مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مُردوں کے لئے کیا اُمید ہے؟‏

مُردوں کے لئے کیا اُمید ہے؟‏

مُردوں کے لئے کیا اُمید ہے؟‏

لعزر یسوع مسیح کا ایک بہت قریبی دوست تھا۔‏ وہ یروشلیم سے تین کلومیٹر [‏دو میل]‏ دُور اپنی بہنوں مرتھا اور مریم کے ساتھ رہتا تھا۔‏ لعزر اچانک سخت بیمار پڑ گیا۔‏ اُس کی بہنیں اُس کے لئے بہت پریشان تھیں۔‏ مرتھا اور مریم نے لعزر کی بیماری کے بارے میں یسوع کو پیغام بھیجا۔‏ پیغام ملنے کے دو دِن بعد یسوع لعزر کو ملنے کے لئے روانہ ہوا۔‏ راستے میں یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ وہ لعزر کو جگانے جا رہا ہے۔‏ پہلے تو یسوع کے شاگرد اُس کی بات سمجھ نہیں پائے لیکن پھر یسوع نے اُن کو صاف صاف بتایا کہ ”‏لعزر مر گیا“‏ ہے۔‏—‏یوحنا ۱۱:‏۱-‏۱۴‏۔‏

جب یسوع اُس غار پر پہنچا جس میں لعزر کی قبر تھی تو اُس نے کہا کہ غار کے مُنہ سے پتھر ہٹا دو۔‏ پھر یسوع نے دُعا مانگی اور کہا:‏ ”‏اَے لعزؔر نکل آ۔‏“‏ اس پر لعزر جو چار دِن سے مُردہ تھا قبر میں سے نکل آیا۔‏—‏یوحنا ۱۱:‏۳۸-‏۴۴‏۔‏

اِس واقعے سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہم مُردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔‏ لیکن کیا لعزر واقعی جی اُٹھا تھا؟‏ خدا کا کلام اِس معجزے کو سچ قرار دیتا ہے۔‏ مہربانی سے انجیل میں یوحنا ۱۱:‏۱-‏۴۴ کو پڑھیں۔‏ اس بیان کو پڑھنے کے بعد آپ اِس کی حقیقت کو جان سکیں گے۔‏ کیا اِس بات میں شک کی کوئی گنجائش ہے کہ یہ معجزہ واقع ہوا تھا؟‏ اگر ایسا ہے توپھر خدا کے کلام میں درج ہر معجزے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور اِن معجزوں میں یسوع مسیح کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا بھی شامل ہے۔‏ خدا کا کلام بیان کرتا ہے:‏ ”‏اگر مسیح نہیں جی اُٹھا تو تمہارا ایمان بیفائدہ ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۱۷‏)‏ خدا کے کلام میں مُردوں کا جی اُٹھنا ایک بنیادی عقیدہ ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۶:‏۱،‏ ۲‏)‏ لیکن جی اُٹھنے سے کیا مراد ہے؟‏

جی اُٹھنے سے کیا مراد ہے؟‏

جس یونانی لفظ کا ترجمہ جی اُٹھنا کِیا جاتا ہے،‏ اس کا لفظی مطلب ”‏دوبارہ اُٹھ کھڑے ہونا“‏ ہے۔‏ عبرانی زبان میں اس کو ”‏مُردوں کا زندہ کِیا جانا“‏ کہتے ہیں۔‏ لیکن مرنے کے بعد ایک شخص کس لحاظ سے مُردوں میں سے زندہ کِیا جاتا ہے؟‏ مرنے کے بعد جسم خاک میں مل جاتا ہے۔‏ لہٰذا جب مُردے جی اُٹھتے ہیں تو وہ ایک نئے جسم کے ساتھ زندہ کئے جاتے ہیں لیکن اُن کی شخصیت وہی ہوتی ہے جو مرنے سے پہلے تھی۔‏ اِس کے علاوہ اُس شخص کی یادداشت بھی مکمل طور پر بحال ہو جاتی ہے۔‏

یہوواہ خدا ہمارا خالق ہے اِس لئے وہ بڑی آسانی سے ایک شخصیت کو ایک نئے جسم کے ساتھ زندہ کر سکتا اور اُس کی یادداشت بھی واپس دے سکتا ہے۔‏ (‏زبور ۳۶:‏۹؛‏ یسعیاہ ۴۰:‏۲۶‏)‏ اس کے علاوہ خدا کا کلام ہمیں بتاتا ہے کہ اُسے مُردوں کو زندہ کرنے کی ”‏رغبت“‏ یعنی دلی خواہش ہے۔‏ (‏ایوب ۱۴:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ ہم اِس بات کے کتنے شکرگزار ہیں کہ یہوواہ خدا نہ صرف مُردوں کو جی اُٹھا سکتا ہے بلکہ وہ ایسا کرنے کی خواہش بھی رکھتا ہے۔‏

یسوع مسیح بھی مُردوں کو جی اُٹھانے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏جس طرح باپ مُردوں کو اُٹھاتا اور زندہ کرتا ہے اسی طرح بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے زندہ کرتا ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۱‏)‏ لعزر کو زندہ کرنے سے یسوع نے یہ ظاہر کِیا کہ وہ نہ صرف مُردوں کو جی اُٹھا سکتا ہے بلکہ وہ ایسا کرنے کی خواہش بھی رکھتا ہے۔‏

اِس عقیدے کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے کہ مرنے کے بعد ایک شخص کی روح زندہ رہتی ہے۔‏ اِس عقیدے اور مُردہ لوگوں کے جی اُٹھنے کے عقیدے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔‏ کیونکہ اگر ہمارے اندر روح ہے جو مرنے کے بعد زندہ رہتی ہے توپھر مُردہ لوگوں کو جی اٹھانے کا کوئی مقصد نہ ہوتا۔‏ لعزر کی بہن مرتھا اِس بات پر ایمان نہیں رکھتی تھی کہ مرنے کے بعد اُس کے بھائی کی روح زندہ تھی۔‏ مرتھا تو مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتی تھی۔‏ جب یسوع نے اُسے دلاسا دیتے ہوئے کہا کہ ”‏تیرا بھائی جی اُٹھے گا“‏ تو مرتھا نے جواب میں کہا:‏ ”‏مَیں جانتی ہوں کہ قیامت میں آخری دن جی اُٹھے گا۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ لعزر نے بھی جی اُٹھنے کے بعد اِس بات کا ذکر نہیں کِیا کہ اُس کی روح کہیں زندہ تھی۔‏ خدا کا کلام ہمیں صاف بتاتا ہے:‏ ”‏پاتال [‏یعنی قبر]‏ میں جہاں تُو جاتا ہے نہ کام ہے نہ منصوبہ۔‏ نہ علم نہ حکمت۔‏“‏—‏واعظ ۹:‏۵،‏ ۱۰‏۔‏

خدا کے کلام کے مطابق موت کو ختم کرنے کے لئے مُردوں کو اُٹھایا جائے گا۔‏ لیکن مُردوں میں سے کون جی اُٹھیں گے اور وہ کہاں جی اُٹھیں گے؟‏

کون لوگ جی اُٹھیں گے؟‏

یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اُس کی آواز سُن کر نکلیں گے۔‏“‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ یسوع قبروں میں موجود اُن لوگوں کو آواز دے گا جو یہوواہ خدا کی یادداشت میں ہیں۔‏ توپھر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ وہ لوگ کون ہیں جو یہوواہ خدا کی یادداشت میں ہیں اور جنہیں زندہ کِیا جائے گا؟‏

پاک صحائف میں عبرانیوں ۱۱ باب میں مُردوں میں سے زندہ ہونے والے نیک اشخاص کے نام دئے جاتے ہیں۔‏ اِن کے علاوہ خدا کے دیگر وفادار خادم جو حال ہی میں فوت ہوئے ہیں،‏ وہ بھی زندہ کئے جائیں گے۔‏ لیکن ایسے لوگوں کا کیا ہوگا جنہوں نے اپنی زندگی خدا کے معیاروں کے مطابق نہیں گزاری؟‏ شاید ایسے لوگوں کو خدا کے معیاروں کا علم نہیں تھا۔‏ کیا وہ بھی یہوواہ خدا کی یادداشت میں ہیں؟‏ جی‌ہاں،‏ اِن میں سے بہتیرے خدا کی یادداشت میں ہیں۔‏ خدا کا کلام وعدہ کرتا ہے کہ ”‏راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی۔‏“‏—‏اعمال ۲۴:‏۱۵‏۔‏

لیکن ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کو مُردوں میں سے نہیں جی اُٹھایا جائے گا۔‏ خدا کا کلام بیان کرتا ہے:‏ ”‏حق کی پہچان حاصل کرنے کے بعد اگر ہم جان‌بُوجھ کر گُناہ کریں تو گُناہوں کی کوئی اور قربانی باقی نہیں رہی۔‏ ہاں عدالت کا ایک ہولناک انتظار .‏ .‏ .‏ باقی ہے۔‏“‏ ‏(‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ کئی لوگوں نے ایسے گُناہ کئے ہیں جن کے لئے اُنہیں معاف نہیں کِیا جائے گا۔‏ ایسے لوگ حادث میں نہیں ہیں۔‏ (‏حادث اُس علامتی جگہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں ایسے مُردے موت کی نیند سو رہے ہیں جنہیں دوبارہ سے زندہ کِیا جائے گا۔‏)‏ بلکہ یہ لوگ جہنم میں ہیں اور جہنم ابدی ہلاکت کی علامت ہے۔‏ (‏متی ۲۳:‏۳۳‏)‏ ہمیں خبردار رہنا چاہئے کہ ہم خود اِس بات کا فیصلہ نہ کرنا شروع کر دیں کہ کون سا شخص زندہ کِیا جائے گا اور کون نہیں۔‏ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ صرف خدا لوگوں کی عدالت کرتا ہے اور صرف وہی جانتا ہے کہ حادث میں کون ہے اور جہنم میں کون ہے۔‏ ہمیں صرف یہ چاہئے کہ ہم اپنی زندگی خدا کی مرضی کے مطابق گزاریں۔‏

آسمان پر کون زندہ کئے جائیں گے؟‏

یسوع کو سب سے منفرد طریقے سے زندہ کِیا گیا تھا۔‏ یسوع ”‏جسم کے اعتبار سے تو مارا گیا لیکن روح کے اعتبار سے زندہ کِیا گیا۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۸‏)‏ کسی اَور انسان کو اِس طرح سے نہیں جی اُٹھایا گیا تھا۔‏ یسوع مسیح نے خود کہا کہ ”‏آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سوا اس کے جو آسمان سے اُترا یعنی ابنِ‌آدم جو آسمان میں ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ ابنِ‌آدم یعنی یسوع مسیح پہلا انسان تھا جس کو ایک روحانی ہستی کے طور پر زندہ کِیا گیا تھا۔‏ (‏اعمال ۲۶:‏۲۳‏)‏ یسوع کے بعد اَوروں کو بھی روحانی ہستی کے طور پر زندہ کیا جانا تھا،‏ ”‏لیکن ہر ایک اپنی باری سے۔‏ پہلا پھل مسیح۔‏ پھر مسیح کے آنے پر اُس کے لوگ۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۳‏۔‏

ایک چھوٹا گروہ جو ’‏مسیح کے لوگ‘‏ کہلاتے ہیں،‏ ایک خاص مقصد کے تحت آسمان پر زندہ کِیا جائے گا۔‏ (‏رومیوں ۶:‏۵‏)‏ یہ لوگ یسوع مسیح کے ساتھ ”‏زمین پر بادشاہی“‏ کریں گے۔‏ (‏مکاشفہ ۵:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ اِس کے علاوہ یہ لوگ کاہنوں کے طور پر بھی خدمت انجام دیں گے کیونکہ وہ انسانوں پر سے آدم کے گُناہ کے اثر کو مٹانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔‏ (‏رومیوں ۵:‏۱۲‏)‏ یسوع مسیح کے ساتھ بادشاہوں اور کاہنوں کے طور پر خدمت کرنے والے اِن لوگوں کی کُل تعداد ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۴:‏۱،‏ ۳‏)‏ جی اُٹھنے پر اُنہیں کس قسم کا جسم دیا جائے گا؟‏ خدا کا کلام ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ایک ”‏روحانی جسم“‏ پائیں گے۔‏ اِس طرح وہ آسمان پر رہنے کے قابل ہوں گے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳۵،‏ ۳۸،‏ ۴۲-‏۴۵‏۔‏

آسمان پر رہنے کی اُمید رکھنے والے لوگ کب جی اُٹھائے جاتے ہیں؟‏ پہلا کرنتھیوں ۱۵:‏۲۳ میں بتایا جاتا ہے کہ ”‏مسیح کے آنے پر“‏ وہ لوگ زندہ کئے جائیں گے۔‏ دُنیا کے حالات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سن ۱۹۱۴ میں ’‏مسیح کا آنا‘‏ اور ’‏دُنیا کا آخری زمانہ‘‏ شروع ہوا تھا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۳-‏۷‏)‏ اِسلئے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ آسمان پر رہنے کی اُمید رکھنے والے ۱۹۱۴ سے جی اُٹھائے جا رہے ہیں۔‏ وہ مسیحی جو آسمان پر رہنے کی اُمید رکھتے ہیں اور جو ابھی تک زندہ ہیں،‏ وہ ”‏ایک دم میں۔‏ ایک پل میں“‏ یعنی اپنی موت کے فوراً بعد زندہ کئے جائیں گے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۲‏)‏ چونکہ آسمان پر رہنے کی اُمید رکھنے والے ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ افراد اُن سے پہلے جی اُٹھائے جاتے ہیں جو زمین پر رہنے کی اُمید رکھتے ہیں اِسلئے اسے ”‏پہلی قیامت“‏ کہا جاتا ہے۔‏—‏مکاشفہ ۲۰:‏۶‏۔‏

زمین پر کون زندہ کئے جائیں گے؟‏

پاک صحائف کے مطابق مُردوں میں سے جی اُٹھنے والوں کی اکثریت زمین پر زندہ کی جائے گی۔‏ (‏زبور ۳۷:‏۲۹؛‏ متی ۶:‏۱۰‏)‏ اِس بات کی وضاحت کرتے ہوئے یوحنا رسول نے لکھا:‏ ”‏سمندر نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیا اور موت اور عالمِ‌ارواح نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیا اور اُن میں سے ہر ایک کے اعمال کے موافق اُس کا انصاف کِیا گیا۔‏ پھر موت اور عالمِ‌ارواح آگ کی جھیل میں ڈالے گئے۔‏ یہ آگ کی جھیل دوسری موت ہے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۲۰:‏۱۱-‏۱۴‏)‏ وہ لوگ جو عالمِ‌ارواح یعنی حادث میں ہیں خدا کی یادداشت میں ہیں اور اِن میں سے ہر ایک کو موت کی قید سے آزاد کِیا جائے گا۔‏ (‏زبور ۱۶:‏۱۰؛‏ اعمال ۲:‏۳۱‏)‏ ان لوگوں کی عدالت اُن کاموں کی بِنا پر کی جائے گی جو وہ جی اُٹھنے کے بعد کریں گے۔‏ پھر حادث اور موت کو آگ کی جھیل میں ڈالا جائے گا۔‏ آدم کے گُناہ کی وجہ سے ہم نے موت ورثے میں پائی ہے لیکن اُس وقت موت کا ہم پر اثر ختم ہو جائے گا۔‏

ذرا سوچیں کہ یہ اُن لوگوں کے لئے کیا ہی شاندار اُمید ہے جن کا کوئی عزیز فوت ہو گیا ہے۔‏ جب یسوع نے ایک بیوہ کے اکلوتے بیٹے کو مُردوں میں سے جی اُٹھایا تھا تو اُس کی ماں بہت خوش ہوئی۔‏ (‏لوقا ۷:‏۱۱-‏۱۷‏)‏ خدا کا کلام ہمیں بتاتا ہے کہ جب یسوع نے ایک بارہ سالہ لڑکی کو جی اُٹھایا تو اُس کے والدین بہت ہی ”‏حیران ہوئے۔‏“‏ (‏مرقس ۵:‏۲۱-‏۲۴،‏ ۳۵-‏۴۲؛‏ لوقا ۸:‏۴۰-‏۴۲،‏ ۴۹-‏۵۶‏)‏ واقعی جب ہمارے عزیز مُردوں میں سے جی اُٹھیں گے تو ہمیں دلی خوشی ہوگی۔‏

ایک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق،‏ ”‏بہتیرے لوگ موت سے ڈرتے ہیں اور اِس کے بارے میں سوچنے سے گریز کرتے ہیں۔‏“‏ لیکن ایسا کیوں ہے؟‏ اِسلئے کہ بہتیرے لوگ یہ نہیں جانتے کہ مُردے کس حالت میں ہیں۔‏ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موت ایک ایسی بھیانک چیز ہے جس سے ڈرنا چاہئے۔‏ لیکن مُردوں کے بارے میں سچائی جاننے سے ہم پر کیا اثر ہوتا ہے؟‏ چونکہ ہم مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جانتے ہیں اِسلئے ’‏پچھلے دُشمن‘‏ یعنی موت کا سامنا کرتے وقت ہم خوفزدہ نہیں ہوں گے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۶‏)‏ اِسکے علاوہ جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو اِس سچائی کو جاننے سے کہ مُردہ لوگ جی اُٹھیں گے ہمارا درد ہلکا ہو جاتا ہے۔‏

لیکن زمین پر مُردے کب اُٹھائے جائیں گے؟‏ آج یہ دُنیا تشدد،‏ لڑائی اور خون‌خرابے سے بھری ہوئی ہے۔‏ ہماری زمین کی فضا کو آلودہ کِیا جا رہا ہے۔‏ اگر مُردوں کو ایک ایسی دُنیا میں جی اُٹھایا جاتا تو وہ زندگی سے صرف چند دنوں تک لطف اُٹھاتے۔‏ لیکن ہمارے خالق نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ شیطان کے اِس نظام کو ختم کر دے گا۔‏ (‏امثال ۲:‏۲۱،‏ ۲۲؛‏ دانی‌ایل ۲:‏۴۴؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ زمین کے لئے خدا کا مقصد بہت جلد پورا ہونے والا ہے۔‏ پھر کروڑوں لوگ جو اب موت کی نیند سو رہے ہیں ایک پُرامن دُنیا میں جاگ جائیں گے۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

مُردوں میں سے بہتیرے زمین پر زندہ کئے جائیں گے