مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏ہوشیار ہو“‏

‏”‏ہوشیار ہو“‏

‏”‏ہوشیار ہو“‏

‏”‏نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے لیکن ہوشیار آدمی اپنی روِش کو دیکھتا بھالتا ہے۔‏“‏—‏امثال ۱۴:‏۱۵‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ لوط کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ۱-‏پطرس ۱:‏۱۳ میں لفظ ”‏ہوشیار“‏ کیا مطلب رکھتا ہے؟‏

لوط بہت خوش تھا۔‏ ابرہام نے اُسے اپنے لئے ایک علاقے کا انتخاب کرنے کو کہا تھا۔‏ اس پر لوط نے ”‏یرؔدن کی ساری ترائی“‏ کے سرسبز علاقے میں آباد ہونے کا فیصلہ کِیا کیونکہ یہ علاقہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے باغ“‏ کی طرح خوبصورت اور شاداب تھا۔‏ پھر اُس نے شہر سدوم کے نزدیک اپنا ڈیرا لگا لیا۔‏ البتہ اُس کا فیصلہ اچھا نہ تھا کیونکہ ”‏سدؔوم کے لوگ [‏یہوواہ]‏ کی نظر میں نہایت بدکار اور گنہگار تھے۔‏“‏ (‏پیدایش ۱۳:‏۷-‏۱۳‏)‏ لوط کو اس فیصلے کے لئے بھاری قیمت چکانی پڑی۔‏ بہت نقصان اُٹھانے کے بعد وہ اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ ایک غار میں رہنے پر مجبور ہو گیا۔‏ (‏پیدایش ۱۹:‏۱۷،‏ ۲۳-‏۲۶،‏ ۳۰‏)‏ دل میں اتنی اُمیدیں لئے لوط اس علاقے میں آباد ہوا تھا لیکن اُس کی تمام اُمیدوں پر پانی پھر گیا تھا۔‏

۲ اس واقعہ سے خدا کے خادم ایک اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏ کسی معاملے کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کئی باتیں دیکھنے میں تو اچھی نظر آتی ہیں لیکن حقیقت میں یہ ہمارے لئے نقصاندہ یا خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔‏ اس لئے ۱-‏پطرس ۱:‏۱۳ میں مسیحیوں کو تاکید کی گئی ہے کہ ”‏ہوشیار ہو۔‏“‏ بائبل کے ایک عالم کے مطابق لفظ ہوشیار ”‏سنجیدگی سے ایک معاملے کے ہر پہلو کو پرکھ کر اس کے بارے میں صحیح نتیجے پر پہنچنے“‏ کا مطلب رکھتا ہے۔‏ آئیے ہم چند ایسے معاملوں پر غور کرتے ہیں جن میں مسیحیوں کو ہوشیاری اور سنجیدگی سے کام لینا چاہئے۔‏

کاروباری معاملوں میں

۳.‏ ایک کاروبار کو شروع کرنے کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت مسیحیوں کو ہوشیار کیوں رہنا چاہئے؟‏

۳ فرض کریں کہ کلیسیا کا ایک معزز رُکن آپ کے ساتھ ایک نیا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے۔‏ وہ آپ سے کہتا ہے کہ یہ کاروبار سو فیصد کامیاب رہے گا۔‏ شاید وہ آپ سے یہ بھی کہے کہ فیصلہ کرنے میں دیر نہ کرنا،‏ ایسا نہ ہو کہ موقع ہاتھ سے نکل جائے۔‏ آپ اس کی باتیں سُن کر ایک خوشحال زندگی کے سپنے دیکھنے لگتے ہیں۔‏ شاید آپ کے دل میں یہ خیال بھی آئے کہ اس کاروبار میں شریک ہونے سے مَیں خدا کی خدمت میں زیادہ وقت صرف کر سکوں گا۔‏ ایسی صورتحال میں امثال ۱۴:‏۱۵ کی آگاہی کو یاد رکھنا اہم ہے جہاں لکھا ہے کہ ”‏نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے لیکن ہوشیار آدمی اپنی روِش کو دیکھتا بھالتا ہے۔‏“‏ ایک نئے کاروبار کو شروع کرنے کے جوش میں لوگ اکثر اس بات کا اندازہ لگانا بھول جاتے ہیں کہ کیا یہ کاروبار واقعی منافع‌بخش ہوگا؟‏ یا پھر کیا مَیں نقصان اُٹھانے کے خطرے میں ہوں؟‏ اور وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آجکل کاروبار چلانا کتنا مشکل ہے۔‏ (‏یعقوب ۴:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ اس وجہ سے ایسی پیشکش کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت مسیحیوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔‏

۴.‏ کسی کے ساتھ کاروبار میں شریک ہونے سے پہلے ’‏ہوشیار آدمی اپنی روِش کیسے دیکھتا بھالتا ہے‘‏؟‏

۴ ایک سمجھدار شخص کاروبار میں کسی کے ساتھ شریک ہونے سے پہلے خوب سوچ‌بچار کرتا ہے۔‏ (‏امثال ۲۱:‏۵‏)‏ وہ اس بات کا اندازہ لگاتا ہے کہ اس کاروبار میں شریک ہونے کے کونسے خطرے ہیں۔‏ فرض کریں کہ ایک شخص اپنے کاروبار کے لئے آپ سے پیسے اُدھار لینا چاہتا ہے۔‏ اس کے بدلے میں وہ آپ کو اپنی کمائی کا بہت بڑا حصہ دینے کا وعدہ کرتا ہے۔‏ شاید آپ سوچنے لگیں کہ یہ تو بڑی اچھی پیشکش ہے۔‏ لیکن بات طے کرنے سے پہلے چند باتوں پر غور کریں۔‏ اگر اُس شخص کا کاروبار کامیاب نہ رہے تو کیا وہ پھر بھی اپنا اُدھار چکانے کو تیار ہوگا؟‏ یا کیا وہ صرف اُس صورت میں آپ کو پیسے واپس کرے گا جب اُس کا کاروبار کامیاب رہے؟‏ کیا آپ کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ آپ اُدھار میں دی ہوئی رقم کا نقصان اُٹھا سکتے ہیں؟‏ اس کے بارے میں بھی سوال کریں کہ وہ شخص بینک سے پیسے کیوں نہیں اُدھار لے رہا؟‏ کیا اُس کا کاروبار اس حد تک گھاٹے میں ہے کہ بینک والے اُسے قرضہ نہیں دینا چاہتے؟‏ ایسے معاملوں میں ہر پہلو کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد ہی فیصلہ کریں۔‏—‏امثال ۱۳:‏۱۶؛‏ ۲۲:‏۳‏۔‏

۵.‏ (‏ا)‏ یرمیاہ نبی نے ایک کھیت خریدتے وقت سمجھداری کیسے ظاہر کی؟‏ (‏ب)‏ کسی قسم کا کاروبار کرتے وقت دستاویز کیوں تیار کرنی چاہئے؟‏

۵ جب خدا کے نبی یرمیاہ نے اپنے چچازاد بھائی سے ایک کھیت خریدا تو اُس نے گواہوں کے سامنے اس سودے کی دستاویز تیار کروائی۔‏ (‏یرمیاہ ۳۲:‏۹-‏۱۲‏)‏ اسی طرح آج بھی ایک سمجھدار شخص کسی قسم کا کاروبار کرنے سے پہلے اس کی دستاویز یعنی اس کا تحریری ثبوت تیار کرواتا ہے۔‏ یہاں تک کہ اپنے کسی رشتہ‌دار یا پھر ایک یہوواہ کے گواہ کے ساتھ کاروبار کرتے وقت بھی وہ ایسا ضرور کرے گا۔‏ * اس دستاویز میں کاروبار کی شرائط صاف بیان کی جانی چاہئیں۔‏ اس طرح بعد میں بدمزگیاں پیدا ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے اور مسیحی بھائی‌چارے کا اتحاد بھی برقرار رہتا ہے۔‏ کبھی‌کبھار مسیحی آپس میں سودا زبانی ہی طے کر لیتے ہیں۔‏ پھر بعد میں جب کاروبار میں مسئلے کھڑے ہوتے ہیں تو تحریری ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ان میں اکثر پھوٹ پڑ جاتی ہے اور وہ روحانی طور پر کمزور پڑنے کے خطرے میں بھی ہوتے ہیں۔‏

۶.‏ ہمیں لالچ میں پڑنے سے خبردار کیوں رہنا چاہئے؟‏

۶ مسیحیوں کو لالچ میں پڑنے سے بھی خبردار رہنا چاہئے۔‏ (‏لوقا ۱۲:‏۱۵‏)‏ اگر ہم بہت زیادہ منافع کمانے کی خواہش رکھتے ہیں تو ہم کاروباری معاملوں میں جلدبازی کرنے کی خطرے میں ہوں گے۔‏ یہوواہ کی خدمت میں ذمہ‌داریاں رکھنے والے بہن‌بھائی بھی لالچ کے پھندے میں پڑ گئے ہیں۔‏ خدا کے کلام میں تاکید کی گئی ہے کہ ”‏زر کی دوستی سے خالی رہو اور جو تمہارے پاس ہے اسی پر قناعت کرو۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۵‏)‏ اس لئے مسیحیوں کو ایک کاروبار شروع کرنے یا اس میں شریک ہونے سے پہلے خود سے پوچھنا چاہئے کہ کیا مجھے واقعی اس کمائی کی ضرورت ہے؟‏ سادگی اختیار کرنے سے ہم یہوواہ خدا کی خدمت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دے سکیں گے اور اس طرح ہم ”‏ہر قسم کی بُرائی“‏ سے بچے رہیں گے۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۶-‏۱۰‏۔‏

جیون‌ساتھی کی تلاش میں

۷.‏ (‏ا)‏ بہتیرے غیرشادی‌شُدہ مسیحیوں کو کس مشکل کا سامنا ہے؟‏ (‏ب)‏ شادی کے معاملے میں ہم خدا کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

۷ بہتیرے مسیحی شادی کرنے کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن اُنکو کوئی مناسب رشتہ نہیں ملتا۔‏ کئی ممالک میں کنوارا رہنے کو اچھا خیال نہیں کِیا جاتا۔‏ اس وجہ سے غیرشادی‌شُدہ مسیحیوں پر شادی کرنے کا دباؤ ہوتا ہے۔‏ لیکن ہو سکتا ہے کہ اُس علاقے میں کم ہی ایسے یہوواہ کے گواہ ہوں جن کے ساتھ رشتہ طے کِیا جا سکے۔‏ (‏امثال ۱۳:‏۱۲‏)‏ مسیحی جانتے ہیں کہ بائبل میں ”‏صرف خداوند میں“‏ شادی کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس حکم پر عمل کرنے سے وہ یہوواہ خدا کے لئے اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳۹‏)‏ غیرشادی شُدہ مسیحیوں کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ وہ شادی کے معاملے میں خدا کے حکم کی خلافورزی نہ کریں۔‏

۸.‏ شولمیت کو کس مشکل کا سامنا تھا اور آجکل یہوواہ کی عبادت کرنے والی عورتیں اُس کی مثال سے کیا سیکھ سکتی ہیں؟‏

۸ اس سلسلے میں غزل‌الغزلات کی کتاب میں شولمیت نامی ایک لڑکی کی داستان پر غور کریں۔‏ بادشاہ سلیمان کو اس دیہاتی لڑکی سے پیار ہو گیا تھا لیکن وہ ایک جوان آدمی سے پیار کرتی تھی۔‏ اس کے باوجود بادشاہ اُس کے دل کو جیتنا چاہتا تھا۔‏ وہ شولمیت کی خوبصورتی کو سراہتا اور اسے اپنی دولت اور شان‌وشوکت سے متاثر کرنے کی کوشش کرتا رہا۔‏ (‏غزل‌الغزلات ۱:‏۹-‏۱۱؛‏ ۳:‏۷-‏۱۰؛‏ ۶:‏۸-‏۱۰،‏ ۱۳‏)‏ اگر آپ یہوواہ کی ایک گواہ ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا واقعہ پیش آئے۔‏ شاید آپ ملازمت کرتی ہیں اور آپ کے ساتھی کارکنوں میں سے ایک آپ کو پسند کرنے لگتا ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ اُس کا عہدہ بھی اُونچا ہو۔‏ یہ شخص آپ کی خوبصورتی کو سراہتا ہے،‏ آپ کو تحفے دیتا ہے اور آپ سے باتیں کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔‏ ایسی صورتحال میں خبردار رہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ یہ شخص آپ کے ساتھ عشق لڑانے کی کوشش کر رہا ہو۔‏ آپ کو بھی شولمیت کی طرح ایک ”‏دیوار“‏ جیسا مضبوط بننا ہوگا۔‏ (‏غزل‌الغزلات ۸:‏۴،‏ ۱۰‏)‏ اگر کوئی ساتھی کارکُن آپ کے دل کو جیتنے کی کوشش کرتا ہے تو اُس پر ظاہر کریں کہ آپ کو ایسی باتیں ہرگز پسند نہیں۔‏ آپ اپنے تحفظ کے لئے اَور کیا کر سکتی ہیں؟‏ ملازمت شروع کرتے ہی اپنے ساتھی کارکنوں کو بتا دیں کہ آپ یہوواہ کی ایک گواہ ہیں اور پھر ہر موقعے پر اُن کو اپنے ایمان کے بارے میں بتاتی رہیں۔‏

۹.‏ انٹرنیٹ کے ذریعے کسی اجنبی کے ساتھ دوستی جوڑنا خطرناک کیوں ہے؟‏ (‏صفحہ ۳۰ پر بکس کو بھی دیکھیں۔‏)‏

۹ آجکل بہتیرے لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے لئے جیون‌ساتھی تلاش کرتے ہیں۔‏ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہم بہت سے ایسے لوگوں سے رابطہ کر سکتے ہیں جن سے ہماری ملاقات شاید ہی ہوتی۔‏ لیکن کسی ایسے اجنبی سے دوستی بڑھانا جس کو آپ نے دیکھا تک نہ ہو بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔‏ دراصل جب ہم انٹرنیٹ پر کسی سے ملاقات کرتے ہیں تو وہ ہمیں اپنے بارے میں کچھ بھی بتا سکتا ہے۔‏ اگر ایسا شخص ہم سے کہے کہ وہ بھی یہوواہ کا ایک گواہ ہے تو ہم معلوم نہیں کر سکتے کہ واقعی ایسا ہے یا نہیں۔‏ (‏زبور ۲۶:‏۴‏)‏ اسکے علاوہ انٹرنیٹ پر کسی سے ملاقاتیں کرنے سے اکثر گہری دوستی قائم ہو جاتی ہے۔‏ اور جب ہم اُس شخص کو اپنا دل دے چکے ہوتے ہیں تو ہمارے لئے سوچ‌سمجھ کر کام لینا مشکل ہو جاتا ہے۔‏ (‏امثال ۲۸:‏۲۶‏)‏ انٹرنیٹ کے ذریعے یا پھر کسی اَور طریقے سے ایک ایسے شخص سے گہری دوستی قائم کرنا جس کے بارے میں ہم کم ہی جانتے ہوں ہمارے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳۳‏۔‏

۱۰.‏ ہم غیرشادی‌شُدہ مسیحیوں کی قدر کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۰ یہوواہ اپنے خادموں کی مشکل کو سمجھتا ہے۔‏ اُسے اُن پر ”‏بہت ترس“‏ آتا ہے۔‏ (‏یعقوب ۵:‏۱۱‏)‏ وہ ان مسیحیوں کی وفاداری کی قدر کرتا ہے جو شادی کرنے کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن کسی نہ کسی وجہ سے کنوارے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔‏ ہم ایسے مسیحیوں کی قدر کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ہم اُنہیں بتا سکتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے وفاداری کی مثال قائم کر رہے ہیں۔‏ ہم اُنکو اپنے گھر آنے یا پھر ہمارے ساتھ تفریح میں شامل ہونے کی دعوت بھی دے سکتے ہیں۔‏ کیا آپ نے حال ہی میں کسی غیرشادی‌شُدہ مسیحی کو مدعو کِیا ہے؟‏ اسکے علاوہ ہم ان کیلئے دُعا بھی کر سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا انہیں اپنی خدمت میں خوش رکھے اور یہ بھی کہ وہ روحانی طور پر مضبوط رہیں۔‏ یہوواہ خدا ان وفادار مسیحیوں کی قدر کرتا ہے اور ہم بھی ان کی خیر خیریت میں دلچسپی لینے سے اُنکی قدر کر سکتے ہیں۔‏—‏زبور ۳۷:‏۲۸‏۔‏

مناسب علاج کی تلاش میں

۱۱.‏ بیمار ہونے پر مسیحیوں کو کس مشکل کا سامنا پڑ سکتا ہے؟‏

۱۱ اگر ہمارا کوئی عزیز یا پھر ہم خود بیمار پڑ جاتے ہیں تو یہ ہمارے لئے بڑی پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۳۸:‏۱-‏۳‏)‏ بیماری کا علاج کرواتے وقت مسیحیوں کو خدا کے کلام میں درج اصولوں پر عمل کرنا چاہئے۔‏ اس لئے ہم خون لینے سے انکار کرتے ہیں اور ایسا علاج بھی نہیں کرواتے جس میں جادوگری کا کوئی عنصر شامل ہو۔‏ (‏اعمال ۱۵:‏۲۸،‏ ۲۹؛‏ گلتیوں ۵:‏۱۹-‏۲۱‏)‏ ہر بیماری کے مختلف علاج ہوتے ہیں جن کو سمجھنا اور پھر ان میں سے ایک کا انتخاب کرنا مسیحیوں کے لئے مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔‏ توپھر ہم ہوشیار رہ کر ایک ایسے علاج کا انتخاب کیسے کر سکتے ہیں جو مسیحیوں کے لئے مناسب ہو؟‏

۱۲.‏ علاج کا انتخاب کرتے وقت مسیحی ہوشیار کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

۱۲ ‏”‏ہوشیار آدمی“‏ جب کسی مشکل کا سامنا کرتا ہے تو وہ ”‏اپنی روِش کو دیکھتا بھالتا ہے۔‏“‏ وہ قدم اُٹھانے سے پہلے بائبل اور بائبل پر مبنی کتابوں اور رسالوں میں سے اُس معاملے کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے۔‏ (‏امثال ۱۴:‏۱۵‏)‏ دُنیا کے کئی علاقوں میں ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کی کمی ہوتی ہے۔‏ ان علاقوں میں رہنے والے لوگ یا تو حکیموں سے اپنا علاج کرواتے ہیں یا پھر جڑی‌بوٹی کے علاج کا انتخاب کرتے ہیں۔‏ البتہ اس قسم کا علاج کروانے سے پہلے ہمیں اس کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کر لینی چاہئے۔‏ پھر ہمیں خود سے ایسے سوال کرنے چاہئیں:‏ کیا وہ حکیم جادوٹونا کرنے کے لئے مشہور ہے؟‏ کیا حکیم ہمارا علاج یہ سمجھ کر کرے گا کہ یہ بیماری ہمیں خدا کی ناراضگی یا پھر کسی کی بددُعا کی وجہ سے لگی ہے؟‏ کیا دوا کو تیار کرتے وقت جانور کی قربانیاں دی گئی تھیں،‏ منتر پڑھے گئے تھے یا کوئی اَور جادوٹونا کِیا گیا تھا؟‏ کیا مجھے دوا کو لیتے وقت اس طرح کا کوئی عمل کرنے کو کہا گیا ہے؟‏ (‏استثنا ۱۸:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ ایسی معلومات حاصل کرنے سے ہم بائبل کے اس اصول پر عمل کریں گے:‏ ”‏سب باتوں کو آزماؤ۔‏ جو اچھی ہو اُسے پکڑے رہو۔‏“‏ * (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۲۱‏)‏ ایسا کرنے سے ہم ہر قسم کے علاج کے بارے میں متوازن نظریہ قائم کریں گے۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ (‏ا)‏ صحت اور علاج کے معاملے میں مسیحی سمجھداری سے کیسے کام لے سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہمیں دوسروں کے ساتھ ان موضوعات کے بارے میں بات کرتے وقت ہوشیار کیوں رہنا چاہئے؟‏

۱۳ زندگی خدا کی طرف سے ایک بیش‌قیمت تحفہ ہے۔‏ اسلئے ایک سمجھدار شخص اپنی صحت کا خیال رکھتا ہے۔‏ جب ہم بیمار پڑتے ہیں تو ہمیں اپنا علاج ضرور کروانا چاہئے۔‏ لیکن ہمیں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ اس زمانے میں کوئی بھی شخص مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہے۔‏ البتہ نئی دُنیا میں جب خدا تمام ”‏قوموں کو شفا“‏ دیگا تو اُس وقت سب لوگ صحیح معنی میں صحتیاب ہونگے۔‏ (‏مکاشفہ ۲۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ لہٰذا مسیحیوں کو اپنی صحت کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہئے کہ اُنکے پاس اپنی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے وقت ہی نہ رہے۔‏—‏متی ۵:‏۳؛‏ فلپیوں ۱:‏۱۰‏۔‏

۱۴ ہمیں دوسروں کے ساتھ صحتیاب رہنے کے مختلف طریقوں اور بیماریوں کے علاج کے بارے میں بات کرتے وقت سمجھداری سے کام لینا چاہئے۔‏ مثال کے طور پر جب ہم عبادت کے لئے اپنے بہن‌بھائیوں کے ساتھ جمع ہوتے ہیں تو ہمیں صرف ان ہی موضوعات پر گفتگو نہیں کرنی چاہئے۔‏ اس کے علاوہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جب ایک مسیحی ایک خاص قسم کے علاج کا انتخاب کرتا ہے تو اُسے بائبل کے اصولوں کے ساتھ ساتھ خدا کے ساتھ اپنی دوستی اور اپنے ضمیر کی آواز کو بھی مدِنظر رکھنا چاہئے۔‏ اگر ہم اس پر دباؤ ڈالنے لگیں کہ وہ اس معاملے میں اپنے ضمیر کے خلاف کام کرتے ہوئے ہماری سنے تو یہ اچھی بات نہ ہوگی۔‏ یہ سچ ہے کہ فیصلہ کرنے سے پہلے ایک شخص پُختہ مسیحیوں سے راہنمائی حاصل کر سکتا ہے لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ ہر ایک کو ذاتی معاملوں کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت ’‏اپنا ہی بوجھ اٹھانا‘‏ ہوگا۔‏—‏گلتیوں ۶:‏۵؛‏ رومیوں ۱۴:‏۱۲،‏ ۲۲،‏ ۲۳‏۔‏

مشکل حالات میں

۱۵.‏ دباؤ کی وجہ سے یہوواہ کے خادم کبھی‌کبھار کیا کر بیٹھتے ہیں؟‏

۱۵ جب یہوواہ کے خادم مشکل حالات کی وجہ سے دباؤ میں ہوتے ہیں تو کبھی‌کبھار وہ بھی کوئی اُلٹی‌سیدھی بات یا حرکت کر بیٹھتے ہیں۔‏ (‏واعظ ۷:‏۷‏)‏ مثال کے طور پر جب ایوب پر آزمائشوں کی بوچھار ہو رہی تھی تو اُس نے کچھ ایسی باتیں کہہ دیں جن کی وجہ سے یہوواہ خدا کو اُس کی اصلاح کرنی پڑی۔‏ (‏ایوب ۳۵:‏۲،‏ ۳؛‏ ۴۰:‏۶-‏۸‏)‏ خدا کا نبی ”‏موسیٰؔ تو رویِ‌زمین کے سب آدمیوں سے زیادہ حلیم تھا۔‏“‏ لیکن ایک موقعے پر جب اسرائیلیوں نے اُسے غصہ دلایا تو موسیٰ بےسوچے بول اُٹھا۔‏ (‏گنتی ۱۲:‏۳؛‏ ۲۰:‏۷-‏۱۲؛‏ زبور ۱۰۶:‏۳۲،‏ ۳۳‏)‏ داؤد نے خود پر قابو رکھتے ہوئے بادشاہ ساؤل کو ختم نہیں کِیا تھا۔‏ لیکن جب نابال نے اُس کی اور اُس کے آدمیوں کی بےعزتی کی تو داؤد آگ‌بگولا ہو کر اپنے ہاتھوں اپنا انتقام لینے کے لئے نکلا۔‏ یہاں تک کہ اگر ابیجیل اُسے نہ روکتی تو داؤد بڑی خونریزی کرنے پر اُتر آتا۔‏—‏۱-‏سموئیل ۲۴:‏۲-‏۷؛‏ ۲۵:‏۹-‏۱۳،‏ ۳۲،‏ ۳۳‏۔‏

۱۶.‏ جب ہم جلدبازی کرنے کے خطرے میں ہوتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۶ کبھی‌کبھار ہم بھی کسی نہ کسی وجہ سے سخت ٹینشن میں ہوتے ہیں۔‏ ایسی صورتحال میں ہم جلدبازی کرنے کے خطرے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ ہمیں دوسروں کی رائے پر غور کرنا چاہئے ٹھیک اس طرح جیسے داؤد نے ابیجیل کی سنی تھی۔‏ (‏امثال ۱۹:‏۲‏)‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”‏تھرتھراؤ اور گُناہ نہ کرو۔‏ اپنے اپنے بستر پر دل میں سوچو اور خاموش رہو۔‏“‏ (‏زبور ۴:‏۴‏)‏ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قدم اُٹھانے سے پہلے اپنا غصہ ٹھنڈا کر لینا چاہئے۔‏ (‏امثال ۱۴:‏۱۷،‏ ۲۹‏)‏ اس کے علاوہ جب ہم کسی بات پر پریشان ہوتے ہیں تو ہمیں یہوواہ خدا سے دُعا کرنی چاہئے۔‏ پھر ’‏خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے ہمارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھے گا۔‏‘‏ (‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ خدا کے اطمینان کی مدد سے ہم اپنے جذبات اور خیالات پر قابو پا کر ہوشیار رہیں گے۔‏

۱۷.‏ ہوشیار رہنے کے لئے ہمیں یہوواہ خدا کی راہنمائی پر کیوں چلنا چاہئے؟‏

۱۷ حالانکہ تمام مسیحی ہوشیار رہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہم سب سے خطا ہو جاتی ہے۔‏ (‏یعقوب ۳:‏۲‏)‏ مثال کے طور پر شاید ہم انجانے میں کوئی ایسا راستہ اختیار کرنے لگیں جو گُناہ کی طرف لے جاتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۹:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کو اپنی راہنمائی خود کرنے کی صلاحیت کے ساتھ خلق نہیں کِیا گیا۔‏ (‏یرمیاہ ۱۰:‏۲۳‏)‏ ہم خدا کے بیحد شکرگزار ہیں کیونکہ اُس نے وعدہ کِیا ہے کہ ”‏مَیں تجھے تعلیم دوں گا اور جس راہ پر تجھے چلنا ہوگا تجھے بتاؤں گا۔‏ مَیں تجھے صلاح دوں گا۔‏ میری نظر تجھ پر ہوگی۔‏“‏ (‏زبور ۳۲:‏۸‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا کی مدد سے ہم ہوشیار رہنے میں کامیاب رہیں گے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 کاروبار کی دستاویز تیار کرنے کے سلسلے میں مینارِنگہبانی مئی ۱۹۸۷،‏ صفحہ ۱۶ تا ۱۷ اور جاگو!‏ فروری ۱۹۸۴،‏ صفحہ ۲۰ تا ۲۳ کو دیکھیں جو یہوواہ کے گواہوں کے شائع‌کردہ ہیں۔‏

^ پیراگراف 12 یہ باتیں ہر ایسے علاج پر لاگو ہوتی ہیں جس کے بارے میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہو کہ آیا یہ مسیحیوں کے لئے مناسب ہے یا نہیں۔‏

آپ کا کیا جواب ہوگا؟‏

مسیحی ان معاملات میں ہوشیار کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

‏• کاروبار شروع کرنے یا اُس میں شامل ہونے کے سلسلے میں

‏• ایک جیون‌ساتھی کی تلاش میں

‏• اپنا علاج کروانے کے سلسلے میں

‏• جب وہ مشکل حالات کی وجہ سے دباؤ میں ہوتے ہیں

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۳۰ پر بکس]‏

کیا ان پر بھروسہ کِیا جا سکتا ہے؟‏

انٹرنیٹ پر شادی کے اشتہارات دینے والی کمپنیاں لوگوں کو اکثر یوں آگاہ کرتی ہیں:‏

”‏ہم اشتہار دینے والے اشخاص کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ لیکن ہم اسکی گارنٹی نہیں دے سکتے کہ اُنکی دی گئی شناخت اُن کی اصلی شناخت ہوتی ہے۔‏“‏

”‏ہم ان اشتہارات میں دی گئی تفصیلات کے سچ ہونے کی گارنٹی نہیں دے سکتے۔‏“‏

”‏ان اشتہارات میں جو معلومات پائی جاتی ہے .‏ .‏ .‏ اس پر ہمیشہ بھروسہ نہیں کِیا جا سکتا کیونکہ یہ اُن لوگوں ہی سے حاصل ہوتی ہے جو ہمیں اشتہار شائع کرنے کے لئے بھیجتے ہیں۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر]‏

‏”‏ہوشیار آدمی اپنی روِش کو دیکھتا بھالتا ہے“‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

مسیحی عورتیں شولمیت کی مثال سے کیا سیکھ سکتی ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۳۲ پر تصویر]‏

‏”‏سب باتوں کو آزماؤ۔‏ جو اچھی ہو اُسے پکڑے رہو“‏