غریبوں کیلئے یسوع جیسی فکرمندی
غریبوں کیلئے یسوع جیسی فکرمندی
غربت اور ناانصافی اتنی ہی پرانی ہیں جتنی کہ انسانی تاریخ۔ خدا نے بنیاسرائیل کو شریعت دیتے وقت اس میں غریبوں کے تحفظ کیلئے بہت سے قوانین شامل کئے۔ لیکن بنیاسرائیل ان قوانین کی پابندی کرنے میں ناکام رہے۔ (عاموس ۲:۶) اسی لئے حزقیایل نبی نے غریبوں سے کئے جانے والے بنیاسرائیل کے سلوک پر تنقید کی۔ اُس نے لکھا: ”اِس مُلک کے لوگوں نے ستمگری اور لوٹمار کی ہے اور غریب اور محتاج کو ستایا ہے اور پردیسیوں پر ناحق سختی کی ہے۔“—حزقیایل ۲۲:۲۹۔
یسوع مسیح کے زمانے میں بھی صورتحال ایسی ہی تھی۔ مذہبی پیشوا غریبوں اور محتاجوں کیلئے کسی بھی طرح فکرمندی نہیں دکھا رہے تھے۔ اُنہیں ”زردوست“ کہا گیا کیونکہ وہ ”بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے“ تھے۔ وہ عمررسیدہ اور محتاج لوگوں کی دیکھبھال کرنے کی بجائے اپنی روایات کو پورا کرنے کیلئے فکرمند تھے۔ (لوقا ۱۶:۱۴؛ ۲۰:۴۷؛ متی ۱۵:۵، ۶) یہ بات یسوع کی ایک تمثیل سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس میں اُس نے بتایا کہ دو مذہبی پیشوا راستے میں پڑے ہوئے ایک زخمی شخص کے پاس سے گزرے۔ اس شخص کی مدد کرنے کی بجائے وہ کترا کر چلے گئے۔—لوقا ۱۰:۳۰-۳۷۔
غریبوں کیلئے یسوع کی فکرمندی
اناجیل سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یسوع غریبوں کی مشکلات کو سمجھتا اور انکے لئے ہمدردی ظاہر کرتا تھا۔ اگرچہ یسوع آسمان پر ایک روحانی ہستی کے طور پر رہتا تھا توبھی وہ انسان کی شکل میں زمین پر آیا ۲-کرنتھیوں ۸:۹) جب یسوع مسیح نے بِھیڑ کو دیکھا تو اُسے ”لوگوں پر ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند جنکا چرواہا نہ ہو خستہحال اور پراگندہ تھے۔“ (متی ۹:۳۶) ایک مرتبہ یسوع مسیح نے ایک بیوہ کو عبادتگاہ کے خزانہ میں ہدیہ ڈالتے دیکھا۔ یسوع دولتمندوں کے ”مال کی بہتات“ سے ڈالے جانے والے ہدیوں کی بجائے بیوہ کے چھوٹے سے ہدیے سے بہت متاثر ہوا۔ اسلئےکہ اُس نے ”اپنی ناداری کی حالت میں جتنی روزی اُسکے پاس تھی سب ڈال دی۔“—لوقا ۲۱:۴۔
اور ’ہماری خاطر غریب بن گیا۔‘ (یسوع مسیح لوگوں پر ترس کھاتا اور اُنکی ضروریات پوری کرنے کیلئے فکرمند رہتا تھا۔ یسوع اور اُسکے پیروکار پیسے جمع کرکے ضرورتمندوں کو دیا کرتے تھے۔ (متی ۲۶:۶-۹؛ یوحنا ۱۲:۵-۸؛ ۱۳:۲۹) یسوع نے اُن تمام لوگوں کی بھی ایسا کرنے کیلئے حوصلہافزائی کی جو اُسکے شاگرد بننا چاہتے تھے۔ اُس نے ایک دولتمند جوان سے کہا: ”اپنا سب کچھ بیچ کر غریبوں کو بانٹ دے۔ تجھے آسمان پر خزانہ ملیگا اور آکر میرے پیچھے ہولے۔“ وہ جوان اپنا مالودولت کھونا نہیں چاہتا تھا اسلئےکہ وہ خدا اور انسانوں سے زیادہ اپنے مالودولت سے پیار کرتا تھا۔ اُس میں وہ خوبیاں نہیں تھیں جو یسوع کا شاگرد بننے کیلئے ضروری ہیں۔—لوقا ۱۸:۲۲، ۲۳۔
غریبوں کیلئے یسوع کے شاگردوں کی فکرمندی
یسوع کی موت کے بعد، اُسکے پیروکاروں نے بھی غریبوں کیلئے فکرمندی دکھائی۔ مثال کے طور پر، پولس رسول تقریباً ۴۹ عیسوی میں یعقوب، پطرس اور یوحنا سے ملا۔ اُس نے اُن سے خوشخبری کی منادی کے حکم کے بارے میں باتچیت کی جو اُسے یسوع مسیح کی طرف سے ملا تھا۔ وہ اس بات پر متفق ہو گئے کہ پولس اور برنباس کو ”غیرقوموں“ میں جاکر منادی کرنی چاہئے۔ تاہم، یعقوب اور اسکے ساتھیوں نے پولس اور برنباس کو ”غریبوں کو یاد“ رکھنے کی بھی تاکید کی۔ پولس خود بھی ”اسی کام کی کوشش میں تھا۔“—گلتیوں ۲:۷-۱۰۔
جب شہنشاہ کلودیس کی حکومت میں رومی سلطنت کے بہت سے علاقے قحط سے متاثر ہوئے تو انطاکیہ کے مسیحیوں نے ”تجویز کی کہ اپنے اپنے مقدور کے موافق یہوؔدیہ میں رہنے والے بھائیوں کی خدمت کیلئے کچھ بھیجیں۔ چنانچہ اُنہوں نے ایسا ہی کِیا اور برؔنباس اور ساؔؤل کے ہاتھ بزرگوں کے پاس بھیجا۔“—اعمال ۱۱:۲۸-۳۰۔
آجکل بھی سچے مسیحی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ انہیں غریبوں اور محتاجوں بالخصوص اپنے مسیحی بہنبھائیوں کیلئے فکرمندی ظاہر کرنی چاہئے۔ (گلتیوں ۶:۱۰) اسی لئے وہ ایسا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ۱۹۹۸ میں شمالمشرقی برازیل کا وسیع حصہ خشکسالی سے متاثر ہوا۔ اس سے چاول، دال اور مکئی کی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ یہ ۱۵ سال میں پڑنے والا سب سے بڑا قحط تھا۔ بعض علاقوں میں تو پینے کیلئے پانی بھی میسر نہیں تھا۔ اس مُلک کے دوسرے حصوں میں رہنے والے یہوواہ کے گواہوں نے فوری طور پر امدادی کمیٹیاں قائم کیں۔ اُنہوں نے تھوڑے سے وقت میں نہ صرف بہت زیادہ خوراک اکٹھی کی بلکہ اسے قحطزدہ علاقوں تک پہنچانے کیلئے آمدورفت کے اخراجات بھی اُٹھائے۔
امدادی کاموں میں حصہ لینے والے ان گواہوں نے لکھا: ”ہم اپنے بھائیوں کی مدد کرکے بہت خوش ہیں، بالخصوص اسلئےکہ ہم نے یہوواہ خدا کے دل کو شاد کِیا ہے۔ ہم یعقوب ۲:۱۵، ۱۶ میں درج الفاظ کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔“ یہ آیت بیان کرتی ہے: ”اگر کوئی بھائی یا بہن ننگی ہو اور اُنکو روزانہ روٹی کی کمی ہو۔ اور تُم میں سے کوئی اُن سے کہے کہ سلامتی کے ساتھ جاؤ۔ گرم اور سیر رہو مگر جو چیزیں تن کے لئے درکار ہیں وہ اُنہیں نہ دے تو کیا فائدہ؟“
ساؤ پاؤلو میں رہنے والی یہوواہ کی ایک گواہ کے تجربے پر غور کیجئے جو غریب ہونے کے باوجود خدا کی خدمت میں سرگرم ہے۔ وہ اپنی ضروریاتِزندگی کو پورا کرنے کیلئے بہت محنت کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے: ”اگرچہ میں تنگدستی کی زندگی بسر کر رہی ہوں توبھی خدا کے کلام کی سچائی سے مجھے زندگی کا مقصد مل گیا ہے۔ اگر کلیسیا کے بہنبھائی میری مدد نہ کرتے تو پتہ نہیں مَیں آج زندہ بھی ہوتی یا نہیں۔“ کچھ عرصہ پہلے، اس بہن کو ایک آپریشن کرانا پڑا مگر وہ اسکے اخراجات پورے نہیں کر سکتی تھی۔ لہٰذا، اسکی کلیسیا کے بہنبھائیوں نے اسکے آپریشن کا خرچا اُٹھایا کیونکہ وہ ایسا کرنے کے قابل تھے۔ پوری دُنیا میں سچے مسیحی بوقتِضرورت اپنے مسیحی بہنبھائیوں کو ایسی ہی مدد فراہم کرتے ہیں۔
ایسے تجربات خواہ کتنے ہی دل کو گرما دینے والے کیوں نہ ہوں، یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایسی مخلصانہ کوششوں سے غربت ختم نہیں ہوگی۔ اگرچہ طاقتور حکومتوں اور بڑے بڑے بینالاقوامی امدادی اداروں کو اس سلسلے میں کسی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے توبھی وہ اسے مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ لہٰذا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غربت سمیت تمام مسائل کو مکمل طور پر کیسے ختم کِیا جائیگا؟
خدا کے کلام کے ذریعے غریبوں کیلئے مدد
اناجیل واضح کرتی ہیں کہ یسوع مسیح نے ہمیشہ غریبوں اور حاجتمندوں کی مدد کی۔ (متی ۱۴:۱۴-۲۱) مگر اُس نے کس کام کو پہلا درجہ دیا؟ ایک موقع پر، اُس نے ضرورتمندوں کی مدد کیلئے کچھ وقت صرف کرنے کے بعد اپنے شاگردوں سے کہا: ”آؤ ہم اَور کہیں آس پاس کے شہروں میں چلیں تاکہ مَیں وہاں بھی منادی کروں۔“ یسوع مسیح نے خدا کے کلام کی منادی کرنے کو بیماروں اور ضرورتمندوں کی مدد کرنے پر ترجیح کیوں دی؟ اسکی وضاحت کرتے ہوئے اُس نے کہا: ”مَیں اسی لئے [یعنی منادی کرنے کیلئے] بھیجا گیا ہوں۔“ (مرقس ۱:۳۸، ۳۹؛ لوقا ۴:۴۳) اگرچہ ضرورتمندوں کی مدد کرنا یسوع کیلئے اہم تھا توبھی خدا کی بادشاہت کی منادی کرنا اسکے لئے سب سے اہم تھا۔—مرقس ۱:۱۴۔
خدا کے کلام میں مسیحیوں کو ”[یسوع] کے نقشِقدم پر“ چلنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (۱-پطرس ۲:۲۱) اسلئے آجکل بھی سچے مسیحی ضرورتمندوں کی مدد کرتے ہیں۔ لیکن یسوع کی طرح وہ خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کرنے کو سب سے اہم کام خیال کرتے ہیں۔ (متی ۵:۱۴-۱۶؛ ۲۴:۱۴؛ ۲۸:۱۹، ۲۰) یہ کام غریبوں کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ کیوں ہے؟
پوری دُنیا میں لوگوں نے اس بات کا تجربہ کِیا ہے کہ خدا کے کلام کی مشورت پر عمل کرنے والے لوگ غربت سمیت روزمرّہ کے مسائل سے بہتر طور پر نپٹنے کے قابل ہوتے ہیں۔ خدا کا کلام ایک خوشگوار مستقبل کی اُمید فراہم کرتا ہے۔ یہ اُمید لوگوں کو مشکل سے مشکل حالات سے نپٹنے کے قابل بنا دیتی ہے۔—۱-تیمتھیس ۴:۸۔
۲-پطرس ۳:۱۳) بعضاوقات جب خدا کے کلام میں لفظ ”زمین“ آتا ہے تو اس سے مُراد زمین پر رہنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ (پیدایش ۱۱:۱) پس ”نئی زمین“ سے مُراد وہ لوگ ہے جنہیں خدا کی خوشنودی حاصل ہے۔ خدا کا کلام یہ وعدہ بھی کرتا ہے کہ مسیح کی حکمرانی کے تحت خدا کی خوشنودی حاصل کرنے والے لوگ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرینگے اور زمین پر فردوس میں ایک مطمئن زندگی بسر کرینگے۔ (مرقس ۱۰:۳۰) اس شاندار مستقبل سے غریبوں سمیت تمام لوگ لطف اُٹھائینگے۔ اس ”نئی زمین“ میں غربت کا عالمگیر مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل ہو جائیگا۔
مستقبل کے بارے میں خدا کا کلام ہمیں یقین دلاتا ہے: ”[خدا] کے وعدہ کے موافق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا انتظار کرتے ہیں جن میں راستبازی بسی رہیگی۔“ ([صفحہ ۷ پر بکس/تصویر]
یسوع مسیح ’غریب کو کیسے چھڑائے گا‘؟—زبور ۷۲:۱۲
انصاف: ”وہ اِن لوگوں کے غریبوں کی عدالت کریگا۔ وہ محتاجوں کی اولاد کو بچائیگا اور ظالم کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیگا۔“ (زبور ۷۲:۴) مسیح کی حکمرانی کے دوران زمین پر انصاف کا دوردورا ہوگا۔ اُس وقت ناانصافی مکمل طور پر ختم ہو جائیگی جو غربت کی ایک وجہ ہے۔
امن: ”اُسکے ایّام میں صادق برومند ہونگے اور جب تک چاند قائم ہے خوب امن رہیگا۔“ (زبور ۷۲:۷) غربت کی ایک بڑی وجہ لڑائیجھگڑے اور جنگیں ہیں۔ لیکن یسوع مسیح اِنہیں ختم کرکے پوری زمین پر اَمن لائیگا۔
ترس: ”وہ غریب اور محتاج پر ترس کھائیگا۔ اور محتاجوں کی جان کو بچائیگا۔ وہ فدیہ دیکر اُنکی جان کو ظلم اور جبر سے چھڑائیگا اور اُنکا خون اُسکی نظر میں بیشقیمت ہوگا۔“ (زبور ۷۲:۱۲-۱۴) بادشاہ یسوع مسیح کی حکمرانی کے تحت محتاج، غریب اور مظلوم لوگ ایک متحد خوشحال برادری کا حصہ بن جائینگے۔
خوشحالی: ”زمین میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر اناج کی افراط ہوگی۔“ (زبور ۷۲:۱۶) مسیح کی حکمرانی کے تحت مالی خوشحالی ہوگی۔ لوگوں کو خوراک کی کمی اور قحط کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا جو آجکل غربت کی اہم وجہ ہے۔
[صفحہ ۵ پر تصویر]
یسوع غریبوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے فکرمند رہتا تھا
[صفحہ ۶ پر تصویر]
بائبل کا پیغام حقیقی اُمید فراہم کرتا ہے