خدا کیساتھ ساتھ چلیں اور اچھا انجام پائیں
خدا کیساتھ ساتھ چلیں اور اچھا انجام پائیں
”اُنہوں نے ہوا بوئی۔ وہ گردباد کاٹیں گے۔“—ہوسیع ۸:۷۔
۱. ہم خدا کیساتھ ساتھ کیسے چل سکتے ہیں؟
ذرا تصور کریں کہ آپ ایک ریگستانی علاقے میں سفر کر رہے ہیں۔ کیا آپ آسانی سے اپنا راستہ ڈھونڈ لیں گے؟ یا پھر کیا آپ ایک ایسے شخص کو اپنا ہمراہ بنا لیں گے جو اس علاقے سے خوب واقف ہے؟ دراصل ہم سب ایک ایسی ہی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم اس بُری دُنیا کے ریگستانی علاقے سے گزر رہے ہیں اور یہوواہ خدا اس سفر میں ہماری راہنمائی کرنے کو تیار ہے۔ کیا ہم اُسکی راہنمائی قبول کریں گے؟ انسان خدا کے کلام میں پائی جانے والی راہنمائی پر عمل کرنے سے ہی اُسکے ساتھ ساتھ چل سکتا ہے۔
۲. اس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
۲ پچھلے مضمون میں ہم نے ہوسیع ۱ تا ۵ باب پر غور کرنے سے چند ایسے سبق سیکھے تھے جو خدا کیساتھ ساتھ چلنے میں ہمارے لئے فائدہمند ثابت ہوں گے۔ اس مضمون میں ہم ہوسیع ۶ تا ۹ باب پر غور کریں گے۔
اگلے چار باب کا خلاصہ
۳. ہوسیع ۶ تا ۹ باب کا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کریں۔
۳ یہوواہ خدا نے ہوسیع کو اسرائیل کی سلطنت کے دس قبیلوں کو نبوّت کرنے کیلئے بھیجا۔ اس سلطنت کو افرائیم کا نام بھی دیا گیا کیونکہ یہ اُسکا سب سے بڑا قبیلہ تھا۔ البتہ یہ قوم خدا سے پھر گئی تھی۔ ہوسیع ۶ تا ۹ باب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلیوں نے خدا کا عہد توڑنے اور بدکاری کرنے سے اُس سے بیوفائی کی تھی۔ (ہوسیع ۶:۷) اپنے خدا پر بھروسہ کرنے کی بجائے اُنہوں نے بُتپرست قوموں کیساتھ سمجھوتا کِیا تھا۔ بدکاری بونے کا انجام یہی تھا کہ اُنکو بدکاری کاٹنی پڑی یعنی اُن پر خدا کا عذاب نازل ہونے والا تھا۔ لیکن ہوسیع کے پیغام میں یہ بھی شامل تھا کہ اگر وہ لوگ دل سے توبہ کرکے دوبارہ سے یہوواہ کی عبادت کریں گے تو وہ اُنکو معاف کر دے گا۔
۴. ہوسیع ۶ تا ۹ باب میں ہم کونسے چار سبق پاتے ہیں؟
۴ ہوسیع کی کتاب کے ان چار باب میں ہم خدا کیساتھ ساتھ چلنے کیلئے چار اہم سبق پاتے ہیں۔ (۱) دلی توبہ ہمارے اعمال سے ظاہر ہوتی ہے۔ (۲) ہم صرف قربانیاں دینے سے ہی خدا کو خوش نہیں کر سکتے۔ (۳) جب اُسکے خادم اُس سے پھر جاتے ہیں تو یہوواہ خدا کو دُکھ ہوتا ہے۔ (۴) اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا انجام اچھا ہو تو ہمارا چالچلن بھی اچھا ہونا چاہئے۔
دلی توبہ کیسے ظاہر ہوتی ہے؟
۵. ہوسیع ۶:۱-۳ کا خلاصہ بیان کیجئے۔
۵ ہم توبہ کرنے اور معافی حاصل کرنے کے بارے میں ہوسیع کی نبوّت سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہوسیع ۶:۱-۳ میں ہم یوں پڑھتے ہیں: ”آؤ ہم [یہوواہ] کی طرف رُجُوع کریں کیونکہ اُسی نے پھاڑا ہے اور وہی ہم کو شفا بخشے گا۔ اُسی نے مارا ہے اور وہی ہماری مرہم پٹی کرے گا۔ وہ دو روز کے بعد ہم کو حیاتِتازہ بخشے گا اور تیسرے روز اُٹھا کھڑا کرے گا اور ہم اُسکے حضور زندگی بسر کریں گے۔ آؤ ہم دریافت کریں اور [یہوواہ] کے عرفان میں ترقی کریں۔ اُسکا ظہور صبح کی مانند یقینی ہے اور وہ ہمارے پاس برسات کی مانند یعنی آخری برسات کی مانند جو زمین کو سیراب کرتی ہے آئے گا۔“
۶-۸. یہوواہ خدا نے اسرائیلیوں کو معاف کیوں نہیں کِیا؟
ہوسیع ۶:۱-۳ میں درج الفاظ اُن اسرائیلیوں نے کہے تھے جو توبہ کرنے کا محض دکھاوا کر رہے تھے۔ اسرائیلیوں کو یقین تھا کہ خدا اُنکو ضرور معاف کر دے گا۔ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ الفاظ ہوسیع نبی کے تھے جو اسرائیلیوں کو یہوواہ کی طرف رُجُوع کرنے کو کہہ رہا تھا۔ بہرحال سچ تو یہ ہے کہ اسرائیلی سلطنت کے زیادہتر باشندوں نے اپنی بدکاری سے توبہ نہیں کی۔ اسلئے یہوواہ نے کہا: ”اَے اؔفرائیم مَیں تجھ سے کیا کروں؟ اَے یہوؔداہ مَیں تجھ سے کیا کروں؟ کیونکہ تمہاری نیکی صبح کے بادل اور شبنم کی مانند جلد جاتی رہتی ہے۔“ (ہوسیع ۶:۴) واقعی اسرائیلیوں میں نیکی اور شفقت کی سخت کمی تھی۔ اگر وہ یہ خوبیاں ظاہر بھی کرتے تو یہ اتنی ہی جلد غائب ہو جاتیں جیسے دھوپ نکلتے ہی شبنم غائب ہو جاتی ہے۔ حالانکہ ایسا لگتا تھا کہ ان لوگوں نے توبہ کر لی تھی لیکن یہوواہ خدا نے اُنہیں معاف نہ کِیا۔ اسکی کیا وجہ تھی؟
۶ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ۷ دراصل اُن اسرائیلیوں نے دل سے توبہ نہیں کی تھی۔ ہوسیع ۷:۱۴ میں یہوواہ اپنی ناراضگی یوں ظاہر کرتا ہے: ”وہ حضورِقلب کیساتھ مجھ سے فریاد نہیں کرتے بلکہ اپنے بستروں پر پڑے چلاتے ہیں۔“ آیت ۱۶ میں لکھا ہے کہ ”وہ رُجُوع ہوتے ہیں پر حقتعالیٰ کی طرف نہیں۔“ اسرائیل کے لوگ خدا کو خوش کرنے کیلئے اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانے کو تیار نہیں تھے۔ اُنکے دل میں یہوواہ کیساتھ ساتھ چلنے کی خواہش نہیں تھی۔
۸ اسرائیلی اپنے گنہگارانہ چالچلن سے باز نہ آئے۔ اُن میں دھوکابازی، قتل، چوری اور بُتپرستی جیسے گُناہ عام تھے۔ اسکے علاوہ اُنہوں نے دوسری قوموں کیساتھ دوستانہ تعلقات بڑھائے۔ ہوسیع ۷:۴ میں کہا گیا ہے کہ یہ اسرائیلی ایک ”تنور“ کی مانند تھے کیونکہ اُنکے دل میں بُرائی کی آگ جل رہی تھی۔ کیا یہوواہ خدا کو ایسے بدکار لوگوں کو معاف کرنا چاہئے تھا؟ ہرگز نہیں۔ اسلئے ہوسیع نے نبوّت کی کہ یہوواہ ”اُنکی بدکرداری کو یاد کرے گا اور اُنکے گُناہوں کی سزا دے گا۔“—ہوسیع ۹:۹۔
۹. ہوسیع کی نبوّت سے ہم توبہ کرنے اور معافی حاصل کرنے کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
۹ ہوسیع کی نبوّت سے ہم توبہ کرنے اور معافی حاصل کرنے کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟ اسرائیلیوں کی بُری مثال سے ہم جان لیتے ہیں کہ اپنے گُناہوں کی معافی حاصل کرنے کیلئے ہمیں دل سے توبہ کرنی چاہئے۔ ایسی توبہ ہمارے اعمال سے ظاہر ہوتی ہے۔ ہم محض مُنہبولی توبہ سے یہوواہ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ معافی حاصل کرنے کیلئے ہمیں اپنے گُناہوں کو چھوڑ کر یہوواہ کی مرضی کے مطابق زندگی ڈھالنی چاہئے۔
صرف قربانیاں دینے سے ہی ہم خدا کو خوش نہیں کر سکتے
۱۰، ۱۱. یہوواہ خدا کو اسرائیلیوں کی قربانیاں کیوں پسند نہیں تھیں؟
۱۰ خدا کیساتھ ساتھ چلنے کیلئے دوسرا اہم سبق یہ ہے: صرف قربانیاں دینے سے ہم خدا کو خوش نہیں کر سکتے۔ ہوسیع ۶:۶ میں لکھا ہے: ”مَیں [یہوواہ] قربانی نہیں بلکہ رحم [”دینداری،“ کیتھولک ورشن] پسند کرتا ہوں اور خداشناسی کو سوختنی قربانیوں سے زیادہ چاہتا ہوں۔“ یہوواہ دیندار لوگوں کو پسند کرتا ہے جو خداشناس ہیں یعنی اُسکے بارے میں علم حاصل کرتے ہیں۔ موسیٰ کی شریعت میں قربانیاں دینے کا حکم یہوواہ ہی نے دیا تھا۔ توپھر اس آیت میں یہ کیوں کہا گیا ہے کہ یہوواہ ”قربانی“ نہیں پسند کرتا؟
۱۱ ہوسیع کے زمانے میں اسرائیلی یہ قربانیاں محض رسمی طور پر، دکھاوے کیلئے پیش کرتے تھے لیکن اُنکے اعمال بُرے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دیندار نہیں تھے بلکہ اُنہوں نے خدا کی تعلیم کو رد کر دیا تھا۔ توپھر یہوواہ ایسے بےوفا لوگوں کی قربانیوں کو کیسے پسند کرتا؟ دراصل اُسے اسرائیلیوں کی قربانیوں سے کوفت تھی۔
۱۲. ہوسیع ۶:۶ میں مسیحی ہونے کا دعویٰ کرنے والے اشخاص کیلئے کیا آگاہی پائی جاتی ہے؟
۱۲ آجکل بہت سے اشخاص جو مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، مذہبی رسمیں تو ادا کرتے ہیں لیکن ان کے چالچلن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دل سے دیندار نہیں ہیں۔ وہ خدا کی تعلیم کو رد کر دیتے ہیں اور اپنی بُری روش کو ترک کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ کیا خدا ایسے لوگوں کی عبادت سے خوش ہوتا ہے؟ کسی شخص کو اس غلطفہمی میں نہیں پڑنا چاہئے کہ مذہبی رسمورواج کا پابند ہونے سے وہ خدا کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے۔ یہوواہ دینداری کا دکھاوا کرنے والے لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔—۲-تیمتھیس ۳:۵۔
۱۳. آجکل سچے مسیحی خدا کیلئے کس قسم کی قربانیاں چڑھاتے ہیں؟ اور یہوواہ ان قربانیوں کو کس شرط پر قبول کرتا ہے؟
۱۳ سچے مسیحی جانتے ہیں کہ وہ صرف قربانیاں پیش کرنے سے خدا کو خوش نہیں کر سکتے۔ آجکل ہم یہوواہ کیلئے جانور تو قربان نہیں کرتے لیکن ’ہم حمد کی قربانی یعنی ان ہونٹوں کا پھل جو اُسکے نام کا اقرار کرتے ہیں خدا کیلئے چڑھایا کرتے ہیں۔‘ (عبرانیوں ۱۳:۱۵) ہمیں ہوسیع کے زمانے کے بدکار اسرائیلیوں کی سوچ کو نہیں اپنانا چاہئے۔ یہوواہ کی خدمت میں قربانیاں دینے سے ہم اپنی بُری حرکتوں کا قرض نہیں چکا سکتے۔ اس سلسلے میں ایک نوجوان بہن کی مثال لیجئے جو پوشیدگی میں جنسی بداخلاقی کرتی تھی۔ بعد میں اُس نے کہا: ”مَیں نے مُنادی کے کام میں زیادہ وقت صرف کرنا شروع کر دیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اسطرح یہوواہ میری بداخلاقی کو نظرانداز کر دے گا۔“ ہوسیع کے زمانے کے اسرائیلی بھی یہی سوچ رکھتے تھے۔ لیکن یہوواہ ہماری حمد کی قربانی صرف اس شرط پر قبول کرتا ہے کہ ہمارا چالچلن پاک اور ہمارا دل صاف ہو۔
اُنہوں نے خدا کو دُکھی کِیا
۱۴. ہوسیع کی کتاب یہوواہ کے احساسات کے بارے میں کیا ظاہر کرتی ہے؟
۱۴ جب اُسکے خادم اُس سے پھر جاتے ہیں تو یہوواہ خدا کیسے ہوسیع ۶ تا ۹ باب کا تیسرا سبق یہوواہ کے ان احساسات کے متعلق ہے۔ وہ اُن لوگوں سے سخت ناخوش ہے جو اپنے گُناہوں سے توبہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن جب ایک شخص اپنے گُناہوں سے توبہ کرکے رُجُوع لاتا ہے تو یہوواہ خوش ہو کر اُس پر رحم کرتا ہے۔ وہ اپنے وفادار خادموں کے چالچلن پر بہت خوش ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں زبور ۱۴۹:۴ میں لکھا ہے کہ ”[یہوواہ] اپنے لوگوں سے خوشنود رہتا ہے۔“ اسکا مطلب ہے کہ اُس کو ہماری فکر ہے۔ وہ ہمیں خوش دیکھنا چاہتا ہے۔ البتہ جب اُس کے خادم بیوفائی کرتے ہیں تو یہوواہ کے احساسات بدل جاتے ہیں۔
محسوس کرتا ہے؟۱۵. ہوسیع ۶:۷ کے مطابق بعض اسرائیلیوں نے کونسی بُری روش اختیار کی؟
۱۵ یہوواہ نے اسرائیلیوں کے بارے میں کہا: ”وہ عہدشکن آدمیوں کی مانند ہیں۔ اُنہوں نے وہاں مجھ سے بیوفائی کی ہے۔“ (ہوسیع ۶:۷) اسرائیلیوں نے کس لحاظ سے یہوواہ سے ”بیوفائی“ کی تھی؟ ملاکی ۲:۱۰-۱۶ میں لفظ ”بیوفائی“ اُن شوہروں کے سلسلے میں استعمال ہوا ہے جنہوں نے اپنی جوانی کی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ ایک لغت میں ہوسیع ۶:۷ کی وضاحت یوں کی گئی ہے: ”اس آیت میں لفظ ’بیوفائی‘ کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا کو چوٹ پہنچائی گئی تھی . . . کیونکہ یہ لفظ محبت کے ایک رشتے کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے ٹھکرایا گیا ہو۔“
۱۶، ۱۷. (ا) اسرائیلیوں نے خدا سے کس لحاظ میں بیوفائی کی؟ (ب) آزمائش کا سامنا کرتے وقت ہمیں کیا یاد رکھنا چاہئے؟
۱۶ جب یہوواہ نے بنیاسرائیل کیساتھ ایک عہد باندھا تو اُس نے اُنکو اپنی علامتی بیوی کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ اسلئے جب اسرائیلیوں نے اس عہد کو توڑا تو خدا کی نظروں میں یہ زِناکاری کے برابر تھا۔ اُنہوں نے اپنے وفادار شوہر کو ٹھکرا دیا تھا۔
۱۷ ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ چاہے ہم اُسکے ساتھ ساتھ چلتے ہیں یا نہیں، خدا کو ہماری فکر ہے۔ چونکہ ”خدا محبت ہے“ اسلئے وہ ہمارے چالچلن میں دلچسپی لیتا ہے۔ (۱-یوحنا ۴:۱۶) ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم کوئی بُرا کام کرتے ہیں تو خدا کو دُکھ ہوتا ہے۔ اسطرح جب ہمیں ایک آزمائش کا سامنا ہوگا تب بھی ہم بُرے کام کرنے سے انکار کریں گے۔
اچھائی بوئیں، اچھا کاٹیں
۱۸، ۱۹. ہوسیع ۸:۷ میں کونسا اصول پایا جاتا ہے اور یہ اسرائیلیوں کے بارے میں کیسے سچ ثابت ہوا؟
۱۸ ہوسیع کی نبوّت کے چوتھے سبق سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ ہمارا انجام اچھا کیسے ہو سکتا ہے۔ ہوسیع نے اسرائیلیوں کی روش کے بارے میں لکھا کہ ”اُنہوں نے ہوا بوئی۔ وہ گردباد کاٹیں گے۔“ (ہوسیع ۸:۷) واقعی جو کچھ ہم کرتے ہیں ہماری زندگی پر اسکا اثر ضرور پڑتا ہے۔ ہمیں اس اہم اصول کو یاد رکھنا چاہئے۔ یہ اصول بیوفا اسرائیلیوں کے بارے میں کیسے سچ ثابت ہوا؟
۱۹ باربار گُناہ کرنے سے اسرائیلی بُرائی کے بیج بو رہے تھے۔ اُنکو ان بُرے کاموں کی کیسی فصل کاٹنی تھی؟ وہ خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکتے تھے۔ ہوسیع ۸:۱۳ میں لکھا ہے کہ یہوواہ ”اُنکی بدکرداری کو یاد کرے گا اور اُنکو اُنکے گُناہوں کی سزا دے گا۔“ اسکے علاوہ ہوسیع ۹:۱۷ میں یوں لکھا ہے: ”میرا خدا اُنکو رد کر دے گا کیونکہ وہ اُسکے شنوا نہیں ہوئے اور وہ اقوامِعالم میں آوارہ پھریں گے۔“ اسرائیلیوں نے بُرائی بوئی تھی، لہٰذا اُنکو سزا کاٹنی پڑی۔ یہ ۷۴۰ قبلِمسیح میں واقع ہوا جب اسُوریوں نے اسرائیل کی سلطنت کو شکست دے کر اُسکے باشندوں کو اسیر کر لیا۔
۲۰. اسرائیلیوں کیساتھ جو کچھ ہوا تھا اس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۲۰ اسرائیلیوں کی بدکاری کے انجام سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ جو کچھ ہم بوتے ہیں وہی ہم کاٹیں گے۔ خدا کے کلام میں ہمیں یوں خبردار کِیا جاتا ہے: ”فریب نہ کھاؤ۔ خدا ٹھٹھوں میں نہیں اُڑایا جاتا کیونکہ آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹے گا۔“ (گلتیوں ۶:۷) بُرے کاموں کا انجام بُرا ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جو شخص بداخلاقی کرتا ہے ایک نہ ایک دن اُسے اپنی حرکتوں کا نتیجہ بھگتنا ہی پڑے گا۔ اسی طرح جو شخص اپنی بُری روش چھوڑنے سے انکار کرتا ہے اُسکا انجام بھی بُرا ہوگا۔
۲۱. ہمارا انجام اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟
۲۱ توپھر ہمارا انجام اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟ اس سلسلے میں ایک تمثیل پر غور کیجئے۔ اگر ایک کسان گندم کی فصل کاٹنا چاہتا ہے تو کیا وہ جَو کے بیج بوئے گا؟ ہرگز نہیں۔ کسان جو بھی فصل حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ اُسی کے بیج بوتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا انجام اچھا ہو تو ہمارا چالچلن بھی اچھا ہونا چاہئے۔ کیا آپ ایک خوشحال زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور مستقبل میں خدا کی نئی دُنیا میں ہمیشہ کی زندگی پانا چاہتے ہیں؟ توپھر خدا کی مرضی بجا لائیں اور اُسکے ساتھ ساتھ چلتے رہیں۔
۲۲. ہوسیع ۶ تا ۹ باب میں سے ہم نے کونسے اہم سبق سیکھے ہیں؟
۲۲ ہوسیع ۶ تا ۹ باب سے ہم نے خدا کیساتھ ساتھ چلنے کے سلسلے میں چار اہم سبق سیکھے ہیں۔ (۱) دلی توبہ ہمارے اعمال سے ظاہر ہوتی ہے۔ (۲) ہم صرف قربانیاں دینے سے ہی خدا کو خوش نہیں کر سکتے۔ (۳) جب اُسکے خادم اُس سے پھر جاتے ہیں تو یہوواہ خدا کو دُکھ ہوتا ہے۔ (۴) اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا انجام اچھا ہو تو ہمارا چالچلن بھی اچھا ہونا چاہئے۔ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہوسیع کی کتاب کے آخری پانچ باب میں ہمارے لئے کونسے سبق پائے جاتے ہیں۔
ان سوالوں کا جواب کیا ہوگا؟
• دلی توبہ کیسے ظاہر ہوتی ہے؟
• ہم یہوواہ کو صرف قربانیوں سے خوش کیوں نہیں کر سکتے؟
• یہوواہ اپنے بندوں کی بیوفائی پر کیسا محسوس کرتا ہے؟
• اچھا انجام کاٹنے کیلئے ہمیں کیا بونا چاہئے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
اسرائیلیوں کی نیکی صبح کے بادلوں کی طرح جلد جاتی رہی
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
ایک تنور کی مانند اسرائیلیوں کے دلوں میں بُرائی کی آگ جل رہی تھی
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
یہوواہ خدا نے اپنی قوم کی قربانیوں کو قبول کیوں نہیں کِیا؟
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
اچھا انجام کاٹنے کیلئے ہمیں اچھائی بونی چاہئے