مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

نحمیاہ کی کتاب سے اہم نکات

نحمیاہ کی کتاب سے اہم نکات

یہوواہ کا کلام زندہ ہے

نحمیاہ کی کتاب سے اہم نکات

جن واقعات کا ذکر عزرا کی کتاب کے آخری حصے میں ہوا ہے،‏ نحمیاہ کی تاریخی داستان ان کے بارہ سال بعد شروع ہوتی ہے۔‏ تب ”‏یرؔوشلیم کی بحالی اور تعمیر کا حکم صادر ہونے“‏ کا وقت نزدیک آ گیا تھا۔‏ اُس حکم کے ساتھ ساتھ ۷۰ ہفتوں (‏یعنی ۴۹۰ سالوں)‏ کا وہ عرصہ شروع ہونا تھا جس کے آخری حصے میں مسیحا کو ظاہر ہونا تھا۔‏ (‏دانی‌ایل ۹:‏۲۴-‏۲۷‏)‏ نحمیاہ نے اپنی داستان میں بتایا کہ یہوواہ کے لوگوں نے یروشلیم کی شہرپناہ کو کیسے بحال کِیا۔‏ اس کتاب میں ۱۲ سال کے دوران ہونے والے اُن واقعات کے بارے میں بتایا گیا ہے جو ۴۵۶ قبلِ‌مسیح سے لے کر ۴۴۳ قبلِ‌مسیح تک واقع ہوئے تھے۔‏

نحمیاہ کی کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب یہوواہ کے خادم دلیری سے کام کرتے ہیں اور اُس پر بھروسہ رکھتے ہیں تو اُس کی بڑائی ہوتی ہے۔‏ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے واقعات کا رُخ بدل سکتا ہے۔‏ نحمیاہ کی کتاب ایک بہادر رہنما کی ثابت‌قدمی کی داستان بھی ہے۔‏ واقعی،‏ یہوواہ کے خادم نحمیاہ کی کتاب سے بہت فائدہ حاصل کر سکتے ہیں ”‏کیونکہ خدا کا کلام زندہ اور مؤثر .‏ .‏ .‏ ہے۔‏“‏—‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏۔‏

‏”‏شہرپناہ بن چکی“‏

‏(‏نحمیاہ ۱:‏۱–‏۶:‏۱۹‏)‏

نحمیاہ سوسن کے قلعے میں بادشاہ ارتخششتا لونگی‌مانس کی خدمت کر رہا تھا کہ اُسے ایک افسوس‌ناک خبر ملی۔‏ اُسے بتایا گیا کہ یروشلیم میں رہنے والے یہودی ”‏نہایت مصیبت اور ذلت میں پڑے ہیں اور یرؔوشلیم کی فصیل ٹوٹی ہوئی اور اُس کے پھاٹک آگ سے جلے ہوئے ہیں۔‏“‏ یہ سُن کر نحمیاہ بےقرار ہو گیا۔‏ (‏نحمیاہ ۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ جب بادشاہ کو نحمیاہ کی بےچینی کا سبب معلوم ہوا تو اُس نے نحمیاہ کو یروشلیم جانے کا حکم دیا۔‏

یروشلیم پہنچتے ہی نحمیاہ نے رات کے اندھیرے میں شہرپناہ کا جائزہ لیا۔‏ پھر اُس نے وہاں کے یہودیوں کو اپنا منصوبہ پیش کِیا۔‏ اُس نے انہیں بتایا کہ وہ شہر کی دیواروں کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہتا ہے۔‏ جونہی تعمیر کا کام شروع ہوا،‏ اس کی مخالفت بھی کی گئی۔‏ لیکن نحمیاہ نے بڑی دلیری سے یہودیوں کی پیشوائی کی۔‏ اس لئے کچھ عرصہ بعد ہی ’‏شہرپناہ بن گئی۔‏‘‏—‏نحمیاہ ۶:‏۱۵‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۱:‏۱؛‏ ۲:‏۱‏—‏ان دو آیتوں میں جب ”‏بیسویں برس“‏ کا ذکر ہوتا ہے تو یہ کس تاریخ کی طرف اشارہ کرتا ہے؟‏ یہ بادشاہ ارتخششتا کی حکمرانی کا بیسواں سال تھا۔‏ تاریخی ثبوت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بادشاہ نے ۴۷۵ قبلِ‌مسیح میں تخت سنبھالا تھا۔‏ بابل کے مُنشی عام طور پر فارسی بادشاہوں کا دَورِحکومت نیسان سے لے کر اگلے نیسان تک گنتے تھے۔‏ نیسان کا مہینہ ہمارے مارچ/‏اپریل میں پڑتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ ارتخششتا کی حکمرانی کا پہلا سال ۴۷۴ قبلِ‌مسیح میں نیسان کے مہینے سے شمار کِیا گیا۔‏ اس کا مطلب ہے کہ اس کی حکمرانی کا بیسواں برس ۴۵۵ قبلِ‌مسیح میں نیسان کے مہینے میں شروع ہوا تھا۔‏ نحمیاہ ۲:‏۱ میں اصطلاح ’‏بیسواں برس‘‏ اسی تاریخ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔‏ لیکن نحمیاہ ۱:‏۱ میں بیسویں برس کے کسلیو مہینے کا ذکر کِیا گیا ہے۔‏ یہ مہینہ ہمارے نومبر/‏دسمبر میں پڑتا ہے۔‏ لہٰذا ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یہ ۴۵۶ قبلِ‌مسیح کا کسلیو مہینہ تھا۔‏ شاید نحمیاہ نے اسے بیسویں برس میں اس لئے شمار کِیا تھا کیونکہ وہ اس تاریخ سے بادشاہ کا دَورِحکومت گن رہا تھا جب بادشاہ نے دراصل تخت سنبھالا تھا۔‏ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نحمیاہ،‏ بادشاہ کے دَورِحکومت کو یہودیوں کے سرکاری سال کے مطابق شمار کر رہا تھا جو تشری کے مہینے (‏یعنی ستمبر/‏اکتوبر)‏ میں شروع ہوتا تھا۔‏ بہرحال،‏ یروشلیم کی بحالی اور تعمیر کا حکم ۴۵۵ قبلِ‌مسیح میں جاری ہوا تھا۔‏

۴:‏۱۷،‏ ۱۸‏—‏اسرائیلی ایک ہی ہاتھ استعمال کرکے کس طرح کام کر سکتے تھے؟‏ بوجھ اُٹھانے والے اپنا بوجھ سر یا کندھوں پر رکھتے تھے۔‏ وہ اسے ایک ہاتھ سے سنبھالتے تھے اور ’‏دوسرے ہاتھ میں اپنا ہتھیار لئے رہتے تھے۔‏‘‏ تعمیر کے کام میں دونوں ہاتھوں کی ضرورت پڑتی ہے۔‏ اس لئے معمار ’‏اپنی تلوار اپنی کمر سے باندھے ہوئے کام کرتے تھے۔‏‘‏ یوں اگر دُشمن حملہ کرتے تو اسرائیلی فوراً لڑنے کے لئے تیار ہوتے۔‏

۵:‏۷‏—‏نحمیاہ نے ’‏امیروں اور حاکموں کی ملامت‘‏ کیوں کی؟‏ یہ لوگ اپنے بھائیوں سے سُود لیتے تھے حالانکہ شریعت میں ایسا کرنے سے منع کِیا گیا تھا۔‏ (‏احبار ۲۵:‏۳۶؛‏ استثنا ۲۳:‏۱۹‏)‏ جو ’‏سواں حصہ‘‏ وہ قرض‌داروں سے سُود کے طور پر لیتے تھے،‏ اگر وہ اسے ماہوار وصول کرتے تھے تو سالانہ سُود ۱۲ فیصد کے برابر ہوتا تھا۔‏ (‏نحمیاہ ۵:‏۱۱‏)‏ خوراک کی کمی اور لگان کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں سے اتنا زیادہ سُود لینا سراسر بےرحمی تھا۔‏ اس لئے نحمیاہ نے خدا کی شریعت کی بِنا پر ان امیروں اور حاکموں کی ملامت کی تھی۔‏

۶:‏۵‏—‏خفیہ خطوط عام طور پر بند تھیلوں میں رکھے جاتے تھے۔‏ توپھر سنبلط نے نحمیاہ کے نام ایک ”‏کُھلی چٹھی“‏ کیوں بھیجی؟‏ شاید سنبلط چاہتا تھا کہ لوگوں کو اُس کے الزامات کا علم ہو جائے۔‏ اُس نے یہ سوچا ہوگا کہ نحمیاہ ان الزامات کا جواب دینے کے لئے تعمیراتی کام چھوڑ کر اُس سے ملاقات کرے گا۔‏ یا شاید اُس کا مقصد یہ تھا کہ یہودی ان الزامات کے بارے میں سُن کر خوف کھائیں گے اور تعمیراتی کام چھوڑ دیں گے۔‏ بہرحال،‏ ڈرنے کی بجائے نحمیاہ خدا کی مرضی بجا لایا اور تعمیراتی کام کو جاری رکھنے میں کامیاب رہا۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱:‏۴؛‏ ۲:‏۴؛‏ ۴:‏۴،‏ ۵‏۔‏ مشکلات کا سامنا کرتے وقت یا پھر اہم فیصلے کرنے سے پہلے ہمیں ”‏دُعا کرنے میں مشغول“‏ رہنا چاہئے اور خدا کی ہدایت پر عمل کرنا چاہئے۔‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۲‏۔‏

۱:‏۱۱–‏۲:‏۸؛‏ ۴:‏۴،‏ ۵،‏ ۱۵،‏ ۱۶؛‏ ۶:‏۱۶‏۔‏ جب یہوواہ کے خادم خلوصِ‌دل سے اُس سے دُعا کرتے ہیں تو خدا اُن کی سنتا ہے۔‏—‏زبور ۸۶:‏۶،‏ ۷‏۔‏

۱:‏۴؛‏ ۴:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ ۶:‏۳،‏ ۱۵‏۔‏ نحمیاہ نے رحم‌دلی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ثابت‌قدمی بھی ظاہر کی۔‏

۱:‏۱۱–‏۲:‏۳‏۔‏ نحمیاہ نے بادشاہ کا ساقی ہونے کے رُتبے کی نسبت یہوواہ کی عبادت کو زیادہ اہمیت دی اور یہی اُس کی خوشی کا باعث تھا۔‏ اسی طرح یہوواہ کی عبادت اور اُس کی بڑائی ہماری زندگی کا مرکز اور ہماری خوشی کا باعث ہونا چاہئے۔‏

۲:‏۴-‏۸‏۔‏ یہوواہ نے بادشاہ ارتخششتا کے دل میں یہ خیال بٹھایا کہ نحمیاہ کو یروشلیم کی شہرپناہ بحال کرنے کے لئے بھیجا جائے۔‏ امثال ۲۱:‏۱ میں لکھا ہے کہ ”‏بادشاہ کا دل [‏یہوواہ]‏ کے ہاتھ میں ہے۔‏ وہ اُس کو پانی کے نالوں کی مانند جدھر چاہتا ہے پھیرتا ہے۔‏“‏

۳:‏۵،‏ ۲۷‏۔‏ تقوعیوں میں سے امیر لوگ خدا کی خدمت میں معمولی کام انجام دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔‏ ہمیں ایسے مغرور رویے سے کنارہ کرنا چاہئے۔‏ اس کے برعکس ہمیں تقوعیوں کے عام لوگوں کی طرح ہر قسم کا کام خوشی سے نپٹانا چاہئے۔‏

۳:‏۱۰،‏ ۲۳،‏ ۲۸-‏۳۰‏۔‏ خدا کے بعض خادم کسی ایسے علاقے میں منتقل ہو سکتے ہیں جہاں بادشاہت کی مُنادی کرنے والوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔‏ البتہ جو ایسا نہیں کر سکتے وہ شاید اپنے علاقے میں عبادتگاہوں کی تعمیر میں حصہ لے سکتے ہیں یا پھر اپنے ان بہن‌بھائیوں کی مدد کر سکتے ہیں جو آفتوں کا شکار ہو گئے ہیں۔‏ اس کے علاوہ ہم سب تبلیغی کام میں بھرپور حصہ لے سکتے ہیں۔‏

۴:‏۱۴‏۔‏ ہم خوف کے بغیر مخالفت کا سامنا تب ہی کرنے کے قابل ہوں گے جب ہم یہوواہ کو یاد کریں گے جو ”‏بزرگ اور مہیب ہے۔‏“‏

۵:‏۱۴-‏۱۹‏۔‏ کلیسیا کے بزرگ نحمیاہ کی مثال سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ وہ عاجز اور عقلمند تھا۔‏ حاکم کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود اُس نے اپنا رُعب جمانے سے دوسروں کا فائدہ نہیں اُٹھایا۔‏ اس کے علاوہ وہ بڑے جوش کے ساتھ خدا کی شریعت کو عمل میں لایا۔‏ مظلوموں اور ضرورت‌مندوں کی مدد کرنے میں اُس نے خدا کے تمام خادموں کے لئے ایک عمدہ مثال قائم کی۔‏

‏”‏اَے میرے خدا،‏ بھلائی کے لئے مجھے یاد کر“‏

‏(‏نحمیاہ ۷:‏۱–‏۱۳:‏۳۱‏)‏

جب یروشلیم کی شہرپناہ مکمل ہو گئی تو نحمیاہ نے اس کے دروازے لگا لئے اور پہرےداروں کا انتظام کِیا۔‏ اسکے بعد اُس نے لوگوں کا نسب‌نامہ تیار کِیا۔‏ جب تمام لوگ ”‏پانی پھاٹک کے سامنے کے میدان میں اکٹھے ہوئے“‏ تو عزرا کاہن نے اُنہیں موسیٰ کی شریعت میں سے پڑھ کر سنایا۔‏ پھر نحمیاہ اور لاویوں نے لوگوں کو شریعت کے معنی بتائے۔‏ (‏نحمیاہ ۸:‏۱‏)‏ جب لوگوں کو عیدِخیام کے بارے میں پتا چلا تو وہ بڑی خوشی سے اسے منانے لگے۔‏

کچھ دن بعد ”‏اؔسرائیل کی نسل کے لوگ“‏ دوبارہ جمع ہو گئے۔‏ اس موقعے پر اُنہوں نے اپنی قوم کے گُناہوں کا اقرار کِیا۔‏ لاویوں نے ان کو یاد دلایا کہ ماضی میں یہوواہ اپنے لوگوں کے ساتھ کیسے پیش آتا رہا تھا۔‏ یہ سُن کر لوگوں نے ’‏خدا کی شریعت پر چلنے‘‏ کی قسم کھائی۔‏ (‏نحمیاہ ۹:‏۱،‏ ۲؛‏ ۱۰:‏۲۹‏)‏ یروشلیم کی آبادی اُس وقت بہت کم تھی۔‏ اس لئے دوسرے شہروں میں رہنے والے لوگوں نے قُرعے ڈالے تاکہ دس دس لوگوں میں سے ایک شخص یروشلیم میں آباد ہو جائے۔‏ پھر شہرپناہ کو وقف کِیا گیا۔‏ اس تقریب کے دوران ’‏یرؔوشلیم کی خوشی کی آواز دُور تک سنائی دی۔‏‘‏ (‏نحمیاہ ۱۲:‏۴۳‏)‏ یروشلیم آنے کے ۱۲ سال بعد نحمیاہ،‏ بادشاہ ارتخششتا کی خدمت کرنے کے لئے اُس کے پاس واپس لوٹا۔‏ نحمیاہ کے جانے کے بعد یروشلیم میں بدچلنی پھیل گئی۔‏ نحمیاہ اس کی خبر سُن کر دوبارہ سے یروشلیم آیا۔‏ اُس نے بُرائی کو دُور کرنے کے لئے فوراً اقدام اُٹھائے۔‏ آخرکار اُس نے خدا سے یوں درخواست کی:‏ ”‏اَے میرے خدا،‏ بھلائی کے لئے مجھے یاد کر۔‏“‏—‏نحمیاہ ۱۳:‏۳۱‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۷:‏۶-‏۶۷‏—‏یروشلیم واپس لوٹنے والوں کی جو فہرست عزرا نے تیار کی تھی یہ نحمیاہ کی فہرست سے کیوں فرق ہے؟‏ (‏عزرا ۲:‏۱-‏۶۵‏)‏ ہو سکتا ہے کہ دونوں نے اپنی فہرستیں الگ الگ دستاویزات کی بِنا پر تیار کی تھیں۔‏ مثال کے طور پر کئی لوگوں نے یروشلیم واپس لوٹنے کے لئے اپنا نام تو لکھوایا ہوگا لیکن پھر وہ جا نہیں پائے۔‏ یا شاید بعض یہودی شروع میں اپنا نسب‌نامہ ثابت نہ کر پائے لیکن بعد میں انہیں اس کا ثبوت مل گیا۔‏ بہرحال،‏ نحمیاہ اور عزرا دونوں کی فہرست کے مطابق غلاموں اور گانے والوں کے علاوہ یروشلیم واپس لوٹنے والوں کی کُل‌تعداد ۳۶۰،‏۴۲ تھی۔‏

۱۰:‏۳۴‏—‏لوگوں کو لکڑی کا ہدیہ دینے کو کیوں کہا گیا؟‏ ہدیے کے طور پر لکڑی دینے کا حکم موسیٰ کی شریعت میں شامل نہیں تھا۔‏ نحمیاہ کے زمانے میں لوگوں کو یہ حکم اس لئے دیا گیا کیونکہ قربانیاں چڑھانے کے لئے جو لکڑی موجود تھی وہ کافی نہیں تھی۔‏ ہیکل میں غلاموں کے طور پر خدمت کرنے والے نتنیم کی تعداد کم تھی۔‏ اس لئے قُرعے ڈال کر دوسرے لوگوں کو بھی مقرر کِیا گیا جنہیں ایندھن فراہم کرنے کا کام سونپا گیا۔‏

۱۳:‏۶‏—‏نحمیاہ یروشلیم سے چلے جانے کے کتنی دیر بعد وہاں واپس لوٹا؟‏ نحمیاہ نے بیان کِیا کہ اُس نے ”‏کچھ دنوں کے بعد“‏ بادشاہ سے رُخصت کی درخواست کی۔‏ اس بیان سے ظاہر نہیں ہوتا کہ نحمیاہ کتنے عرصے کے لئے بادشاہ کی خدمت کرکے دوبارہ سے یروشلیم لوٹا تھا۔‏ البتہ،‏ وہاں پہنچ کر اُس نے دیکھا کہ نہ تو لاویوں کو خوراک مہیا کی جا رہی ہے اور نہ ہی سبت کا دن منایا جا رہا ہے۔‏ اس کے علاوہ کئی یہودیوں نے غیرقومی عورتوں سے شادی کر لی تھی اور اُن کے بچے یہودیوں کی زبان تک نہیں بول سکتے تھے۔‏ حالات کا اس حد تک بگڑ جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نحمیاہ کافی عرصے کے لئے یروشلیم سے دُور رہا ہوگا۔‏

۱۳:‏۲۵،‏ ۲۸‏—‏بدچلن یہودیوں سے ’‏جھگڑنے‘‏ کے علاوہ نحمیاہ نے اُنہیں سدھارنے کے لئے کیا کِیا؟‏ نحمیاہ نے ”‏اُن پر لعنت کی“‏ یعنی خدا کی شریعت میں سے انہیں اُن کی بدچلنی کی سزا بتائی۔‏ اُس نے ”‏اُن میں سے بعض کو مارا“‏ جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اُس نے انہیں عدالت کے سامنے پیش کِیا۔‏ اپنا غصہ ظاہر کرنے کے لئے نحمیاہ نے ”‏اُن کے بال نوچ ڈالے۔‏“‏ اس کے علاوہ اُس نے سردارکاہن الیاسب کے پوتے کو بھگا دیا جس نے حورونی سنبلط کی بیٹی سے شادی کر لی تھی۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۸:‏۸‏۔‏ خدا کے کلام میں سے تعلیم دیتے وقت ہم ”‏اُس کے معنی“‏ کیسے بتا سکتے ہیں؟‏ ہمیں صاف تلفظ کے ساتھ پڑھنا چاہئے اور اہم الفاظ پر زور دینا چاہئے۔‏ اسکے علاوہ ہمیں صحیفوں کی صحیح وضاحت کرنی چاہئے اور سننے والوں کو دکھانا چاہئے کہ وہ سیکھی ہوئی باتوں پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

۸:‏۱۰‏۔‏ روحانی باتوں کی قدر کرنے اور خدا کی راہنمائی پر چلنے سے ہمیں ’‏یہوواہ کی شادمانی‘‏ نصیب ہوتی ہے۔‏ اس لئے یہ لازمی ہے کہ ہم بائبل کا گہرا مطالعہ کریں،‏ مسیحی اجلاسوں پر باقاعدگی سے حاضر ہوں اور خوشخبری کی مُنادی کرنے اور شاگرد بنانے کے کام میں بڑھ‌چڑھ کر حصہ لیں۔‏

۱۱:‏۲‏۔‏ جو لوگ اپنی آبائی وراثت کو چھوڑ کر یروشلیم میں بسنے لگے انہوں نے بہت سی آسائشیں قربان کر دیں۔‏ لیکن اُنہوں نے خوشی سے ایسا کِیا۔‏ کنونشنوں کے سلسلے میں یا دوسرے موقعوں پر ہمیں بھی اپنے آپ کو خوشی سے ہر کام کے لئے پیش کرنا چاہئے۔‏

۱۲:‏۳۱،‏ ۳۸،‏ ۴۰-‏۴۲‏۔‏ گیتوں کے ذریعے ہم یہوواہ کی حمد کرتے ہیں اور اُس کے لئے اپنی شکرگزاری کا اظہار کرتے ہیں۔‏ مسیحی اجلاسوں پر ہمیں دل لگا کر گیت گانے چاہئیں۔‏

۱۳:‏۴-‏۳۱‏۔‏ ہمیں ہمیشہ خبردار رہنا چاہئے کہ ہمارے دل میں مال‌ودولت سے لگن پیدا نہ ہو اور ہم رشوت‌خوری اور برگشتگی پر نہ اُتر آئیں۔‏

۱۳:‏۲۲‏۔‏ نحمیاہ اس بات سے خوب واقف تھا کہ اُسے خدا کو حساب دینا ہوگا۔‏ ہمیں بھی یہ بات یاد رکھنی چاہئے۔‏

یہوواہ کی خوشنودی حاصل کریں

زبورنویس نے کہا کہ ”‏اگر [‏یہوواہ]‏ ہی گھر نہ بنائے تو بنانے والوں کی محنت عبث ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۲۷:‏۱‏)‏ یہ سچائی نحمیاہ کی کتاب سے صاف ظاہر ہوتی ہے۔‏

اس کتاب سے ہم ایک اہم سبق حاصل کر سکتے ہیں۔‏ یہوواہ کی برکت کے بغیر ہم کامیاب نہیں رہینگے۔‏ اگر یہوواہ کی عبادت ہماری زندگی میں پہلے درجے پر نہیں ہے تو کیا وہ ہمیں اپنی برکتوں سے نوازیگا؟‏ ہرگز نہیں۔‏ اسلئے آئیں ہم نحمیاہ کی طرح یہوواہ کی عبادت کو اپنی زندگی کا مرکز بنائیں۔‏

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر]‏

‏’‏بادشاہ کا دل یہوواہ کے ہاتھ میں ہے‘‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

نحمیاہ جوکہ ثابت‌قدم اور رحم‌دل تھا یروشلیم آیا

‏[‏صفحہ ۱۰،‏ ۱۱ پر تصویریں]‏

آپ ’‏خدا کے کلام کے معنی‘‏ کیسے بتا سکتے ہیں؟‏