مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

دوسروں کی بات غور سے سنیں

دوسروں کی بات غور سے سنیں

دوسروں کی بات غور سے سنیں

کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ بہت ہی پریشان تھے اور آپکے کسی دوست نے کان لگا کر آپکی باتیں سنی تھیں؟‏ اسکے بعد آپکے دل کا غبار ضرور دُھل گیا ہوگا۔‏ واقعی جب ہم کسی پریشان یا رنجیدہ شخص کی باتوں کو دل لگا کر سنتے ہیں تو اُسکی مشکل ہلکا ہو جاتی ہے۔‏ ایسا کرنے سے ہم ایک دوسرے کے اَور قریب بھی ہو جاتے ہیں۔‏ خاص طور پر کلیسیا میں ہمیں ایک دوسرے کی باتوں کو غور سے سننا چاہئے۔‏ اسطرح ہم ”‏محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے“‏ میں کامیاب رہیں گے۔‏—‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴‏۔‏

افسوس کی بات ہے کہ آجکل زیادہ‌تر لوگ دوسروں کی باتوں پر توجہ دینے کے عادی نہیں رہے۔‏ اسکی بجائے وہ اپنے بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں اور دوسروں کی بات کو پوری طرح سے سنے بغیر ہی نصیحتیں دینے لگتے ہیں۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوسروں کی باتوں کو توجہ سے سننا آسان نہیں ہوتا۔‏ توپھر ہم ایسا کرنا کیسے سیکھ سکتے ہیں؟‏

دوسروں کی سننے میں پہل کریں

یہوواہ خدا ہمارا ”‏مُعلم“‏ یعنی تعلیم دینے والا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۳۰:‏۲۰‏)‏ دوسروں کی باتوں کو غور سے سننے کے بارے میں ہم اُس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ اس سلسلے میں ذرا اس واقعہ پر غور کریں جب ایلیاہ نبی ملکہ ایزبل کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہو کر بیابان کو بھاگ گیا تھا۔‏ وہاں پہنچ کر اُس نے خدا سے اپنے لئے موت مانگی۔‏ اس پر ایک فرشتہ نے آ کر ایلیاہ سے بات کی۔‏ جب ایلیاہ نے اپنی پریشانی کا باعث بتایا تو یہوواہ نے بڑے غور سے اُسکی بات سنی۔‏ پھر یہوواہ نے اپنی قوت کا مظاہرہ کِیا۔‏ اسکے بعد ایلیاہ کا خوف دُور ہو گیا اور وہ خدا کیلئے اپنی خدمت کو جاری رکھ سکا۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۱۹:‏۲-‏۱۵‏)‏ یہوواہ خدا اپنے خادموں کی پریشانیوں پر کان کیوں لگاتا ہے؟‏ کیونکہ اُسکو اُنکی فکر ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۷‏)‏ ہمیں بھی دوسروں کی فکر ہونی چاہئے۔‏ توجہ سے دوسروں کی باتوں کو سننے کے سلسلے میں یہ بہت اہم ہوتا ہے۔‏

ملک بولیویا کے ایک شخص نے جب سنگین گُناہ کِیا تھا تو اُسکے مسیحی بھائی نے اُسکے لئے فکر دکھاتے ہوئے اُسکی باتوں کو دل لگا کر سنا۔‏ اسکا اُس شخص پر کیا اثر پڑا؟‏ وہ کہتا ہے کہ ”‏مَیں اپنی زندگی کے سب سے تاریک دَور سے گزر رہا تھا۔‏ مَیں اتنا غمگین تھا کہ اگر وہ بھائی میرے لئے وقت نہیں نکالتا تو شاید مَیں یہوواہ خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیتا۔‏ اُس نے زیادہ باتیں نہیں کیں،‏ بس میری باتیں دھیان سے سنتا رہا۔‏ مجھے نصیحتوں کی ضرورت نہیں تھی۔‏ مَیں خود جانتا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔‏ میرے لئے یہی کافی تھا کہ کوئی میرے جذبات اور احساسات کے بارے میں سننے کو تیار تھا۔‏ اُسکی اس نیکی نے مجھے مایوسی کے کنویں میں ڈوب مرنے سے بچا لیا۔‏“‏

دوسروں کی باتوں کو توجہ سے سننے میں یسوع مسیح نے ہمارے لئے عمدہ مثال قائم کی ہے۔‏ اُسکی موت کے چند ہی دن بعد اُسکے دو شاگرد یروشلیم سے تقریباً سات میل [‏۱۱ کلومیٹر]‏ دُور،‏ ایک گاؤں کو جا رہے تھے۔‏ رنج کے مارے اُنکا دل بھاری تھا۔‏ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ یسوع کو زندہ کر دیا گیا ہے۔‏ جب یسوع اُنکے ساتھ چلنے لگا تو وہ اُسکو پہچان نہ سکے۔‏ اُس نے اُنکے دل کے حال کو جاننے کیلئے بڑی نرمی سے اُن سے سوال کئے۔‏ وہ بتانے لگے کہ اُنہوں نے یسوع سے کتنی اُمیدیں وابستہ کی تھیں لیکن اُسکی موت پر اُنکی تمام اُمیدوں پر پانی پھر گیا تھا۔‏ یسوع کو اپنے شاگردوں سے پیار تھا۔‏ اُس نے بڑے غور سے اُنکی باتیں سنیں۔‏ اسلئے جب اُن دونوں نے اپنا دل ہلکا کر لیا تھا تو وہ بھی یسوع کی باتیں سننے کو تیار ہو گئے۔‏ پھر اُس نے ”‏سب نوشتوں میں جتنی باتیں اُسکے حق میں لکھی ہوئی تھیں وہ انکو سمجھا دیں۔‏“‏—‏لوقا ۲۴:‏۱۳-‏۲۷‏۔‏

اگر ہم دوسروں کی باتوں پر کان لگائیں گے تو وہ بھی ہماری سننے کو تیار ہوں گے کیونکہ وہ جان جائیں گے کہ ہمیں اُنکی پرواہ ہے۔‏ بولیویا میں رہنے والی ایک خاتون نے کہا:‏ ”‏میرے والدین اور میرے سُسرال والے بچوں کی پرورش کے سلسلے میں مجھے ٹوکتے رہتے تھے۔‏ یہ بات مجھے بہت کڑوی لگی۔‏ مجھے ماں کے طور پر اپنی قابلیت پر شک ہونے لگا۔‏ پھر ایک دن یہوواہ کی ایک گواہ میرے گھر آئیں اور مجھے خدا کے وعدوں کے بارے میں سنانے لگیں۔‏ جس انداز میں اُنہوں نے مجھ سے سوال کئے اس سے مَیں جان گئی کہ وہ میری بات سننے کو تیار ہیں۔‏ مَیں نے اُنکو اندر آنے کی دعوت دی اور اُنہیں اپنی پریشانی سنا دی۔‏ اُنہوں نے میری ایک ایک بات بڑے غور سے سنی۔‏ پھر اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ مَیں اپنے بچوں کیلئے کس قسم کا مستقبل چاہتی ہوں؟‏ اُنہوں نے یہ بھی پوچھا کہ اس سلسلے میں میرے خاوند کیا رائے رکھتے ہیں۔‏ مَیں بہت خوش تھی کہ مجھے کوئی مل گیا تھا جو مجھے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔‏ پھر جب اس خاتون نے مجھے بائبل میں سے خاندانی زندگی کے بارے میں صحیفے دکھانا شروع کر دئے تو مجھے یقین ہو گیا کہ اُنکو واقعی میری پرواہ ہے۔‏“‏

کسی کی سننے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اُسکی بات پر پوری توجہ دیں۔‏ اگر ہم ٹیلی‌ویژن دیکھ رہے ہیں یا اخبار پڑھ رہے ہیں تو ہمیں انکو بند کر دینا چاہئے اور اپنے موبائل فون کو بھی بند کر لینا چاہئے۔‏ ایسا کرنے سے ہم اُس شخص کیلئے اپنی محبت ظاہر کریں گے کیونکہ ”‏محبت .‏ .‏ .‏ اپنی بہتری نہیں چاہتی۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۴،‏ ۵‏)‏ اسلئے جب کوئی ہم سے کسی اہم موضوع پر بات کرنا چاہتا ہے تو ہمیں اُسکی بات میں دلچسپی لینی چاہئے۔‏ ہمیں اُسکی بات کاٹ کر اپنا کوئی قصہ سنانے سے بھی گریز کرنا چاہئے۔‏ ایسا دوستوں کی بات‌چیت میں تو ہوتا رہتا ہے لیکن جب کوئی ہمیں اپنی کسی مشکل کے بارے میں بتاتا ہے تو ایسا کرنا مناسب نہیں ہوتا۔‏ اسکے علاوہ ہم ایک اَور طریقے سے بھی ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہمیں اَوروں کی فکر ہے۔‏

دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں

‏”‏کاش کہ کوئی میری سننے والا ہوتا!‏“‏ (‏ایوب ۳۱:‏۳۵‏)‏ یہ تھے خدا کے بندے ایوب کے الفاظ۔‏ اُس نے دس مرتبہ اپنے دوستوں کو اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی تھی۔‏ لیکن وہ اسے سمجھ نہ پائے کیونکہ اُن کو ایوب کی پرواہ نہیں تھی۔‏ وہ اُسکی بات کو سمجھنے کی خواہش ہی نہیں رکھتے تھے۔‏ وہ بالکل ہمدرد نہ تھے۔‏ پطرس رسول مسیحیوں کو یوں ہدایت کرتا ہے:‏ ”‏سب کے سب یک‌دل اور ہمدرد رہو۔‏ برادرانہ محبت رکھو۔‏ نرم دل اور فروتن بنو۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۸‏)‏ ہمدرد بننے کا مطلب ہے کہ ہم دوسرے شخص کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔‏ جب وہ اپنا دل ہلکا کر رہا ہوتا ہے تو شاید ہم یہ کہتے ہوئے اپنی ہمدردی کا اظہار کر سکتے ہیں کہ ”‏واقعی آپ کتنے کٹھن وقت سے گزر رہے ہیں۔‏“‏ ہمدردی ظاہر کرنے کا ایک اَور طریقہ یہ ہے کہ ہم اُس شخص کی بات کو اپنے الفاظ میں دُہرائیں۔‏ اسطرح اُسے اندازہ ہو جائے گا کہ ہم اُسکی بات کو سمجھ گئے ہیں۔‏ جو شخص غور سے دوسروں کی بات کو سنتا ہے وہ صرف اُنکی باتوں کو ہی نہیں بلکہ اُن میں چھپے ہوئے جذبات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔‏

رابرٹ * بہت سالوں سے کُل‌وقتی مُناد کے طور پر یہوواہ کی خدمت کر رہا ہے۔‏ وہ بتاتا ہے کہ ”‏ایک بار ایسا ہوا کہ مُنادی کے کام میں مشکلات کی وجہ سے میرا دل اُکتا گیا۔‏ اسلئے مَیں نے سفری نگہبان سے بات کرنے کی درخواست کی۔‏ اُنہوں نے میری بات بڑی توجہ سے سنی اور مجھے سمجھنے کی کوشش کی۔‏ مَیں تو ڈر رہا تھا کہ کہیں وہ مجھے ان احساسات کی وجہ سے ٹوک نہ دیں۔‏ لیکن وہ میرے اس ڈر کو بھی سمجھ گئے تھے۔‏ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ ایک زمانے میں وہ بھی ایسے ہی احساسات کا شکار تھے۔‏ اُنکی ہمدردی کی وجہ سے مَیں آج تک کُل‌وقتی مُناد کے طور پر خدمت کر رہا ہوں۔‏“‏

ہم اُس وقت بھی توجہ سے کسی کی سُن سکتے ہیں جب ہم اُسکی ہر بات سے متفق نہیں ہوتے۔‏ ہم اُسکا شکریہ ادا کر سکتے ہیں کہ اُس نے ہم سے کُھلی بات کی ہے۔‏ ایسا کرنا خاص طور پر والدین کیلئے اہم ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر جب اُنکا بیٹا گھر آ کر اُنہیں بتاتا ہے کہ اُسکی سکول میں کسی کیساتھ لڑائی ہوئی ہے۔‏ یا پھر جب اُنکی بیٹی اُنہیں بتا دیتی ہے کہ وہ سکول جانے کی بجائے اپنی سہیلیوں کیساتھ سیر کرنے کیلئے نکل گئی تھی۔‏ ایسی صورتحال میں والدین کا کیا ردِعمل ہونا چاہئے؟‏ اس سے پہلے کہ وہ اُنہیں نصیحتیں کرنے لگیں،‏ کیا وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی بات پوری ہونے دیں گے اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اُس نے ایسا کیوں کِیا تھا؟‏

امثال ۲۰:‏۵ میں لکھا ہے کہ ”‏آدمی کے دل کی بات گہرے پانی کی مانند ہے لیکن صاحبِ‌فہم آدمی اُسے کھینچ نکالے گا۔‏“‏ کبھی‌کبھار ایسا ہوتا ہے کہ ایک دانشمند شخص ہمیں فوراً اپنے دل کی بات نہیں بتاتا یعنی ہمیں ہدایت نہیں دیتا۔‏ اُسکی دانشمندی سے فائدہ حاصل کرنے کیلئے ہمیں اُس سے بہت سے سوال کرنے پڑتے ہیں۔‏ اسی طرح اگر ہم دوسروں کی باتوں کو توجہ سے سننا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی سوال کرنے سے اُنکے دل کی گہرائیوں تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہمیں احتیاط برتنا چاہئے کہ ہم اُنکے ذاتی معاملوں میں دخل‌اندازی نہ کریں۔‏ اگر کوئی شخص ہمیں اپنی مشکل بتانا چاہتا ہے لیکن اُسے ایسا کرنا آسان نہیں لگتا تو ہم پہلے ایسی باتیں پوچھ سکتے ہیں جنکے بارے میں وہ ہچکچائے بغیر بات‌چیت کر سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر اگر ایک بیوی کو اپنی شادی میں کسی مشکل کا سامنا ہے تو شاید وہ پہلے اپنی شادی‌شُدہ زندگی کے خوشگوار پہلوؤں کے بارے میں بات کرنا پسند کرے گی۔‏ اور وہ مسیحی جو روحانی طور پر سُست پڑ گیا ہے شاید وہ پہلے بتانا چاہے گا کہ اُس نے بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھنا کب اور کیسے شروع کِیا تھا۔‏

توجہ سے سننا آسان نہیں ہوتا

اگر کوئی شخص ہمارے ساتھ ناراض ہے تو اُسکی بات کو دھیان سے سننا آسان نہیں ہوتا۔‏ ایسی صورتحال میں ہم اکثر دوسرے کی بات کاٹ کر اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ لیکن امثال ۱۵:‏۱ میں ہمیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ ”‏نرم جواب قہر کو دُور کر دیتا ہے۔‏“‏ نرم جواب دینے کا مطلب ہے کہ ہم اُس شخص سے اُسکی ناراضگی کی وجہ دریافت کریں اور پھر بڑے غور سے اُسکی بات سنیں۔‏

لوگوں میں اکثر تکرار اور جھگڑا اسی لئے شروع ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کی بات کو سننے کی بجائے اپنی اپنی بات کو دُہراتے رہتے ہیں۔‏ اگر ایسی صورتحال میں اُن میں سے ایک بھی خاموش ہو کر دوسرے کی بات پر کان لگائے تو جھگڑا ختم ہو سکتا ہے۔‏ اسکے علاوہ اپنے مسئلے کے بارے میں ایک دوسرے سے بات کرتے وقت اُنہیں خود کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اُنکا بات کرنے کا انداز بھی نرم ہونا چاہئے۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏ہونٹوں کو قابو میں رکھنے والا دانا ہے۔‏“‏—‏امثال ۱۰:‏۱۹‏۔‏

واقعی دوسروں کی بات کو توجہ سے سننا آسان نہیں ہوتا۔‏ لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے،‏ ہم ایسا کرنا سیکھ سکتے ہیں۔‏ دوسروں کی بات کو غور سے سننے سے ہم اُنکے لئے محبت ظاہر کرتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہماری خوشی بڑھ جاتی ہے۔‏ اسلئے آئیے ہم ایک دوسرے کی بات کو توجہ سے سننے کی بھرپور کوشش کریں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 12 نام بدل دیا گیا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

کسی کی سننے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اُسکی بات پر پوری توجہ دیں

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

اگر ایک شخص ہم سے ناراض ہے تو اُسکی بات کو دھیان سے سننا آسان نہیں ہوتا