”اپنے ہاتھوں کو مضبوط کرو“
”اپنے ہاتھوں کو مضبوط کرو“
”اَے لوگو اپنے ہاتھوں کو مضبوط کرو۔ تُم جو اس وقت یہ کلام سنتے ہو جو . . . نبیوں کی معرفت نازل ہوا۔“—زکریاہ ۸:۹۔
۱، ۲. ہمیں حجی اور زکریاہ نبی کی کتابوں پر کیوں دھیان دینا چاہئے؟
حجی اور زکریاہ نبی کی پیشینگوئیاں تقریباً ۵۰۰،۲ سال پہلے لکھی گئی تھیں۔ لیکن یہ آج بھی ہمارے لئے بہت اہم ہیں۔ بائبل کی ان کتابوں میں موجود واقعات محض تاریخی کہانیاں یا سرگزشتیں نہیں ہیں۔ یہ اُن باتوں کا حصہ ہیں جو ”ہماری تعلیم کیلئے لکھی گئیں۔“ (رومیوں ۱۵:۴) ان کتابوں میں ہم جوکچھ پڑھتے ہیں وہ ہمیں ۱۹۱۴ میں آسمان پر یسوع مسیح کی بادشاہی قائم ہونے کے وقت سے لیکر رُونما ہونے والے حقیقی واقعات کی بابت سوچنے کی تحریک دیتا ہے۔
۲ خدا کے لوگوں نے ماضی میں جن واقعات اور حالات کا تجربہ کِیا اُنکا حوالہ دیتے ہوئے پولس رسول نے لکھا: ”یہ باتیں اُن پر عبرت کیلئے واقع ہوئیں اور ہم آخری زمانہ والوں کی نصیحت کے واسطے لکھی گئیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۱) شاید آپ کہیں کہ ’حجی اور زکریاہ کی کتابوں کی ہمارے زمانے کیلئے کیا اہمیت ہے؟‘
۳. حجی اور زکریاہ نبی نے کس چیز کی طرف توجہ دلائی؟
۳ جیسےکہ پچھلے مضمون میں بیان کِیا گیا، حجی اور زکریاہ نبی نے اُس وقت نبوّت کی جب یہودی بابل کی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد اپنے مُلک واپس لوٹے تھے۔ دونوں نبیوں نے ہیکل کی دوبارہ تعمیر کی طرف توجہ دلائی۔ یہودیوں نے ۵۳۶ قبلازمسیح میں ہیکل کی بنیاد رکھی۔ اگرچہ اُس وقت بعض عمررسیدہ یہودی پُرانی ہیکل کو یاد کرکے روتے رہے توبھی مجموعی طور پر لوگ ”خوشی کے مارے زور زور سے“ للکار رہے تھے۔ درحقیقت ہمارے زمانہ میں کچھ اَور بھی اہم واقعات رونما ہوئے ہیں۔ مگر وہ کیسے؟—عزرا ۳:۳-۱۳۔
۴. پہلی عالمی جنگ کے فوراً بعد کیا واقع ہوا؟
۴ پہلی عالمی جنگ کے فوراً بعد، یہوواہ کے ممسوح لوگ بڑے بابل یعنی جھوٹے مذہب کی غلامی سے آزاد ہو گئے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ اُنہیں یہوواہ خدا کی حمایت حاصل ہے۔ شروع میں یوں لگتا تھا کہ مذہبی راہنماؤں اور اُنکے سیاسی ساتھیوں نے بائبل طالبعلموں کے منادی کرنے اور تعلیم دینے کے کام کو ختم کر دیا ہے۔ (عزرا ۴:۸، ۱۳، ۲۱-۲۴) تاہم، یہوواہ خدا نے منادی کرنے اور شاگرد بنانے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دُور کر دیا۔ ہمارے زمانے میں ۱۹۱۹ سے لیکر، منادی کے کام میں خوب ترقی ہوئی ہے اور کوئی بھی اسے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
۵، ۶. زکریاہ ۴:۷ میں کس شاندار کامیابی کی طرف اشارہ کِیا گیا ہے؟
۵ ہم اس بات پر پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا کی مدد کیساتھ اُسکے وفادار خادموں کا منادی کرنے اور تعلیم دینے کا کام جاری رہیگا۔ زکریاہ ۴:۷ میں ہم پڑھتے ہیں: ”جب وہ چوٹی کا پتھر نکال لائیگا تو لوگ پکارینگے کہ اُس پر فضل ہو۔ فضل ہو۔“ یہ ہمارے زمانے میں کیسی شاندار کامیابی کی طرف اشارہ ہے؟
۶ زکریاہ ۴:۷ ایک ایسے وقت کی طرف اشارہ کرتی ہے جب یہوواہ خدا کی سچی پرستش اُسکی روحانی ہیکل کے زمینی صحنوں یعنی زمین پر مکمل طور پر بحال ہو جائیگی۔ یہ روحانی ہیکل دراصل یہوواہ کا ایک ایسا انتظام ہے جسکے تحت ہم یسوع مسیح کی قربانی کے وسیلے سے خدا کی پرستش کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ عظیم روحانی ہیکل پہلی صدی عیسوی سے وجود میں آ چکی ہے توبھی اسکے زمینی صحن میں سچی پرستش کا مکمل طور پر بحال کِیا جانا ابھی باقی ہے۔ لاکھوں لوگ اس وقت روحانی ہیکل کے زمینی صحن میں خدا کی خدمت کرتے ہیں۔ یہ لوگ اور مُردوں میں جی اُٹھنے والے بیشمار دیگر لوگ یسوع مسیح کی ہزار سالہ بادشاہی کے دوران کامل کئے جائینگے۔ لہٰذا ہزار سال پورے ہونے کے بعد زمین پر صرف خدا کے سچے پرستار باقی بچینگے۔
۷. ہمارے زمانہ میں سچی پرستش کو بحال کرنے میں یسوع کا کیا کردار ہے اور ہمیں اس سے کیوں حوصلہافزائی ملنی چاہئے؟
۷ گورنر زربابل اور سردار کاہن یشوع ۵۱۵ قبلازمسیح میں ہیکل کے مکمل کئے جانے کے وقت وہاں موجود تھے۔ زکریاہ ۶:۱۲، ۱۳ میں سچی پرستش کو مکمل طور پر بحال کرنے کے سلسلے میں یسوع کے تقابلی کردار کی پیشینگوئی کرتے ہوئے بیان کِیا گیا: ”ربُالافواج یوں فرماتا ہے کہ دیکھ وہ شخص جسکا نام شاؔخ ہے اُسکے زیرِسایہ خوشحالی ہوگی اور وہ خداوند کی ہیکل کی تعمیر کو کریگا۔ . . . اور وہ صاحبِشوکت ہوگا اور تختنشین ہوکر حکومت کریگا۔“ یسوع جو اب آسمان میں بادشاہ بن چکا ہے وہ داؤد کی شاہی نسل کے سلسلے کو بحال کرنے کیساتھ ساتھ روحانی ہیکل میں کئے جانے والے بادشاہتی کام کی حمایت بھی کر رہا ہے۔ اس حقیقت کے پیشِنظر آپکے خیال میں کیا کوئی اس کام کو ترقی کرنے سے روک سکتا ہے؟ بیشک نہیں! کیا اس سے ہمیں روزمرّہ زندگی کی فکروں کو اپنے اُوپر حاوی ہونے کی اجازت نہ دیتے ہوئے سرگرمی سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہنے کی حوصلہافزائی نہیں ملتی؟
کام جسے پہلا درجہ دینا چاہئے
۸. ہمیں روحانی ہیکل میں کئے جانے والے کام کو اپنی زندگیوں میں پہلا درجہ کیوں دینا چاہئے؟
۸ یہوواہ کی طرف سے مدد اور برکت حاصل کرنے کیلئے ہمیں روحانی ہیکل میں کئے جانے والے کام کو اپنی زندگیوں میں پہلا درجہ دینا چاہئے۔ اُن یہودیوں کے برعکس جنہوں نے کہا، ابھی ”وقت نہیں آیا“ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم ”اخیر زمانہ“ میں رہ رہے ہیں۔ (حجی ۱:۲؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱) یسوع نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اُسکے وفادار شاگرد بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کرینگے اور شاگرد بنائینگے۔ ہمیں منادی کرنے کے اپنے شرف کو ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ منادی کرنے اور تعلیم دینے کا جو کام دُنیا کی مخالفت کی وجہ سے عارضی طور پر بند ہو گیا تھا وہ سن ۱۹۱۹ میں دوبارہ شروع ہو گیا مگر یہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا۔ لیکن آپ یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہ ضرور پورا ہوگا!
۹، ۱۰. یہوواہ کی برکات حاصل کرنے کیلئے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے، اور ان میں کیا کچھ شامل ہے؟
۹ ہم جتنی سرگرمی کیساتھ اس کام کو کرینگے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اُتنی ہی زیادہ برکت حاصل کریں گے۔ یہوواہ خدا کے اُس وعدے پر غور کریں جس سے ہم یقیندہانی حاصل کر سکتے ہیں۔ جب یہودی دوبارہ دلوجان کیساتھ خدا کی پرستش کی طرف راغب ہوئے اور سرگرمی کیساتھ ہیکل کی تعمیر کا کام شروع کر دیا تو یہوواہ نے فرمایا: ”آج ہی سے مَیں تُم کو برکت دونگا۔“ (حجی ۲:۱۹) اسکا مطلب ہے کہ وہ یہوواہ کی شفقت سے مستفید ہو سکتے تھے۔ اب ذرا اُن برکات پر غور کریں جنکا خدا نے وعدہ کِیا: ”زراعت سلامتی سے ہوگی۔ تاک اپنا پھل دیگی اور زمین اپنا حاصل اور آسمان سے اوس پڑیگی اور مَیں ان لوگوں کے بقیہ کو ان سب برکتوں کا وارث بناؤنگا۔“—زکریاہ ۸:۹-۱۳۔
۱۰ پس جیسے یہوواہ نے اُن یہودیوں کو روحانی اور جسمانی برکات دیں اُسی طرح جب ہم دل کی خوشی اور جانفشانی کیساتھ اُسکی خدمت کرتے ہیں تو وہ ہمیں بھی برکت دیگا۔ ان برکات میں باطنی اطمینان، روحانی اور جسمانی امنوسلامتی، خوشحالی اور روحانی ترقی شامل ہے۔ تاہم، یاد رکھیں کہ خدا کی برکات صرف اُسی صورت میں ملیں گی اگر ہم اُسکی روحانی ہیکل میں اُسکی مرضی کے مطابق خدمت انجام دینگے۔
۱۱. ہم اس بات کا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں کیا چیز پہلا درجہ رکھتی ہے؟
۱۱ ”اپنی روش پر غور“ کرنے کا وقت اب ہے۔ (حجی ۱:۵، ۷) ہمیں اس بات کا جائزہ لینے کیلئے وقت نکالنا چاہئے کہ ہم اپنی زندگیوں میں کن چیزوں کو پہلا درجہ دیتے ہیں۔ آجکل یہوواہ کی برکات کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم کس حد تک اُسکے نام کو جلال دے رہے ہیں اور اُسکی روحانی ہیکل میں کام کو ترقی دے رہے ہیں۔ آپ خود سے پوچھ سکتے ہیں: ’اب میری زندگی میں کونسی چیزیں پہلا درجہ رکھتی ہیں؟ کیا مَیں آج بھی یہوواہ، اُسکے کلام اور اُسکے کاموں کیلئے ویسا ہی جوشوجذبہ رکھتا ہوں جیسا مَیں اُس وقت رکھتا تھا جب میرا بپتسمہ ہوا تھا؟ کیا پُرآسائش زندگی میں میری دلچسپی یہوواہ اور اُسکی بادشاہی کی بابت میرے نظریے کو متاثر کر رہی ہے؟ کیا انسان کا ڈر مجھے یہوواہ کی خدمت کرنے سے روک رہا ہے؟‘—مکاشفہ ۲:۲-۴۔
۱۲. حجی ۱:۶، ۹ میں یہودیوں کی کس حالت کو بیان کِیا گیا ہے؟
۱۲ خدا کے نام کو جلال دینے کے کام میں لاپرواہی ظاہر کرکے ہم اُسکی برکات سے محروم ہونا نہیں چاہتے۔ بابل کی غلامی سے واپس لوٹنے اور ہیکل کی بنیاد ڈالنے کے بعد، حجی ۱:۹ کے مطابق یہودیوں میں سے ”ہر ایک اپنے گھر کو دوڑا“ یعنی اپنا اپنا گھر بنانے کی فکر میں لگ گیا۔ وہ اپنی روزمرّہ کی فکروں میں بہت زیادہ مصروف ہو گئے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اُنہوں نے ”بہت سا بویا پر تھوڑا کاٹا“ یعنی اُنہیں خوراک اور لباس کے سلسلے میں قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ (حجی ۱:۶) یہوواہ کی برکت اُنکے ساتھ نہ رہی۔ اس سے ہم کیا سبق سیکھتے ہیں؟
۱۳، ۱۴. ہم حجی ۱:۶، ۹ کا اطلاق کیسے کر سکتے ہیں اور یہ کیوں ضروری ہے؟
۱۳ اگر ہم خدا کی برکات سے مستفید ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں یہوواہ کی پرستش کو چھوڑ کر مادی چیزوں کے پیچھے نہیں دوڑنا چاہئے۔ ہمیں دولت حاصل کرنے، جلد امیر بننے والی اسکیموں میں حصہ لینے، اس دُنیا میں بڑا مرتبہ پانے کیلئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے یا پھر اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے منصوبہسازی کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
۱۴ یہ تمام چیزیں بذاتِخود غلط نہیں یعنی ان میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ لیکن کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی چیزیں ہمیں ہمیشہ کی زندگی نہیں دے سکتیں؟ بائبل انہیں ’مُردہ کام‘ کہتی ہے۔ (عبرانیوں ۹:۱۴) کس لحاظ سے یہ مُردہ کام ہیں؟ روحانی اعتبار سے۔ اگر کوئی شخص لگاتار ایسے کام کرتا رہتا ہے یا ان چیزوں کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے تو یہ اُسکے لئے روحانی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ پہلی صدی کے بعض مسیحیوں کیساتھ ایسا ہوا تھا۔ (فلپیوں ۳:۱۷-۱۹) ہمارے زمانے میں بھی بعض کیساتھ ایسا ہوا ہے۔ آپ بھی شاید بعض ایسے اشخاص کو جانتے ہوں جو آہستہآہستہ روحانی سرگرمیوں اور مسیحی کلیسیا سے دُور ہو گئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ واپس نہیں آنا چاہتے۔ لیکن ہمیں اُمید ہے کہ کبھی نہ کبھی وہ ضرور یہوواہ خدا کی طرف واپس آئینگے۔ سچ تو یہ ہے کہ ”مُردہ کاموں“ میں لگے رہنا ہمیں یہوواہ کی حمایت اور برکت سے محروم کر سکتا ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کتنی افسوسناک صورتحال ہو سکتی ہے۔ اسکا مطلب اُس خوشی اور اطمینان سے محروم ہو جانا ہے جو خدا کی روح کی بخشش ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ پُرمحبت مسیحی برادری کا حصہ نہ ہونے سے کتنا زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے!—گلتیوں ۱:۶؛ ۵:۷، ۱۳، ۲۲-۲۴۔
۱۵. حجی ۲:۱۴ کیسے بیان کرتی ہے کہ ہمیں اپنی پرستش کو سنجیدگی سے لینا چاہئے؟
۱۵ یہ بہت ہی سنجیدہ بات ہے۔ غور کریں کہ حجی ۲:۱۴ کے مطابق یہوواہ نے اُن لوگوں کو کیسا خیال کِیا جو اُسکے پرستش کے گھر کو نظرانداز کرکے اپنے گھروں کو آراستہ کرنے میں مصروف ہو گئے تھے۔ آیت بیان کرتی ہے: ”[یہوواہ] فرماتا ہے میری نظر میں اِن لوگوں اور اِس قوم اور اِنکے اعمال کا یہی حال ہے اور جوکچھ اِس جگہ گذرانتے ہیں ناپاک ہے۔“ جب تک یہودی سچی پرستش کو نظرانداز کرتے رہے اُس وقت تک اُنکی قربانیاں یہوواہ کے حضور قابلِقبول نہ رہیں۔—عزرا ۳:۳۔
حمایت کی یقیندہانی
۱۶. زکریاہ نبی کی رویتوں کے پیشِنظر یہودی کس بات کا یقین رکھ سکتے تھے؟
۱۶ یہوواہ نے زکریاہ کو جو آٹھ سلسلہوار رویتیں دیں اُنہوں نے یہ ظاہر کر دیا کہ وفاداری سے ہیکل کی تعمیر کرنے والے یہودیوں کو خدا کی حمایت حاصل ہے۔ پہلی رویا نے اس بات کی یقیندہانی کرائی کہ اگر یہودی وفاداری کیساتھ کام کرینگے تو ہیکل کی تعمیر بھی مکمل ہوگی اور یروشلیم اور یہوداہ میں خوشحالی بھی ہوگی۔ (زکریاہ ۱:۸-۱۷) دوسری رویا نے اس بات کی یقیندہانی کرائی کہ سچی پرستش کی مخالف تمام حکومتیں نیستونابود ہو جائینگی۔ (زکریاہ ۱:۱۸-۲۱) دیگر رویتوں نے ہیکل کی تعمیر کے سلسلے میں خدائی تحفظ کی یقیندہانی کرائی۔ اسکے علاوہ یہ بیان کِیا کہ بہت سی قومیں یہوواہ کی پرستش کے گھر کی طرف رُجوع کرینگی۔ لوگوں کو حقیقی امنوسلامتی حاصل ہوگی۔ خدا کی طرف سے دئے گئے کام کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم ہو جائینگی۔ بدکاری کا خاتمہ ہو جائیگا۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ کہ خدا فرشتوں کے ذریعے راہنمائی اور تحفظ فراہم کریگا۔ (زکریاہ ۲:۵، ۱۱؛ ۳:۱۰؛ ۴:۷؛ ۵:۶-۱۱؛ ۶:۱-۸) آپ سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کی طرف سے حمایت کی ایسی یقیندہانیوں نے وفادار لوگوں کو اپنے طرزِزندگی کو تبدیل کرنے اور اُس کام پر توجہ دینے کی تحریک دی جسکے لئے یہوواہ نے اُنہیں اسیری سے چھڑایا تھا۔
۱۷. ہمیں جو یقیندہانی کرائی گئی ہے اُسے ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟
۱۷ اسی طرح، ہمیں بھی سچی پرستش کے فتح پانے کے سلسلے میں جو یقیندہانی حاصل ہے اُسے ہمیں یہوواہ کی پرستش کے گھر کی بابت سنجیدگی سے سوچنے اور کچھ کرنے کی تحریک دینی چاہئے۔ خود سے پوچھیں: ’اگر مَیں سمجھتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی کی منادی کرنے اور شاگرد بنانے کا وقت اب ہے تو کیا میرا طرزِزندگی اور میرے نشانے
اسکی تائید کرتے ہیں؟ کیا مَیں خدا کے الہامی کلام کو پڑھنے اور اس پر سوچوبچار کرنے کیلئے مناسب وقت نکالتا ہوں؟ کیا مَیں ساتھی مسیحیوں اور دوسرے لوگوں کیساتھ اسکی بابت باتچیت کرتا ہوں؟‘۱۸. زکریاہ ۱۴ باب کے مطابق مستقبل میں کیا واقع ہونے والا ہے؟
۱۸ زکریاہ نبی نے بڑے بابل یعنی جھوٹے مذہب کی بربادی کے بعد ہرمجدون کی لڑائی کی بابت پیشینگوئی کرتے ہوئے لکھا: ”ایک دن ایسا آئیگا جو خداوند ہی کو معلوم ہے۔ وہ نہ دن ہوگا نہ رات لیکن شام کے وقت روشنی ہوگی۔“ جیہاں یہوواہ کا دن زمین پر اُسکے مخالفوں کیلئے واقعی تاریکی اور افسردگی کا دن ہوگا! لیکن یہوواہ کے وفادار پرستاروں کیلئے یہ روشنی اور خوشی کا دن ہوگا۔ زکریاہ نے یہ بھی بیان کِیا کہ کیسے نئی دُنیا میں تمام چیزیں یہوواہ کی قدوسیت کو ظاہر کرینگی۔ زمین پر خدا کی عظیم روحانی ہیکل میں صرف سچی پرستش قائم رہیگی۔ (زکریاہ ۱۴:۷، ۱۶-۱۹) کیا ہی شاندار یقیندہانی! ہم پیشینگوئیوں کی تکمیل ہوتے اور یہوواہ کی حاکمیت کو جلال پاتے دیکھینگے۔ یہوواہ کا یہ دن کتنا بےمثال ہوگا!
یہوواہ کی دائمی برکات
۱۹، ۲۰. آپ زکریاہ ۱۴:۸، ۹ کو کیوں حوصلہافزا پاتے ہیں؟
۱۹ یہوواہ کی حاکمیت کو جلال دینے والے ان تمام کاموں کے انجام پانے کے بعد، شیطان اور اُسکے شیاطین کو اتھاہگڑھے میں بند کر دیا جائیگا۔ (مکاشفہ ۲۰:۱-۳، ۷) اسکے بعد مسیح کی ہزار سالہ بادشاہت کے دوران برکات ہی برکات ہونگی۔ اسکی بابت زکریاہ ۱۴:۸، ۹ بیان کرتی ہیں: ”اُس روز یرؔوشلیم سے آبِحیات جاری ہوگا جسکا آدھا بحرِمشرق کی طرف بہے گا اور آدھا بحرِمغرب کی طرف۔ گرمی سردی میں جاری رہیگا۔ اور [یہوواہ] ساری دُنیا کا بادشاہ ہوگا۔ اُس روز ایک ہی خداوند ہوگا اور اُسکا نام واحد ہوگا۔“
۲۰ مسیحائی بادشاہت کے تخت سے جاری ہونے والا ”آبِحیات کا ایک دریا“ یہوواہ کے زندگی فراہم کرنے کے بندوبست کی تصویرکشی کرتا ہے۔ (مکاشفہ ۲۲:۱، ۲) ہرمجدون سے زندہ بچ جانے والی یہوواہ خدا کے پرستاروں کی ایک بڑی بِھیڑ آدم کی طرف سے آنے والی موت سے آزاد ہو جائیگی۔ حتیٰکہ جو لوگ وفات پا چکے ہیں اُنہیں بھی مُردوں میں سے زندہ کر دیا جائیگا۔ اسکے ساتھ ہی زمین پر یہوواہ کی حکمرانی کا ایک نیا دَور شروع ہو جائیگا۔ تمام زمین پر انسان یہوواہ کو کائنات کا حاکم مانینگے اور صرف اُسی کی پرستش کرینگے۔
۲۱. ہمارا کیا عزم ہونا چاہئے؟
۲۱ حجی اور زکریاہ نبی کی تکمیل پانے والی پیشینگوئیوں کے پیشِنظر، ہمارے پاس یہوواہ خدا کے حکم کے مطابق اسکی روحانی ہیکل کے زمینی صحن میں کام کرتے رہنے کی ٹھوس وجہ موجود ہے۔ دُعا ہے کہ جب تک سچی پرستش مکمل طور پر بحال نہیں ہو جاتی ہم سب بادشاہتی کاموں کو اپنی زندگیوں میں پہلا درجہ دیتے رہیں۔ زکریاہ ۸:۹ ہمیں تاکید کرتی ہے: ”اَے لوگو اپنے ہاتھوں کو مضبوط کرو۔ تُم جو اس وقت یہ کلام سنتے ہو جو . . . نبیوں کی معرفت نازل ہوا۔“
کیا آپکو یاد ہے؟
• حجی اور زکریاہ کی کتابوں کی کونسی تاریخی مشابہتیں ہمارے زمانے سے بھی تعلق رکھتی ہیں؟
• حجی اور زکریاہ نبی کی کتابیں ہمیں کن چیزوں کو پہلا درجہ دینے کی تعلیم دیتی ہیں؟
• حجی اور زکریاہ نبی کی کتابوں پر غور کرنا کیوں ہمیں مستقبل کی بابت پُراُمید بناتا ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
حجی اور زکریاہ نبی نے یہودیوں کی حوصلہافزائی کی کہ پورے دلوجان سے کام کریں اور یہوواہ کی برکات سے مستفید ہوں
[صفحہ ۱۶ پر تصویریں]
کیا آپ ’اپنا گھر بنانے‘ کی فکر میں ہیں؟
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
یہوواہ اپنے وعدہ کے مطابق برکات دے رہا ہے