مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہوسیع کی نبوّت کی مدد سے خدا کیساتھ ساتھ چلیں

ہوسیع کی نبوّت کی مدد سے خدا کیساتھ ساتھ چلیں

ہوسیع کی نبوّت کی مدد سے خدا کیساتھ ساتھ چلیں

‏”‏وہ [‏یہوواہ]‏ کی پیروی کریں گے۔‏“‏—‏ہوسیع ۱۱:‏۱۰‏۔‏

ڈرامے دیکھنا ہر کوئی پسند کرتا ہے،‏ خاص طور پر جب کہانی دلچسپ اور اداکاری اچھی ہو۔‏ ہوسیع نبی کی زندگی بھی ایک ڈرامے کی طرح تھی۔‏ اُسکے خاندان میں جو واقعے پیش آئے وہ اُس بندھن کی تمثیل ہیں جسے یہوواہ خدا نے موسیٰ کی شریعت کی بِنا پر بنی‌اسرائیل کیساتھ قائم کِیا تھا۔‏ *

۲ ہوسیع کی کتاب کے پہلے باب میں ہم اس نبی کے پس‌منظر کے بارے میں کچھ معلومات پاتے ہیں۔‏ وہ دس قبیلوں پر مشتمل،‏ اسرائیل کی سلطنت میں رہتا تھا۔‏ (‏اس سلطنت کو افرائیم کا نام بھی دیا گیا تھا کیونکہ یہ اُسکا سب سے بڑا قبیلہ تھا۔‏)‏ ہوسیع نے اسرائیل کے آخری سات بادشاہوں کے دَور میں نبوّت کی۔‏ اس عرصے کے دوران یہوداہ کی سلطنت پر عزیاہ،‏ یوتام،‏ آخز اور حزقیاہ نے حکمرانی کی۔‏ (‏ہوسیع ۱:‏۱‏)‏ اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہوسیع نے کم سے کم ۵۹ سال تک نبوّت کی۔‏ ہوسیع نے اپنی کتاب ۷۴۵ قبلِ‌مسیح کے کچھ عرصے بعد لکھی۔‏ یہ کتاب ہمارے زمانے کیلئے بھی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ آجکل لاکھوں لوگوں پر ہوسیع نبی کے یہ الفاظ تکمیل پا رہے ہیں:‏ ”‏وہ [‏یہوواہ]‏ کی پیروی کریں گے۔‏“‏—‏ہوسیع ۱۱:‏۱۰‏۔‏

پہلے پانچ باب کا خلاصہ

۳ آئیں ہم ہوسیع ۱ تا ۵ باب پر غور کرتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہم خدا کی مرضی بجا لانے کی اہمیت کو سمجھ پائیں گے اور خدا کیساتھ ساتھ چلنے کا ہمارا عزم اَور بھی مضبوط ہو جائے گا۔‏ اسرائیل کے باشندے روحانی لحاظ سے زِناکار تھے۔‏ لیکن یہوواہ خدا اُنکو معاف کرنے کے لئے تیار تھا بشرطیکہ وہ اپنی بُری حرکتوں سے توبہ کر لیں۔‏ ہوسیع کے خاندانی معاملے اس بات کی عکاسی کرتے تھے۔‏ اُسکی بیوی جمر کا پہلا بچہ ہوسیع سے ہی ہوا۔‏ لیکن اسکے بعد جمر کے جو دو بچے ہوئے غالباً وہ غیرمردوں کے تھے۔‏ اسکے باوجود ہوسیع نے اُسے معاف کرکے اپنے گھر میں بسائے رکھا بالکل اسی طرح جیسے یہوواہ خدا نے اسرائیل کے تائب باشندوں کو معاف کر دیا تھا۔‏—‏ہوسیع ۱:‏۱–‏۳:‏۵‏۔‏

۴ ہوسیع کے مطابق یہوواہ خدا کا بنی‌اسرائیل سے جھگڑا تھا کیونکہ وہ خدا کو نظرانداز کر رہے تھے اور راستی اور شفقت سے خالی تھے۔‏ خدا اسرائیل اور یہوداہ کی سلطنتوں پر عذاب ڈھانے والا تھا۔‏ لیکن بعد میں جب خدا کے لوگوں پر ”‏مصیبت“‏ آن پڑی تو وہ بڑی سرگرمی سے اُسکے طالب ہوئے۔‏—‏ہوسیع ۴:‏۱–‏۵:‏۱۵‏۔‏

اسرائیلیوں کی بدکاری

۵ خدا نے ہوسیع کو یہ حکم دیا:‏ ”‏جا ایک بدکار بیوی اور بدکاری کی اولاد اپنے لئے لے کیونکہ مُلک نے [‏یہوواہ]‏ کو چھوڑ کر بڑی بدکاری کی ہے۔‏“‏ (‏ہوسیع ۱:‏۲‏)‏ یہ بدکاری اسرائیل کی سلطنت میں کس حد تک پھیل چکی تھی؟‏ یہوواہ خدا نے کہا:‏ ”‏بدکاری کی روح نے اُنکو گمراہ کِیا ہے اور اپنے خدا کی پناہ کو چھوڑ کر بدکاری کرتے ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ پس بُہوبیٹیاں بدکاری کرتی ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ [‏آدمی لوگ]‏ آپ ہی بدکاروں کیساتھ خلوت میں جاتے ہیں اور کسبیوں کیساتھ قربانیاں گذرانتے ہیں۔‏“‏—‏ہوسیع ۴:‏۱۲-‏۱۴‏۔‏

۶ جی‌ہاں،‏ اسرائیل کے باشندے نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی لحاظ سے بھی بدکاری یعنی زِنا کر رہے تھے۔‏ اسلئے یہوواہ نے اُنکو خبردار کِیا کہ ’‏مَیں اُنکے اعمال کا بدلہ اُنکو دُونگا۔‏‘‏ (‏ہوسیع ۱:‏۴؛‏ ۴:‏۹‏)‏ ہمیں بھی ان باتوں پر کان لگانے چاہئیں کیونکہ یہوواہ خدا اُن لوگوں کو سزا دینے والا ہے جو بداخلاقی کر رہے ہیں اور ناجائز طریقوں سے اُسکی عبادت کر رہے ہیں۔‏ لیکن وہ لوگ جو خدا کیساتھ ساتھ چلتے ہیں وہ اُسکی مرضی کے مطابق اُسکی عبادت کر رہے ہیں۔‏ وہ جانتے ہیں کہ ’‏کسی حرامکار کی مسیح اور خدا کی بادشاہی میں کچھ میراث نہیں۔‏‘‏—‏افسیوں ۵:‏۵؛‏ یعقوب ۱:‏۲۷‏۔‏

۷ ہوسیع سے شادی کرنے سے پہلے جمر کسی مرد کی نہیں ہوئی تھی۔‏ جب تک ”‏وہ حاملہ ہوئی اور بیٹا پیدا ہوا“‏ وہ اپنے شوہر کی وفادار رہی۔‏ (‏ہوسیع ۱:‏۳‏)‏ سن ۱۵۱۳ قبلِ‌مسیح میں بنی‌اسرائیل کو مصر کی غلامی سے آزاد کرنے کے بعد یہوواہ خدا نے اُنکے ساتھ ایک عہد باندھا تھا۔‏ اس عہد کو قبول کرنے سے بنی‌اسرائیل نے یہوواہ خدا کو اپنے علامتی ”‏شوہر“‏ کے طور پر قبول کر لیا۔‏ (‏یسعیاہ ۵۴:‏۵‏)‏ جمر کیساتھ ہوسیع نبی کی شادی یہوواہ اور بنی‌اسرائیل کے اس علامتی بندھن کی طرف اشارہ کرتی ہے۔‏

۸ جمر ”‏پھر حاملہ ہوئی اور بیٹی پیدا ہوئی۔‏“‏ غالباً یہ بیٹی اور اسکے بعد ہونے والا بیٹا دونوں غیرمردوں کے تھے یعنی وہ زِناکاری کی اولاد تھے۔‏ (‏ہوسیع ۱:‏۶،‏ ۸‏)‏ ہم جانتے ہیں کہ اِس تمثیل میں جمر بنی‌اسرائیل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔‏ لہٰذا سوال یہ اُٹھتا ہے کہ بنی‌اسرائیل نے کس لحاظ میں زِناکاری کی تھی؟‏ سن ۹۹۷ قبلِ‌مسیح میں جب اسرائیل کے دس قبیلوں نے خود کو یہوداہ اور بنیمین کے قبیلوں سے الگ کر لیا تھا تو وہ بعل کی پوجا کرنے لگے۔‏ اس پوجا میں کھلم‌کُھلا جنسی بدکاری کرنے کا رواج عام تھا۔‏

۹ جمر کی بیٹی کی پیدائش کے وقت یہوواہ خدا نے ہوسیع سے کہا:‏ ”‏اُسکا نام لوؔرحامہ [‏جسکا مطلب ہے:‏ اُس پر رحم نہیں کِیا گیا]‏ رکھ کیونکہ مَیں اؔسرائیل کے گھرانے پر پھر رحم نہ کروں گا کہ اُنکو معاف کروں۔‏“‏ (‏ہوسیع ۱:‏۶‏)‏ واقعی یہوواہ نے اسرائیل کی سلطنت کو ’‏معاف نہیں کِیا۔‏‘‏ اُس نے ۷۴۰ قبلِ‌مسیح میں اُنکو اسُوریوں کے ہاتھ اسیر ہونے دیا۔‏ اسکے برعکس خدا نے یہوداہ کی سلطنت پر رحم کِیا اور اُنکو دُشمنوں سے چھڑایا لیکن کمان،‏ تلوار،‏ لڑائی،‏ گھوڑوں اور سواروں کے وسیلہ سے نہیں۔‏ (‏ہوسیع ۱:‏۷‏)‏ سن ۷۳۲ کی ایک اندھیری رات میں ایک ہی فرشتے نے ۰۰۰،‏۸۵،‏۱ اسُوری سپاہیوں کو مار ڈالا۔‏ اسطرح یہوداہ کا دارالحکومت دُشمنوں کے قبضے میں پڑنے سے بچ گیا۔‏—‏۲-‏سلاطین ۱۹:‏۳۵‏۔‏

اسرائیل کیساتھ یہوواہ کا جھگڑا

۱۰ جمر اپنے شوہر ہوسیع کو چھوڑ کر ”‏ایک بدکار بیوی“‏ بن کر دوسرے مرد کیساتھ رہنے لگی۔‏ اسی طرح اسرائیل کی سلطنت بھی آس‌پاس کی بُت‌پرست قوموں کیساتھ سمجھوتا کرنے لگی۔‏ وہ اپنی مالی خوشحالی کیلئے یہوواہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے بُتوں کا شکر ادا کرتے۔‏ ایسا کرنے سے اُنہوں نے یہوواہ سے بیوفائی کی۔‏ کیا اس میں حیرانی کی بات ہے کہ یہوواہ خدا کا اس بیوفا قوم کیساتھ جھگڑا تھا؟‏—‏ہوسیع ۱:‏۲؛‏ ۲:‏۲،‏ ۱۲،‏ ۱۳‏۔‏

۱۱ اپنے علامتی شوہر کو چھوڑنے پر اسرائیل کی سلطنت کو کیا سزا ملی؟‏ خدا اُنکو بابل کے ’‏بیابان میں لایا۔‏‘‏ یہ اُس وقت ہوا جب بابلیوں نے اسُوریوں کو شکست دی جنکے ملک میں اسرائیلی اسیر ہو چکے تھے۔‏ (‏ہوسیع ۲:‏۱۴‏)‏ اسکا یہ مطلب نہیں تھا کہ بنی‌اسرائیل کے ۱۲ قبیلوں کیساتھ یہوواہ خدا کا عہد ختم ہو گیا تھا۔‏ یہاں تک کہ جب ۶۰۷ قبلِ‌مسیح میں یہوداہ کے لوگوں کو بابل اسیر کر دیا گیا تو تب بھی یہوواہ نے اس عہد کو قائم رکھا۔‏ یہ عہد اُس وقت تک قائم رہا جب تک یہودی پیشواؤں نے یسوع مسیح کو سن ۳۳ عیسوی میں قتل کروایا تھا۔‏—‏کلسیوں ۲:‏۱۴‏۔‏

یہوواہ اسرائیل کی تنبیہ کرتا ہے

۱۲ یہوواہ نے اسرائیلی قوم کی تنبیہ کی کہ ’‏اپنی بدکاری اپنے سامنے سے دُور کر۔‏‘‏ لیکن وہ اپنے عاشقوں کے پیچھے جانا پسند کرتی تھی۔‏ (‏ہوسیع ۲:‏۲،‏ ۵‏)‏ اسلئے یہوواہ نے اُس سے کہا:‏ ”‏دیکھو مَیں اُسکی راہ کانٹوں سے بند کروں گا اور اُسکے سامنے دیوار بنا دُونگا تاکہ اُسے راستہ نہ ملے۔‏ اور وہ اپنے یاروں [‏”‏عاشقوں،‏“‏ کیتھولک ورشن‏]‏ کے پیچھے جائے گی پر اُن سے جا نہ ملے گی اور اُنکو ڈھونڈے گی پر نہ پائے گی۔‏ تب وہ کہے گی مَیں اپنے پہلے شوہر کے پاس واپس جاؤں گی کیونکہ میری وہ حالت اب سے بہتر تھی۔‏ کیونکہ اُس نے نہ جانا کہ مَیں ہی نے اُسے غلّہ‌ومے اور روغن دیا اور سونے چاندی کی فراوانی بخشی جسکو اُنہوں نے بعلؔ پر خرچ کِیا۔‏“‏—‏ہوسیع ۲:‏۶-‏۸‏۔‏

۱۳ اسرائیل نے اپنے اِردگِرد کی قوموں کو ”‏عاشق“‏ بنا رکھا تھا۔‏ لیکن جب اسرائیل کی سلطنت مصیبت میں تھی تو ان قوموں میں سے ایک بھی اُسکی مدد کو نہ آئی۔‏ یوں لگتا تھا کہ اسرائیل کے گِرد کانٹوں کی دیوار بنی تھی جسے اُسکے عاشق پار نہ کر سکے۔‏ اسُوریوں نے اسرائیل کے دارالحکومت سامریہ کو تین سال تک گھیرے رکھا تھا۔‏ آخرکار اسُوریوں نے سن ۷۴۰ میں اس شہر پر قبضہ جما لیا اور اسرائیل کی سلطنت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے برباد ہو گئی۔‏ اسیری میں بھی صرف چند ہی اسرائیلیوں نے اُس خوشحال زمانے کو یاد کِیا جب اُنکے باپ‌دادا نے یہوواہ کی خدمت کی تھی۔‏ ان اسرائیلیوں نے بعل کی پوجا کرنا بند کر دیا اور وہ یہوواہ کے عہد میں واپس لوٹنے کی کوشش کرنے لگے۔‏

یہوواہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی شرط

۱۴ یہوواہ نے اسرائیلیوں سے اپنی لگن کو ظاہر کرنے کے لئے ہوسیع کو یوں حکم دیا:‏ ”‏جا اُس عورت سے جو اپنے یار کی پیاری اور بدکار ہے محبت رکھ۔‏“‏ (‏ہوسیع ۳:‏۱‏)‏ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے ہوسیع نے جمر کو اُس آدمی سے مول لیا جسکے پاس وہ رہ رہی تھی۔‏ اپنی بیوی کو گھر لے آنے کے بعد ہوسیع نے اُسکی یوں تنبیہ کی:‏ ”‏تُو مدتِ‌دراز تک مجھ پر قناعت کرے گی اور حرامکاری سے باز رہے گی اور کسی دوسرے کی بیوی نہ بنے گی۔‏“‏ (‏ہوسیع ۳:‏۲،‏ ۳‏)‏ جمر نے اُسکی شرط مان لی۔‏ اس پر ہوسیع نے اُسے پوری طرح سے اپنی بیوی کے طور پر قبول کر لیا۔‏ یہ واقعہ اسرائیل اور یہوداہ کے لوگوں اور یہوواہ خدا کے درمیان ہونے والے تعلقات کی کیسے عکاسی کرتا ہے؟‏

۱۵ جس دوران اسرائیل اور یہوداہ بابل میں اسیر تھے یہوواہ نے اپنے نبیوں کے ذریعے اُن سے ”‏تسلی کی باتیں“‏ کیں۔‏ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے انکو بھی جمر کی طرح توبہ کرکے اپنے علامتی شوہر کے پاس واپس لوٹنا تھا۔‏ اس شرط پر یہوواہ نے انکو بابل کے ”‏بیابان“‏ سے رِہا کرکے دوبارہ سے یہوداہ اور یروشلیم میں بسانے کا وعدہ کِیا۔‏ (‏ہوسیع ۲:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ سن ۵۳۷ میں یہوواہ نے اپنے اس وعدے کو نبھایا۔‏

۱۶ اُس وقت یہوواہ نے اپنے اِس وعدے کو بھی پورا کِیا:‏ ”‏مَیں اُنکے لئے جنگلی جانوروں اور ہوا کے پرندوں اور زمین پر رینگنے والوں سے عہد کروں گا اور کمان اور تلوار اور لڑائی کو مُلک سے نیست کروں گا اور لوگوں کو امن‌وامان سے لیٹنے کا موقع دُونگا۔‏“‏ (‏ہوسیع ۲:‏۱۸‏)‏ واقعی جب یہودی اپنی سرزمین کو واپس لوٹ آئے تو اُنہیں کسی کا خوف نہیں ستایا کرتا تھا،‏ یہاں تک کہ اُنہیں جنگلی جانوروں سے بھی کوئی خطرہ نہیں تھا۔‏ اس وعدے کی ایک دوسری تکمیل سن ۱۹۱۹ عیسوی میں ہوئی۔‏ اُس وقت روحانی اسرائیل نے ’‏بڑے شہر بابلؔ‘‏ یعنی جھوٹے مذہب کی گرفت سے آزادی حاصل کی۔‏ تب سے وہ ایک روحانی فردوس میں سُکھ‌چین سے رہ رہے ہیں۔‏ اسکے علاوہ جو مسیحی زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہیں وہ بھی اُنکے ساتھ اس روحانی فردوس کا لطف اُٹھا رہے ہیں۔‏ حالانکہ ان مسیحیوں میں سے بعض پہلے جنگلی جانوروں کی طرح خطرناک ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ سب امن‌پسند بن گئے ہیں۔‏—‏مکاشفہ ۱۴:‏۸؛‏ یسعیاہ ۱۱:‏۶-‏۹؛‏ گلتیوں ۶:‏۱۶‏۔‏

پہلے پانچ باب میں سے سبق

۱۷ ہم ہوسیع ۱ تا ۵ باب پر غور کرنے سے کونسے سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏ ایک سبق یہ ہے کہ خدا رحیم ہے اسلئے ہمیں بھی دوسروں کیساتھ رحم کرنا چاہئے۔‏ (‏ہوسیع ۱:‏۶،‏ ۷؛‏ ۲:‏۲۳‏)‏ خدا نے اُن اسرائیلیوں پر رحم کِیا جنہوں نے اپنے گُناہوں سے توبہ کر لی تھی۔‏ امثال ۲۸:‏۱۳ میں اس سلسلے میں لکھا ہے کہ ”‏جو اپنے گُناہوں کو چھپاتا ہے کامیاب نہ ہوگا لیکن جو اُنکا اقرار کرکے اُنکو ترک کرتا ہے اُس پر رحمت ہوگی۔‏“‏ ایسے لوگوں کیلئے زبورنویس کے یہ الفاظ بھی تسلی‌بخش ہیں:‏ ”‏شکستہ رُوح خدا کی قربانی ہے۔‏ اَے خدا تُو شکستہ اور خستہ دل کو حقیر نہ جانے گا۔‏“‏—‏زبور ۵۱:‏۱۷‏۔‏

۱۸ ہوسیع کی پیشینگوئی خدا کے رحم کو نمایاں کرتی ہے۔‏ ایک شخص جو خدا کی راہ سے بھٹک گیا ہے وہ توبہ کرکے اپنی روش کو بدل سکتا ہے۔‏ پھر یہوواہ خدا اُسے خوشی سے قبول کر لیتا ہے بالکل اسی طرح جیسے اُس نے تائب اسرائیلیوں کو قبول کر لیا تھا۔‏ حالانکہ وہ ’‏اسرائیل کے قدوس کو آزردہ کرتے رہے لیکن یہوواہ نے یاد رکھا کہ وہ محض بشر ہیں۔‏ اسلئے وہ رحیم ہو کر اُنکو معاف کرتا رہا۔‏‘‏ (‏زبور ۷۸:‏۳۸-‏۴۱‏)‏ کیا یہ جان کر ہمارے دل میں اپنے رحیم پروردگار کیساتھ ساتھ چلتے رہنے کی خواہش نہیں بڑھتی؟‏

۱۹ اسرائیل کی سلطنت میں خون‌ریزی،‏ چوری اور حرامکاری عام تھی۔‏ اسکے باوجود یہوواہ نے اُن سے ”‏تسلی کی باتیں“‏ کیں۔‏ (‏ہوسیع ۲:‏۱۴؛‏ ۴:‏۲‏)‏ یہوواہ کے اس ردِعمل کو ہمارے دل کو چھو لینا چاہئے۔‏ اس پر غور کرنے سے ہم میں اُس کے اَور بھی قریب جانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔‏ اسلئے ہمیں خود سے سوال کرنا چاہئے کہ ’‏دوسروں کیساتھ رحم سے پیش آنے کے سلسلے میں،‏ مَیں یہوواہ سے کیا سیکھ سکتا ہوں؟‏ جب ایک بہن یا بھائی مجھ سے معافی مانگتا ہے تو کیا مَیں اُسے معاف کرنے کیلئے تیار ہوں بالکل اسی طرح جیسے یہوواہ نے اسرائیلیوں کو معاف کر دیا تھا؟‏‘‏—‏زبور ۸۶:‏۵‏۔‏

۲۰ دوسرا سبق یہ ہے کہ خدا ہمیں اُمید بخشتا ہے۔‏ مثال کے طور پر اُس نے اسرائیل سے وعدہ کِیا تھا کہ ’‏مَیں اُسے عکوؔر کی وادی دوں گا تاکہ وہ اُسکے لئے اُمید کا دروازہ ہو۔‏‘‏ (‏ہوسیع ۲:‏۱۵‏)‏ اس وعدہ کی وجہ سے یہوواہ کی قوم اسرائیل اپنی سرزمین پر واپس لوٹنے کی اُمید باندھ سکتی تھی کیونکہ ”‏عکوؔر کی وادی“‏ اُسی علاقے میں واقع ہے۔‏ یہوواہ نے اپنے اس وعدے کو سن ۵۳۷ قبلِ‌مسیح میں پورا کِیا۔‏ یہ جان کر ہماری اُمید بھی مضبوط ہو جاتی ہے کہ جو وعدے یہوواہ خدا نے ہم سے کئے ہیں وہ بھی ضرور پورے ہوں گے۔‏

۲۱ تیسرا سبق یہ ہے کہ خدا کیساتھ ساتھ چلنے کے لئے ہمیں اُس کے بارے میں علم حاصل کرتے رہنا چاہئے اور اس پر عمل بھی کرنا چاہئے۔‏ اسرائیل کے زیادہ‌تر باشندوں نے یہوواہ کی تعلیم کو رد کر دیا تھا۔‏ (‏ہوسیع ۴:‏۱،‏ ۶‏)‏ لیکن کئی اسرائیلیوں نے یہوواہ کی تعلیم پر کان لگائے اور اس پر عمل بھی کِیا۔‏ اس کے نتیجے میں یہوواہ نے اُنکو بہت سی برکتوں سے نوازا۔‏ ان وفادار اسرائیلیوں میں سے ایک ہوسیع نبی تھا۔‏ اور ایلیاہ نبی کے دنوں میں بھی سات ہزار ایسے اسرائیلی تھے جنہوں نے بعل کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے تھے۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۱۹:‏۱۸؛‏ رومیوں ۱۱:‏۱-‏۴‏)‏ اگر ہم خدا کی تعلیم کی قدر کرتے ہیں تو ہم خدا کیساتھ ساتھ چلتے رہیں گے۔‏—‏زبور ۱۱۹:‏۶۶؛‏ یسعیاہ ۳۰:‏۲۰،‏ ۲۱‏۔‏

۲۲ آئیے اب ہم چوتھے سبق پر غور کرتے ہیں۔‏ یہوواہ اپنے لوگوں کے پیشواؤں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ برگشتگی کو رد کریں۔‏ ہوسیع ۵:‏۱ میں ہم یوں پڑھتے ہیں:‏ ”‏اَے کاہنو یہ بات سنو!‏ اَے بنی‌اسرائیل کان لگاؤ!‏ اَے بادشاہ کے گھرانے سنو!‏ اسلئے کہ فتویٰ تُم پر ہے کیونکہ تُم مصفاؔہ میں پھندا اور تبوؔر پر دام [‏”‏بچھایا ہوا جال،‏“‏ کیتھولک ورشن‏]‏ بنے ہو۔‏“‏ اس آیت میں اسرائیل کے برگشتہ پیشواؤں کو پھندا اور جال کہا گیا ہے کیونکہ وہ لوگوں کو بُت‌پرستی کرنے پر اُکسا رہے تھے۔‏ ہو سکتا ہے کہ کوہِ‌تبور اور مصفاہ بُت‌پرستی کے بڑے بڑے مرکز تھے۔‏

۲۳ ہوسیع ۱ تا ۵ باب پر غور کرنے سے ہم نے دیکھا ہے کہ یہوواہ خدا رحیم ہے اور ہمیں اُمید بخشتا ہے۔‏ وہ اُن لوگوں کو برکت دیتا ہے جو اُسکی تعلیم پر کان لگاتے ہیں اور برگشتگی کو رد کرتے ہیں۔‏ قدیم زمانے کے تائب اسرائیلیوں کی طرح ہمیں بھی یہوواہ کے طالب ہونا چاہئے اور اُسکی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں رہنا چاہئے۔‏ (‏ہوسیع ۵:‏۱۵‏)‏ ایسا کرنے سے ہم ایسی خوشی اور اطمینان پائیں گے جو صرف خدا کیساتھ ساتھ چلنے والے لوگوں کو نصیب ہے۔‏—‏زبور ۱۰۰:‏۲؛‏ فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 ایک ایسی تمثیل گلتیوں ۴:‏۲۱-‏۲۶ میں بھی پائی جاتی ہے۔‏

آپ کیا جواب دیں گے؟‏

‏• ہوسیع اور جمر کی شادی کس کی طرف اشارہ کرتی ہے؟‏

‏• یہوواہ کا اسرائیلیوں سے کس بات پر جھگڑا تھا؟‏

‏• ہوسیع ۱ تا ۵ باب پر غور کرنے سے آپ نے کیا سیکھا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

۱.‏ ہوسیع کی زندگی میں ہونے والے واقعات کس بات کی تمثیل ہیں؟‏

۲.‏ ہوسیع نبی کے بارے میں چند معلومات بیان کیجئے۔‏

۳،‏ ۴.‏ ہوسیع ۱ تا ۵ باب میں کن واقعات کا ذکر ہوا ہے؟‏

۵،‏ ۶.‏ (‏ا)‏ اسرائیل کی سلطنت میں بدکاری کس حد تک پھیل چکی تھی؟‏ (‏ب)‏ ہمیں اُس آگاہی پر کان کیوں لگانا چاہئے جو یہوواہ نے اسرائیل کو دی تھی؟‏

۷.‏ جمر کیساتھ ہوسیع نبی کی شادی کس کی طرف اشارہ کرتی ہے؟‏

۸.‏ دس قبائیلی سلطنت کیسے وجود میں آئی اور اسرائیلیوں کی عبادت پر اسکا کیا اثر پڑا؟‏

۹.‏ ہوسیع ۱:‏۶ کی تکمیل میں اسرائیل کی سلطنت کیساتھ کیا واقع ہوا؟‏

۱۰.‏ جمر کی زِناکاری کس کی طرف اشارہ کرتی ہے؟‏

۱۱.‏ جب اسرائیل اور یہوداہ کے باشندوں کو اسیر کر دیا گیا تو کیا وہ عہد بھی ختم ہو گیا جو یہوواہ نے اُنکے ساتھ باندھا تھا؟‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ ہوسیع ۲:‏۶-‏۸ میں کن واقعات کا ذکر ہے اور یہ الفاظ اسرائیلیوں کے بارے میں کیسے سچ ثابت ہوئے؟‏

۱۴.‏ ہوسیع نے جمر کو پوری طرح سے اپنی بیوی کے طور پر کیوں قبول کر لیا؟‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ خدا کی قوم کس شرط پر اُسکی خوشنودی حاصل کر سکتی تھی؟‏ (‏ب)‏ ہوسیع ۲:‏۱۸ کی پیشینگوئی کیسے تکمیل پائی ہے؟‏

۱۷-‏۱۹.‏ (‏ا)‏ ہوسیع کی کتاب ہمیں خدا کی کس خوبی کو اپنانے کا سبق سکھاتی ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ کے رحم پر غور کرنے سے ہم پر کیا اثر پڑتا ہے؟‏

۲۰.‏ ہم یہوواہ خدا کے وعدوں پر کیوں بھروسہ رکھ سکتے ہیں؟‏

۲۱.‏ خدا کیساتھ ساتھ چلنے کیلئے اُسکے بارے میں علم حاصل کرنا اتنا ضروری کیوں ہے؟‏

۲۲.‏ ہمیں برگشتگی کو کیسے خیال کرنا چاہئے؟‏

۲۳.‏ ہوسیع ۱ تا ۵ باب پر غور کرنے سے آپ نے کیا سیکھا ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

کیا آپ جانتے ہیں کہ ہوسیع کی بیوی کس کی طرف اشارہ کرتی ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

اسوریوں نے ۷۴۰ قبلِ‌مسیح میں سامریہ کے باشندوں پر فتح حاصل کی

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

لوگ خوشی مناتے ہوئے اپنی سرزمین کو واپس لوٹے