مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏تُم جاکر شاگرد بناؤ اور بپتسمہ دو‘‏

‏’‏تُم جاکر شاگرد بناؤ اور بپتسمہ دو‘‏

‏’‏تُم جاکر شاگرد بناؤ اور بپتسمہ دو‘‏

‏”‏پس تُم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو .‏ .‏ .‏ بپتسمہ دو۔‏ اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا مَیں نے تم کو حکم دیا۔‏“‏—‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

۱.‏ بنی‌اسرائیل نے کوہِ‌سینا پر خدا کے ساتھ کیا عہد کِیا تھا؟‏

کوئی ۵۰۰،‏۳ سال پہلے ایک قوم نے خدا کیساتھ عہد کِیا۔‏ یہ قوم بنی‌اسرائیل تھی۔‏ اُنہوں نے کوہِ‌سینا کے دامن میں جمع ہوکر علانیہ کہا:‏ ”‏جوکچھ [‏یہوواہ]‏ نے فرمایا ہے وہ سب ہم کریں گے۔‏“‏ اُس وقت سے وہ خدا کے مخصوص لوگ یعنی اُسکی ”‏خاص ملکیت“‏ بن گئے۔‏ (‏خروج ۱۹:‏۵،‏ ۸؛‏ ۲۴:‏۳‏)‏ وہ نسل‌درنسل یہوواہ کی حفاظت اور پناہ کے تحت اُس مُلک میں رہنے کے منتظر تھے جس میں ”‏دودھ اور شہد بہتا ہے۔‏“‏—‏احبار ۲۰:‏۲۴‏۔‏

۲.‏ آجکل لوگ خدا کے ساتھ کیسا رشتہ قائم کر سکتے ہیں؟‏

۲ تاہم،‏ جیساکہ زبورنویس آسف نے بیان کِیا اسرائیلیوں نے ”‏خدا کے عہد کو قائم نہ رکھا اور اُس کی شریعت پر چلنے سے انکار کِیا۔‏“‏ (‏زبور ۷۸:‏۱۰‏)‏ وہ اُس عہد پر قائم نہ رہے جو اُن کے باپ‌دادا نے یہوواہ خدا کے ساتھ کِیا تھا۔‏ اسرائیلی قوم نے خدا کے ساتھ اپنا بیش‌قیمت رشتہ کھو دیا۔‏ (‏واعظ ۵:‏۴؛‏ متی ۲۳:‏۳۷،‏ ۳۸‏)‏ چنانچہ،‏ خدا نے ”‏غیرقوموں پر .‏ .‏ .‏ توجہ کی تاکہ اُن میں سے اپنے نام کی ایک اُمت بنا لے۔‏“‏ (‏اعمال ۱۵:‏۱۴‏)‏ اس اخیر زمانے میں یہوواہ ”‏ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِ‌زبان کی ایک ایسی بڑی بِھیڑ جسے کوئی شمار نہیں کر سکتا“‏ جمع کر رہا ہے۔‏ یہ بِھیڑ خوشی سے تسلیم کرتی ہے کہ ”‏نجات ہمارے خدا کی طرف سے ہے جو تخت پر بیٹھا ہے اور بّرہ کی طرف سے“‏ ہے۔‏—‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۳.‏ خدا کے ساتھ ذاتی رشتہ قائم کرنے کیلئے کسی شخص کو کونسے اقدام اُٹھانے چاہئیں؟‏

۳ اگر کوئی شخص خدا کے ساتھ بیش‌قیمت رشتہ قائم کرنا چاہتا ہے تو اُسے خود کو یہوواہ خدا کے لئے مخصوص کرنا اور پھر اس کی علامت میں علانیہ بپتسمہ لینا چاہئے۔‏ ہمارا یہ قدم یسوع مسیح کے اُس حکم کے مطابق ہے جو اُس نے اپنے شاگردوں کو دیا تھا:‏ ”‏پس تم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوح‌اُلقدس کے نام سے بپتسمہ دو اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا مَیں نے تُم کو حکم دیا۔‏“‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ اسرائیلی موسیٰ سے ”‏عہد کی کتاب“‏ کی پڑھائی سنا کرتے تھے۔‏ (‏خروج ۲۴:‏۳،‏ ۷،‏ ۸‏،‏ کیتھولک ڈوئے ورشن‏)‏ اس طرح سے وہ یہوواہ خدا کے حضور اپنی ذمہ‌داریوں کو سمجھ گئے تھے۔‏ اسی طرح آجکل بھی بپتسمہ لینے سے پہلے خدا کے کلام سے اُس کی مرضی کا دُرست علم حاصل کرنا ضروری ہے۔‏

۴.‏ کسی شخص کو بپتسمہ کے لائق ٹھہرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟‏ (‏اُوپر دئے گئے بکس کو دیکھیں۔‏)‏

۴ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یسوع چاہتا تھا کہ بپتسمہ لینے سے پہلے اُس کے شاگردوں کا ایمان مضبوط ہو۔‏ اُس نے اپنے شاگردوں کو صرف یہ حکم نہیں دیا کہ جاکر شاگرد بنائیں بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ لوگوں کو اُن سب باتوں پر عمل کرنے کی تعلیم دیں جن کا اُس نے حکم دیا تھا۔‏ (‏متی ۷:‏۲۴،‏ ۲۵؛‏ افسیوں ۳:‏۱۷-‏۱۹‏)‏ لہٰذا،‏ بپتسمے کے لائق ٹھہرنے والے اشخاص عموماً کئی مہینوں،‏ سال یا پھر دو سال تک مطالعہ کرتے ہیں تاکہ وہ یہ فیصلہ جلدبازی کی بجائے خوب سوچ‌بچار کے بعد کر سکیں۔‏ بپتسمہ کے موقع پر اُمیدوار دو اہم سوالات کے جواب ہاں میں دیتے ہیں۔‏ یسوع نے اس بات پر زور دیا کہ ’‏ہماری ہاں کا مطلب ہاں اور نہیں کا مطلب نہیں‘‏ ہونا چاہئے۔‏ اس لئے یہ اچھا ہوگا کہ ہم سب بپتسمے سے متعلق ان دونوں سوالات کی اہمیت کا بغور جائزہ لیں۔‏—‏متی ۵:‏۳۷‏۔‏

توبہ اور مخصوصیت

۵.‏ بپتسمے کا پہلا سوال کن دو بنیادی اقدام پر زور دیتا ہے؟‏

۵ بپتسمے کے پہلے سوال میں اُمیدوار سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ آیا اُس نے اپنی سابقہ روش سے توبہ کر لی ہے اور خود کو یہوواہ کی مرضی پوری کرنے کے لئے مخصوص کر لیا ہے۔‏ یہ سوال بپتسمہ سے پہلے اُٹھائے جانے والے دو اقدام یعنی توبہ اور مخصوصیت پر زور دیتا ہے۔‏

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ بپتسمہ لینے والے اشخاص کے لئے توبہ کرنا کیوں ضروری ہے؟‏ (‏ب)‏ توبہ کرنے کے بعد ایک شخص کو اپنے اندر کونسی تبدیلیاں لانی چاہئیں؟‏

۶ بپتسمہ لینے سے پہلے ایک شخص کو توبہ کیوں کرنی چاہئے؟‏ پولس رسول وضاحت کرتا ہے:‏ ”‏ہم بھی سب کے سب پہلے اپنے جسم کی خواہشوں میں زندگی گذارتے“‏ تھے۔‏ (‏افسیوں ۲:‏۳‏)‏ خدا کی مرضی کا صحیح علم حاصل کرنے سے پہلے ہم دُنیا کے معیاروں اور اصولوں کے مطابق زندگی گزار رہے تھے۔‏ ہم اس جہان کے خدا شیطان کے طریقوں سے زندگی بسر کر رہے تھے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۴‏)‏ تاہم،‏ خدا کی مرضی کو جاننے کے بعد ہم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ”‏آیندہ کو اپنی باقی جسمانی زندگی آدمیوں کی خواہشوں کے مطابق“‏ گزارنے کی بجائے ”‏خدا کی مرضی کے مطابق“‏ گزاریں گے۔‏—‏۱-‏پطرس ۴:‏۲‏۔‏

۷ اس نئے طریقے کے مطابق زندگی بسر کرنے سے بہت سی برکات حاصل ہوتی ہیں۔‏ سب سے بڑھکر،‏ اس سے ایک شخص یہوواہ کے ساتھ بیش‌قیمت رشتہ رکھنے کے قابل ہوتا ہے۔‏ داؤد نے اس کا موازنہ خدا کے ”‏خیمہ“‏ اور ”‏کوہِ‌مُقدس“‏ پر سکونت کرنے کی دعوت کے ساتھ کِیا۔‏ واقعی،‏ یہ ایک شاندار شرف ہے۔‏ (‏زبور ۱۵:‏۱‏)‏ یہوواہ ہر کسی کو یہ دعوت نہیں دیتا بلکہ صرف اُسی کو ”‏جو راستی سے چلتا اور صداقت کا کام کرتا اور دل سے سچ بولتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۵:‏۲‏)‏ سچائی سیکھنے سے پہلے ہمارے حالات شاید مختلف تھے اس لئے ہو سکتا ہے کہ اس آیت میں درج تقاضوں پر پورا اُترنے کے لئے ہمیں اپنے چال‌چلن اور شخصیت دونوں میں کچھ تبدیلیاں لانی پڑی ہوں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹-‏۱۱؛‏ کلسیوں ۳:‏۵-‏۱۰‏)‏ توبہ ہمیں ایسی تبدیلیاں لانے کی تحریک دیتی ہے۔‏ توبہ کا کیا مطلب ہے؟‏ اس کا مطلب اپنے پُرانے طورطریقوں پر پشیمان ہونا یا پچھتانا اور یہوواہ کو خوش کرنے کا پُختہ ارادہ کرنا ہے۔‏ اس کا مطلب ہے کہ توبہ کرنے کے بعد ایک شخص اپنی زندگی میں مکمل تبدیلی لے آتا ہے۔‏ وہ ایک خودغرض دُنیاوی زندگی کو چھوڑ دیتا اور اس طریقے سے زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے جس سے خدا خوش ہوتا ہے۔‏—‏اعمال ۳:‏۱۹‏۔‏

۸.‏ مخصوصیت کرنے کا طریقہ کیا ہے،‏ اور اس کا بپتسمے سے کیا تعلق ہے؟‏

۸ پہلے سوال کے دوسرے حصے میں بپتسمہ پانے والے اُمیدواروں سے پوچھا جاتا ہے کہ آیا اُنہوں نے خود کو یہوواہ کی مرضی پوری کرنے کے لئے مخصوص کر لیا ہے۔‏ مخصوصیت بپتسمے سے پہلے اُٹھایا جانے والا ایک اہم قدم ہے۔‏ اس میں بپتسمہ لینے سے پہلے دُعا کے ذریعے ہم خدا کے حضور اپنی اس دلی خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی یسوع مسیح کے وسیلے سے یہوواہ خدا کے لئے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۷،‏ ۸؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۵‏)‏ اس طرح یہوواہ ہمارا مالک بن جاتا ہے اور یسوع مسیح کی طرح ہم بھی خدا کی مرضی پوری کرنے سے خوش ہوتے ہیں۔‏ (‏زبور ۴۰:‏۸؛‏ افسیوں ۶:‏۶‏)‏ یہوواہ خدا سے یہ سنجیدہ وعدہ زندگی میں صرف ایک بار کِیا جاتا ہے۔‏ چونکہ ہم خدا کے حضور دُعا میں مخصوصیت کرتے ہیں۔‏ اس لئے بپتسمے کے دن ہمارے علانیہ اظہار سے ہر ایک اس بات سے واقف ہو جاتا ہے کہ ہم نے خود کو اپنے آسمانی باپ کے لئے مخصوص کر لیا ہے۔‏—‏رومیوں ۱۰:‏۱۰‏۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ (‏ا)‏ خدا کی مرضی پوری کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ (‏ب)‏ نازی افسروں نے بھی ہماری مخصوصیت کو کیسا خیال کِیا؟‏

۹ خدا کی مرضی پوری کرنے کے لئے یسوع کے نمونے پر چلنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔‏“‏ (‏متی ۱۶:‏۲۴‏)‏ یہاں پر یسوع مسیح نے تین خاص اقدام کی نشاندہی کی جو ہمیں اُٹھانے چاہئیں۔‏ پہلا قدم اپنی ”‏خودی کا انکار“‏ کرنا ہے۔‏ دوسرے لفظوں میں ہم اپنی خودغرضانہ اور گنہگارانہ خواہشات سے انکار کرنے اور خدا کی ہدایت اور راہنمائی قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔‏ دوسرا قدم ”‏اپنی صلیب“‏ اُٹھانا ہے۔‏ یسوع کے زمانے میں صلیب کو دُکھ اور رسوائی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔‏ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسیحیوں کے طور پر،‏ ہم خوشخبری کی خاطر دُکھ سہنے کے لئے تیار ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۱:‏۸‏)‏ دُنیا ہمیں تمسخر اور مذاق کا نشانہ بناتی ہے۔‏ لیکن ہم مسیح کی طرح ”‏شرمندگی کی پروا نہ“‏ کرتے ہوئے اس بات سے خوش ہوتے ہیں کہ ہم یہ سب کچھ خدا کے دل کو شاد کرنے کے لئے کر رہے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۲‏)‏ آخر میں یہ کہ ہم یسوع مسیح کے ”‏پیچھے ہو لیتے“‏ ہیں۔‏—‏زبور ۷۳:‏۲۶؛‏ ۱۱۹:‏۴۴؛‏ ۱۴۵:‏۲‏۔‏

۱۰ یہوواہ خدا کے لئے ہماری مخصوصیت بغیر کسی شرط کے ہے۔‏ دلچسپی کی بات ہے کہ بعض مخالفین بھی یہوواہ کے گواہوں کے اس قدم کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ نازی جرمنی کے ایک اذیتی کیمپ میں اپنے ایمان پر قائم رہنے والے گواہوں کو ایک تحریری دستاویز پر دستخط کرنے کے لئے کہا گیا۔‏ اس دستاویز پر یوں لکھا ہوا تھا:‏ ”‏مَیں ابھی تک ایک وفادار بائبل طالبعلم ہوں اور مَیں یہوواہ خدا سے کئے گئے اپنے وعدے کو کبھی نہیں توڑوں گا۔‏“‏ یہ الفاظ خدا کے تمام وفادار مخصوص‌شُدہ خادموں کے رُجحان کی شاندار عکاسی کرتے ہیں!‏—‏اعمال ۵:‏۳۲‏۔‏

یہوواہ کے گواہوں کے طور پر ہماری شناخت

۱۱.‏ بپتسمہ لینے والے شخص کو کونسا شرف حاصل ہوتا ہے؟‏

۱۱ دوسرے سوال میں اُمیدوار سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ آیا وہ اس بات کو سمجھ گیا ہے کہ اُس کا بپتسمہ اُس کی شناخت یہوواہ کے گواہ کے طور پر کراتا ہے۔‏ بپتسمے کے بعد،‏ وہ یہوواہ کے نام سے کہلانے والا ایک مقررشُدہ خادم بن جاتا ہے۔‏ یہ ایک شرف کے ساتھ ساتھ سنجیدہ ذمہ‌داری بھی ہے۔‏ بپتسمہ‌یافتہ شخص کو یہوواہ خدا کا وفادار رہنے کی صورت میں ابدی نجات کی اُمید بھی حاصل ہوتی ہے۔‏—‏متی ۲۴:‏۱۳‏۔‏

۱۲.‏ یہوواہ کے نام سے کہلانے کا اعزاز کونسی ذمہ‌داری لاتا ہے؟‏

۱۲ یقیناً،‏ قادرِمطلق خدا یہوواہ کے نام سے کہلانا ہی ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔‏ میکاہ نبی نے لکھا:‏ ”‏سب اُمتیں اپنے اپنے معبود کے نام سے چلیں گی پر ہم ابدالآباد تک [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کے نام سے چلیں گے۔‏“‏ (‏میکاہ ۴:‏۵‏)‏ تاہم،‏ اس اعزاز کے ساتھ ایک ذمہ‌داری بھی آتی ہے۔‏ ہمیں اپنی زندگی ایسے طریقے سے بسر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو یہوواہ خدا کے لئے جس کے نام سے ہم کہلاتے ہیں جلال کا باعث بنے۔‏ جیساکہ پولس رسول نے روم کے مسیحیوں کو یاد دلایا کہ اگر کوئی شخص دوسروں کو منادی کرتا ہے اور خود اُس کے مطابق عمل نہیں کرتا تو اس سبب سے خدا کے نام پر ”‏کفر بکا جاتا ہے“‏ یعنی اس سے خدا کے نام کی بدنامی ہوتی ہے۔‏—‏رومیوں ۲:‏۲۱-‏۲۴‏۔‏

۱۳.‏ یہوواہ کے مخصوص‌شُدہ خادموں پر گواہی دینے کی ذمہ‌داری کیوں عائد ہوتی ہے؟‏

۱۳ جب کوئی شخص یہوواہ کا گواہ بنتا ہے تو وہ یہوواہ خدا کی گواہی دینے کی ذمہ‌داری بھی قبول کرتا ہے۔‏ یہوواہ خدا نے اسرائیل کی مخصوص‌شُدہ قوم کو اپنی ابدی الوہیت یعنی معبودیت کی گواہی دینے کی دعوت دی تھی۔‏ (‏یسعیاہ ۴۳:‏۱۰-‏۱۲،‏ ۲۱‏)‏ لیکن وہ قوم اس ذمہ‌داری کو پورا کرنے میں ناکام ہو گئی اور بالآخر یہوواہ خدا کی خوشنودی کھو بیٹھی۔‏ آجکل سچے مسیحی یہوواہ کی گواہی دینے کے شرف پر فخر کرتے ہیں۔‏ اسلئےکہ ہم یہوواہ خدا سے محبت کرتے اور اس کے نام کو جلال دینا چاہتے ہیں۔‏ ہم اپنے آسمانی باپ اور اُس کے مقصد کے بارے میں سچائی جاننے کے بعد خاموش نہیں رہ سکتے۔‏ ہم پولس رسول کی طرح محسوس کرتے ہیں جس نے کہا:‏ ”‏یہ تو میرے لئے ضروری بات ہے بلکہ مجھ پر افسوس ہے اگر خوشخبری نہ سناؤں۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۱۶‏۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ (‏ا)‏ یہوواہ کی تنظیم ہماری روحانی ترقی میں کیا کردار ادا کرتی ہے؟‏ (‏ب)‏ روحانی طور پر ہماری مدد کرنے کے لئے کونسی چیزیں دستیاب ہیں؟‏

۱۴ دوسرا سوال بپتسمے کے اُمیدوار کو یہوواہ کی پاک رُوح سے ہدایت پانے والی تنظیم کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ذمہ‌داری کی یاددہانی کراتا ہے۔‏ ہم تنہا خدا کی خدمت نہیں کر سکتے۔‏ ہمیں عالمگیر ”‏برادری“‏ کی مدد،‏ حمایت اور حوصلہ‌افزائی کی ضرورت ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۷؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ خدا کی تنظیم ہماری روحانی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔‏ یہ بائبل پر مبنی بیشمار کتابیں فراہم کرتی ہے۔‏ جن سے دُرست علم حاصل کرنے میں ہماری مدد ہوتی ہے۔‏ مشکلات کا سامنا کرتے وقت دانشمندی سے چلیں۔‏ اس کے علاوہ خدا کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ پیدا کریں۔‏ جس طرح ایک ماں اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ اُس کے بچے نے اچھی طرح کھانا کھایا ہے اور یہ کہ اُس کی پرورش اچھی طرح ہو رہی ہے۔‏ اسی طرح ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ ہماری روحانی ترقی کے لئے وقت پر افراط سے روحانی خوراک مہیا کرتا ہے۔‏—‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۷،‏ ۸‏۔‏

۱۵ یہوواہ کے لوگ اُس کے وفادار گواہ بننے کیلئے عبادت کے ہفتہ‌وار پروگراموں کے ذریعے ضروری تربیت اور حوصلہ‌افزائی حاصل کرتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ ان عبادتی پروگراموں میں مسیحی خدمتی سکول ہمیں لوگوں کو گواہی دینا سکھاتا ہے اور خدمتی اجلاس ہمیں اپنے پیغام کو مؤثر طور پر پیش کرنے میں مدد دیتا ہے۔‏ اپنے عبادتی پروگراموں اور بائبل پر مبنی کتابوں کے ذریعے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ کی رُوح سرگرمِ‌عمل ہے اور اُس کی تنظیم کی راہنمائی کر رہی ہے۔‏ ان تمام چیزوں کے ذریعے خدا ہمیں خطرات سے آگاہ کرتا،‏ مؤثر خادم بننے کے لئے تربیت دیتا اور روحانی طور پر جاگتے رہنے میں مدد کرتا ہے۔‏—‏زبور ۱۹:‏۷،‏ ۸،‏ ۱۱؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۶،‏ ۱۱؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱۳‏۔‏

بپتسمہ لینے کی خاص وجہ

۱۶.‏ کونسی چیز ہمیں خود کو یہوواہ خدا کے لئے مخصوص کرنے کی تحریک دیتی ہے؟‏

۱۶ بپتسمے کے دونوں سوال اُمیدواروں کو پانی میں بپتسمہ لینے کی اہمیت اور اس کے بعد آنے والی ذمہ‌داریوں کی یاد دلاتے ہیں۔‏ پس اُن کے بپتسمہ لینے کی خاص وجہ کیا ہے؟‏ ہم بپتسمہ لینے کا فیصلہ کسی مجبوری کے باعث نہیں کرتے۔‏ ہمارے بپتسمہ‌یافتہ شاگرد بننے کی وجہ یہ ہے کہ یہوواہ ہمیں اپنی طرف ’‏کھینچتا‘‏ ہے۔‏ (‏یوحنا ۶:‏۴۴‏)‏ ”‏خدا محبت ہے“‏ اس لئے وہ پوری کائنات پر قوت کے زور پر زبردستی حکومت کرنے کی بجائے محبت سے حکمرانی کرتا ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۴:‏۸‏)‏ ہم یہوواہ کی خوبیوں اور ہمارے ساتھ اُس کے برتاؤ کی وجہ سے اُس کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔‏ یہوواہ نے ہمارے لئے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا ہے اور وہ ہمیں شاندار مستقبل کی پیشکش بھی کرتا ہے۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ یہ تمام وجوہات ہمیں اپنی زندگی خدا کے لئے مخصوص کرنے کی تحریک دیتی ہیں۔‏—‏امثال ۳:‏۹؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

۱۷.‏ ہماری مخصوصیت کس چیز کے لئے نہیں ہے؟‏

۱۷ ہم اپنے آپ کو کسی خاص کام یا مقصد کے لئے نہیں بلکہ یہوواہ خدا کے لئے مخصوص کرتے ہیں۔‏ یہوواہ کا اپنے بندوں کو سونپا گیا کام تو بدل سکتا ہے لیکن اُس کے لئے اُن کی مخصوصیت کبھی نہیں بدلتی۔‏ مثال کے طور پر،‏ ابرہام کو سونپا گیا کام اُس کام سے بالکل مختلف تھا جو یرمیاہ کو دیا گیا تھا۔‏ (‏پیدایش ۱۳:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ یرمیاہ ۱:‏۶،‏ ۷‏)‏ تاہم،‏ اُن دونوں نے خدا کی طرف سے دئے گئے کام کو پورا کِیا تھا۔‏ اسلئےکہ وہ یہوواہ خدا سے محبت رکھتے اور وفاداری سے اُس کی مرضی پوری کرنا چاہتے تھے۔‏ اس اخیر زمانے میں بھی،‏ مسیح کے تمام بپتسمہ‌یافتہ شاگرد خوشخبری کی منادی کرنے اور شاگرد بنانے کے اُس کے حکم پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ اس کام کو پورے دل‌وجان سے کرنا اس بات کا اظہار کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ ہم اپنے آسمانی باپ سے محبت کرتے ہیں اور اس کے سچے مخصوص‌شُدہ خادم ہیں۔‏—‏۱-‏یوحنا ۵:‏۳‏۔‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ (‏ا)‏ ہم اپنے بپتسمے کے ذریعے درحقیقت کونسا علانیہ اقرار کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں کس بات پر غور کِیا جائے گا؟‏

۱۸ بپتسمہ بہت سی برکات حاصل کرنے کی راہ کھول دیتا ہے۔‏ لیکن اسے کبھی بھی ایک معمولی قدم خیال نہیں کرنا چاہئے۔‏ (‏لوقا ۱۴:‏۲۶-‏۳۳‏)‏ یہ ہمارے اُس عزم کو ظاہر کرتا ہے جو دوسری کسی بھی ذمہ‌داری سے زیادہ اہم ہے۔‏ (‏لوقا ۹:‏۶۲‏)‏ جب ہم بپتسمہ لیتے ہیں تو ہم درحقیقت اس بات کا علانیہ اقرار کر رہے ہوتے ہیں:‏ ”‏خدا ابدالآباد ہمارا خدا ہے۔‏ یہی موت تک ہمارا ہادی رہے گا۔‏“‏—‏زبور ۴۸:‏۱۴‏۔‏

۱۹ اگلے مضمون میں بپتسمے سے متعلق اُٹھنے والے دیگر سوالات پر بات کی جائے گی۔‏ ہو سکتا ہے کہ بپتسمہ نہ لینے کی کوئی معقول وجہ ہو؟‏ کیا اس کی ایک وجہ عمر ہو سکتی ہے؟‏ کیسے تمام لوگ بپتسمے کے موقع کو باوقار بنانے میں حصہ لے سکتے ہیں؟‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہر مسیحی کو بپتسمے سے پہلے توبہ کیوں کرنی چاہئے؟‏

‏• خدا کے لئے مخصوصیت کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

‏• یہوواہ کے نام سے کہلانے کا اعزاز کونسی ذمہ‌داریاں لاتا ہے؟‏

‏• کس بات کو ہمیں بپتسمہ لینے کی تحریک دینی چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر بکس/‏تصویر]‏

بپتسمے کے دو سوال

کیا آپ نے یسوع مسیح کی قربانی کی بِنا پر اپنے گناہوں سے توبہ کر لی ہے اور خود کو یہوواہ کی مرضی پوری کرنے کے لئے مخصوص کر لیا ہے؟‏

کیا آپ سمجھ گئے ہیں کہ آپ کی مخصوصیت اور بپتسمہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ یہوواہ کے گواہ ہیں اور اُسکی پاک روح سے ہدایت پانے والی تنظیم کے ساتھ رفاقت رکھتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

مخصوصیت دُعا میں یہوواہ خدا کے ساتھ کِیا جانے والا ایک سنجیدہ وعدہ ہے

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

ہماری منادی خدا کے لئے ہماری مخصوصیت کو ظاہر کرتی ہے