کا رُکن تھا۔‏ اسکے علاوہ چند ”‏کُپرسی اور کُرینی“‏ یہودی بھی مسیحی بن گئے تھے۔‏ (‏اعمال ۲:‏۱۰؛‏ ۱۱:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ ۱۳:‏۱؛‏ ۱۸:‏۲۴‏)‏ پاک صحائف میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فلپس نے ایتھیوپیا سے آنے والے ایک حبشی خوجہ کو گواہی دی تھی۔‏ البتہ مصر اور اسکے اِردگِرد کے ممالک میں ابتدائی مسیحیوں کی کارگزاریوں کے بارے میں پاک کلام میں اسکے علاوہ زیادہ کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔‏—‏اعمال ۸:‏۲۶-‏۳۹‏۔‏

مشرق میں پارتھیا،‏ مادی اور عیلام کے علاقوں کے علاوہ شہر بابل میں بھی یہودیوں کی بڑی آبادی موجود تھی۔‏ ایک تاریخ‌دان کا کہنا ہے کہ ”‏وادیِ‌دجلہ اور وادیِ‌فرات میں،‏ آرمینیا اور خلیجِ‌فارس کے علاقے میں،‏ شمال‌مشرق کی سمت میں بحیرۂخزر تک اور مشرق کی سمت میں مادی تک یعنی ہر علاقے میں یہودی آباد تھے۔‏“‏ ایک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اُنکی تعداد ۸ لاکھ سے زیادہ تھی۔‏ یہودی تاریخ‌دان یوسیفس نے لکھا کہ عیدوں کے موقعے پر بابل کے یہودی ہزاروں کی تعداد میں یروشلیم کا سفر کرتے تھے۔‏

ہمیں یہ معلوم نہیں کہ آیا سن ۳۳ میں پنتِکُست کی عید کے موقعے پر بابل کے چند یہودیوں نے بھی بپتسمہ لیا تھا یا نہیں۔‏ لیکن اُن لوگوں میں جنہوں نے پطرس کی تقریر سنی تھی اِن میں بعض مسوپتامیہ کے تھے۔‏ (‏اعمال ۲:‏۹‏)‏ ہم جانتے ہیں کہ پطرس سن ۶۲ سے ۶۴ تک بابل میں رہا تھا۔‏ وہاں اُس نے اپنے پہلے خط کو،‏ اور شاید دوسرے خط کو بھی لکھا۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۱۳‏)‏ لہٰذا بابل اُس وسیع علاقے میں شامل تھا جہاں پطرس،‏ یوحنا اور یعقوب کو سن ۴۹ کی مجلس کے بعد بھیجا گیا تھا۔‏

یروشلیم کی مسیحی کلیسیا

اس مضمون کے شروع میں جس مجلس کا ذکر کِیا گیا ہے اس میں یعقوب بھی شامل تھا۔‏ وہ یروشلیم کی کلیسیا میں نگہبان کے طور پر خدمت کرتا تھا۔‏ (‏اعمال ۱۲:‏۱۲،‏ ۱۷؛‏ ۱۵:‏۱۳؛‏ گلتیوں ۱:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ یعقوب اُس موقع پر بھی حاضر تھا جب سن ۳۳ میں پنتِکُست کی عید پر دُنیابھر سے آنے والے ہزاروں یہودی بپتسمہ لے کر مسیحی بن گئے تھے۔‏—‏اعمال ۱:‏۱۴؛‏ ۲:‏۱،‏ ۴۱‏۔‏

سالانہ عیدوں کے موقعوں پر ہزاروں یہودی یروشلیم آتے تھے۔‏ شہر لوگوں سے بھر جاتا،‏ یہاں تک کہ مسافر اِردگِرد کے گاؤں میں یا ڈیروں میں رہتے۔‏ لوگ عبادتگاہ میں قربانیاں پیش کرتے اور توریت کی پڑھائی کرتے۔‏ اسکے علاوہ وہ اپنے دوستوں سے ملاقات بھی کرتے۔‏

یقیناً یعقوب کے علاوہ یروشلیم کے دوسرے مسیحی بھی دُور سے آنے والے یہودیوں کو گواہی دینے کے ایسے موقعوں کو ہاتھ سے نکلنے نہ دیتے۔‏ جب ستفنس کے قتل کے بعد ”‏اُس کلیسیا پر جو یرؔوشلیم میں تھی بڑا ظلم برپا ہوا“‏ تو اُنہوں نے مُنادی کرتے وقت احتیاط برتنا شروع کر دیا۔‏ (‏اعمال ۸:‏۱‏)‏ خدا کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسکے باوجود وہ جوش سے مُنادی کرتے رہے اور مسیحیوں کی تعداد بڑھتی گئی۔‏—‏اعمال ۵:‏۴۲؛‏ ۸:‏۴؛‏ ۹:‏۳۱‏۔‏

ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

ہم دیکھ چکے ہیں کہ ابتدائی مسیحیوں نے پوری کوشش کی کہ جہاں بھی یہودی آباد تھے وہاں اُنکو خوشخبری سنائیں۔‏ اسکے علاوہ پولس اور اُسکے ساتھیوں نے یورپ کے غیریہودیوں کو بھی گواہی دی۔‏ بِلاشُبہ وہ یسوع مسیح کے اس حکم پر عمل کر رہے تھے کہ ”‏جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ۔‏“‏—‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

پہلی صدی کے مسیحیوں نے تبلیغ کرنے کا باقاعدہ بندوبست کر رکھا تھا۔‏ اس سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ اگر ہم مُنادی کے کام میں یہوواہ کی پاک روح کی مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی ایسا کرنا چاہئے۔‏ ہم یہ بھی سیکھ سکتے ہیں کہ جب ہم خدا کے کلام کا احترام کرنے والے لوگوں کو گواہی دیتے ہیں تو ہم نسبتاً زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔‏ اِس بات کو ایسے علاقوں میں مدِنظر رکھنا چاہئے جہاں کم ہی یہوواہ کے گواہ موجود ہیں۔‏ کیا آپکی کلیسیا کے علاقے میں ایسی آبادیاں ہیں جہاں کافی لوگ بائبل کے پیغام کو سننے کیلئے تیار ہیں؟‏ پھر وہاں مُنادی کرنے میں اَور بھی کوشش لگانے سے بہت اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔‏ کیا آپکے علاقے میں ایسی بھی جگہیں ہیں جہاں لوگ سیر کیلئے آتے ہیں،‏ مثلاً بازار،‏ پارک یا میلے وغیرہ؟‏ توپھر کیا آپ وہاں جا کر بھی لوگوں کو گواہی دے سکتے ہیں؟‏

خدا کے کلام میں ابتدائی مسیحیوں کی خدمت کے بارے میں پڑھنے کیساتھ ساتھ اگر ہم اُس زمانے کی تاریخی اور جغرافیائی تفصیلات پر بھی غور کریں گے تو ہمیں فائدہ ہوگا۔‏ اس سلسلے میں آپ کتابچے ‏”‏سی دی گُڈ لینڈ“‏ میں پائے جانے والی تصویروں اور نقشوں کو بہت دلچسپ پائیں گے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 2 ہو سکتا ہے کہ یہ مجلس بھی اُس وقت جمع ہوئی تھی جب یروشلیم میں بزرگ اور رسول ختنہ کے معاملے میں فیصلہ کرنے کیلئے جمع ہوئے تھے۔‏—‏اعمال ۱۵:‏۶-‏۲۹‏۔‏

^ پیراگراف 13 اِس مضمون میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پولس نے یہودیوں میں تبلیغ کی تھی۔‏ لیکن غور کریں کہ پولس کو ”‏غیرقوموں کا رسول“‏ بھی کہا گیا تھا۔‏—‏رومیوں ۱۱:‏۱۳‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر چارٹ]‏

پولس رسول نے کن کن شہروں میں گواہی دی؟‏

سن ۴۹ کی مجلس سے پہلے

اعمال ۹:‏۱۹،‏ ۲۰ دمشق—‏”‏[‏وہ]‏ فوراً عبادتخانوں میں یسوؔع کی مُنادی کرنے لگا“‏

اعمال ۹:‏۲۹ یروشلیم—‏’‏وہ یونانی زبان بولنے والے یہودیوں کیساتھ

گفتگو بھی کرتا تھا‘‏

اعمال ۱۳:‏۵ کُپرس کا سلمیس—‏”‏[‏وہ]‏ یہودیوں کے عبادتخانوں میں خدا کا

کلام سنانے لگے“‏

اعمال ۱۳:‏۱۴ پِسدیہ کا انطاکیہ—‏”‏[‏وہ]‏ عبادتخانہ میں جا بیٹھے“‏

اعمال ۱۴:‏۱ اِکنیم—‏”‏وہ .‏ .‏ .‏ یہودیوں کے عبادت‌خانہ میں گئے“‏

سن ۴۹ کی مجلس کے بعد

اعمال ۱۶:‏۱۴ فلپی—‏”‏ایک خداپرست عورت لدؔیہ نام .‏ .‏ .‏ سنتی تھی“‏

اعمال ۱۷:‏۱ تھسلنیکے—‏”‏جہاں یہودیوں کا ایک عبادتخانہ تھا“‏

اعمال ۱۷:‏۱۰ بیریہ—‏”‏وہ وہاں پہنچ کر یہودیوں کے عبادتخانہ میں گئے“‏

اعمال ۱۷:‏۱۷ اتھینے—‏”‏[‏وہ]‏ عبادت‌خانہ میں یہودیوں .‏ .‏ .‏ سے روز بحث

کِیا کرتا تھا“‏

اعمال ۱۸:‏۴ کرنتھس—‏’‏وہ عبادتخانہ میں بحث کرتا تھا‘‏

اعمال ۱۸:‏۱۹ افسس—‏”‏[‏وہ]‏ عبادتخانہ میں جا کر یہودیوں سے بحث

کرنے لگا“‏

اعمال ۱۹:‏۸ افسس—‏”‏وہ عبادتخانہ میں جا کر تین مہینے تک دلیری سے

بولتا .‏ .‏ .‏ رہا“‏

اعمال ۲۸:‏۱۷ رومہ—‏”‏اُس نے یہودیوں کے رئیسوں کو بلوایا“‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

سن ۳۳ میں پنتِکُست کے موقعے پر خوشخبری سننے والے یہودی مختلف علاقوں سے یروشلیم آئے تھے

اُلُرّکم

اٹلی

رومہ

مَکِدُنیہ

یونان

اتھینے

کریتے

کُرینے

لبوآ (‏لیبیا)‏

بِتونیہ

گلتیہ

آسیہ

فروگیہ

پمفیلیہ

کُپرس (‏قبرص)‏

مصر

حبش (‏ایتھیوپیا)‏

پُنطُس

کپدُکیہ

کلِکِیہ

مسوپتامیہ

سُوریہ

سامریہ

یروشلیم

یہودیہ

مادی

بابل

عیلام

عرب

پارتھیا

‏[‏سمندر اور جھیلیں]‏

بحیرۂروم

بحیرۂاسود

بحرِقلزم

خلیجِ‌فارس