یہوواہ جیسا صبر ظاہر کریں
یہوواہ جیسا صبر ظاہر کریں
”[یہوواہ] اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا . . . بلکہ تمہارے بارے میں تحمل کرتا ہے۔“—۲-پطرس ۳:۹۔
۱. یہوواہ نے انسانوں کو کونسی بخشش عطا کی ہے؟
یہوواہ خدا نے ہمیں وہ چیز عطا کرنے کا وعدہ کِیا ہے جو کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ یہ چیز نہایت قابلِقدر اور قیمتی ہے۔ اسے نہ تو کوئی انسان خرید سکتا اور نہ ہی کما سکتا ہے۔ یہ چیز ہمیشہ کی زندگی کی بخشش ہے۔ ہم میں سے بیشتر کیلئے یہ زمین پر فردوس میں ابدی زندگی ہے۔ (یوحنا ۳:۱۶) لڑائیجھگڑے، ظلموتشدد، غربت، جُرم، بیماری اور موت جیسی حالتیں بہت زیادہ دُکھتکلیف کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن جب یہ ختم ہو جائیں گی تو اُس وقت کسقدر خوشی کا سماں ہوگا! لوگ خدا کی بادشاہت میں پُرمحبت حکمرانی کے تحت صلح اور یگانگت کیساتھ رہیں گے۔ ہم اُس فردوس میں رہنے کے بڑے آرزومند ہیں!—یسعیاہ ۹:۶، ۷؛ مکاشفہ ۲۱:۴، ۵۔
۲. یہوواہ خدا نے ابھی تک شیطان کے نظام کو کیوں برباد نہیں کِیا؟
۲ یہوواہ خدا خود بھی ایسے وقت کا منتظر ہے جب وہ زمین پر فردوس قائم کرے گا۔ یہوواہ واقعی صداقت اور انصاف کو پسند کرتا ہے۔ (زبور ۳۳:۵) جب وہ زمین پر نظر کرتا ہے تو ایسی دُنیا دیکھتا ہے جو نہ تو اُسکے راست اصولوں کی کوئی پرواہ کرتی ہے اور نہ ہی اُسکے اختیار کو تسلیم کرتی ہے۔ بلکہ اُسکے لوگوں پر ظلم ڈھاتی ہے۔ یہوواہ خدا کو یہ سب دیکھ کر کوئی خوشی نہیں ہوتی۔ تاہم، اس بات کی معقول وجوہات ہیں کہ کیوں اُس نے شیطان کے بُرے نظام کو ابھی تک برباد نہیں کِیا۔ ان وجوہات کا تعلق اس بات سے ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ اس میں خدا کی حاکمیت کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے یہوواہ ایک دلکش خوبی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ خوبی صبر ہے۔ لیکن آجکل بہتیرے لوگوں میں صبر نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔
۳. (ا) بائبل میں ”صبر“ کیلئے استعمال ہونے والے یونانی اور عبرانی الفاظ کا کیا مطلب ہے؟ (ب) اب ہم کن سوالات پر غور کریں گے؟
۳ اُردو بائبل میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”صبر“ کِیا گیا ہے اسکا مطلب دیر تک کسی چیز کو برداشت کرنا ہے۔ تاہم، صبر کیلئے استعمال ہونے والے یونانی اور عبرانی الفاظ کا مطلب بُردبار اور قہر میں دھیما ہونا ہے۔ یہوواہ خدا کا صبر ہمارے لئے کیسے فائدہمند ہے؟ ہم یہوواہ اور اُسکے خادموں کے صبروبرداشت سے کیا سبق سیکھتے ہیں؟ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ کے صبر کی ایک حد ہے؟ آئیے دیکھیں۔
یہوواہ کے صبر پر غور کریں
۴. یہوواہ کے صبر پر غور کرتے وقت، پطرس رسول نے کیا تحریر کِیا؟
۴ یہوواہ خدا کے صبر پر غور کرتے وقت، پطرس رسول نے لکھا: ”اَے عزیزو! یہ خاص بات تُم پر پوشیدہ نہ رہے کہ [یہوواہ] کے نزدیک ایک دن ہزار برس کے برابر ہے اور ہزار برس ایک دن کے برابر۔ [یہوواہ] اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا جیسی دیر بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ تمہارے بارے میں تحمل کرتا ہے اسلئے کہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“ (۲-پطرس ۳:۸، ۹) براہِمہربانی اس آیت میں پیش کئے جانے والے دو نکات پر غور کریں جو یہوواہ کے صبر کو سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔
۵. وقت کے سلسلے میں یہوواہ کا نقطۂنظر اسکے کاموں پر کیسے اثرانداز ہوتا ہے؟
۵ پہلا نکتہ یہ ہے کہ یہوواہ وقت کو ہماری طرح نہیں دیکھتا۔ ابدالآباد تک زندہ رہنے والی ہستی کیلئے ایک ہزار برس محض ایک دن ہیں۔ وہ وقت کی قید سے آزاد ہے لیکن کارروائی کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ وہ لامحدود حکمت کا مالک ہے۔ یہوواہ انسانوں کی بھلائی کی لوقا ۱:۷۸؛ ۱-یوحنا ۴:۸) وہ اس عارضی دُکھتکلیف سے ہونے والے کسی بھی نقصان کو مکمل طور پر ہمیشہہمیشہ کیلئے ختم کر سکتا ہے۔—زبور ۳۷:۱۰۔
خاطر کارروائی کرنے کا بہترین وقت جانتا ہے۔ وہ صبر سے ایسے وقت کا انتظار کرتا ہے۔ البتہ، ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہوواہ انتظار کی اس گھڑی میں اپنے خادموں کے دُکھتکلیف سے غافل ہے۔ وہ تو ”عین رحمت“ کا خدا ہے۔ وہ محبت کی بہترین مثال ہے۔ (۶. ہمیں خدا کی بابت کیا نہیں سوچنا چاہئے اور کیوں؟
۶ یہ سچ ہے کہ جس چیز کی آرزو کی جاتی ہے اُسکا انتظار کرنا مشکل لگتا ہے۔ (امثال ۱۳:۱۲) لہٰذا، جب لوگ اپنے وعدے فوراً پورے نہیں کرتے تو دوسرے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ ایسا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ لیکن خدا کی بابت ایسی سوچ رکھنا غلط ہے! اگر ہم خدا کے صبر کے سلسلے میں یہ سوچتے ہیں کہ وہ کارروائی کرنے میں دیر کر رہا ہے تو وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ہمارے دل میں شک پیدا ہو سکتا ہے اور ہم بےحوصلہ ہو سکتے ہیں۔ اس سے ہم روحانی طور پر سُست پڑ سکتے ہیں۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ ہم اُن ٹھٹھابازوں کی مانند بن سکتے ہیں جو ایمان نہیں رکھتے۔ ان اشخاص کے خلاف پطرس رسول نے بہت پہلے ہی سے آگاہ کر دیا تھا۔ ایسے اشخاص ٹھٹھابازی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”اُسکے آنے کا وعدہ کہاں گیا؟ کیونکہ جب سے باپدادا سوئے ہیں اُس وقت سے اب تک سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا خلقت کے شروع سے تھا۔“—۲-پطرس ۳:۴۔
۷. یہوواہ کا صبر اس بات کو کیسے ظاہر کرتا ہے کہ وہ چاہتا ہے سب کی توبہ تک نوبت پہنچے؟
۷ پطرس رسول کے الفاظ کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہوواہ اس وجہ سے صبر کرتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔ جو لوگ ہٹدھرم ہوکر اپنے بُرے کاموں سے باز نہیں آتے انہیں یہوواہ کے ہاتھوں ہلاکت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم، خدا کو شریر کے مرنے میں کچھ خوشی نہیں۔ بلکہ وہ اس سے خوش ہوتا ہے کہ لوگ توبہ کریں اور اپنی بُری راہوں سے باز آکر زندہ رہیں۔ (حزقیایل ۳۳:۱۱) اسی وجہ سے وہ صبر کر رہا ہے اور ساری زمین پر خوشخبری کا اعلان کرا رہا ہے تاکہ لوگوں کو زندہ رہنے کا موقع مل سکے۔
۸. خدا کے صبر کو اسرائیلی قوم کیساتھ اسکے برتاؤ سے کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟
۸ خدا کے صبر کو قدیم اسرائیلی قوم کیساتھ اسکے برتاؤ سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ صدیوں تک اس نے اُنکی نافرمانیوں کو برداشت کِیا۔ اُس نے اپنے نبیوں کے ذریعے بارہا تاکید کی: ”تُم اپنی بُری راہوں سے باز آؤ اور اُس ساری شریعت کے مطابق جسکا حکم مَیں نے تمہارے باپدادا کو دیا اور جسے مَیں نے اپنے بندوں نبیوں کی معرفت ۲-سلاطین ۱۷:۱۳، ۱۴۔
تمہارے پاس بھیجا ہے میرے احکاموآئین کو مانو۔“ اسکا کیا نتیجہ نکلا؟ افسوس کی بات ہے کہ لوگوں نے ”نہ سنا۔“—۹. یسوع نے اپنے باپ جیسا صبر کیسے ظاہر کِیا؟
۹ آخر میں، یہوواہ نے اپنے بیٹے کو بھیجا جس نے یہودیوں کا خدا کیساتھ میل کرانے کی ازحد کوشش کی۔ یسوع نے اپنے باپ جیسا صبر ظاہر کِیا۔ اپنی عنقریب موت کی بابت اچھی طرح جانتے ہوئے یسوع نے افسوس کِیا: ”اَے یرؔوشلیم! اَے یرؔوشلیم! تُو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے اُنکو سنگسار کرتا ہے! کتنی بار مَیں نے چاہا کہ جسطرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے اُسی طرح مَیں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کر لوں مگر تُم نے نہ چاہا!“ (متی ۲۳:۳۷) یہ الفاظ کسی بےرحم جج کے نہیں ہیں جو سزا دینا چاہتا ہے بلکہ ایک محبت رکھنے والے دوست کے ہیں جو لوگوں کیساتھ صبر سے پیش آتا ہے۔ اپنے آسمانی باپ کی طرح یسوع چاہتا تھا کہ لوگ توبہ کریں تاکہ سخت سزا سے بچ سکیں۔ بعض نے یسوع کی آگاہیوں پر دھیان دیا اور ۷۰ عیسوی میں یروشلیم پر آنے والی تباہی سے بچ گئے۔—لوقا ۲۱:۲۰-۲۲۔
۱۰. ہم خدا کے صبر سے کیسے فائدہ اُٹھاتے ہیں؟
۱۰ واقعی، خدا بڑا صابر ہے۔ انسانوں کی نافرمانیوں کے باوجود یہوواہ نے لاکھوں لوگوں کیساتھ ہم میں سے ہر ایک کو یہ موقع دیا ہے کہ ہم اُسے جانیں اور نجات کی اُمید حاصل کریں۔ پطرس نے ساتھی مسیحیوں کو لکھا: ”ہمارے خداوند کے تحمل کو نجات سمجھو۔“ (۲-پطرس ۳:۱۵) ہمیں شکرگزار ہونا چاہئے کہ یہوواہ کے صبر نے ہمارے لئے نجات کی راہ کھول دی ہے۔ کیا ہم یہ دُعا نہیں کرتے ہیں کہ جب ہم ہر روز یہوواہ کی خدمت کرتے ہیں تو وہ ہمارے ساتھ صبر سے پیش آتا رہے؟—متی ۶:۱۲۔
۱۱. یہوواہ کے صبر کو سمجھنا ہمیں کیا کرنے کی تحریک دیتا ہے؟
۱۱ جب ہم یہوواہ خدا کے صابر ہونے کی وجہ کو سمجھ لیتے ہیں تو اس سے ہمیں صبر کیساتھ اُسکی نجات کا انتظار کرنے میں مدد ملتی ہے۔ نیز، ہم کبھی بھی یہ نتیجہ اخذ نہیں کرتے کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں دیر لگا رہا ہے۔ (نوحہ ۳:۲۶) خدا کی بادشاہت کیلئے مسلسل دُعا کرتے وقت ہم پورا بھروسا رکھتے ہیں کہ خدا ہماری دُعا کا جواب دینے کا بہترین وقت جانتا ہے۔ مزیدبرآں، ہم اپنے بہنبھائیوں اور اُن لوگوں کیساتھ یہوواہ خدا جیسا صبر دکھانے کی تحریک پاتے ہیں جنہیں ہم منادی کرتے ہیں۔ ہم بھی کسی کی ہلاکت نہیں چاہتے بلکہ انہیں توبہ کرتے اور ہمیشہ کی زندگی کی اُمید حاصل کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔—۱-تیمتھیس ۲:۳، ۴۔
نبیوں کے صبر پر غور کریں
۱۲، ۱۳. یعقوب ۵:۱۰ کے مطابق، یسعیاہ نبی نے کیسے کامیابی سے صبر کا مظاہرہ کِیا؟
۱۲ یہوواہ کے صبر پر غور کرنے سے ہمیں اس خوبی کی قدر کرنے اور اسے اپنے اندر پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اگرچہ ناکامل انسانوں کیلئے ایسا کرنا آسان نہیں توبھی ایسا کِیا جا سکتا ہے۔ ہم خدا کے ماضی کے خادموں سے ایسا کرنا سیکھتے ہیں۔ یعقوب شاگرد نے لکھا: ”اَے بھائیو! جن نبیوں نے [یہوواہ] کے نام سے کلام کِیا اُنکو دُکھ اُٹھانے اور صبر کرنے کا نمونہ سمجھو۔“ (یعقوب ۵:۱۰) یہ بات جاننا کسقدر تسلیبخش اور حوصلہافزا ہے کہ جن حالات کا ہمیں سامنا ہے دوسروں نے کامیابی سے انکا مقابلہ کِیا ہے۔
۱۳ مثال کے طور پر، یسعیاہ نبی کو اپنی خدمت میں بڑے صبر کی ضرورت تھی۔ یہوواہ نے اس ضرورت کو یہ کہتے ہوئے آشکارا کِیا: ”جا اور اِن لوگوں سے کہہ کہ تُم سنا کرو پر سمجھو نہیں۔ تُم دیکھا کرو پر بوجھو نہیں۔ تُو اِن لوگوں کے دلوں کو چربا دے اور اُنکے کانوں کو بھاری کر اور اُنکی آنکھیں بند کر دے تانہ ہو کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور اپنے کانوں سے سنیں اور اپنے دلوں سے سمجھ لیں اور باز آئیں اور شفا پائیں۔“ (یسعیاہ ۶:۹، ۱۰) لوگوں کی لاپرواہی کے باوجود، یسعیاہ نے تقریباً ۴۶ سال تک بڑے صبر سے یہوواہ کی آگاہیوں کا پرچار کِیا۔ اسی طرح، صبر خوشخبری کی منادی کیلئے لوگوں کے جوابیعمل نہ دکھانے کے باوجود برداشت کرنے میں ہماری مدد کرے گا۔
۱۴، ۱۵. مشکلات اور حوصلہشکنی کا سامنا کرتے وقت کس چیز نے یرمیاہ کی مدد کی؟
۱۴ جب خدا کے نبیوں نے اپنی خدمت کو پورا کِیا تو اُنہوں نے لوگوں کی لاپرواہی کے ساتھ ساتھ اذیت کا بھی سامنا کِیا۔ یرمیاہ کو یرمیاہ ۲۰:۲؛ ۳۷:۱۵؛ ۳۸:۶) یرمیاہ نے یہ بدسلوکی اُن لوگوں کے ہاتھوں برداشت کی جنکی وہ مدد کرنا چاہتا تھا۔ تاہم، اس سے یرمیاہ کے دل میں تلخی پیدا نہ ہوئی اور نہ ہی اُس نے بدلہ لینے کی ٹھانی۔ اُس نے کئی سال تک صبر سے اسکی برداشت کی۔
کاٹھ میں ڈالا گیا، ”قید“ کِیا گیا اور حوض میں ڈال دیا گیا۔ (۱۵ اگرچہ یرمیاہ کو اذیت دی گئی اور اُسکا مذاق اُڑایا گیا توبھی یہ سب کچھ اُسے چپ نہ کرا سکا۔ یہ آجکل ہمیں بھی خاموش نہیں کرا سکتا۔ سچ ہے کہ ہم بعضاوقات بےحوصلہ ہو جاتے ہیں۔ یرمیاہ بھی بےحوصلہ ہو گیا تھا۔ اُس نے لکھا: ”[یہوواہ] کا کلام دنبھر میری ملامت اور ہنسی کا باعث ہوتا ہے۔ اور اگر مَیں کہوں کہ مَیں اُسکا ذکر نہ کروں گا نہ پھر کبھی اُسکے نام سے کلام کروں گا۔“ اسکے بعد کیا ہوا؟ کیا یرمیاہ نے منادی کرنا بند کر دی؟ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ”[خدا کا] کلام میرے دل میں جلتی آگ کی مانند ہے جو میری ہڈیوں میں پوشیدہ ہے اور مَیں ضبط کرتے کرتے تھک گیا اور مجھ سے رہا نہیں جاتا۔“ (یرمیاہ ۲۰:۸، ۹) غور کریں کہ جب اُس نے لوگوں کے ہنسیٹھٹھا پر توجہ دی تو اُس نے اپنی خوشی کھو دی۔ لیکن جب اُس نے اس پیغام کی اہمیت اور دلکشی پر غور کِیا تو اُسکی خوشی بحال ہو گئی۔ علاوہازیں، یہوواہ یرمیاہ کیساتھ ایک ”مہیب بہادر کی مانند“ تھا۔ اُس نے اسے کلام سنانے کا جوش اور دلیری بخشی۔—یرمیاہ ۲۰:۱۱۔
۱۶. ہم منادی کے کام میں اپنی خوشی کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟
۱۶ کیا یرمیاہ اپنے کام سے خوش تھا؟ یقیناً! اُس نے یہوواہ سے کہا: ”تیرا کلام ملا اور مَیں نے اُسے نوش کِیا اور تیری باتیں میرے دل کی خوشی اور خرمی تھیں کیونکہ اَے [یہوواہ] ربُالافواج! مَیں تیرے نام سے کہلاتا ہوں۔“ (یرمیاہ ۱۵:۱۶) یرمیاہ خدا کی نمائندگی کرنے اور اسکے کلام کی منادی کرنے کے شرف سے خوش تھا۔ ہم بھی خوش ہو سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ، ہم آسمان کے فرشتوں کی مانند اس بات سے بھی خوش ہو سکتے ہیں کہ پوری دُنیا میں بہت سے لوگ خدا کی بادشاہت کے پیغام کو قبول کرتے اور توبہ کرکے زندگی کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔—لوقا ۱۵:۱۰۔
”اؔیوب کا صبر“
۱۷، ۱۸. ایوب نے کس طریقے سے برداشت کی اور اسکا کیا نتیجہ نکلا؟
۱۷ قدیم زمانے کے نبیوں کا ذکر کرنے کے بعد، شاگرد یعقوب نے لکھا: ”تُم نے اؔیوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے اور [یہوواہ] کی طرف سے جو اسکا انجام ہوا اُسے بھی معلوم کر لیا جس سے [یہوواہ] کا بہت ترس اور رحم ظاہر ہوتا ہے۔“ (یعقوب ۵:۱۱) اُردو بائبل میں یعقوب ۵:۱۰، ۱۱ کی دونوں آیات میں لفظ ”صبر“ استعمال ہوا ہے۔ تاہم، یونانی زبان میں ۱۰ آیت میں لفظ صبر آیا ہے لیکن ۱۱ آیت میں ایک فرق لفظ استعمال کِیا گیا ہے۔ یہ لفظ برداشت ہے۔ دونوں الفاظ ”صبر“ اور ”برداشت“ کے سلسلے میں ایک سکالر بیان کرتا ہے: ”دس آیت میں استعمال ہونے والے لفظ صبر سے مُراد بدسلوکی کے وقت صبر کرنا ہے۔ جبکہ ۱۱ آیت میں برداشت سے مُراد مشکلات کے باوجود برداشت کرنا ہے۔“
۱۸ ایوب نے انتہائی دُکھ کا سامنا کِیا۔ اُسکا مالومتاع چھن گیا۔ اُسکے بچے مر گئے۔ اُسے ایک دردناک بیماری لگ گئی۔ اُس پر جھوٹے الزام بھی لگائے گئے کہ یہوواہ اُسے سزا دے رہا ہے۔ ایوب نے اپنی ایوب ۳۵:۲) تاہم، وہ نہ تو اپنے ایمان سے پھرا اور نہ ہی اپنی راستی کو چھوڑا۔ اُس نے خدا کی تکفیر نہ کی جیساکہ شیطان نے کہا تھا۔ (ایوب ۱:۱۱، ۲۱) اسکا کیا نتیجہ نکلا؟ یہوواہ نے ”اؔیوب کے آخری ایّام میں ابتدا کی نسبت زیادہ برکت بخشی۔“ (ایوب ۴۲:۱۲) یہوواہ نے ایوب کی صحت بحال کر دی۔ اُسکی دولت دُگنی ہو گئی۔ اسکے علاوہ، اُسے اپنے عزیزوں کیساتھ ایک خوشحال زندگی کی برکت ملی۔ ایوب نے وفاداری سے برداشت کرنے سے یہوواہ کو اَور اچھی طرح جان لیا۔
تکلیف پر دہائی دی۔ اُس نے تو اپنی باتوں سے یہ بھی اشارہ دیا کہ وہ خدا سے زیادہ راستباز ہے۔ (۱۹. ہم ایوب کے صبر سے کیا سیکھتے ہیں؟
۱۹ ہم ایوب کے صبر سے کیا سیکھتے ہیں؟ ایوب کی طرح ہمیں بھی بیماری اور دیگر مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ہم شاید اس بات کو پوری طرح نہ سمجھیں کہ کیوں یہوواہ ہمیں ایک خاص آزمائش میں پڑنے دیتا ہے۔ لیکن ہم اس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں: اگر ہم وفادار رہتے ہیں تو وہ ہمیں برکت دے گا۔ یہوواہ اپنے طالبوں کو یقیناً بدلہ دیتا ہے۔ (عبرانیوں ۱۱:۶) یسوع نے کہا: ”جو آخر تک برداشت کرے گا وہ نجات پائے گا۔“—متی ۱۰:۲۲؛ ۲۴:۱۳۔
یہوواہ کا دن ضرور آئے گا
۲۰. ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ کا دن ضرور آئے گا؟
۲۰ اگرچہ یہوواہ صابر ہے توبھی وہ انصافپسند ہے اور سدا بُرے لوگوں کو برداشت نہیں کرے گا۔ اسکے صبر کا پیمانہ ضرور لبریز ہوگا۔ پطرس رسول نے لکھا: ”[خدا نے] نہ پہلی دُنیا کو چھوڑا۔“ اگرچہ نوح اور اُسکے خاندان کو بچا لیا گیا مگر بےدین دُنیا پانی کے طوفان سے غرق ہوگئی۔ یہوواہ نے سدوم اور عموراہ کے شہروں کو بھی خاکِسیاہ کر دیا۔ یہ سزائیں ”آیندہ زمانہ کے بےدینوں کیلئے جایِعبرت“ ہیں۔ اس بات سے ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ کا دن ضرور آئے گا۔—۲-پطرس ۲:۵، ۶؛ ۳:۱۰۔
۲۱. ہم صبر اور برداشت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں، اور اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
۲۱ پس آئیے ہم توبہ کرکے نجات پانے میں دوسروں کی مدد کرنے سے یہوواہ جیسا صبر ظاہر کریں۔ اسکے علاوہ، جن لوگوں کو ہم منادی کرتے ہیں انکی لاپرواہی کے باوجود بڑے صبر سے خوشخبری کی منادی کرنے سے نبیوں کی نقل کریں۔ مزیدبرآں، اگر ہم ایوب کی طرح آزمائشوں کا مقابلہ کرتے اور راستی برقرار رکھتے ہیں تو ہم اس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں کثرت سے برکت دے گا۔ جب ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کیسے یہوواہ اپنے لوگوں کی پوری زمین پر خوشخبری کی منادی کرنے کی کوششوں کو برکت دے رہا ہے تو ہمارے پاس اپنی منادی میں خوش ہونے کی ہر وجہ موجود ہے۔ ہم اگلے مضمون میں یہ بات دیکھیں گے۔
کیا آپکو یاد ہے؟
• یہوواہ کیوں صابر ہے؟
• ہم نبیوں کے صبر سے کیا سیکھتے ہیں؟
• ایوب نے کیسے صبر کِیا اور اسکا کیا نتیجہ نکلا؟
• ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ کے صبر کا پیمانہ ضرور لبریز ہوگا؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
یسوع نے ہر لحاظ سے اپنے باپ جیسا صبر ظاہر کِیا
[صفحہ ۲۰ پر تصویریں]
یہوواہ نے یرمیاہ کے صبر کا اَجر کیسے دیا؟
[صفحہ ۲۱ پر تصویریں]
یہوواہ نے ایوب کے صبر کا اَجر کیسے دیا؟