نیکی بدی کے گھیرے میں
نیکی بدی کے گھیرے میں
آجکل کی دُنیا میں بہت کم لوگ دوسروں کے کام آتے ہیں۔ لیکن اب بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی نہ کسی طرح دوسروں کیساتھ نیکی کرنا چاہتے ہیں۔ ہر سال بےشمار لوگ فلاحی کاموں کیلئے لاکھوں ڈالر کی امداد دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، برطانیہ میں ۲۰۰۲ میں فلاحی کاموں کیلئے ۱۳ ارب ڈالر دئے گئے۔ سن ۱۹۹۹ سے لیکر اب تک دس انساندوست لوگوں نے فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۳۸ ارب ڈالر سے بھی زیادہ کی امداد دی ہے۔
فلاحی کاموں میں کم آمدنی والے خاندانوں کا علاج کرانا، یتیم بچوں کو تعلیموتربیت فراہم کرنا، ترقیپذیر ممالک میں حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کیلئے فنڈ دینا، بچوں کو مُفت کتابیں دلانا، غریب ممالک کے کسانوں کو مویشی مہیا کرنا اور قدرتی آفات کے متاثرین کیلئے امداد فراہم کرنا شامل ہے۔
مذکورہبالا حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ انسان دوسروں کیساتھ نیکی کرنے کی فطری صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم، افسوس کی بات ہے کہ دُنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ناقابلِبیان بُرائیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
بُرائی میں اضافہ
دوسری جنگِعظیم کے اختتام کے وقت سے نسلی اور سیاسی وجوہات کے باعث ہونے والے قتلوغارت کے تقریباً ۵۰ واقعات کا ریکارڈ موجود ہے۔ ایک امریکی رسالے نے بیان کِیا: ”ان واقعات نے ۱۲ ملین سے ۲۲ ملین معصوم شہریوں کی جانیں لے لیں جو ۱۹۴۵ سے ہونے والی قومی اور بینالاقوامی جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کی کُل تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔“
بیسویں صدی کے آخر میں سیاسی وجوہات کے باعث کمبوڈیا میں ۲۲ لاکھ سے زائد لوگوں کو قتل کِیا گیا۔ روانڈا میں نسلی تعصّب کی وجہ سے ۸ لاکھ سے زیادہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ بوسنیا میں مذہب اور سیاست کے نام پر ۲ لاکھ سے زائد لوگوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
حالیہ بُرے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے اقوامِمتحدہ کے جنرل سیکرٹری نے ۲۰۰۴ میں کہا: ”عراق میں ہم نے بہت سے شہریوں کا قتلِعام ہوتے، امدادی کارکنوں، صحافیوں اور دیگر معصوم شہریوں کو قیدی بنائے جاتے اور بےرحمی سے قتل ہوتے دیکھا ہے۔ اس دوران، عراقی قیدیوں کو وحشیانہ سلوک کا نشانہ بنتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔ دارفور [سوڈان] میں ہم نے دیکھا کہ لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنے کیلئے مجبور کِیا گیا اور اسکے بعد اُنکے گھروں کو تباہوبرباد کر دیا گیا۔ جبکہ اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے عورتوں کیساتھ زیادتی بھی کی گئی۔ شمالی یوگنڈا
میں ہم بچوں کو نہ صرف ناقابلِبیان ظلموتشدد کا نشانہ بنتے دیکھتے ہیں بلکہ یہ بھی کہ اُنہیں ظالمانہ کاموں میں حصہ لینے کیلئے مجبور کِیا جاتا ہے۔ بسلان [شمالی اوسیشا] میں ہم نے بچوں کو اغوا ہوتے اور بےرحمی سے قتل کئے جاتے دیکھا ہے۔“یہانتککہ ترقییافتہ ممالک میں بھی نسلی تعصّب کی وجہ سے ہونے والے جرائم کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر، ۲۰۰۴ میں ایک رسالے نے بیان کِیا کہ برطانیہ میں ”گزشتہ دس سال کے دوران جن لوگوں کو تشدد یا بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا وہ مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے تھے۔“
انسان دوسروں کیساتھ نیکی کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود بُرے کام کیوں کرتے ہیں؟ کیا ہم کبھی بدی سے چھٹکارا حاصل کریں گے؟ بائبل ان مشکل سوالات کے تسلیبخش جواب فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا اگلے مضمون کو ضرور پڑھیں۔