کیا کوئی واقعی دُنیا کی حالتیں بدل سکتا ہے؟
کیا کوئی واقعی دُنیا کی حالتیں بدل سکتا ہے؟
”غریب لوگوں کا کہنا ہے کہ اُنکی اولین ضرورت امنوسلامتی ہے اور انہیں ایسے مواقع میسر آئیں جن سے اُنکی زندگیاں بہتر بن جائیں۔ وہ قومی اور بینالاقوامی سطح پر انصاف پر مبنی نظام چاہتے ہیں تاکہ بڑی اور طاقتور حکومتیں اُنکی کوششوں کو ناکام نہ بنا سکیں۔“
ان الفاظ میں لوگوں کی امداد کرنے والے ایک بینالاقوامی ادارے کی ڈائریکٹر نے غریبوں کی اُمیدوں اور اُمنگوں کو بیان کِیا۔ درحقیقت یہ الفاظ دُنیا کی مصیبتوں اور ناانصافیوں کا شکار تمام لوگوں کی خواہش کی خوب عکاسی کرتے ہیں۔ وہ سب ایک ایسی دُنیا چاہتے ہیں جس میں حقیقی امنوسلامتی ہو۔ کیا اُنکی یہ خواہش کبھی پوری ہوگی؟ کیا کوئی واقعی اس دُنیا کی حالتوں کو بدلنے کی طاقت اور صلاحیت رکھتا ہے؟
مختلف کوششیں
بہت سے لوگوں نے دُنیا کی حالتوں کو بدلنے کیلئے مختلف کوششیں کی ہیں۔ مثال کے طور پر، ۱۹ ویں صدی کی ایک برطانوی خاتون فلورنس نائٹانگیل نے اپنی زندگی بیماروں کی دیکھبھال کرنے کیلئے وقف کر دی۔ اُسکے زمانے میں اینٹیبائیوٹک اور اینٹیسیپٹک ادویات نہیں تھیں۔ لہٰذا، مریضوں کی نگہداشت ایسے نہیں کی جاتی تھی جسکی ہم آجکل توقع کرتے ہیں۔ ایک کتاب بیان کرتی ہے کہ اُس وقت ”نرسیں نہ تو پڑھیلکھی ہوتی تھیں اور نہ ہی صافستھری۔ وہ شرابنوشی بھی کرتی تھیں اور بداخلاق بھی تھیں۔“ کیا فلورنس نائٹانگیل نرسنگ کے شعبے میں کسی حد تک تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئی؟ یقیناً وہ کامیاب رہی تھی۔ اسی طرح بےشمار مہربان اور بغیر کسی لالچ کے کام کرنے والے لوگوں کو زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ ان میں خواندگی، تعلیم، ادویات، رہائش اور خوراک وغیرہ شامل ہیں۔ اسکے نتیجے میں، لاکھوں ضرورتمند لوگوں کو اپنا معیارِزندگی بہتر بنانے میں خاطرخواہ مدد دی گئی ہے۔
اسکے باوجود، ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے: ابھی تک لاکھوں لوگوں کو جنگ، جرم، بیماری، قحط اور دیگر مصیبتوں کا سامنا ہے۔ آئرلینڈ کے ایک امداد کرنے والے ادارے نے بیان کِیا: ”غربت ہر روز ۰۰۰،۳۰ لوگوں کی جان لے لیتی ہے۔“ جہانتک لوگوں کو غلام بنا کر رکھنے کا تعلق ہے تو ماضی میں لوگوں کی بہت زیادہ کوششوں کے باوجود یہ روایت ابھی تک قائم ہے۔ ایک کتاب بیان کرتی ہے: ”اُس وقت کی نسبت جب افریقہ سے لوگوں کو غلام بناکر دوسرے ملکوں میں بھیجا جاتا تھا آج زیادہ غلام ہیں۔“
کس چیز نے لوگوں کی مکمل اور دائمی تبدیلی لانے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے؟ کیا یہ دولتمند اور طاقتور قوموں کی طرف سے طاقت کا غلط استعمال ہے یا اس میں کچھ اَور بھی شامل ہے؟
تبدیلیاں لانے کی راہ میں رکاوٹیں
خدا کے کلام کے مطابق، انصافپسند دُنیا لانے کیلئے انسان کی کوششوں کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ شیطان ابلیس ہے۔ یوحنا رسول بیان کرتا ہے کہ ”ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔“ (۱-یوحنا ۵:۱۹) اس وقت بھی شیطان ”سارے جہان کو گمراہ کر“ رہا ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۹) جبتک شیطان کے اس اثر کو ختم نہیں کر دیا جاتا اُس وقت تک لوگوں کو بُرائی اور ناانصافی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس افسوسناک صورتحال کی اصل وجہ کیا ہے؟
ہمارے پہلے والدین آدم اور حوا کو زمین پر ایک ایسی جگہ رکھا گیا جو تمام انسانوں کیلئے ایک فردوسنما خوبصورت گھر بن سکتی تھی۔ یہ گھر بائبل کے مطابق ”بہت اچھا“ تھا۔ (پیدایش ۱:۳۱) لیکن کیا چیز حالات میں تبدیلی کا سبب بنی؟ یہ تبدیلی شیطان کی وجہ سے آئی تھی۔ خدا کو انسانوں کیلئے زندگی گزارنے کے اصول بنانے کا حق تھا۔ شیطان نے خدا کے اس حق کو چیلنج کِیا۔ اُس نے کہا کہ خدا کا حکومت کرنے کا طریقہ درست نہیں۔ اُس نے آدم اور حوا کو خودمختار بننے کیلئے اُبھارا تاکہ وہ اپنے اچھے اور بُرے کا فیصلہ خود کر سکیں۔ (پیدایش ۳:۱-۶) اسکی وجہ سے ایک راست دُنیا لانے کی انسانی کوششوں میں دوسری بڑی رکاوٹ یعنی گناہ اور موت نے جنم لیا۔—رومیوں ۵:۱۲۔
اسکی اجازت کیوں دی گئی؟
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے گناہ اور ناکاملیت کے بڑھنے کی اجازت کیوں دی؟ اس نے اپنی لامحدود طاقت کو باغیوں کو کچلنے اور نئے
سرے سے دُنیا شروع کرنے کیلئے استعمال کیوں نہ کِیا؟ واقعی یہ ایک آسان حل دکھائی دیتا ہے۔ لیکن طاقت کے استعمال سے بہت سے سوالات اُٹھ سکتے تھے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ طاقت کا غلط استعمال ہی دُنیا کے غریب اور مظلوم لوگوں کی پریشانیوں کی سب سے بڑی وجہ ہے؟ جب کوئی حکمران کسی ایسے شخص کے خلاف اپنی طاقت کا استعمال کرتا ہے جو اُسکی پالیسیوں سے متفق نہیں ہوتا تو کیا خلوصدل لوگوں کے ذہنوں میں سوال پیدا نہیں ہوتے؟خدا نے خلوصدل لوگوں کو اس بات کی یقیندہانی کرانے کیلئے کہ وہ اپنی طاقت کو ظالمانہ طریقے سے استعمال نہیں کرتا شیطان اور باغی انسانوں کو ایک محدود وقت کیلئے الہٰی اصولوں اور قوانین کے سلسلے میں منمانی کرنے کی اجازت دے دی۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ بات ثابت ہو جانی تھی کہ صرف خدا کا حکومت کرنے کا طریقہ درست ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہو جانا تھا کہ خدا ہم پر جو بھی پابندیاں لگاتا ہے وہ ہماری بھلائی کیلئے ہیں۔ بِلاشُبہ، خدا کی حکمرانی کے خلاف بغاوت کے افسوسناک نتائج نے اس بات کو سچ ثابت کر دیا ہے۔ ان افسوسناک نتائج نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ خدا جب چاہے بُرائی کو ختم کرنے کیلئے اپنی طاقت کا استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔ خدا بہت جلد یہ سب کچھ کرے گا۔—پیدایش ۱۸:۲۳-۳۲؛ استثنا ۳۲:۴؛ زبور ۳۷:۹، ۱۰، ۳۸۔
جبتک خدا کارروائی نہیں کرتا ہمیں ایک ناانصاف دُنیا میں رہنا ہے جو ”مل کر اب تک کراہتی ہے اور دردِزہ میں پڑی تڑپتی ہے۔“ (رومیوں ۸:۲۲) ہم حالات کو بدلنے کیلئے خواہ کچھ بھی کیوں نہ کر لیں ہم نہ تو شیطان سے اور نہ ہی تمامتر مشکلات کی بنیادی وجہ یعنی ناکاملیت سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ ہمارے لئے آدم کے گناہ کے اثرات کو ختم کرنا ناممکن ہے۔—زبور ۴۹:۷-۹۔
یسوع مسیح دائمی تبدیلی لائے گا
پس کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ صورتحال مکمل طور پر مایوسکُن ہے؟ ہرگز نہیں۔ دائمی تبدیلی لانے کا اختیار فانی انسانوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہستی کو سونپا گیا ہے۔ وہ ہستی کون ہے؟ وہ یسوع مسیح ہے۔ بائبل میں اُسے انسانوں کی نجات کیلئے خدا کے نمائندے کے طور پر بیان کِیا گیا ہے۔—اعمال ۵:۳۱۔
وہ کارروائی کرنے کیلئے خدا کے مقررہ ”وقت“ کا منتظر ہے۔ (مکاشفہ ۱۱:۱۸) لیکن وہ کیا کرے گا؟ وہ ”سب چیزیں بحال“ کرے گا ”جنکا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کِیا ہے جو دُنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں۔“ (اعمال ۳:۲۱) مثال کے طور پر، یسوع مسیح ”محتاج کو جب وہ فریاد کرے اور غریب کو جسکا کوئی مددگار نہیں چھڑائے گا۔ . . . وہ فدیہ دیکر اُنکی جان کو ظلم اور جبر سے چھڑائے گا۔“ (زبور ۷۲:۱۲-۱۶) خدا وعدہ کرتا ہے کہ وہ یسوع مسیح کے ذریعے ”زمین کی انتہا تک جنگ موقوف“ کرائے گا۔ (زبور ۴۶:۹) وہ وعدہ کرتا ہے: ”[زمین] کے باشندوں میں بھی کوئی نہ کہے گا کہ مَیں بیمار ہوں۔“ جیہاں، اندھے، بہرے، لنگڑے یعنی وہ تمام لوگ جو مختلف بیماریوں کا شکار ہیں مکمل طور پر صحتیاب ہو جائیں گے۔ (یسعیاہ ۳۳:۲۴؛ ۳۵:۵، ۶؛ مکاشفہ ۲۱:۳، ۴) وہ لوگ جو ماضی میں وفات پا چکے ہیں وہ بھی اس تبدیلی سے فائدہ اُٹھائیں گے۔ وہ ناانصافی اور ظلم کا شکار ہونے والے ان لوگوں کو دوبارہ زندگی بخشنے کا وعدہ کرتا ہے۔—یوحنا ۵:۲۸، ۲۹۔
یسوع مسیح کسی ایک جگہ پر یا عارضی تبدیلی نہیں لائے گا۔ وہ ایک راست دُنیا کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو ختم کر دے گا۔ وہ گناہ اور موت کو ختم کرے گا اور شیطان ابلیس اور اُسکی باغیانہ روش کی پیروی کرنے والے تمام لوگوں کو نیستونابود کر دے گا۔ (مکاشفہ ۱۹:۱۹، ۲۰؛ ۲۰:۱-۳، ۱۰) دُکھتکلیف جسکی خدا نے وقتی طور پر اجازت دی ہے ”دوبارہ نہ“ آئیں گے۔ (ناحوم ۱:۹) جب یسوع مسیح نے خدا کی بادشاہت کے آنے اور خدا کی مرضی ”جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی“ ہونے کیلئے دُعا سکھائی تو اُسکے ذہن میں یہی باتیں تھیں۔—متی ۶:۱۰۔
لیکن آپ شاید کہیں کیا یسوع مسیح نے خود ہی یہ نہیں کہا تھا کہ ”غریبغربا تو ہمیشہ تمہارے پاس ہیں“؟ کیا اسکا یہ مطلب نہیں کہ ناانصافی اور غریبی ہمیشہ رہے گی؟ (متی ۲۶:۱۱) سچ ہے کہ یسوع نے کہا تھا کہ غریب لوگ ہمیشہ رہیں گے۔ تاہم، خدا کے کلام کے وعدے اور یسوع کے ان الفاظ کا سیاقوسباق اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یسوع کا مطلب یہ تھا کہ جب تک یہ دُنیا قائم ہے غریب لوگ ہمیشہ موجود ہوں گے۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کوئی بھی انسان کبھی بھی غربت اور ناانصافی کو ختم نہیں کر سکتا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہی تبدیلی لائے گا۔ بہت جلد وہ ’نیا آسمان اور نئی زمین‘ یعنی ایک نیا نظام قائم کرے گا جس میں دُکھتکلیف، بیماری، غربت اور موت مکمل طور پر ختم کر دی جائیں گی۔—۲-پطرس ۳:۱۳؛ مکاشفہ ۲۱:۱۔
”بھلائی . . . کرنا نہ بھولو“
کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ اگر ہم دوسروں کی مدد کرنے کیلئے کچھ کرتے ہیں تو وہ سب بیکار ہے؟ ہرگز نہیں۔ بائبل ہماری حوصلہافزائی کرتی ہے کہ مشکلاوقات اور تکلیفدہ حالات میں دوسروں کی مدد کریں۔ بادشاہ سلیمان نے لکھا: ”بھلائی کے حقدار سے اُسے دریغ نہ کرنا جب تیرے مقدور میں ہو۔“ (امثال ۳:۲۷) پولس رسول نے بھی نصیحت کی: ”بھلائی اور سخاوت کرنا نہ بھولو۔“—عبرانیوں ۱۳:۱۶۔
یسوع مسیح نے بھی ہماری حوصلہافزائی کی کہ دوسروں کی مدد کرنے کیلئے ہم جوکچھ بھی کر سکتے ہیں ضرور کریں۔ یہ سمجھانے کیلئے اُس نے ایک سامری کی تمثیل بیان کی۔ اُسے ایک ایسا آدمی نظر آیا جسے ڈاکو لوٹمار کرنے کے بعد ادھمؤا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ یسوع مسیح نے کہا کہ سامری نے ”ترس“ کھا کر نہ صرف اپنی چیزیں استعمال کرتے ہوئے اُس آدمی کے زخموں کی مرہمپٹی کی بلکہ مکمل طور پر صحتیاب ہونے میں اسکی مدد بھی کی۔ (لوقا ۱۰:۲۹-۳۷) یہ رحمدل سامری دُنیا کو تو بدل نہیں پایا تھا لیکن اسکی وجہ سے ایک شخص کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئی تھی۔ ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔
تاہم، یسوع مسیح محض لوگوں کی مدد کرنے سے زیادہ کچھ کر سکتا ہے۔ وہ واقعی دائمی تبدیلی لا سکتا ہے اور بہت جلد وہ ایسا کرے گا۔ جب وہ ایسا کرے گا تو آجکل ناانصافی کا شکار تمام لوگ اچھی زندگیاں گزارنے اور امنوسلامتی سے لطف اُٹھانے کے قابل ہوں گے۔—زبور ۴:۸؛ ۳۷:۱۰، ۱۱۔
پس جبکہ ہم اُس وقت کے منتظر ہیں، آئیے اس ناانصاف دُنیا کے شکار تمام لوگوں کیساتھ جہاں تک ممکن ہو مالی اور روحانی طور پر ”نیکی کریں۔“—گلتیوں ۶:۱۰۔
[صفحہ ۵ پر تصویریں]
فلورنس نائٹانگیل نرسنگ کے شعبے میں تبدیلی لانے میں کامیاب رہی
[تصویر کا حوالہ]
Courtesy National Library of Medicine
[صفحہ ۷ پر تصویریں]
مسیح کے شاگرد دوسروں کیساتھ بھلائی کرتے ہیں
[صفحہ ۴ پر تصویر کا حوالہ]
.Johannesburg, S.A ,The Star