مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ کس کے فرمانبردار رہیں گے؟‏

آپ کس کے فرمانبردار رہیں گے؟‏

آپ کس کے فرمانبردار رہیں گے؟‏

‏”‏ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔‏“‏—‏اعمال ۵:‏۲۹‏۔‏

۱.‏ (‏ا)‏ یہ مضمون کس آیت پر مبنی ہے؟‏ (‏ب)‏ یسوع کے رسولوں کو کیوں گرفتار کِیا گیا تھا؟‏

یسوع مسیح کو موت کی سزا سنائی گئی تھی۔‏ اُسکے مرنے کے کچھ ہفتے بعد ہی اُسکے رسولوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔‏ سپاہی اُنہیں عدالت کے سامنے پیش کرنے کیلئے قیدخانہ پہنچے۔‏ حالانکہ قیدخانے کا تالا بند تھا،‏ قیدی لاپتہ تھے۔‏ تھوڑی دیر بعد سپاہیوں کو پتہ چلا کہ رسول یروشلیم کی ہیکل میں لوگوں کو یسوع کے بارے میں سکھا رہے ہیں۔‏ یہ وہی کام تھا جسکی وجہ سے اُنہیں گرفتار کِیا گیا تھا۔‏ جب یہودی صدرعدالت کے حاکموں کو یہ خبر ہوئی تو وہ آگ‌بگولا ہو گئے۔‏ سپاہیوں نے ایک بار پھر یسوع کے رسولوں کو گرفتار کرکے اُنہیں عدالت کے سامنے پیش کِیا۔‏—‏اعمال ۵:‏۱۷-‏۲۷‏۔‏

۲.‏ فرشتے نے رسولوں کو کیا ہدایت دی؟‏

۲ لیکن رسول قیدخانے سے نکلے کیسے تھے؟‏ ایک فرشتے نے اُنہیں قیدخانے سے رِہا کر دیا تھا۔‏ کیا اس فرشتہ نے انہیں اسلئے رِہا کیا تھا کہ وہ اذیت سے بچ جائیں؟‏ جی‌نہیں۔‏ رسولوں کو اِسلئے رِہا کِیا گیا تھا کہ وہ یروشلیم کے باشندوں کو یسوع مسیح کی خوشخبری سنائیں۔‏ فرشتے نے رسولوں کو ہدایت دی ”‏جاؤ ہیکل میں کھڑے ہو کر اس زندگی کی سب باتیں لوگوں کو سناؤ۔‏“‏ (‏اعمال ۵:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ اسلئے جب سپاہی ہیکل پہنچے تو انہوں نے رسولوں کو فرشتے کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے پایا۔‏

۳،‏ ۴.‏ (‏ا)‏ جب پطرس اور یوحنا کو تبلیغ کرنے سے منع کِیا گیا تھا تو انہوں نے کیا کہا؟‏ (‏ب)‏ باقی رسولوں نے کیسا ردِعمل دکھایا؟‏

۳ پطرس اور یوحنا رسول پہلے بھی عدالت کے سامنے لائے گئے تھے۔‏ سردارکاہن کائفا نے غصے میں آ کر اُن دونوں کو یاد دلایا:‏ ”‏ہم نے تو تمہیں سخت تاکید کی تھی کہ یہ نام لیکر تعلیم نہ دینا مگر دیکھو تُم نے تمام یرؔوشلیم میں اپنی تعلیم پھیلا دی۔‏“‏ (‏اعمال ۵:‏۲۸‏)‏ دراصل پطرس اور یوحنا رسول کو عدالت میں پھر سے پا کر کائفا کو حیران نہیں ہونا چاہئے تھا۔‏ پہلی بار بھی جب ان دو رسولوں کو تبلیغ کرنے سے منع کِیا گیا تھا تو اُنہوں نے کہا:‏ ”‏تُم ہی انصاف کرو۔‏ آیا خدا کے نزدیک یہ واجب ہے کہ ہم خدا کی بات سے تمہاری بات زیادہ سنیں۔‏ کیونکہ ممکن نہیں کہ جو ہم نے دیکھا اور سنا ہے وہ نہ کہیں۔‏“‏ قدیم زمانے کے نبی یرمیاہ کی طرح پطرس اور یوحنا بھی چپ نہیں رہ سکتے تھے۔‏—‏اعمال ۴:‏۱۸-‏۲۰؛‏ یرمیاہ ۲۰:‏۹‏۔‏

۴ اب نہ صرف پطرس اور یوحنا کو بلکہ باقی رسولوں کو بھی عدالت کی تاکید کا جواب دینے کا موقع ملا تھا۔‏ (‏اعمال ۱:‏۲۱-‏۲۶‏)‏ جب انہیں تبلیغ کرنے سے سخت منع کِیا گیا تو انہوں نے بھی پطرس اور یوحنا کی طرح دلیری سے جواب دیا:‏ ”‏ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔‏“‏—‏اعمال ۵:‏۲۹‏۔‏

خدا کا قانون بمقابلہ انسان کا قانون

۵،‏ ۶.‏ رسولوں نے عدالت کا حکم کیوں نہیں مانا تھا؟‏

۵ عام طور پر یسوع کے رسول ملک کے قوانین کی پیروی کرتے اور عدالت کا حکم بھی مانتے تھے۔‏ لیکن کوئی بھی انسان چاہے وہ کتنا ہی اُونچا عہدہ رکھتا ہو،‏ کسی شخص کو خدا کے احکام کی خلاف‌ورزی کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔‏ یہوواہ خدا ”‏تمام زمین پر بلندوبالا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۸۳:‏۱۸‏)‏ وہ ”‏تمام دُنیا کا اِنصاف کرنے والا“‏ اور ابدیت کا بادشاہ بھی ہے۔‏ یہوواہ خدا کا اختیار انسانوں کے اختیار سے افضل ہے۔‏ انسانی عدالت ایک ایسا حکم دے تو سکتی ہے جو خدا کے حکم کے خلاف ہو لیکن ایسا حکم خدا کی نظروں میں ناجائز ہوتا ہے۔‏—‏پیدایش ۱۸:‏۲۵؛‏ یسعیاہ ۳۳:‏۲۲‏۔‏

۶ اٹھارھویں صدی کے ایک جج نے اِس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ انسان یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ ”‏خدا کے قانون“‏ کے خلاف کوئی قانون عائد کرے۔‏ اسلئے جب سردارکاہن نے رسولوں کو تبلیغ کرنے سے منع کِیا تھا تو وہ ایک ایسا حکم دے رہا تھا جو اُسکے اختیار میں نہیں تھا۔‏

۷.‏ سردارکاہنوں کو رسولوں پر غصہ کیوں آیا؟‏

۷ رسولوں نے اپنے دل میں ٹھان لیا تھا کہ وہ تبلیغ کرنا جاری رکھیں گے۔‏ یہ دیکھ کر سردارکاہنوں کو بہت غصہ آیا۔‏ سردارکاہن کائفا کے علاوہ کچھ اَور کاہن بھی صدوقی تھے جو مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔‏ (‏اعمال ۴:‏۱،‏ ۲؛‏ ۵:‏۱۷‏)‏ اِسکے برعکس رسول یقین کیساتھ لوگوں کو بتا رہے تھے کہ یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔‏ کئی سردارکاہن رومی حکومت میں مقبول ہونا چاہتے تھے۔‏ اسلئے جب یسوع کے مقدمے کے دوران رومی عدالت نے یہودیوں کو اُسے اپنے بادشاہ کے طور پر ماننے کا موقع دیا تو سردارکاہن چلانے لگے:‏ ”‏قیصر کے سوا ہمارا کوئی بادشاہ نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۹:‏۱۵‏)‏  * لیکن اب رسول لوگوں کو نہ صرف یہ سکھا رہے تھے کہ یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے بلکہ وہ یہ بھی سکھا رہے تھے کہ ”‏آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جسکے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں۔‏“‏ (‏اعمال ۲:‏۳۶؛‏ ۴:‏۱۲‏)‏ کاہنوں کو یہ ڈر تھا کہ اگر لوگ یسوع مسیح کو اپنے رہنما کے طور پر قبول کرنے لگیں تو رومی آ کر اُنکی ’‏جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کر لیں گے۔‏‘‏—‏یوحنا ۱۱:‏۴۸‏۔‏

۸.‏ گملی‌ایل نے صدرعدالت کو کیا نصیحت دی؟‏

۸ یسوع مسیح کے رسولوں کو ایسا لگا ہوگا جیسے اُن پر موت کی گھڑی آن پہنچی ہے۔‏ صدرعدالت اُنکو موت کی سزا سنانے پر تُلے ہوئی تھی۔‏ (‏اعمال ۵:‏۳۳‏)‏ لیکن پھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسکی وجہ سے صورتحال بدل گئی۔‏ گملی‌ایل نامی ایک فریسی نے صدرعدالت کے باقی اراکین کو نصیحت کی کہ اُنہیں جلدبازی سے کام نہیں لینا چاہئے۔‏ اُس نے اُن سے کہا:‏ ”‏کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا سے بھی لڑنے والے ٹھہرو کیونکہ یہ تدبیر یا کام اگر آدمیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہو جائے گا۔‏ لیکن اگر خدا کی طرف سے ہے تو تُم اِن لوگوں کو مغلوب نہ کر سکو گے۔‏“‏—‏اعمال ۵:‏۳۴،‏ ۳۸،‏ ۳۹‏۔‏

۹.‏ اس بات کا کیا ثبوت تھا کہ رسول خدا کا کام کر رہے تھے؟‏

۹ تعجب کی بات ہے کہ صدرعدالت نے گملی‌ایل کی بات مان لی۔‏ پھر عدالت نے ”‏رسولوں کو پاس بلا کر اُنکو پٹوایا اور یہ حکم دے کر چھوڑ دیا کہ یسوؔع کا نام لیکر بات نہ کرنا۔‏“‏ لیکن ڈرنے کی بجائے رسولوں نے فرشتے کے حکم پر عمل کرنے کی ٹھان لی اور وہ ”‏ہیکل میں اور گھروں میں ہر روز تعلیم دینے اور اس بات کی خوشخبری سنانے سے کہ یسوؔع ہی مسیح ہے باز نہ آئے۔‏“‏ (‏اعمال ۵:‏۴۰،‏ ۴۲‏)‏ یہوواہ خدا نے اُنکی محنت کو اس حد تک برکت سے نوازا کہ ”‏خدا کا کلام پھیلتا رہا اور یرؔوشلیم میں شاگردوں کا شمار بہت ہی بڑھتا گیا۔‏“‏ یہاں تک کہ ”‏کاہنوں کی بڑی گروہ اِس دین کے تحت میں ہو گئی۔‏“‏ (‏اعمال ۶:‏۷‏)‏ سردارکاہنوں کیلئے یہ بات کتنی تکلیف‌دہ ثابت ہوئی ہوگی۔‏ رسولوں کا کام پھل لا رہا تھا اور یہ اِس بات کا ثبوت تھا کہ وہ واقعی خدا کا کام کر رہے تھے۔‏

خدا سے لڑنے والے کامیاب نہیں ہوں گے

۱۰.‏ کائفا اپنے آپکو سردارکاہن کے عہدے میں اتنا محفوظ کیوں سمجھتا تھا لیکن اُسکی سوچ کیسے غلط ثابت ہوئی؟‏

۱۰ پہلی صدی میں رومی حکومت ہی یہودی سردارکاہنوں کو مقرر کِیا کرتی تھی۔‏ کائفا کو سردارکاہن کے عہدے تک پہنچانے میں رومی حاکمِ‌صوبہ کا ہاتھ تھا۔‏ کائفا سے پہلے جتنے بھی سردارکاہن آئے تھے،‏ انہوں نے اس عہدے میں اتنا وقت نہیں گزارا تھا جتنا کہ کائفا نے گزارا۔‏ شاید کائفا اپنی قابلیت اور پیلاطُس کیساتھ اپنی دوستی کو اپنی اس کامیابی کی وجہ سمجھتا تھا۔‏ خدا کی بجائے انسانوں پر بھروسہ کرنے کے نتیجے میں کائفا کو آخرکار ہار ماننی پڑی۔‏ رسولوں کے صدرعدالت کے سامنے پیش ہونے کے صرف تین سال بعد رومیوں نے کائفا کو سردارکاہن کے عہدے سے ہٹا دیا۔‏

۱۱.‏ (‏ا)‏ پُنطیُس پیلاطُس کیساتھ کیا پیش آیا تھا اور سن ۷۰ میں شہر یروشلیم کیساتھ کیا ہوا تھا؟‏ (‏ب)‏ ان دونوں مثالوں سے ہم کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟‏

۱۱ کائفا کو سردارکاہن کے عہدے سے نکال دینے کا فیصلہ سوریہ کے حاکم نے کِیا تھا۔‏ اور چونکہ یہ حاکم پیلاطُس سے بھی اُونچا عہدہ رکھتا تھا اسلئے پیلاطُس اپنے دوست کائفا کی مدد کو نہ آ سکا۔‏ اس واقعے کے ایک سال بعد پیلاطُس کو اپنے عہدے سے نکال کر روم بلا لیا گیا کیونکہ اُس پر سنگین الزامات لگائے گئے تھے۔‏ ایسے یہودی جنہوں نے قیصر پر اپنا بھروسہ رکھا تھا،‏ انہیں وہ وقت دیکھنا پڑا جب رومیوں نے اُنکی ’‏جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کر لیا۔‏‘‏ یہ واقعہ سن ۷۰ میں پیش آیا جب رومی لشکر نے یروشلیم کے شہر کیساتھ ساتھ اُسکی ہیکل اور عدالت‌گاہ کو بھی تباہ کر ڈالا۔‏ تب زبورنویس کے یہ الفاظ کتنے سچ ثابت ہوئے تھے کہ ”‏نہ اُمرا پر بھروسا کرو نہ آدم‌زاد پر۔‏ وہ بچا نہیں سکتا۔‏“‏—‏یوحنا ۱۱:‏۴۸؛‏ زبور ۱۴۶:‏۳‏۔‏

۱۲.‏ یسوع مسیح کی مثال سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے فرمانبردار رہنا دانشمندی کی بات ہوتی ہے؟‏

۱۲ خدا نے یسوع مسیح کو روحانی ہیکل کے کاہن کے طور پر مقرر کِیا ہے۔‏ کوئی بھی انسان یسوع کو اس عہدہ سے ہٹا نہیں سکتا۔‏ جی‌ہاں،‏ یسوع کی ”‏کہانت لازوال ہے۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۲:‏۹؛‏ ۷:‏۱۷،‏ ۲۴؛‏ ۹:‏۱۱‏)‏ خدا نے یسوع کو زندوں اور مُردوں کا انصاف کرنے کیلئے بھی مقرر کِیا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۵‏)‏ اِس عہدے کی بِنا پر یسوع یہ فیصلہ کرے گا کہ کائفا اور پیلاطُس کو مُردوں میں سے زندہ کِیا جانا چاہئے یا نہیں۔‏—‏متی ۲۳:‏۳۳؛‏ اعمال ۲۴:‏۱۵‏۔‏

خدا کے دلیر خادم

۱۳.‏ جدید زمانے میں کس کا کام انسان کی طرف سے ثابت ہوا اور کس کا کام خدا کی طرف سے؟‏ آپ اس نتیجے پر کیسے پہنچے؟‏

۱۳ پہلی صدی کی طرح آج بھی بہتیرے لوگ ’‏خدا سے لڑنے والے‘‏ ثابت ہوئے ہیں۔‏ (‏اعمال ۵:‏۳۸‏)‏ اس سلسلے میں جرمنی کی نازی حکومت کی مثال پر غور کریں۔‏ جرمنی کے یہوواہ کے گواہوں نے ہٹلر کو نجات دینے والے کے طور پر قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔‏ اس پر ہٹلر نے قسم کھائی تھی کہ وہ اُنکا نام‌ونشان مٹا دے گا۔‏ (‏متی ۲۳:‏۱۰‏)‏ یوں لگتا تھا جیسے ہٹلر کی قاتلانہ حکومت اپنی طاقت کے بل ایسا کرنے میں کامیاب رہے گی۔‏ جرمنی کی نازی حکومت ہزاروں یہوواہ کے گواہوں کو بیگار کیمپوں میں بھیجنے میں کامیاب رہی اور اس نے بعض کو قتل بھی کر دیا۔‏ لیکن وہ یہوواہ کے گواہوں کے مضبوط ایمان کو نہ توڑ سکی اور نہ ہی وہ یہوواہ کے گواہوں کا نام‌ونشان مٹا سکی۔‏ ان مسیحیوں کے پیچھے خدا کا ہاتھ تھا،‏ انسان کا نہیں اور جس کام میں خدا کا ہاتھ ہو اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔‏ ان واقعات کے ۶۰ سال بعد بھی ایسے یہوواہ کے گواہ جو بیگار کیمپوں میں تھے وہ ”‏اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے“‏ خدا کی عبادت کر رہے ہیں۔‏ لیکن ہٹلر اور اُسکی نازی حکومت کا نام‌ونشان مٹ گیا ہے اور انکو صرف اُنکے بُرے کاموں کیلئے یاد کِیا جاتا ہے۔‏—‏متی ۲۲:‏۳۷‏۔‏

۱۴.‏ (‏ا)‏ مخالفین نے خدا کے بندوں پر کس قسم کے الزام لگائے ہیں اور اسکا نتیجہ کیا نکلا ہے؟‏ (‏ب)‏ کیا مخالفین یہوواہ کے گواہوں کے کام کو روک سکتے ہیں؟‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۵،‏ ۶‏)‏

۱۴ نازیوں کے بعد دوسروں نے بھی یہوواہ خدا اور اُسکے بندوں کے خلاف لڑنے کی کوشش کی ہے،‏ لیکن وہ ناکام رہے ہیں۔‏ یورپ کے کئی ممالک میں یہوواہ کے گواہوں کو ایک ’‏خطرناک فرقہ‘‏ قرار دیا گیا ہے۔‏ اور یہی الزام پہلی صدی کے مسیحیوں پر بھی لگایا گیا تھا۔‏ (‏اعمال ۲۸:‏۲۲‏)‏ اصل میں انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے یہوواہ کے گواہوں کو ایک فرقہ نہیں بلکہ ایک مذہب کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔‏ یہوواہ کے گواہوں کے مخالفین بھی اس بات سے آگاہ ہیں لیکن پھر بھی وہ خدا کے بندوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ اس بدنامی کی وجہ سے کئی یہوواہ کے گواہوں کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے اور اُن کے بچوں کو سکول میں اذیت سہنی پڑتی ہے۔‏ کئی ایسے مالک مکان جنکی عمارتیں یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں کیلئے استعمال ہو رہی تھیں اب اُنہوں نے یہوواہ کے گواہوں کو مکان خالی کرنے کو کہا ہے۔‏ کچھ ایسی بھی صورتحال پیش آئی ہیں جہاں چند اشخاص کو صرف اسلئے ایک ملک کی شہریت نہیں دی گئی کیونکہ وہ یہوواہ کے گواہ ہیں۔‏ ان سب باتوں کے باوجود یہوواہ کے گواہ اپنے تبلیغی کام کو جاری رکھتے ہیں۔‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ فرانس کے یہوواہ کے گواہوں نے کیسا ردِعمل دکھایا ہے اور خدا کے خادم اذیت کے باوجود اپنے تبلیغی کام کو کیوں جاری رکھتے ہیں؟‏

۱۵ ملک فرانس میں لوگ عام طور پر انصاف‌پسند اور خلوص‌دل ہوتے ہیں۔‏ لیکن وہاں مخالفین نے یہوواہ کے گواہوں پر ایسے قانون عائد کئے ہیں جنکی وجہ سے اُنکو اپنے کام کو جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‏ اس پر فرانس کے یہوواہ کے گواہوں نے کیسا ردِعمل دکھایا ہے؟‏ اُنہوں نے منادی میں جی توڑ محنت کی ہے اور انکی یہ محنت خوب پھل لا رہی ہے۔‏ (‏یعقوب ۴:‏۷‏)‏ صرف چھ مہینوں کے دوران،‏ خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے والوں کی تعداد ۳۳ فیصد بڑھ گئی ہے۔‏ فرانس میں اتنے خلوص‌دل لوگوں کو خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے دیکھ کر شیطان غصے سے بھڑک رہا ہوگا۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۷‏)‏ فرانس میں ہمارے بہن‌بھائی یسعیاہ نبی کے ان الفاظ پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں:‏ ’‏کوئی ہتھیار جو تیرے خلاف بنایا جائے کام نہ آئے گا اور جو زبان عدالت میں تجھ پر چلے گی تُو اُسے مجرم ٹھہرائے گا۔‏‘‏—‏یسعیاہ ۵۴:‏۱۷‏۔‏

۱۶ یہوواہ کے گواہ اذیت سہنا تو نہیں چاہتے ہیں لیکن خدا کے حکم کے مطابق وہ اپنی تبلیغ کو جاری رکھیں گے۔‏ وہ نہ تو چپ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی چپ رہیں گے۔‏ یہوواہ کے گواہ عموماً مثالی شہری ہوتے ہیں لیکن جب انسان کے حکم اور خدا کے حکم میں اختلاف پایا جاتا ہے تو وہ خدا کے حکم کی تابعداری کرتے ہیں۔‏

اُن سے نہ ڈریں

۱۷.‏ (‏ا)‏ ہمیں اپنے مخالفین سے کیوں نہیں ڈرنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ ہم مخالفین کیساتھ کیسے پیش آتے ہیں؟‏

۱۷ ہمارے دُشمن ایک بہت ہی خطرناک مقام پر ہیں۔‏ وہ خدا کیساتھ لڑ رہے ہیں۔‏ اِسلئے ہم اپنے ستانے والوں سے ڈرنے کی بجائے یسوع کے حکم کے مطابق اُن کیلئے دُعا کرتے ہیں۔‏ (‏متی ۵:‏۴۴‏)‏ اگر ترسس کے ساؤل کی طرح ہمارے بعض مخالفین غلط‌فہمیوں کی وجہ سے ہمیں اذیت پہنچاتے ہیں تو ہم دُعا کرتے ہیں کہ خدا اُنکی آنکھیں کھول دے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۴‏)‏ جب ساؤل مسیحی بن گیا تو اسے حکمرانوں کے ہاتھ بہت اذیت سہنی پڑی۔‏ اس کے باوجود وہ مسیحیوں کو نصیحت دیتا رہا کہ وہ ”‏حاکموں اور اختیار والوں کے تابع رہیں اور انکا حکم مانیں اور ہر ایک نیک کام کیلئے مستعد رہیں۔‏ کسی کی بدگوئی نہ کریں۔‏ تکراری نہ ہوں بلکہ نرم‌مزاج ہوں اور سب آدمیوں کیساتھ کمال حلیمی سے پیش آئیں۔‏“‏ (‏ططس ۳:‏۱،‏ ۲‏)‏ فرانس سمیت دوسرے ممالک کے یہوواہ کے گواہ بھی اِس نصیحت پر پورے دل سے عمل کرتے ہیں۔‏

۱۸.‏ (‏ا)‏ یہوواہ خدا اپنے بندوں کی کسطرح مدد کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کس بات کا شک نہیں ہے؟‏

۱۸ یہوواہ خدا نے اپنے نبی یرمیاہ سے کہا تھا:‏ ”‏مَیں تجھے چھڑانے کو تیرے ساتھ ہوں۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۱:‏۸‏)‏ یہوواہ خدا آج ہمیں اذیت سے کیسے چھڑاتا ہے؟‏ ایسا کرنے کے لئے شاید وہ گملی‌ایل جیسا ایک خلوص‌دل جج استعمال کرے۔‏ یا پھر یہوواہ خدا ایک معاملے کو ایک سخت‌دل سرکاری آفیسر کے ہاتھ میں سے نکال کر ایک نرم‌دل آفیسر کو دے سکتا ہے۔‏ لیکن کبھی‌کبھار یہوواہ خدا ہمیں اذیتوں سے گزرنے دیتا ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۲‏)‏ اور اسکے ساتھ ساتھ وہ ہمیں اذیت کو برداشت کرنے کی طاقت بھی دیتا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۳‏)‏ خدا جس صورتحال کی بھی اجازت دیتا ہے ہمیں اسکے نتیجے کا کوئی شک نہیں ہوتا۔‏ وہ لوگ جو خدا کے لوگوں سے لڑتے ہیں اصل میں خدا سے لڑ رہے ہوتے ہیں اور خدا سے لڑنے والے کبھی نہیں جیت سکتے۔‏

۱۹.‏ سن ۲۰۰۶ کی خصوصی آیت کیا ہے اور یہ ہمارے لئے اتنی اہم کیوں ہے؟‏

۱۹ یسوع نے کہا تھا کہ اُسکے شاگردوں کو مصیبتوں کا سامنا ہوگا۔‏ (‏یوحنا ۱۶:‏۳۳‏)‏ اسلئے اعمال ۵:‏۲۹ کے یہ الفاظ ہمارے لئے بہت معنی رکھتے ہیں:‏ ‏”‏ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔‏“‏ یہ آیت یہوواہ کے گواہوں کی سن ۲۰۰۶ کی خصوصی آیت کے طور پر چنی گئی ہے۔‏ دُعا ہے کہ ہم آنے والے سال میں اور ہمیشہ تک یہوواہ خدا کے فرمانبردار رہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 7 سردارکاہنوں نے جس ”‏قیصر“‏ کو اپنے بادشاہ کے طور پر قبول کِیا تھا وہ رومی شہنشاہ تبریس تھا۔‏ وہ دھوکاباز اور قاتل تھا اور اپنی بیہودہ جنسی حرکتوں کیلئے مشہور تھا۔‏—‏دانی‌ایل ۱۱:‏۱۵،‏ ۲۱‏۔‏

آپ کیا جواب دیں گے؟‏

‏• اذیت سہتے وقت رسولوں نے ہمارے لئے کیسی مثال قائم کی؟‏

‏• آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ اہم کیوں ہے؟‏

‏• ہمارے مخالفین دراصل کس کے خلاف لڑ رہے ہیں؟‏

‏• خدا کے نام میں اذیت کا سامنا کرنے والوں کا کیا انجام ہوگا؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر عبارت]‏

سن ۲۰۰۶ کی خصوصی آیت:‏ ”‏ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔‏“‏—‏اعمال ۵:‏۲۹‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

‏”‏ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے“‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

کائفا نے خدا پر نہیں بلکہ انسانوں پر بھروسہ کِیا