اطالوی زبان میں بائبل کا ترجمہ ایک تاریخی داستان
اطالوی زبان میں بائبل کا ترجمہ ایک تاریخی داستان
”ہمارے مُلک اِٹلی میں زیادہتر لوگوں کے پاس بائبل تو ہے لیکن کم ہی لوگ اسے پڑھتے ہیں۔ کیتھولک لوگوں کو نہ تو بائبل پڑھنے کی حوصلہافزائی دی جاتی ہے اور نہ ہی اُنکو خدا کے کلام کی تعلیم دی جاتی ہے۔ بہتیرے لوگ اسے سمجھنے کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن اکثر کوئی سمجھانے والا ہی نہیں ہوتا۔“
یہ بیان اِٹلی کے بشپوں کی مجلس نے سن ۱۹۹۵ میں شائع کِیا۔ اس سلسلے میں چند سوال اُٹھتے ہیں۔ آجکل اِٹلی میں زیادہتر لوگ بائبل کیوں نہیں پڑھتے؟ گزشتہ زمانوں میں اِٹلی میں بائبل کو کن نظروں سے دیکھا جاتا تھا؟ آئیں ہم ذرا اطالوی زبان میں بائبل کے ترجمے کی تاریخ پر غور کرتے ہیں۔
لاطینی زبان سے تعلق رکھنے والی مختلف دیسی زبانیں کئی صدیوں کے دوران وجود میں آئیں، مثلاً اِطالوی، پُرتگالی، فرانسیسی اور ہسپانوی زبان۔ شروع میں صرف عام لوگ ان دیسی زبانوں کو استعمال کرتے تھے جبکہ پڑھےلکھے لوگوں کی زبان لاطینی رہی۔ لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ دیسی زبانیں علماء میں بھی مقبولیت حاصل کرنے لگیں، یہاں تک کہ ادبی اور سائنسی کتابیں بھی اِن دیسی زبانوں میں شائع ہونے لگیں۔ لاطینی زبان کا استعمال کیتھولک عبادت تک محدود رہا۔ لیکن عام لوگ اس زبان کو سمجھ نہیں سکتے تھے اسلئے بائبل کا ترجمہ کرنے کا کام شروع ہو گیا۔
سن ۱۰۰۰ کے لگبھگ اِٹلی میں بائبل کا ترجمہ صرف لاطینی زبان میں دستیاب تھا۔ یہ ترجمہ ولگاتا کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اگر عام لوگ اسے حاصل بھی کر پاتے تو وہ اسے سمجھ نہیں سکتے تھے۔ سکولوں اور یونیورسٹیوں کا انتظام کیتھولک پادری طبقے کے ہاتھ میں تھا اور صرف چند ہی امیر لوگ لاطینی زبان سیکھ کر تعلیم حاصل کر سکتے تھے۔ ایک تاریخدان کے مطابق ”عام لوگوں کو بائبل پڑھنے کا کوئی موقع نہیں دیا جاتا تھا۔“ لیکن بہت سے ایسے لوگ تھے جو خدا کے کلام کو سمجھنے کی دلی خواہش رکھتے تھے۔ اسلئے وہ اسے اپنی دیسی زبان میں پڑھنا چاہتے تھے۔
تاہم پادری طبقے کو بائبل کا ترجمہ کرنے کی یہ کوششیں گوارا نہ تھیں۔ اُنکا خیال تھا کہ اگر بائبل کا ترجمہ دیسی زبانوں میں کِیا جائے گا تو بہت سے لوگ کیتھولک عقیدوں سے ہٹ جائیں گے۔ ایک تاریخدان کا کہنا ہے کہ ”پادری طبقہ مذہبی معاملات میں اپنا اختیار اسلئے بےروکٹوک جما سکا کیونکہ اس زمانے کی مذہبی زبان لاطینی
تھی اور کم ہی لوگ اسے سمجھتے تھے۔ لہٰذا پادری طبقہ مذہبی معاملوں میں دیسی زبانوں کے استعمال کی خلافورزی کرتا تھا۔“ اس وجہ سے عام لوگوں کو بائبل کی تعلیم نہیں دی جاتی تھی۔ اور اِٹلی میں آج تک حالات کچھ ایسے ہی رہے ہیں۔بائبل کے سب سے پہلے ترجمے
تیرھویں صدی میں پہلی بار اطالوی زبان میں بائبل کے چند حصوں کا ترجمہ کِیا گیا۔ چودھویں صدی تک تقریباً پوری بائبل کا ترجمہ ہو چکا تھا حالانکہ اسکے دیگر حصوں کا ترجمہ مختلف لوگوں نے کِیا تھا۔ ان ترجموں کی نقل ہاتھ سے اُتاری جاتی، اسلئے یہ بہت مہنگی ہوتیں۔ صرف امیر لوگ اور علماء بائبل کی ان نقلوں کو حاصل کر سکتے تھے۔ چھپائی کی مشین کی ایجاد کے بعد کتابوں کی قیمت تو ذرا کم ہو گئی لیکن پھر بھی کم ہی لوگ بائبلیں حاصل کر سکتے تھے۔
اس تمام عرصے کے دوران اِٹلی کی آبادی کی اکثریت اَنپڑھ تھی۔ سن ۱۸۶۱ میں جب اِٹلی کی مختلف ریاستیں ایک ہی حکومت کے تحت متحد ہو گئیں تو مُلک کے تقریباً ۷۵ فیصد لوگ اَنپڑھ تھے۔ جب حکومت نے سب کو مُفت تعلیم فراہم کرنے کا منصوبہ باندھ لیا تو کیتھولک پوپ نے اس منصوبے کی خلافورزی کی۔ سن ۱۸۷۰ میں اُس نے اطالوی بادشاہ کے نام ایک خط میں اس منصوبے کو ایک ایسی ”وبا“ قرار دیا ”جسکا مقصد کیتھولک تعلیمی انتظام کو ختم کر دینا ہے۔“
بائبل کا مکمل ترجمہ
سن ۱۴۷۱ میں شہر ونیس میں پہلی بار اطالوی زبان کی مکمل بائبل چھاپی گئی۔ نیکولو مالیربی نامی ایک راہب نے اس ترجمے کو آٹھ مہینے کے اندر اندر تیار کِیا۔ اگرچہ اُس نے لاطینی ولگاتا کو بھی مدِنظر رکھا لیکن دراصل اُس نے اطالوی زبان کے موجودہ ترجموں کی نقل اُتار کر ان میں اپنے شہر ونیس کی بولی کے مطابق بعض الفاظ کو تبدیل کر دیا۔ بہرحال اُسکا ترجمہ بہت مقبول تھا۔
پھر ونیس کے ایک اَور شہری، انٹونیو بُرچولی نے بھی بائبل کا ترجمہ کِیا۔ حالانکہ یہ عالم پروٹسٹنٹ چرچ کے خیالات کو پسند کرتا تھا لیکن اُس نے کیتھولک مذہب کو کبھی ترک نہیں کِیا۔ اُس نے اپنا ترجمہ سن ۱۵۳۲ میں شائع کِیا۔ یہ اطالوی زبان کا سب سے پہلا ترجمہ تھا جو براہِراست بائبل کے اصلی عبرانی اور یونانی متن کی بِنا پر کِیا گیا تھا۔ اس میں اصلی متن کے مفہوم کا صحیح ترجمہ پایا جاتا ہے اور اس میں کئی مرتبہ خدا کا نام ”یہوواہ“ بھی استعمال ہوا ہے۔ اِٹلی میں ایک سو سال تک پروٹسٹنٹ چرچ کے اراکین اور کیتھولک چرچ کے مخالفین بُرچولی کے ترجمے کو استعمال کرتے رہے۔
اس ترجمے کی بِنا پر بہت سے دوسرے ترجمے شائع ہوئے لیکن وہ بُرچولی کے ترجمے کی طرح کامیاب نہیں رہے۔ پھر ۱۶۰۷ میں ڈیوڈاتی نامی ایک پروٹسٹنٹ پادری نے بھی بائبل کے اصلی زبانوں کی بِنا پر ایک اطالوی ترجمہ تیار کِیا۔ اُسکے والدین اِٹلی میں مذہبی اذیت کا نشانہ بننے کی وجہ سے سوئٹزرلینڈ چلے گئے تھے۔ ڈیوڈاتی کا ترجمہ اِٹلی کے پروٹسٹنٹ چرچ کے اراکین میں بہت مقبول تھا۔ اسے اپنے زمانے کا اعلیٰترین ترجمہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے ترجموں کے ذریعے اِٹلی کے لوگوں کو خدا کا کلام سمجھنے کا موقع ملا۔ البتہ پادری طبقہ ان ترجموں کو تباہ کرنے کی سخت کوشش میں تھا۔
بائبل—ایک ممنوع کتاب
ایک کیتھولک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق ”شروع ہی سے کیتھولک چرچ نے کتابوں پر پابندی لگانے کا حق اپنے ذمے لے لیا تھا۔ ایسی کتابیں جنہیں چرچ نے خطرناک قرار دیا تھا، وہ آگ کے حوالے کر دی گئیں۔ لیکن جب چھاپنے کا فن جڑ پکڑنے لگا تو چرچ نے ممنوع کتابوں کی ایک فہرست تیار کرنے کی ضرورت محسوس کی۔“ یورپ میں مذہبی اصلاح کے شروع ہونے کے بعد بھی کیتھولک پادری طبقے نے ایسی کتابوں کو راکھ کرنے کی کوشش کی جو کیتھولک عقیدوں کے خلاف تھیں۔ پھر ۱۵۴۶ میں کیتھولک
چرچ کی ایک مجلس میں دیسی زبانوں کی بائبلوں کے مسئلہ پر بحث ہوئی۔ بعض رہنماؤں کا خیال تھا کہ دیسی زبان کی بائبلیں ”بدعت کی جڑ“ ہیں اور ان پر پابندی لگائی جانی چاہئے۔ اسکے برعکس کئی دوسرے رہنماؤں نے یہ رائے پیش کی کہ اگر دیسی زبان کی بائبلوں پر پابندی لگائی جائے تو پروٹسٹنٹ ”مخالفین“ کہیں گے کہ چرچ شاید ”اپنی کسی مکاری“ کو چھپانے کی خاطر ایسا کر رہا ہے۔اس موضوع پر بہت بحث کرنے کے بعد بھی مجلس متفق نہ ہو سکی۔ صرف اس بات پر اتفاق ہوا کہ لاطینی ولگاتا ترجمے کو اصلی اور صحیح بائبل قرار دیا جائے۔ لہٰذا یہ ترجمہ کیتھولک چرچ کی واحد منظور بائبل بن گیا۔ روم کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر بُوزیٹی اس سلسلے میں یوں بیان کرتے ہیں: ”لاطینی ولگاتا کو اصلی اور صحیح بائبل قرار دینے کا مطلب دراصل یہ تھا کہ اسکے علاوہ کوئی اَور ترجمہ جائز نہیں ہے۔“ بعد میں ہونے والے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ چرچ اپنی اس سوچ کا پکا رہا۔
پھر ۱۵۵۹ میں پوپ نے پہلی بار ایسی ممنوع کتابوں کی فہرست تیار کی جو اُن کے خیال میں ایمان اور اخلاقی معیاروں کے لئے خطرناک تھیں۔ کیتھولک لوگوں کو ان کتابوں کو پڑھنے، بیچنے اور حاصل کرنے سے منع کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ انکا ترجمہ کرنا بھی ایک جُرم ٹھہرایا گیا۔ جو کوئی پوپ کے اس فرمان کی خلافورزی کرتا، اُسے چرچ سے خارج کر دیا جاتا۔ اس فرمان میں بُرچولی کے ترجمے سمیت تمام دیسی زبان کی بائبلوں کو پڑھنے سے منع کر دیا گیا۔ لیکن ۱۵۹۶ میں پوپ کے فرمان پر ان بائبلوں کا ترجمہ کرنے اور انہیں چھاپنے سے بھی منع کر دیا گیا۔ پوپ کا حکم تھا کہ دیسی زبان کی بائبلوں کو تباہ کر دیا جائے۔
اس فرمان کے نتیجے میں سن ۱۶۰۰ کے لگبھگ پادریوں نے جگہ جگہ بائبلوں کو آگ میں جلانا شروع کر دیا۔ عام لوگوں کو سکھایا جاتا کہ پاک صحائف ایک شخص کے ایمان کو برباد کرتے ہیں۔ اور یہ سوچ اِٹلی میں آج بھی عام ہے۔ تقریباً تمام بائبلوں کو کُتبخانوں میں سے نکال کر تباہ کر دیا گیا۔ اسکے بعد دو سو سال تک کسی کیتھولک عالم نے اطالوی زبان میں بائبل کا ترجمہ نہیں کِیا۔ لوگ اگر پروٹسٹنٹ علماء کے ترجموں کو پڑھنا بھی چاہتے تھے تو اُنکو پوشیدگی میں ایسا کرنا پڑتا۔ ایک تاریخدان اس تاریک دَور کے بارے میں یوں بیان کرتا ہے: ”عام لوگوں کو بائبل پڑھنے کا کوئی موقع نہیں دیا جاتا تھا۔ اِٹلی کے لاکھوں لوگوں کی پوری عمر بائبل کا ایک بھی صفحہ پڑھے بغیر بیت جاتی۔“
پابندی کا خاتمہ
سن ۱۷۵۷ میں پوپ نے ایک نئے فرمان کو جاری کِیا جس میں ”دیسی زبان میں ایسی بائبلوں کو پڑھنے کی اجازت دی گئی جو پوپ کو منظور ہیں اور جو بشپوں کی نگرانی میں شائع ہوئی ہیں۔“ اسکے نتیجے میں انٹونیو مارٹینی نے ولگاتا کی بِنا پر ایک ترجمہ تیار کِیا۔ اسکے پہلے حصے کو ۱۷۶۹ میں، اور مکمل بائبل کو ۱۷۸۱ میں شائع کِیا گیا۔ کیتھولک علماء کی نظروں میں ”یہ سب سے پہلا اطالوی ترجمہ ہے جو کسی حد تک معیاری کہلا سکتا ہے۔“ کیتھولک چرچ کے اراکین جو لاطینی زبان نہیں جانتے تھے وہ اب پہلی بار ایک ایسی بائبل کو پڑھ سکتے تھے جو چرچ کو منظور تھی۔ البتہ آنے والے ڈیڑھ سو سال تک مارٹینی کا ترجمہ اطالوی زبان کا واحد ”منظور“ ترجمہ رہا۔
سن ۱۹۶۵ میں چرچ کی سوچ میں ایک اہم تبدیلی آئی۔ تمام بشپوں کی مجلس نے یوں فرمایا: ”ہماری خواہش ہے کہ بائبل کے اصلی متن کی بِنا پر مختلف زبانوں میں اسکا صحیح ترجمہ کِیا جائے۔“ اس مجلس کے چند سال پہلے، سن ۱۹۵۸ میں ”بائبل کا پہلا مکمل کیتھولک ترجمہ شائع ہوا جو براہِراست بائبل کی اصلی زبانوں سے تیار کِیا گیا تھا۔“ اس ترجمے میں کئی مرتبہ خدا کا نام استعمال ہوا ہے جسکا تلفظ ”یاہوے“ بیان کِیا گیا ہے۔
آجکل اِٹلی میں تقریباً تمام لوگ پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن آج بھی زیادہتر لوگ بائبل سے ناواقف ہیں۔ ایک عالم کا کہنا ہے کہ چونکہ اِتنی صدیوں کیلئے عام لوگوں کو بائبل پڑھنے سے منع کِیا گیا تھا اسلئے وہ آج بھی ”یہ یقین نہیں کر پاتے کہ وہ اپنی سوچ اور اپنے ضمیر کے مطابق عمل کرنے کی آزادی رکھتے ہیں۔“ اکثر کیتھولک لوگوں کے خیال میں مذہبی روایتیں خدا کے کلام کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔
تاہم یہوواہ کے گواہوں کے تبلیغی کام کی وجہ سے بہت سے لوگ اطالوی زبان کی بائبل میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔ سن ۱۹۶۳ میں اطالوی زبان میں نئے عہدنامے کا نیو ورلڈ ٹرانسلیشن شائع ہوا اور ۱۹۶۷ میں اس بائبل کا مکمل ترجمہ دستیاب ہو گیا۔ اِٹلی میں اس ترجمے کی ۴۰ لاکھ بائبلیں تقسیم ہو چکی ہیں۔ اس ترجمے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اصلی متن کا مفہوم صحیح طرح بیان کِیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ اس میں خدا کا نام ”یہوواہ“ ان تمام آیتوں میں استعمال ہوا ہے جہاں وہ عبرانی اور یونانی زبان کے اصلی متن میں موجود ہے۔
یہوواہ کے گواہ گھربہگھر جا کر لوگوں کو خدا کے کلام میں سے صحیفے پڑھ کر سناتے ہیں اور اُنکی وضاحت بھی کرتے ہیں۔ (اعمال ۲۰:۲۰) وہ لوگوں کی اپنی بائبل میں سے انکو دکھاتے ہیں کہ خدا نے ”نئی زمین“ کا وعدہ کِیا ہے جس میں ”راستبازی بسی رہے گی۔“ (۲-پطرس ۳:۱۳) اگلی بار جب آپکی ملاقات یہوواہ کے گواہوں سے ہوگی تو کیوں نہ اُن سے خدا کے کلام میں پائی جانے والی اُمید کے بارے میں باتچیت کریں۔
[صفحہ ۱۳ پر نقشہ]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
ونیس
روم
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
بُرچولی نے اپنے ترجمے میں خدا کا نام یہوواہ (Ieova) استعمال کِیا
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
ممنوع کتابوں کی فہرست میں دیسی زبانوں کی بائبلیں بھی شامل تھیں
[صفحہ ۱۳ پر تصویر کا حوالہ]
Bible title page: Biblioteca Nazionale Centrale di Roma
[صفحہ ۱۵ پر تصویر کا حوالہ]
;Brucioli’s translation: Biblioteca Nazionale Centrale di Roma
Index: Su concessione del Ministero per i Beni e le Attività
Culturali