مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کائفا—‏قاتلانہ سازش کرنے والا سردارکاہن

کائفا—‏قاتلانہ سازش کرنے والا سردارکاہن

کائفا—‏قاتلانہ سازش کرنے والا سردارکاہن

نومبر ۱۹۹۰ کی بات ہے کہ کچھ مزدور یروشلیم کے جنوب میں واقع ایک سڑک کی مرمت کر رہے تھے۔‏ انجانے میں ٹریکٹر کو ایک غار کی چھت پر چلایا گیا جسکے نتیجے میں چھت گِر گئی۔‏ یہ غار قدیم زمانے میں ایک قبر کے طور پر استعمال کِیا جاتا تھا۔‏ پہلی صدی قبلِ‌مسیح سے لے کر پہلی صدی عیسوی تک اِس غار کے اِردگِرد کا پورا علاقہ قبرستان ہوتا تھا۔‏ آثارِقدیمہ کے ماہرین نے غار کے ایک خانے میں کیا دریافت کِیا؟‏

غار میں ۱۲ صندوق تھے جن میں انسانوں کی ہڈیاں تھیں۔‏ قدیم زمانے میں جب ایک لاش قبر میں گل جاتی تھی تو ہڈیوں کو صندوق میں رکھ دیا جاتا تھا۔‏ غار میں ایک نہایت ہی شاندار صندوق پر یہ نام کُندہ تھا:‏ یوسف ابنِ‌کائفا۔‏

تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ اس غار میں اُس سردارکاہن کو دفنایا گیا تھا جس نے یسوع مسیح پر مقدمہ چلایا تھا۔‏ یہودی تاریخ‌دان جوزیفس نے اُس سردارکاہن کی شناخت کرتے ہوئے لکھا تھا:‏ ”‏یوسف جسکا نام کائفا ہے۔‏“‏ پاک صحائف میں اُسے صرف کائفا کہا جاتا ہے۔‏ ہمیں اُس میں دلچسپی کیوں لینی چاہئے؟‏ اُس نے یسوع کو مُجرم کیوں ٹھہرایا تھا؟‏

خاندانی پس‌منظر

کائفا نے سردارکاہن حنّا کی بیٹی سے شادی کی تھی۔‏ (‏یوحنا ۱۸:‏۱۳‏)‏ اِس رشتے کو شادی سے کئی سال پہلے ہی طے کِیا گیا ہوگا کیونکہ دونوں خاندان ایک اچھے گھرانے سے رشتہ جوڑنا چاہتے تھے۔‏ اِسکا مطلب ہے دونوں خاندانوں کے نسب‌ناموں پر تفصیل سے غور کِیا گیا ہوگا،‏ یہ ثابت کرنے کیلئے کہ اُنکے باپ‌دادا واقعی کاہن تھے۔‏ دونوں خاندان امیر ہونے کیساتھ ساتھ اُونچے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔‏ یروشلیم کے آس‌پاس اُنکی بہت سی زمینیں تھیں۔‏ بِلاشُبہ حنّا چاہتا تھا کہ اُسکا داماد سیاسی طور پر اُسکا اتحادی بن جائے۔‏ ایسا لگتا ہے کہ حنّا اور کائفا دونوں صدوقیوں کے فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔‏—‏اعمال ۵:‏۱۷‏۔‏

چونکہ کائفا کاہنوں کے ایک نامور خاندان سے تعلق رکھتا تھا اِسلئے اُس نے عبرانی صحائف اور اُنکی تشریح کا گہرا مطالعہ کِیا ہوگا۔‏ تقریباً ۲۰ سال کی عمر میں اُس نے ہیکل میں خدمت کرنا شروع کر دی تھی۔‏ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ کائفا نے کس عمر میں سردارکاہن کا عہدہ سنبھالا تھا۔‏

سردارکاہنوں کا عہدہ

سردارکاہن کا عہدہ ورثے میں پایا جاتا تھا اور عمربھر کیلئے ہوتا تھا۔‏ دوسری صدی قبلِ‌مسیح میں حشمونیوں کی ذات نے سردارکاہن کے عہدے کا اختیار اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔‏ * بعد میں بادشاہ ہیرودیس نے سردارکاہنوں کو مقرر کرنے اور انکو اپنے عہدے سے خارج کرنے کا اختیار اپنے سپرد لے لیا۔‏ رومی صوبہ‌دار بھی یہ اختیار جتاتے تھے۔‏

پہلے تو ”‏سردارکاہن“‏ کا لقب ایک ہی شخص کو دیا جاتا تھا لیکن پھر اسے ایک گروہ کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔‏ (‏متی ۲۶:‏۳،‏ ۴‏)‏ کائفا کے علاوہ اس گروہ میں حنّا بھی شامل تھا۔‏ حالانکہ حنّا کو سردارکاہن کے عہدے سے خارج کر دیا گیا تھا لیکن پھربھی اُسے اس لقب سے جانا جاتا تھا۔‏ اِس گروہ میں ایسے اشخاص بھی شامل تھے جو سابقہ سردارکاہن کے رشتہ‌دار تھے۔‏

رومیوں نے یہودیہ کی انتظامیہ کی ذمہ‌داری معزز اور امیر یہودی خاندانوں کو سونپ دی تھی۔‏ اِن میں سردارکاہن بھی شامل تھے۔‏ اِسطرح رومی زیادہ سپاہی بھیجے بغیر ہی اُس علاقے میں اختیار جمائے رکھتے اور محصول لیتے تھے۔‏ رومی،‏ اُونچا عہدہ رکھنے والے یہودیوں سے یہ اُمید رکھتے تھے کہ وہ امن برقرار رکھیں اور اُنکی حکومت کی حفاظت کریں۔‏ رومی صوبہ‌دار،‏ یہودی راہنماؤں کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ یہودی،‏ رومی حکومت کو بُرا خیال کرتے تھے۔‏ لیکن ایک دوسرے سے تعاون کرنے میں دونوں گروہوں کا فائدہ تھا کیونکہ اِسطرح حکومت انکے ہاتھ محفوظ تھی۔‏

کائفا کے زمانے میں سردارکاہنوں میں سے ایک یہودیوں کا سیاسی راہنما بھی ہوتا۔‏ تقریباً ۶ یا ۷ عیسوی میں حنّا کو اِس عہدے پر مقرر کِیا گیا اور اُسکو مقرر کرنے والا سُوریہ کا رومی صوبہ‌دار تھا۔‏ ربّیوں کی روایت کے مطابق یہودیوں کے معزز خاندانوں میں لالچ،‏ رشتہ‌داروں کی خاطرداری،‏ بےرحمی اور تشدد عام تھے۔‏ ایک مصنفہ لکھتی ہیں کہ سردارکاہن کے طور پر حنّا کی یہی کوشش ہوتی کہ اُسکا داماد ”‏جلد ہی اُونچے عہدے پر مقرر کِیا جائے کیونکہ کائفا کا عہدہ جتنا اُونچا ہوتا اُتنا ہی وہ حنّا کے کام آ سکتا تھا۔‏“‏

تقریباً ۱۵ عیسوی میں یہودیہ کے صوبہ‌دار نے حنّا کو سردارکاہن کے عہدے سے نکال دیا۔‏ حنّا کے بعد تین اور اشخاص اِس عہدے پر مقرر ہوئے جن میں سے ایک حنّا کا بیٹا بھی تھا۔‏ پھر ۱۸ عیسوی میں کائفا نے سردارکاہن کا عہدہ سنبھال لیا۔‏ پُنطیُس پیلاطُس ۲۶ عیسوی میں یہودیہ کا صوبہ‌دار بنا۔‏ وہ دس سال تک اِس عہدے پر فائز رہا اور اِس دوران اُس نے کائفا کو سردارکاہن کے عہدے میں رکھا۔‏ اُسی عرصے میں یسوع نے نہ صرف خدا کی بادشاہت کی منادی کی بلکہ اُسکی موت کے بعد شاگردوں نے اِس تبلیغی کام کو جاری بھی رکھا۔‏ لیکن کائفا اِنکے اِس کام کے خلاف تھا۔‏

اختیار کھو دینے کا خوف

کائفا کے خیال میں یسوع ایک خطرناک شخص تھا جو اُس کے معاملوں میں دخل‌اندازی کر رہا تھا۔‏ یہودی راہنماؤں نے سبت کے بارے میں جو قوانین عائد کئے تھے،‏ یسوع نے انکے خلاف آواز اُٹھائی۔‏ ہیکل میں تجارتی مال بیچنے والوں کو یسوع نے نکال دیا اور اُن سے کہا تھا کہ اُنہوں نے ہیکل کو ”‏ڈاکوؤں کی کھوہ بنا دیا“‏ ہے۔‏ (‏لوقا ۱۹:‏۴۵،‏ ۴۶‏)‏ کئی تاریخ‌دانوں کا کہنا ہے کہ یہ تجارتی مال حنّا کے گھرانے کی ملکیت تھی۔‏ شاید اِسلئے بھی حنّا یسوع کو راستے سے ہٹانا چاہتا تھا۔‏ جب سردارکاہنوں نے یسوع کو گرفتار کرنے کیلئے سپاہی بھیجے تو وہ یسوع کی باتیں سُن کر اتنے دنگ رہ گئے کہ وہ خالی ہاتھ لوٹ آئے۔‏—‏یوحنا ۲:‏۱۳-‏۱۷؛‏ ۵:‏۱-‏۱۶؛‏ ۷:‏۱۴-‏۴۹‏۔‏

جب یسوع نے لعزر کو مُردوں میں سے جی اُٹھایا تھا تو یہودی راہنماؤں نے کیسا ردِعمل دکھایا؟‏ یوحنا کی انجیل میں لکھا ہے کہ ”‏سردارکاہن اور فریسیوں نے صدرِعدالت کے لوگوں کو جمع کرکے کہا ہم کرتے کیا ہیں؟‏ یہ آدمی تو بہت معجزے دکھاتا ہے۔‏ اگر ہم اسے یوں ہی چھوڑ دیں تو سب اُس پر ایمان لے آئیں گے اور رومی آ کر ہماری جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کر لیں گے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۴۷،‏ ۴۸‏)‏ پُنطیُس پیلاطُس نے یہودی راہنماؤں کو مذہبی اور انتظامیہ اختیار سونپا تھا۔‏ اب اُنکو یہ خوف ستا رہا تھا کہ کہیں یسوع اُنکے اِس اختیار کو ختم نہ کر دے۔‏ اُنکا خیال تھا کہ اگر لوگ یسوع کی تعلیم پر عمل کرنے لگیں تو رومی حکومت کی نظروں میں یہ بغاوت کے برابر ہوگا۔‏ ایسی صورتحال میں رومی حکومت اُنکا اختیار چھین لے گی۔‏ اور یہودی صدرِعدالت کے رُکن کسی بھی قیمت پر ایسا نہیں چاہتے تھے۔‏

کائفا اِس بات سے انکار نہیں کر سکتا تھا کہ یسوع معجزے کرتا ہے لیکن پھربھی وہ یسوع پر ایمان نہیں لایا۔‏ کائفا صرف اپنے مقام اور اختیار کو قائم رکھنا چاہتا تھا۔‏ وہ اِس بات کو کیسے تسلیم کر سکتا تھا کہ یسوع نے لعزر کو مُردوں میں سے جی اُٹھایا ہے؟‏ کائفا تو ایک صدوقی تھا اور صدوقی مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔‏—‏اعمال ۲۳:‏۸‏۔‏

کائفا کی بدکاری کا اندازہ لگانے کیلئے اُسکے ان الفاظ پر غور کریں جو اُس نے صدرِعدالت سے کہے تھے:‏ ”‏تُم کچھ نہیں جانتے۔‏ اور نہ سوچتے ہو کہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ ایک آدمی اُمت کے واسطے مرے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو۔‏“‏ بائبل میں آگے بیان کِیا گیا ہے کہ ”‏اُس نے یہ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ اُس سال سردارکاہن ہو کر نبوّت کی کہ یسوؔع اس قوم کے واسطے مرے گا۔‏ اور نہ صرف اُس قوم کے واسطے بلکہ اُس واسطے بھی کہ خدا کے پراگندہ فرزندوں کو جمع کرکے ایک کر دے۔‏ پس وہ اسی روز سے [‏یسوع کو]‏ قتل کرنے کا مشورہ کرنے لگے۔‏“‏—‏یوحنا ۱۱:‏۴۹-‏۵۳‏۔‏

کائفا کو اپنے الفاظ کی اہمیت کا احساس نہیں تھا۔‏ چونکہ وہ سردارکاہن تھا اِسلئے اُس نے یسوع کی موت کے بارے میں پیشینگوئی کی تھی۔‏ * لیکن یسوع کی موت صرف یہودیوں کیلئے فائدہ‌مند ثابت نہیں ہونی تھی۔‏ تمام انسان یسوع کی قربانی کے ذریعے گناہ اور موت کے داغ سے ہمیشہ کیلئے رِہائی پا سکتے ہیں۔‏

ایک قاتلانہ سازش

اب کائفا،‏ یسوع کے خلاف سازش کرنے لگا۔‏ اُسکے گھر سردارکاہنوں کے علاوہ قوم کے بزرگ بھی جمع ہو گئے۔‏ ممکن ہے کہ کائفا ہی نے یہوداہ اسکریوتی سے یسوع سے غداری کرنے کا سودا کِیا تھا۔‏ (‏متی ۲۶:‏۳،‏ ۴،‏ ۱۴،‏ ۱۵‏)‏ لیکن صرف ایک ہی قتل سے کائفا کا مقصد پورا نہیں ہونے والا تھا،‏ اسلئے ”‏سردارکاہنوں نے مشورہ کِیا کہ لعزر کو بھی مار ڈالیں۔‏ کیونکہ اسکے باعث بہت سے یہودی .‏ .‏ .‏ یسوع پر ایمان لائے۔‏“‏—‏یوحنا ۱۲:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

چند دن بعد جس ہجوم کو یسوع کو گرفتار کرنے کیلئے بھیجا گیا اُس میں کائفا کا غلام ملخُس بھی شامل تھا۔‏ یسوع کو تفتیش کیلئے پہلے حنّا اور پھر بعد میں کائفا کے پاس لے جایا گیا۔‏ کائفا نے پہلے سے ہی قوم کے بزرگوں کو مقدمے کیلئے اکٹھے کر رکھا تھا۔‏ حالانکہ رات کے وقت مقدمہ کرنا غیر قانونی عمل تھا پھربھی رات کے وقت یسوع کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔‏—‏متی ۲۶:‏۵۷؛‏ یوحنا ۱۸:‏۱۰،‏ ۱۳،‏ ۱۹-‏۲۴‏۔‏

مقدمے کے دوران جھوٹے گواہوں کی گواہی میں اختلاف پایا گیا لیکن پھربھی کائفا نے اپنی کوششوں کو جاری رکھا۔‏ سردارکاہن کے طور پر کائفا جانتا تھا کہ وہ لوگ جو اُسکے ساتھ اِس سازش میں شامل تھے،‏ ایک ایسے شخص کو بُرا خیال کریں گے جو اپنے آپکو مسیحا قرار دیتا ہے۔‏ اسلئے کائفا نے یسوع سے پوچھا کہ کیا تُو مسیحا ہے؟‏ جواب میں یسوع نے اپنے مخالفین سے کہا کہ وہ اُسے ’‏قادرِمطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے۔‏‘‏ دینداری کا دعویٰ کرتے ہوئے ”‏سردارکاہن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے کہ اُس نے کفر بکا ہے۔‏ اب ہم کو گواہوں کی کیا حاجت رہی؟‏“‏ صدرِعدالت کے رُکن کائفا سے متفق تھے،‏ اُنکی نظروں میں یسوع قتل کے لائق تھا۔‏—‏متی ۲۶:‏۶۴-‏۶۶‏۔‏

اُس زمانے میں رومی حکومت ہی سزائےموت سنانے کا اختیار رکھتی تھی۔‏ ممکن ہے کہ کائفا نے خود اس مقدمہ کو پُنطیُس پیلاطُس کے سامنے پیش کِیا ہو۔‏ جب پُنطیُس پیلاطُس نے یسوع کو رِہا کرنے کی کوشش کی تو غالباً کائفا بھی اُن سردارکاہنوں میں شامل تھا جنہوں نے چلا چلا کر کہا تھا:‏ ”‏مصلوب مصلوب کر!‏“‏ (‏یوحنا ۱۹:‏۴-‏۶‏)‏ کائفا نے بھیڑ کو اُکسایا کہ وہ یسوع کی رِہائی کی بجائے ایک قاتل کی رِہائی کیلئے نعرے لگائے۔‏ ہو سکتا ہے کہ کائفا بھی اُن سردارکاہنوں میں شامل تھا جنہوں نے مکاری سے کہا کہ ”‏قیصر کے سوا ہمارا کوئی بادشاہ نہیں۔‏“‏—‏یوحنا ۱۹:‏۱۵؛‏ مرقس ۱۵:‏۷-‏۱۱‏۔‏

جب یسوع کو مُردوں میں سے جی اُٹھایا گیا تو کائفا نے اِسکے ثبوت کو نظرانداز کِیا۔‏ کائفا نے پطرس اور یوحنا اور پھر ستفنس کی مخالفت کی۔‏ اسکے علاوہ کائفا نے ساؤل کو دمشق کے مسیحیوں کو گرفتار کرنے کا اختیار بھی دیا تھا۔‏ (‏متی ۲۸:‏۱۱-‏۱۳؛‏ اعمال ۴:‏۱-‏۱۷؛‏ ۶:‏۸–‏۷:‏۶۰؛‏ ۹:‏۱،‏ ۲‏)‏ لیکن ۳۶ عیسوی میں سوریہ کے رومی صوبہ‌دار نے کائفا کو سردارکاہن کے عہدے سے خارج کر دیا۔‏

یہودی تحریروں میں کائفا کے خاندان کو اچھا خیال نہیں کِیا جاتا۔‏ مثال کے طور پر بابلی تالمود میں لکھا ہے:‏ ”‏افسوس ہے مجھے حنّا کے گھر پر،‏ افسوس ہے مجھے اُنکی سرگوشیوں اور بدگوئیوں پر۔‏“‏ یہ حوالہ اُن مجلسوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جن میں ”‏ظالمانہ منصوبوں کو ترتیب دیا جاتا تھا۔‏“‏

کائفا کی زندگی سے سبق سیکھیں

ایک عالم،‏ سردارکاہنوں کے بارے میں یوں بتاتا ہے:‏ ”‏وہ مستعد،‏ ہوشیار اور قابل ہونے کیساتھ ساتھ متکبر بھی تھے۔‏“‏ کائفا نے متکبر ہونے کی وجہ سے ہی یسوع مسیح کو رد کِیا تھا۔‏ اِسلئے جب لوگ خدا کے کلام کی سچائیوں کو رد کرتے ہیں تو ہمیں افسردہ نہیں ہونا چاہئے۔‏ کئی لوگ خدا کے کلام کی کم ہی قدر کرتے ہیں اِسلئے وہ اُن جھوٹے عقیدوں کو ترک نہیں کرنا چاہتے ہیں جو اُنہیں عزیز ہیں۔‏ دوسرے شاید یہ محسوس کریں کہ خدا کی بادشاہت کی منادی کرنا اُنکی شان کے خلاف ہے۔‏ اور جھوٹے اور لالچی لوگوں کو مسیحیوں کے اُونچے معیار ناگوارہ لگتے ہیں۔‏

سردارکاہن کی حیثیت سے کائفا دوسرے یہودیوں کو مسیحا کو قبول کرنے میں مدد دے سکتا تھا۔‏ لیکن اختیار کے جنون میں آ کر کائفا نے یسوع کو مُجرم ٹھہرایا۔‏ ممکن ہے کہ اُس نے یہ مخالفت اپنی موت تک جاری رکھی۔‏ کائفا کی مثال سے ہم جان لیتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہمیں صرف ہڈیوں کے ڈھیر سے نہیں بلکہ اُس نام سے بھی یاد کِیا جاتا ہے جو ہم جیتےجی حاصل کرتے ہیں۔‏ جی‌ہاں،‏ ہم اپنے اعمال کی بِنا پر خدا کی نظروں میں یا تو اچھا یا پھر بُرا نام حاصل کر سکتے ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 19 یہوواہ خدا نے بلعام جیسے شریر آدمی سے بھی اسرائیلیوں کے بارے میں سچی پیشینگوئیاں کروائی تھیں۔‏—‏گنتی ۲۳:‏۱–‏۲۴:‏۲۴‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

یوسف ابنِ‌کائفا

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

اس صندوق میں انسانی ہڈیاں دریافت کی گئیں

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

Ossuary, inscription, and cave in background: Courtesy of Israel

Antiquities Authority