کرسمس کیوں منایا جاتا ہے؟
کرسمس کیوں منایا جاتا ہے؟
لاکھوں لوگوں کے خیال میں کرسمس اور نئے سال کی چھٹیاں دوستوں اور عزیزوں سے ملنے کا بہترین موقع ہوتی ہیں۔ بہت سے دوسرے لوگوں کے نزدیک یہ چھٹیاں یسوع مسیح کے اہم کردار پر غور کرنے کا عمدہ موقع ہوتی ہیں۔ روس میں بھی کئی صدیوں تک کرسمس کا تہوار بڑے جوش سے منایا جاتا تھا۔ لیکن پھر بیسویں صدی میں اس تہوار کو منانے پر پابندی لگا دی گئی۔ اسکی کیا وجہ تھی؟
سن ۱۹۱۷ میں روس میں انقلاب ہوا۔ اِسکے بعد سوویت حکومت نے وہاں حکمرانی کرنا شروع کر دی۔ اِس حکومت نے لوگوں کے دلوں سے مذہب اور ایمان کو مٹانے کی ٹھان لی تھی۔ حکمرانوں نے کرسمس اور نئے سال کے تہواروں کو بُری روشنی میں ڈالنے کی کوشش کی۔ اسکے علاوہ کرسمس کے رسمورواج پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ مثال کے طور پر عوام کو سدابہار درخت کو سجانے سے منع کر دیا گیا۔
پھر سن ۱۹۳۵ میں سوویت حکومت نے عوام کو کرسمس کے رسمورواج منانے کی اجازت دے دی۔ لیکن ایک شرط پر اور وہ یہ تھی کہ یہ رسمورواج کرسمس کے دن پر نہیں بلکہ نئے سال کے تہوار کو منانے کیلئے استعمال ہوں۔ اسکا مطلب تھا کہ سدابہار درختوں کو کرسمس کیلئے نہیں بلکہ نئے سال کو منانے کیلئے سجایا جانے لگا۔ اسکے علاوہ لوگ کرسمس کی بجائے نئے سال کے موقع پر ایک دوسرے کو تحفے دیتے۔ اسطرح روس میں نئے سال کے آغاز کو ان رسمورواج سے منایا جانے لگا جو دراصل کرسمس کے رواج تھے۔
یوں سمجھ لیجئے کہ روس کے لوگ نئے سال کے بھید میں کرسمس تو مناتے تھے لیکن مذہبی تہوار کے طور پر نہیں۔ اس وجہ سے سدابہار درختوں کو اب مذہبی علامتوں کی بجائے ایسی چیزوں سے سجایا جاتا جو روس کی ترقی کی طرف اشارہ کرتیں۔ روس کا ایک رسالہ اس سلسلے میں بیان کرتا ہے کہ ”جہاں پہلے سدابہار درختوں پر مذہبی علامتیں سجائی جاتی تھیں وہاں سوویت حکومت کے راج کے دوران چھوٹے چھوٹے ٹریکٹر، راکٹ، درانتیاں اور ہتھوڑے سجائے جاتے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روسی معاشرے نے کس حد تک سوویت حکومت کی سوچ کو اپنا لیا تھا۔“
البتہ کرسمس کے تہوار کے بارے میں سوویت حکومت کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ جس روز پر یہ تہوار پڑتا تھا، اس روز عوام کو چھٹی نہیں ہوتی تھی۔ اگر کوئی شخص پھر بھی کرسمس مناتا تو اسے ایسا چھپ کر کرنا پڑتا تھا۔ اور اگر وہ ایسا کرتے وقت پکڑا جاتا تو اُسے جوابدہ ٹھہرایا جاتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیسویں صدی میں روس میں کرسمس جیسے مذہبی تہواروں کو منانا حکومت کی ناگواری مول لینے کے برابر ہوتا تھا۔
خریدوفروخت کا جنون اور بدچلنی
سن ۱۹۹۱ میں روس میں سوویت حکومت کا راج ختم ہو گیا۔ اسکے ساتھ ساتھ روس کی کئی ریاستوں کو آزادی بھی حاصل ہوئی۔ اس تبدیلی کی وجہ سے سوویت حکومت کی پابندیاں بھی اُٹھا دی گئیں۔ روس کے بہتیرے لوگ بہت خوش تھے کیونکہ اب وہ کھلمکُھلا اپنے مذہب پر عمل کر سکتے تھے۔ لہٰذا اُنہوں نے کرسمس کے تہوار کو بھی دوبارہ سے منانا شروع کر دیا۔ لیکن یہ عمل اُنکے لئے بڑا مایوسکُن ثابت ہوا ہے۔ اسکی کیا وجہ ہے؟
دراصل مغربی ممالک کے تاجروں اور دُکانداروں کی طرح روس کے تاجروں نے بھی جان لیا ہے کہ کرسمس منافع کمانے کا بہترین موقع ہے۔ آجکل کرسمس کے وقت روس میں بھی دُکانیں اس تہوار کی علامتوں سے سجی ہوتی ہیں۔ مغربی ممالک میں کرسمس کے موقع پر جو گیت گائے جاتے ہیں یہی گیت روس کی تقریباً ہر دُکان میں بجتے ہیں۔ یہاں تک کہ ریلگاڑیوں اور بسوں پر بھی کرسمس کا سازوسامان بیچنے والے اپنا مال بکانے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔
کئی لوگ خریدوفروخت کے اس جنون کو بُرا خیال نہیں کرتے۔ لیکن وہ پریشان ہیں کیونکہ کرسمس اور نئے سال کے تہواروں پر لوگ حد سے زیادہ شراب پیتے ہیں۔ اس عمل کے بُرے نتائج کے بارے میں ایک ڈاکٹر جو ایک روسی ہسپتال کے ہنگامی وارڈ میں کام کرتے ہیں، یوں بیان کرتے ہیں: ”ہم جانتے ہیں کہ نئے سال کا تہوار ہمارے لئے بہت کام لائے گا۔ لوگ شراب کے نشے میں لڑائیجھگڑا اور ہاتھاپائی کرنے لگتے ہیں۔ کئی لوگ تو ایک دوسرے پر چاقو بھی چلا دیتے ہیں یا پھر فائرنگ کرکے کسی کو زخمی کر دیتے ہیں۔ اسکے علاوہ ان تہواروں کے دوران ٹریفک کے حادثوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔“ روس کے ایک نامور سائنسدان کا کہنا ہے کہ ”سال کے دوسرے دنوں کے مقابلے میں ان تہواروں کے موقع پر زیادہ لوگ مرتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ حد سے زیادہ شراب پی لیتے ہیں۔ دوسرے سالوں کی نسبت خاص طور پر سن ۲۰۰۰ میں اس وجہ سے بہت زیادہ لوگ فوت ہوئے۔ اسکے علاوہ ان تہواروں کے دوران قتل اور خودکُشی کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔“
کرسمس اور نئے سال کے تہوار پر لوگوں کی بدچلنی تو بذاتخود ایک مسئلہ ہے۔ لیکن روس میں بہت سے لوگ ان تہواروں کو دو دو بار مناتے ہیں جسکی وجہ سے مسئلہ اور بھی بگڑ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں روس کے ایک اخبار میں یوں لکھا تھا: ”روس میں دس میں سے کمازکم ایک شخص سال میں دو مرتبہ کرسمس مناتا ہے۔ ایک جائزے میں حصہ لینے والے لوگوں کی ۸ فیصد تعداد نے کہا کہ وہ دو مرتبہ کرسمس مناتے ہیں۔ ایک بار کیتھولک کیلنڈر کے مطابق ۲۵ دسمبر کو اور دوسری بار آرتھوڈکس چرچ کے کیلنڈر کے مطابق ۷ جنوری کو۔ . . . بہتیرے لوگ ایسا مذہبی جوش کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ وہ تو عیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے اور اسلئے دو دو بار کرسمس مناتے ہیں۔“ *
اِن تہواروں کی جڑ
بہتیرے اشخاص کرسمس کے تہوار کے موقع پر لوگوں کی بدچلنی پر سخت پریشان ہیں۔ اُنکے نزدیک اِس تہوار کو خدا اور یسوع مسیح کی قدر کرنے کیلئے منایا جانا چاہئے۔ بیشک خدا کی قدر کرنا بہت اہم ہے۔ لیکن کیا کرسمس منانے سے ہم واقعی خدا اور یسوع مسیح کی قدر کرتے ہیں؟ آئیے ہم کرسمس کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔
ایک لغت کے مطابق: ”کرسمس . . . کا تہوار دراصل کافروں کی ایجاد ہے۔ قدیم زمانے میں خاص طور پر کسان اپنے دیوتاؤں کی موت اور جی اُٹھنے کو اسی عرصے کے دوران مناتے تھے۔ ۲۱ تا ۲۵ دسمبر تک یہ لوگ اپنے ایک خاص دیوتا کا جنم دن مناتے تھے۔ چونکہ اس عرصے میں دن ایک بار پھر سے لمبے ہونے لگتے ہیں اسلئے اُنکا خیال تھا کہ اُنکا دیوتا موت کی نیند سے جاگ اُٹھا ہے جسکی وجہ سے زمین دوبارہ سے فصلیں پیدا کرنے کے قابل ہو گئی ہے۔“
اسی لغت میں آگے بیان کِیا گیا ہے کہ ”یسوع مسیح کی موت کے چند صدیاں بعد تک مسیحی لوگ کرسمس نہیں مناتے تھے۔ . . . پھر سن ۳۵۰ عیسوی کے لگبھگ مسیحیوں نے سورج کے دیوتا متھرا کے تہوار کو اپنا کر اسے مسیحی مذہب کا ایک تہوار قرار دیا۔ یہ تہوار آج کرسمس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سب سے پہلے روم میں رہنے والے مسیحیوں نے اس تہوار کو منانا شروع کِیا۔ جب دسویں صدی میں مسیحی پادریوں نے روس میں تبلیغ کرنا شروع کر دی تو اُنہوں نے وہاں کے باشندوں کو کرسمس منانے کا درس بھی دیا۔ دراصل روس کے باشندے پہلے ہی سے دسمبر کے مہینے میں اپنے مُردہ عزیزوں کی یاد میں ایک تہوار مناتے تھے۔ اُنہوں نے دونوں تہواروں کے رسمورواج کو ملا کر اسے ایک مسیحی تہوار کی شکل دے دی۔“
شاید آپکے ذہن میں اب یہ سوال اُٹھاتا ہے کہ کیا خدا کے کلام میں یہ نہیں کہا گیا کہ یسوع مسیح ۲۵ دسمبر کے روز پیدا ہوا تھا؟ سچ تو یہ ہے کہ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یسوع مسیح کس تاریخ پر پیدا ہوا تھا۔ اسکے علاوہ یسوع مسیح نے نہ ہی اپنی پیدائش کے دن کا ذکر کِیا تھا اور نہ ہی اُس نے اس دن کو منانے کا حکم دیا۔ البتہ بائبل سے ہم یہ ضرور جان سکتے ہیں کہ یسوع کس مہینے میں پیدا ہوا تھا۔
انجیل سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یسوع مسیح کو یہودی کیلنڈر کے نیسان کے مہینے کی چودھویں تاریخ پر مار ڈالا گیا تھا۔ یہ یہودیوں کی فسح کی عید کے دوران واقع ہوا تھا جو ۳۱ مارچ، ۳۳ عیسوی کو شروع ہوئی تھی۔ (متی ۲۶ اور ۲۷ باب کو دیکھیں۔) انجیل میں یہ بھی لکھا ہے کہ یسوع مسیح نے ۳۰ سال کی عمر میں بپتسمہ لے کر خدا کی خدمت کرنا شروع کی۔ (لوقا ۳:۲۱-۲۳) اسکے بعد اُس نے اپنی موت تک یعنی ساڑھے تین سال تک اس خدمت کو جاری رکھا۔ اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یسوع کو جب مار ڈالا گیا تو وہ تقریباً ساڑھے تینتیس سال کا تھا۔ اسکا مطلب ہے کہ اگر اُسے قتل نہ کِیا جاتا تو وہ سن ۳۳ کے اکتوبر کے مہینے میں ۳۴ سال کا ہو جاتا۔ انجیل میں یہ بھی لکھا ہے کہ جس دن یسوع پیدا ہوا تھا ’چرواہے رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلّہ کی نگہبانی کر رہے تھے۔‘ (لوقا ۲:۸) یسوع مسیح بیتلحم کے شہر میں پیدا ہوا تھا۔ اُس علاقے میں دسمبر میں اکثر برف پڑتی ہے۔ چرواہے دسمبر کی یخ راتوں میں اپنے گلوں کو باہر نہیں رکھتے تھے۔ البتہ اکتوبر کے مہینے میں وہ رات باہر ہی گزارا کرتے تھے۔ اس بات سے بھی ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یسوع دسمبر کے مہینے میں نہیں بلکہ اکتوبر کے مہینے میں پیدا ہوا تھا۔
اسی طرح نئے سال کو بھی شروع شروع میں کافر ہی مناتے تھے۔
اسکے علاوہ اس تہوار کو مناتے وقت لوگ طرح طرح کی بُری حرکتیں کرتے ہیں۔ ایک ایسا تہوار منانے سے کیا ہم واقعی خدا اور یسوع مسیح کو خوش کر سکتے ہیں؟ہم نے دیکھا ہے کہ کرسمس اور نئے سال کے تہواروں کی بنیاد دراصل وہ تہوار تھے جو کافر اپنے دیوتاؤں کی قدر کرنے کیلئے مناتے تھے۔ اسکے ساتھ ساتھ آجکل لوگ ان تہواروں کو منانے کیلئے خریدوفروخت کے جنون میں پڑ جاتے ہیں اور اکثر اوقات انہیں مناتے وقت بدچلنی اور لڑائی جھگڑے پر بھی اُتر آتے ہیں۔ اس
سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان تہواروں کو منانے سے ہم یسوع مسیح کی قدر نہیں کر سکتے۔ توپھر ہم خدا اور یسوع مسیح کی خوشنودی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ آئیے ہم اس سوال کے جواب پر غور کرتے ہیں۔خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا اصلی طریقہ
خدا کے کلام میں ہم پڑھتے ہیں کہ یسوع مسیح نے ’اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے دی۔‘ (متی ۲۰:۲۸) جیہاں، یسوع نے ہمارے گناہوں کو مٹانے کیلئے اپنی جان تک قربان کر دی۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ کرسمس منانے سے یسوع مسیح کی اس قربانی کیلئے اپنی شکرگزاری ظاہر کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس تہوار کو منانے سے ہم نہ تو خدا کو خوش کرتے ہیں اور نہ ہی یسوع مسیح کی قدر کرتے ہیں۔
توپھر ہم خدا کی خوشنودی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ خلوصدل لوگ ایسے تہواروں اور رسمورواج کو ترک کر دیتے ہیں جو دیکھنے میں تو خدا کی قدر کرنے کیلئے منائے جاتے ہیں لیکن جو اُسکے اُونچے معیاروں کے خلاف ہیں۔
ایسے لوگ یسوع مسیح کی اس ہدایت پر بھی عمل کرتے ہیں: ”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِواحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔“ (یوحنا ۱۷:۳) اس کا مطلب ہے کہ وہ خدا اور یسوع مسیح کے بارے میں علم حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور پھر اس علم پر عمل بھی کرتے ہیں۔ خدا اُن کی کوششوں سے خوش ہوتا ہے اور اُنکو ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے۔
کیا آپ اپنے خاندان سمیت خدا کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے سے آپ ایسا کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ یہوواہ کے گواہوں نے دُنیابھر میں لاکھوں لوگوں کو خدا کے کلام میں پائی جانے والی سچائیوں کے بارے میں سکھایا ہے۔ وہ خوشی سے آپکو بھی یہ علم حاصل کرنے میں مدد دینا چاہتے ہیں۔ اگر یہ آپ کی خواہش ہے تو برائے مہربانی اس شمارے کے صفحہ ۲ پر دئے گئے پتے پر لکھ کر یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کریں۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 11 سن ۱۹۱۷ کے انقلاب سے پہلے روس میں ایک ایسا کیلنڈر استعمال ہوتا تھا جو مغربی کیلنڈر سے ۱۳ دن پیچھے ہے۔ انقلاب کے بعد سوویت حکومت نے مغربی کیلنڈر استعمال کرنا شروع کر دیا کیونکہ یہ باقی دُنیا میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ لیکن روس کی آرتھوڈکس چرچ کے پادریوں نے پہلے والے کیلنڈر ہی کو استعمال کرنے کا فیصلہ کِیا۔ اس کیلنڈر کو روس میں ”پُرانا کیلنڈر“ کہا جاتا ہے۔ اس کیلنڈر کے مطابق کرسمس کا تہوار ۲۵ دسمبر کی بجائے ۷ جنوری پر پڑتا ہے۔ اسلئے روس میں چھٹیوں کی ترتیب کچھ اسطرح ہے: ۲۵ دسمبر، مغربی کرسمس؛ جنوری ۱، مغربی نیا سال؛ جنوری ۷، آرتھوڈکس چرچ کا کرسمس؛ جنوری ۱۴، پُرانے کیلنڈر کا نیا سال۔
[صفحہ ۷ پر بکس/تصویریں]
نئے سال کا تہوار کیسے وجود میں آیا؟
جارجیا کے آرتھوڈکس چرچ کا ایک راہب کھل کر بات کرتا ہے
”دراصل قدیم روم میں بُتپرست لوگ اپنے دیوتاؤں کو خوش کرنے کیلئے مختلف تہوار مناتے تھے اور انہی تہواروں کی بنیاد پر ہم بھی نئے سال کا تہوار مناتے ہیں۔ مثال کے طور پر یکم جنوری کو روم کے باشندے اپنے دیوتا جنوس کیلئے جشن منایا کرتے تھے۔ جنوری کے مہینے کا نام بھی اسی دیوتا سے لیا گیا ہے۔ جنوس کے دو چہرے تھے، ایک آگے کی طرف اور دوسرا پیچھے کی طرف۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ ماضی اور حال کے بارے میں جانتا ہے۔ رومی لوگوں کے خیال میں اگر یکم جنوری کے روز خوب کھایا پیا اور عیش کِیا جائے تو باقی سال بھی خوشحالی میں گزرے گا۔ اور آجکل ہم بھی کچھ اسی وہم میں پڑ کر نئے سال کی تقریب مناتے ہیں۔ . . . کافروں کے ان تہواروں کے دوران لوگ اپنے دیوتاؤں کے نام قربانی کرتے۔ کئی تہواروں کے موقعے پر لوگ کھلمکُھلا زِنا، حرامکاری اور دیگر جنسی بداخلاقیوں میں شامل ہوتے۔ ایسے بھی تہوار تھے جنکو مناتے وقت لوگ حد سے زیادہ کھاتے اور بےتحاشا شراب پیتے، جسکی وجہ سے وہ طرح طرح کی غلاظت کرنے پر اُتر آتے۔ جنوس کا تہوار بھی انہی میں شامل تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ نئے سال کے جشن مناتے وقت ہم سب نے ایک کافرانہ تہوار میں حصہ لیا ہے۔“—یہ حوالہ جارجیا کے ایک اخبار سے لیا گیا ہے۔
[صفحہ ۶ پر تصویر]
مسیحی مذہب نے سورج کے دیوتا متھرا کے تہوار کو اپنا لیا ہے
[تصویر کا حوالہ]
Museum Wiesbaden
[صفحہ ۷ پر تصویر]
چرواہے اپنے گلّوں کیساتھ دسمبر کی یخ راتیں باہر میدان میں نہیں گزارتے