مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

روس میں ایک رواج جڑ پکڑتا ہے

روس میں ایک رواج جڑ پکڑتا ہے

روس میں ایک رواج جڑ پکڑتا ہے

‏”‏روس میں ۱۹ ویں صدی کے شروع میں گھر میں ایک سدابہار درخت کو سجا کر رکھنے کا رواج عام نہیں تھا۔‏ اُس زمانے میں روس کے لوگ اسے ’‏جرمن لوگوں کا ایک دلکش رواج‘‏ خیال کرتے تھے۔‏ لیکن سن ۱۸۳۹ تک روس کے دارالحکومت کے رئیس اور معزز خاندان ’‏اس رواج کو اپنا چکے‘‏ تھے۔‏ .‏ .‏ .‏ سچ تو یہ ہے کہ ۱۹ ویں صدی میں پادریوں اور مزدوروں کے علاوہ روس کے تمام لوگ اس رواج کو اپنا چکے تھے۔‏ .‏ .‏ .‏

‏”‏۱۹ ویں صدی سے پہلے اس رواج کو .‏ .‏ .‏ اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔‏ اسکی وجہ یہ تھی کہ روسی روایت کے مطابق سدابہار درختوں کو موت اور ’‏عالمِ‌ارواح‘‏ کی علامت خیال کِیا جاتا تھا۔‏ اسکے علاوہ ایسے درختوں کو شراب‌خانوں کی چھت پر سجایا جاتا تھا۔‏ اسلئے یہ حیرانی کی بات ہے کہ لوگ ۱۹ ویں صدی میں ایسے درختوں کو گھر میں لا کر انکو سجانے لگے تھے۔‏ .‏ .‏ .‏ آخرکار اس رواج کو روس میں اتنا ہی اہم سمجھا جانے لگا جتنا مغربی ملکوں میں بڑے دن کے درخت کے رواج کو سمجھا جاتا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏

‏”‏البتہ روس میں یہ رواج بڑی مشکل سے ایک ’‏مسیحی رواج‘‏ کے طور پر قبول ہوا۔‏ شروع شروع میں روس کے آرتھوڈکس چرچ نے اس رواج کی سخت مخالفت کی۔‏ چرچ کے پادری اس رواج کو ’‏شیطانی‘‏ سمجھتے تھے،‏ یعنی ایک ایسا تہوار جسے کافر مناتے ہیں۔‏ اُن کے نزدیک اسکا یسوع مسیح کی پیدائش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‏ اس کے علاوہ وہ اس رواج پر اسلئے بھی اعتراض کرتے کیونکہ یہ ایک مغربی رواج تھا۔‏“‏—‏پروفیسر یلےنا دوشین‌کینا جو روس کی ایک نامور یونیورسٹی میں ڈاکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۳۲ پر تصویر کا حوالہ]‏

Photograph: Nikolai Rakhmanov