خدا نے مجھے اپنے نزدیک آنے دیا
میری کہانی میری زبانی
خدا نے مجھے اپنے نزدیک آنے دیا
از فلورنس کلارک
میرے خاوند سخت بیمار تھے۔ اُنکی حالت دیکھ کر میرے دل سے دُعا نکلی کہ اے خدا، میرے خاوند کو مت مرنے دینا۔ مَیں تجھ سے وعدہ کرتی ہوں کہ اگر وہ زندہ بچ جائے گا تو مَیں تیری عبادت کرنے کی صحیح راہ تلاش کروں گی اور تجھ سے کبھی دُور نہیں ہوں گی۔
مَیں ستمبر ۱۸، ۱۹۳۷ میں پیدا ہوئی۔ میرا خاندان آسٹریلیا کے اصلی باشندوں سے تعلق رکھتا ہے جو سفیدفام لوگوں کے آنے سے پہلے اس ملک میں آباد تھے۔ ہم ریاست مغربی آسٹریلیا میں کمبرلی کے ویران علاقے میں رہتے تھے۔
میرا بچپن ہنستے کھیلتے گزرا۔ چرچ کے لوگوں سے مَیں نے خدا اور بائبل کے بارے میں چند باتیں سیکھیں۔ لیکن روحانی باتوں کا شوق میری امی نے مجھے دلایا۔ وہ روزانہ مجھے بائبل سے پڑھ کر سناتیں۔ اُنہوں نے مجھے چھوٹی عمر ہی سے خدا کے کلام کے اصولوں پر چلنا سکھایا۔ میری ایک رشتہدار چرچ کی مشنری تھیں۔ مَیں ان کی بڑی عزت کرتی تھی۔ دل ہی دل میں مَیں نے ارادہ کر لیا کہ بڑی ہو کر مَیں بھی مشنری بنوں گی۔
ہم جس علاقے میں رہتے تھے وہاں کے سکول میں صرف پانچ جماعتوں تک پڑھایا جاتا تھا۔ مَیں روزانہ دو گھنٹوں کیلئے سکول جایا کرتی تھی۔ میرے والد اس صورتحال کے بارے میں کافی پریشان تھے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ہم اچھی تعلیم حاصل کریں۔ اسلئے ہمارا خاندان شہر وِنڈہم کو منتقل ہو گیا۔ وہاں مَیں نے سن ۱۹۴۹ سے لے کر سن ۱۹۵۲ تک اپنی تعلیم مکمل کر لی۔ جس روز ہم اپنے قصبے کو چھوڑ کر شہر کیلئے روانہ ہوئے مَیں بہت اُداس تھی۔ لیکن آج مَیں اپنے والد کی بےحد شکرگزار ہوں کہ اُنہوں نے مجھے اچھی تعلیم دلوائی تھی۔
میری والدہ ایک ڈاکٹر کیلئے کام کرتی تھیں۔ جب مَیں نے ۱۵ سال کی عمر میں اپنی تعلیم مکمل کر لی تو اس ڈاکٹر نے مجھے شہر وِنڈہم کے ہسپتال
میں نرس کے طور پر ملازمت دلوائی۔ مَیں بہت خوش تھی کیونکہ اُس زمانے میں نوکری ملنا آسان نہیں تھا۔اسکے کچھ سال بعد سن ۱۹۶۴ میں مَیں نے ایک سفیدفام آدمی ایلک سے شادی کر لی۔ ہماری شادی شہر ڈربی میں ہوئی جہاں مَیں باقاعدگی سے عبادت کیلئے چرچ جایا کرتی تھی۔ ایک دن یہوواہ کے گواہ مجھ سے ملنے کیلئے میرے گھر آئے۔ مَیں نے اُنکو صاف صاف بتا دیا کہ مَیں ان سے بات نہیں کرنا چاہتی ہوں اور مَیں نے انکو آئندہ ہمارے گھر آنے سے بھی منع کر دیا۔ لیکن اُنکی ایک بات نے مجھے حیران کر دیا تھا اور وہ یہ تھی کہ خدا کا نام یہوواہ ہے۔
”کیا آپ پادری کے بغیر دُعا نہیں کر سکتیں؟“
سن ۱۹۶۵ میں میری زندگی کا ایک کٹھن مرحلہ شروع ہو گیا۔ میرے خاوند دو بار اپنے گھوڑے سے گِر گئے اور ایک بار اُنکا گاڑی کا حادثہ ہوا۔ ان حادثوں کی وجہ سے انہیں سخت چوٹیں لگیں لیکن وہ کام کرنے کے قابل رہے۔ پھر وہ دوبارہ اپنے گھوڑے سے گِر گئے۔ اس بار اُنکے سر پر خطرناک چوٹیں آئیں۔ جب مَیں ہسپتال پہنچی تو ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ اُنکے بچنے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ یہ سُن کر میرا دل ڈوب گیا۔ ایک نرس نے پادری سے کہا کہ وہ میری ہمت بڑھائے۔ اِس پر پادری نے کہا کہ ”آج میرے پاس وقت نہیں۔ مَیں کل آؤں گا۔“
مَیں چاہتی تھی کہ اس مشکل وقت میں ایک پادری میرے ساتھ دُعا کرے۔ جب مَیں نے ایک راہبہ سے یہ درخواست کی تو اُس نے کہا: ”آخر آپکو کیا تکلیف ہے؟ کیا آپ پادری کے بغیر دُعا نہیں کر سکتیں؟“ مَیں چرچ کے مجسّموں کے نام پکار پکار کر دُعا کرنے لگی۔ لیکن میرے خاوند کی حالت میں بہتری نہ آئی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ موت اُنکے سر پر کھڑی اُنکا انتظار کر رہی تھی۔ مَیں سوچنے لگی کہ میری دو بیٹیوں، کرسٹین اور نانیٹ اور میرے بیٹے جیفری کا کیا ہوگا؟ وہ باپ کے بغیر زندگی کیسے کاٹیں گے؟ تین دن بعد میرے خاوند کو ہوش آ گیا اور ۶ دسمبر، ۱۹۶۶ کو وہ گھر واپس لوٹ آئے۔
میرے خاوند جسمانی طور پر صحتمند ہو گئے تھے۔ البتہ سر کی چوٹ کی وجہ سے وہ ایک حد تک اپنی یادداشت کھو بیٹھے تھے اور اُنکا مزاج بھی بدل گیا تھا۔ ایک لمحے وہ خوش ہوتے جبکہ دوسرے ہی لمحے وہ غصہ اور تشدد کرنے لگتے۔ بچوں کیساتھ صبر سے پیش آنا اُنکے لئے نہایت مشکل ہو گیا تھا۔ میری مدد کے بغیر وہ کچھ نہیں کر پاتے تھے۔ یہاں تک کہ مَیں نے اُنکو دوبارہ سے لکھنا اور پڑھنا بھی سکھایا۔ اُنکی دیکھبھال کرنے کیساتھ ساتھ مَیں گھر کے تمام کامکاج بھی سنبھالتی رہی۔ آخرکار مَیں اتنا تھک گئی کہ مَیں ذہنی طور پر بیمار پڑ گئی۔ میرے خاوند اور مَیں نے مل کر یہ فیصلہ کِیا کہ مَیں بچوں کو لے کر تھوڑے عرصے کیلئے شہر پرتھ چلی جاؤں جب تک کہ میری حالت بہتر نہ ہو جائے۔
شہر پرتھ منتقل ہونے سے پہلے مجھے پتہ چلا کہ میری چھوٹی بہن یہوواہ کے گواہوں کی مدد سے بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھ رہی ہے۔ اُس نے مجھے کتاب سچائی جو باعثِابدی زندگی ہے میں فردوس کی تصویر دکھائی اور کہا کہ بائبل میں لکھا ہے کہ ایک دن زمین ایک فردوس میں تبدیل ہو جائے گی۔ * اُس نے کتاب میں سے مجھے یہ بھی دکھایا کہ خدا کا نام یہوواہ ہے۔ یہ بات میرے دل میں اُتر گئی۔ مَیں اتنے سال سے چرچ جا رہی تھی لیکن یہ باتیں مجھے کسی نے نہیں بتائی تھیں۔ اسلئے مَیں نے شہر پرتھ جا کر یہوواہ کے گواہوں کیساتھ رابطہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔
لیکن پرتھ پہنچ کر مَیں یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کرنے سے کتراتی رہی۔ پھر ایک شام کسی نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میرے بیٹے نے دروازہ کھولا اور پھر بھاگا بھاگا میرے پاس آیا۔ ”امی، امی وہی لوگ آئے ہیں جن سے آپ نے رابطہ کرنے کا ارادہ کِیا تھا۔“ حیران ہو کر مَیں نے بیٹے کو کہا کہ ”اُنہیں کہہ دو کہ امی گھر پر نہیں ہیں۔“ اس پر بیٹے نے فٹ سے کہا: ”امی آپ ہی نے تو مجھ سے کہا تھا کہ جھوٹ بولنا غلط ہے۔“ شرمندہ ہو کر مَیں اُن لوگوں کو اندر بلانے کیلئے دروازے پر گئی۔ مجھے دیکھ کر وہ ٹھٹک گئے۔ دراصل وہ اُس شخص سے ملنے کیلئے آئے تھے جو مجھ سے پہلے اس گھر کا کرائےدار تھا۔ اُنہیں بٹھا کر مَیں نے اُن پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اُنہوں نے میرے ایک ایک سوال کا جواب خدا کے کلام سے دیا۔
اسکے اگلے ہی ہفتے مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کی مدد سے بائبل کی سچائیوں کے بارے میں باقاعدگی سے سیکھنا شروع کر دیا۔ میرے دل میں روحانی باتوں کا شوق دوبارہ سے جاگ اُٹھا۔ دو ہفتے بعد مَیں یسوع مسیح کی موت کی یادگار کی تقریب پر حاضر ہوئی۔ شروع شروع میں مَیں صرف اتوار کو عبادت کے اجلاسوں پر حاضر ہوتی لیکن بہت جلد مَیں تمام اجلاسوں پر حاضر ہونے لگی۔ جو کچھ مَیں بائبل میں سے سیکھتی مَیں اَوروں کو بتاتی۔ ایسا کرنے سے مجھے اپنی ذہنی بیماری سے آرام آنے لگا۔ چھ مہینے بعد مَیں نے یہوواہ کی ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔
جس قدر بائبل کے بارے میں میرا علم بڑھتا گیا اسی قدر مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنے خاوند کے پاس لوٹ جانا چاہئے۔ آخرکار مَیں نے خدا کے کلام کے اس اصول پر عمل کرنے کا ارادہ کر لیا: ”جس عورت کا شوہر باایمان نہ ہو اور وہ اُسکے ساتھ رہنے کو راضی ہو تو وہ شوہر کو نہ چھوڑے۔“—۱-کرنتھیوں ۷:۱۳۔
واپسی
مَیں پانچ سال تک اپنے شوہر سے جُدا رہی تھی۔ اس لئے ۱۲ جون، ۱۹۷۹ کو اُنکے پاس واپس لوٹتے ہوئے میرے دل میں طرح طرح کے خوف اُٹھ رہے تھے۔ لیکن میرے خاوند مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اُنہیں صرف اس بات کا افسوس تھا کہ مَیں ایک یہوواہ کی گواہ بن گئی تھی۔ اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ تُم اتوار کو میرے ساتھ چرچ آیا کرو۔ لیکن مَیں نے اُنہیں بتایا کہ مَیں ایسا نہیں کر سکتی۔ البتہ مَیں ایک اچھی بیوی بننے کی پوری کوشش کرتی اور اپنے خاوند کیساتھ بڑے احترام سے پیش آتی۔ مَیں نے اُنکو یہوواہ خدا کے بارے میں بتانے کی کوشش کی لیکن اُنہوں نے میری باتوں میں دلچسپی نہ لی۔
وقت گزرنے کیساتھ ساتھ میرے خاوند اس بات کے عادی ہو گئے کہ مَیں ایک یہوواہ کی گواہ ہوں۔ وہ مجھے اجلاسوں پر جانے کیلئے پیسے بھی دیتے تھے۔ پھر ایک دن اُنہوں نے ایک گاڑی خرید لی جو مُنادی کرنے کیلئے میرے بڑے کام آئی۔ اکثر جب میرے مسیحی بہنبھائی یا پھر سفرینگہبان شہر ڈربی میں ہوتے تو وہ ہمارے ہی گھر رات گزارتے۔ میرے خاوند کو اس بات پر کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ وہ تو یہوواہ کے گواہوں کیساتھ میلجول رکھنا پسند کرتے تھے۔
حزقیایل نبی کے نقشِقدم پر
جب بھی میرے مسیحی بہنبھائی مجھ سے ملنے کیلئے آتے تو مَیں بہت خوش ہوتی۔ دراصل شہر ڈربی میں میرے سوا کوئی اَور یہوواہ کا گواہ نہیں رہتا تھا۔ البتہ ڈربی سے تقریباً ۲۲۰ کلومیٹر [۱۳۵ میل] دُور شہر بروم میں ایک کلیسیا موجود تھی۔ باقاعدگی سے وہاں جانا میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ اسلئے مَیں شہر ڈربی کے لوگوں کو خدا کے کلام کا پیغام پہنچانے کی پوری کوشش کرتی رہی۔ یہ میرے لئے آسان نہ تھا لیکن یہوواہ خدا نے میری مدد کی۔ لوگوں کے گھر جاتے وقت مَیں پولس رسول کے ان الفاظ کو دُہراتی رہتی: ”جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔“—فلپیوں ۴:۱۳۔
شہر ڈربی کے پادری میرے تبلیغی کام کو روکنا چاہتے تھے۔ اُنہیں خاص طور پر یہ بات نہ بھائی کہ مَیں آسٹریلیا کے اصلی باشندوں کو خدا کے کلام کے بارے میں سکھا رہی تھی۔ اُنکی دھمکیوں کا مجھ پر کوئی اثر نہ پڑا۔ مَیں نے ٹھان لیا کہ وہ مجھے اس کام سے ہرگز نہ روک سکیں گے۔ مَیں باقاعدگی سے یہوواہ خدا سے دُعا کرتی اور اکثر خود کو حزقیایل نبی کے ان الفاظ کی یاد دلاتی: ”دیکھ مَیں نے اُنکے چہروں کے مقابل تیرا چہرہ دُرشت کِیا ہے اور تیری پیشانی اُنکی پیشانیوں کے مقابل سخت کر دی ہے۔ مَیں نے تیری پیشانی کو ہیرے کی مانند چقماق سے بھی زیادہ سخت کر دیا ہے۔ اُن سے نہ ڈر اور اُنکے چہروں سے ہراسان نہ ہو۔“—حزقیایل ۳:۸، ۹۔
کئی بار جب مَیں بازار میں سودا خرید رہی ہوتی تو چرچ کے دو آدمی میرے پیچھے پیچھے آ کر اُونچی آواز میں مجھے بُرابھلا کہتے لیکن مَیں اُنکو نظرانداز کر دیتی۔ ایک بار مَیں ایک خاتون کو بائبل کے بارے میں کچھ بتا رہی تھی کہ پادری وہاں پہنچ گیا۔ اُس نے مجھ پر الزام لگایا کہ تُم یسوع مسیح یوحنا ۳:۱۶ کے الفاظ دُہرائے اور کہا کہ آپ بےفکر رہیں۔ مَیں یسوع مسیح پر ایمان رکھتی ہوں۔ میری اس جُرأت کو دیکھ کر پادری دنگ رہ گیا اور ایک لفظ کہے بغیر وہاں سے چل دیا۔
پر ایمان نہیں رکھتی۔ پھر اُس نے میرے ہاتھ سے بائبل چھین کر اِسے میرے آنکھوں سامنے لہرایا اور پھر اِسے میرے ہاتھوں میں ٹھونس دیا۔ مَیں یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتی رہی۔ پھر مَیں نے پادری کی آنکھوں سے آنکھ ملا کرمجھے آسٹریلیا کے اصلی باشندوں کو خدا کے بارے میں سکھانا بہت اچھا لگتا تھا۔ لیکن ایک پادری نے مجھے اپنے محلہ میں ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ پھر اُسکا تبادلہ ہو گیا اور مَیں بےروکٹوک اس محلے میں منادی کرنے لگی۔ بچپن ہی سے مجھے مشنری بننے کا شوق تھا۔ اب مَیں مشنریوں کی طرح لوگوں کو خدا کے کلام کی سچائیوں کے بارے میں سکھا رہی تھی۔ آسٹریلیا کے اصلی باشندوں میں سے بہتیرے لوگوں نے بائبل کے پیغام میں دلچسپی ظاہر کی اور مَیں اُنہیں باقاعدگی سے خدا کے کلام کے بارے میں سکھانے لگی۔
بہنبھائیوں کا سہارا
پانچ سال تک مَیں شہر ڈربی میں واحد یہوواہ کی گواہ تھی۔ ایسے میں روحانی طور پر مضبوط رہنا آسان نہیں ہوتا۔ مَیں اپنے مسیحی بہنبھائیوں کیساتھ باقاعدگی سے عبادت کیلئے جمع ہونے کیلئے ترس رہی تھی۔ ایک دن مَیں بہت بیزار ہو کر گھر سے نکلی۔ شام کو جب مَیں گھر واپس لوٹی تو بیٹی بٹرفیلڈ نامی ایک مسیحی بہن اپنے ۷ بچوں سمیت میرا انتظار کر رہی تھی۔ وہ شہر بروم سے آئی تھی اور میرے لئے بائبل پر مبنی کتابیں اور رسالے لائی تھی۔ اسکے بعد بیٹی مہینے میں دو دن شہر ڈربی آ کر میرے ساتھ گزارتی۔ ہم مل کر تبلیغ کرتے اور مینارِنگہبانی کے رسالے کا مطالعہ بھی کرتے۔ اسی طرح مَیں بھی مہینے میں دو دن اُسکے شہر بروم جا کر اُسکے ساتھ گزارتی۔
مینارِنگہبانی کا مطالعہ بھی کرتے۔ یہ ملاقاتیں میرے لئے غنیمت سے کم نہ تھیں۔
حالانکہ شہر بروم میرے شہر سے بہت دُور تھا پھر بھی وہاں کی کلیسیا کے بہنبھائی میری بہت دیکھبھال کرتے تھے۔ وقتاًفوقتاً وہ شہر ڈربی آ کر میرے ساتھ مُنادی کرتے۔ جب اُنہیں پتہ چلتا کہ کسی دوسرے شہر سے کوئی مسیحی میرے شہر سے گزر رہا ہے تو وہ اُسے مجھ سے ملنے اور میرے ساتھ مُنادی میں کام کرنے کی درخواست کرتے۔ یہ بہنبھائی میرے لئے ایسی کیسٹیں بھی لاتے جن پر بائبل پر مبنی تقریریں بھری ہوتیں۔ کبھیکبھار وہ میرے ساتھ رسالہآخرکار ڈربی میں کلیسیا!
کئی سال تک آرتھر اور میری وِلس سال میں تین مہینوں کیلئے شہر ڈربی آتے رہے۔ یہ شادیشُدہ جوڑا ہماری ریاست کے جنوبی علاقے میں رہتا تھا اور ملازمت سے پنشن پانے کے بعد وہ ٹھنڈے موسم کے دوران یہاں آتے تھے۔ بھائی وِلس عبادت کے تقریباً تمام اجلاس منعقد کرتے اور مُنادی کے کام کو بھی فروغ دیتے تھے۔ ہم تینوں ملکر کمبرلی کے دُوردراز علاقوں میں اُن لوگوں کو بائبل کے بارے میں بتانے کیلئے جاتے جو مویشیوں کی بڑی بڑی فارموں پر نوکری کرتے تھے۔ ہر سال جب وہ دونوں مجھے چھوڑ کر واپس اپنے شہر لوٹتے تو مَیں بہت اُداس ہو جاتی۔
آخرکار سن ۱۹۸۳ میں مجھے خبر ملی کہ ایک شادیشُدہ جوڑا اپنے چار بیٹوں سمیت شہر ڈربی کو منتقل ہو رہا ہے۔ یہ میرے لئے ایک بہت بڑی خوشخبری تھی۔ انکے یہاں پہنچنے کے بعد ہم باقاعدگی سے اجلاس منعقد کرتے اور سب ملکر مُنادی کے کام میں حصہ لیتے۔ پھر سن ۲۰۰۱ میں شہر ڈربی میں ایک کلیسیا قائم کی گئی۔ آج اس کلیسیا میں ۲۴ بہنبھائی خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔ کلیسیا کے دو بزرگ اور ایک خادم ہمیں روحانی طور پر مضبوط رہنے میں مدد دے رہے ہیں۔ جب بائبل میں دلچسپی لینے والے ہمارے ساتھ عبادت کیلئے جمع ہوتے ہیں تو ہماری حاضری ۳۰ کے قریب ہو جاتی ہے۔
جب مَیں اپنی زندگی کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا نے مجھے قدم قدم پر سہارا دیا ہے۔ میرے خاوند میرے ہمایمان تو نہیں ہیں لیکن اُنہوں نے مجھے یہوواہ خدا کی خدمت کرنے میں بہت مدد دی ہے۔ مَیں اس بات پر بھی خوش ہوں کہ میری دو بیٹیاں، دو دوتیاں اور میری بھانجی میرے ساتھ مل کر یہوواہ خدا کی خدمت کر رہی ہیں۔ اسکے علاوہ میرے کئی اَور رشتہدار بھی بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھ رہے ہیں۔
مَیں اس بات کی بہت ہی شکرگزار ہوں کہ یہوواہ خدا نے مجھے اپنے نزدیک آنے دیا ہے اور مَیں ہمیشہ تک اُسکے قریب رہنا چاہتی ہوں۔—زبور ۶۵:۲۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 14 یہ کتاب یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ تھی۔
[صفحہ ۱۵ پر نقشہ/تصویریں]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
آسٹریلیا
وِنڈہم
کمبرلی
ڈربی
بروم
پرتھ
[تصویروں کے حوالہجات]
Meyers :koala ;Lydekker :Kangaroo and lyrebird
[صفحہ ۱۴ پر تصویر]
سن ۱۹۵۳ میں جب مَیں نرس کے طور پر ہسپتال میں کام کرتی تھی
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
سن ۲۰۰۵ میں ڈربی کی کلیسیا