دولت اور اخلاقیات کی بابت تاریخ سے ایک سبق
دولت اور اخلاقیات کی بابت تاریخ سے ایک سبق
اپریل ۷، ۱۶۳۰ میں، تقریباً چار سو لوگ چار بحری جہازوں کے ذریعے انگلینڈ سے امریکہ روانہ ہوئے۔ اُن میں سے زیادہتر لوگ اعلیٰ تعلیمیافتہ تھے۔ دیگر کامیاب تاجر تھے۔ جبکہ بعض پارلیمنٹ کے رُکن تھے۔ اُس وقت یورپ میں کیتھولکوں اور پروٹسٹنٹوں کی تیس سالہ جنگ (۱۶۱۸-۱۶۴۸) کی وجہ سے انگلینڈ میں کاروبار میں مندی تھی۔ اسی لئے وہ اپنے گھربار چھوڑ کر بہتر مواقع کی تلاش میں روانہ ہوئے۔
تاہم، یہ محض موقع سے فائدہ اُٹھانے والے تاجروں کا ایک گروہ نہیں تھا۔ وہ سرگرم پیوریٹن تھے جو مذہبی اذیت سے فرار چاہتے تھے۔ * وہ ایک خداپرست برادری کو تشکیل دینا چاہتے تھے جہاں وہ اور اُنکے بچے مالی طور پر خوشحال رہیں اور جہاں انہیں بائبل معیاروں پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنا پڑے۔ سالم، میساچوسیٹس پہنچنے کے بعد انہیں ساحل کے قریب زمین کا ایک ٹکڑا مل گیا۔ اُنہوں نے اپنی نئی رہائشگاہ کو بوسٹن کا نام دیا۔
دولت کے ساتھ اچھے اخلاق—ایک مشکل کام
اُنکے راہنما جان ونتھروپ نے اس نئی کالونی میں نجی دولت اور آبادی کی فلاح کو فروغ دینے کیلئے حتیٰالمقدور کام کِیا۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگوں کے پاس دولت بھی ہو اور اُنکے اخلاق بھی اچھے ہوں۔ لیکن یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ اُس نے مشکلات کی توقع کرتے ہوئے خداپرست معاشرے میں دولت کے کردار پر اپنے دوستوں سے مفصل باتچیت کی۔
دیگر پیوریٹن راہنماؤں کی طرح ونتھروپ کو بھی یقین تھا کہ دولت کے حصول میں کوئی بُرائی نہیں۔ اُس نے دلیل پیش کی کہ دولت کا سب سے اہم مقصد دوسروں کی مدد کرنا تھا۔ اسلئے جو شخص جتنا زیادہ دولتمند ہوتا ہے وہ اُس قدر دوسروں کیساتھ نیکی کر سکتا ہے۔ مؤرخ پیٹریشیا اوٹول کے مطابق ”جن چند موضوعات نے پیوریٹن کو پریشان کر رکھا تھا وہ دولت ہی سے متعلق تھے۔ دولتمند ہونا خدا کی برکت کی نشانی بھی تھی اور کوئی شخص اس سے تکبّر کرنے کی آزمائش . . . اور بداخلاقی میں بھی پڑ سکتا تھا۔“
دولت اور عیشونشاط کی وجہ سے کوئی شخص گناہ میں پڑ سکتا تھا۔ لہٰذا
ان سے بچنے کیلئے ونتھروپ نے قناعتپسندی اور ضبطِنفس کی تلقین کی۔ ونتھروپ کی کوشش تھی کہ اسکی کالونی کے لوگ خداپرست ہوں اور ایک دوسرے سے پیار کریں۔ تاہم، جلد ہی اسکے کاروباری رُجحان رکھنے والے دوستوں نے اسکے خیالات سے اختلاف کرنا شروع کر دیا۔ اُنہوں نے نجی معاملات میں ونتھروپ کی مداخلت پر بغاوت کر دی۔ بعض نے اس بات پر زور دیا کہ فیصلے کرنے کیلئے کوئی منتخب اسمبلی ہونی چاہئے۔ دیگر اپنے مفاد کی خاطر اس جگہ کو چھوڑ کر نزدیکی ریاست کونیکٹیکٹ منتقل ہو گئے۔اوٹول کہتی ہے: ”موقع، خوشحالی اور جمہوریت میساچوسیٹس کے پیوریٹن کی زندگی میں بڑی اثرآفرین قوتیں تھیں اور اُنہوں نے عوام کی فلاح کیلئے دولت کے استعمال کے ونتھروپ کے نظریے کے برعکس انفرادی اقتدار حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دی۔“ سن ۱۶۴۹ میں، ۶۱ سال کی عمر میں ونتھروپ نے وفات پائی۔ اُس وقت اسکے پاس پھوٹیکوڑی بھی نہیں تھی۔ اگرچہ کالونی کے لوگ بہتیری مشکلات کے باوجود بچ گئے لیکن ونتھروپ اپنے خواب کی تعبیر دیکھنے کیلئے زندہ نہ رہا۔
بہتر دُنیا کی تلاش جاری
جان ونتھروپ بہتر دُنیا کا خواب دیکھنے والا اکیلا شخص نہیں تھا۔ ہر سال لاکھوں لوگ افریقہ، جنوبی ایشیا، مشرقی یورپ اور لاطینی امریکہ سے بہتر زندگی کی تلاش میں نقلمکانی کرتے ہیں۔ اُن میں سے بعض ہر سال سینکڑوں نئی کتابوں، سیمینار اور ویب سائٹس سے متاثر ہوتے ہیں جو دولتمند بننے کی یقیندہانی کراتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہتیرے لوگ ابھی تک دولتمند بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ وہ اخلاقی قدروں کو نظرانداز کئے بغیر ایسا کرتے ہوں گے۔
تاہم، سچ تو یہ ہے کہ نتائج مایوسکُن ہیں۔ دولت کے پیچھے بھاگنے والے اپنے اصولوں کو قربان کر دیتے ہیں اور بعض تو دولت کیلئے اپنا ایمان بھی بدل لیتے ہیں۔ اسلئے شاید آپ پوچھیں: ”کیا ایک شخص مسیحی ہونے کیساتھ ساتھ دولتمند بھی ہو سکتا ہے؟ کیا کبھی ایسا خداپرست معاشرہ قائم ہوگا جو مالی اور روحانی طور پر خوشحال ہو؟“ بائبل ان سوالوں کے جواب دیتی ہے جیساکہ اگلے مضمون میں بیان کِیا جائے گا۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 نام پیوریٹن ۱۶ ویں صدی میں چرچ آف انگلینڈ کے اندر اُبھرنے والے ایک پروٹسٹنٹ فرقے کو دیا گیا جو خود کو رومن کیتھولک اثر سے مکمل طور پر پاک رکھنا چاہتا تھا۔
[صفحہ ۳ پر تصویر کا حوالہ]
;J. G. Heck/The Complete Encyclopedia of Illustration :Boats
Winthrop: Brown Brothers