مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏مَیں تمہارے ساتھ ہوں“‏

‏”‏مَیں تمہارے ساتھ ہوں“‏

‏”‏مَیں تمہارے ساتھ ہوں“‏

‏’‏یہوواہ کے پیغمبر نے لوگوں سے کہا خداوند فرماتا ہے مَیں تمہارے ساتھ ہوں۔‏‘‏—‏حجی ۱:‏۱۳‏۔‏

۱.‏ یسوع نے ہمارے زمانے کی بابت کس نبوّتی مشابہت کا حوالہ دیا تھا؟‏

ہم تاریخ کے ایک اہم‌ترین وقت میں رہ رہے ہیں۔‏ بائبل پیشینگوئی کی تکمیل نے ثابت کر دیا ہے کہ سن ۱۹۱۴ سے ہم ”‏خداوند کے دن“‏ میں رہ رہے ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۱:‏۱۰‏)‏ بائبل پیشینگوئیوں کا مطالعہ کرنے سے شاید آپ اس بات سے واقف ہوں کہ یسوع نے ”‏ابنِ‌آدم“‏ کے شاہی اختیار میں آنے کا موازنہ ”‏نوح کے دنوں“‏ اور ”‏لوط کے دنوں“‏ کے ساتھ کِیا تھا۔‏ (‏لوقا ۱۷:‏۲۶،‏ ۲۸‏)‏ بائبل بیان کرتی ہے کہ جوکچھ نوح اور لوط کے وقت میں ہوا وہی ہمارے زمانے میں بھی واقع ہوگا۔‏ یہ ایک نبوّتی مشابہت ہے۔‏ تاہم،‏ ایک دوسری مشابہت بھی ہماری توجہ کی مستحق ہے۔‏

۲.‏ یہوواہ نے حجی اور زکریاہ نبی کو کونسا کام سونپا تھا؟‏

۲ آئیے حجی اور زکریاہ نبی کے زمانے پر غور کریں۔‏ ان دونوں وفادار نبیوں نے ایسا کونسا پیغام دیا جو ہمارے زمانے میں بھی یہوواہ کے لوگوں کیلئے اہم ہے؟‏ حجی اور زکریاہ نبی اُس وقت یہوواہ کا پیغام لیکر اسرائیلیوں کے پاس گئے جب وہ ابھی بابل کی اسیری سے لوٹے ہی تھے۔‏ اُنہیں اسرائیلیوں کو یہ یقین دلانے کا کام سونپا گیا تھا کہ اگر وہ ہیکل کی دوبارہ تعمیر شروع کرتے ہیں تو یہوواہ اُنکے ساتھ ہے۔‏ (‏حجی ۱:‏۱۳؛‏ زکریاہ ۴:‏۸،‏ ۹‏)‏ اگرچہ حجی اور زکریاہ کی کتابیں بہت مختصر ہیں توبھی وہ ”‏خدا کے الہام سے“‏ لکھے جانے والے پاک صحائف کا حصہ ہیں جو ”‏تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ‌مند“‏ ہیں۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶‏۔‏

ان کتابوں پر دھیان دیں

۳،‏ ۴.‏ ہمیں حجی اور زکریاہ نبی کے پیغامات پر کیوں دھیان دینا چاہئے؟‏

۳ حجی اور زکریاہ نبی کے پیغامات اُس زمانے کے یہودیوں کے لئے بہت فائدہ‌مند تھے۔‏ علاوہ‌ازیں ان نبیوں کی پیشینگوئیاں پوری بھی ہوئیں۔‏ مگر آج ہمیں ان کتابوں پر کیوں دھیان دینا چاہئے؟‏ اس سلسلے میں عبرانیوں ۱۲:‏۲۶-‏۲۹ ہماری مدد کرتی ہیں۔‏ یہاں پولس رسول حجی ۲:‏۶ کا حوالہ دیتا ہے جو خدا کے ”‏آسمان‌وزمین“‏ کو ہلانے کا ذکر کرتی ہے۔‏ خدا کا آسمان اور زمین کو ہلانا ”‏سلطنتوں کے تخت اُلٹ“‏ دیگا اور ”‏قوموں کی سلطنتوں کی توانائی نیست“‏ کر دیگا۔‏—‏حجی ۲:‏۲۲‏۔‏

۴ حجی کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے پولس رسول نے بیان کِیا کہ ”‏قوموں کی سلطنتوں“‏ کیساتھ کیا واقع ہوگا۔‏ بعدازاں وہ ممسوح مسیحیوں کو دی جانے والی بادشاہت کی فضیلت کا ذکر کرتا ہے جو ہلائی نہ جائیگی۔‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۲۸‏)‏ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب پہلی صدی عیسوی میں پولس نے عبرانیوں کے نام اپنا خط لکھا تو اُس وقت تک حجی اور زکریاہ کی پیشینگوئیاں کسی آنے والے وقت کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔‏ آج بھی زمین پر آسمانی اُمید رکھنے والے مسیحیوں کا بقیہ موجود ہے جو یسوع کیساتھ مسیحائی بادشاہت میں میراث حاصل کریگا۔‏ اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حجی اور زکریاہ کی پیشینگوئیاں ہمارے زمانے کیلئے کتنی اہم ہیں۔‏

۵،‏ ۶.‏ کونسے حالات حجی اور زکریاہ نبی کے پیشینگوئیاں کرنے کا باعث بنے؟‏

۵ اس سلسلے میں عزرا کی کتاب کچھ تاریخی واقعات بیان کرتی ہے۔‏ یہودیوں کے ۵۳۷ قبل‌ازمسیح میں بابل کی اسیری سے واپس لوٹنے کے ایک سال بعد یعنی ۵۳۶ قبل‌ازمسیح میں جب نئی ہیکل کی بنیاد ڈالی جانے لگی تو گورنر زربابل اور سردار کاہن یشوع کو کام کی نگرانی کرنے پر مامور کِیا گیا۔‏ (‏عزرا ۳:‏۸-‏۱۳؛‏ ۵:‏۱‏)‏ اگرچہ یہ بہت زیادہ خوشی کا موقع تھا توبھی جلد ہی اُنکی خوشی غم میں بدل گئی۔‏ اسکی بابت عزرا ۴:‏۴ بیان کرتی ہے،‏ ”‏تب مُلک کے لوگ یہوؔداہ کے لوگوں کی مخالفت کرنے اور بناتے وقت اُنکو تکلیف دینے لگے۔‏“‏ خدا کے لوگوں کے دُشمنوں،‏ خاص طور پر سامریوں نے اُن پر جھوٹے الزامات لگانے شروع کر دئے۔‏ انجام‌کار مخالفین ہیکل کی تعمیر کے کام کو بند کرانے کیلئے فارس کے بادشاہ کو اُکسانے میں کامیاب ہو گئے۔‏—‏عزرا ۴:‏۱۰-‏۲۱‏۔‏

۶ جس جوش‌وخروش کیساتھ ہیکل کی تعمیر کا کام شروع ہوا تھا وہ ماند پڑ گیا۔‏ یہودی اپنے اپنے کاموں میں مگن ہو گئے۔‏ لیکن ۱۶ برس بعد،‏ ۵۲۰ قبل‌ازمسیح میں یہوواہ نے لوگوں کے اندر دوبارہ ہیکل کی تعمیر کا جوش پیدا کرنے کیلئے حجی اور زکریاہ نبی کو بھیجا۔‏ (‏حجی ۱:‏۱؛‏ زکریاہ ۱:‏۱‏)‏ خدا کے نبیوں کے جوش دلانے اور یہوواہ کی حمایت کے واضح ثبوت کو دیکھ کر یہودیوں نے ہیکل بنانے کا کام دوبارہ شروع کر دیا۔‏ آخرکار ۵۱۵ قبل‌ازمسیح میں وہ اسے مکمل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔‏—‏عزرا ۶:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

۷.‏ حجی اور زکریاہ نبی کے زمانے کی حالت ہمارے زمانے سے کیسے مشابہت رکھتی ہے؟‏

۷ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ سب ہمارے لئے کیا مطلب رکھتا ہے؟‏ ہمیں بھی ’‏بادشاہی کی خوشخبری‘‏ کی منادی کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ پہلی عالمی جنگ کے بعد سے اس کام پر خاص طور پر زور دیا جا رہا ہے۔‏ جسطرح یہودیوں کو بابل کی غلامی سے چھڑایا گیا تھا اُسی طرح ہمارے زمانے میں بھی یہوواہ کے لوگوں کو بڑے بابل یعنی جھوٹے مذہب سے آزاد کرایا گیا ہے۔‏ سچی پرستش کی جانب لوگوں کی راہنمائی کرنے کیلئے ممسوح اشخاص نے بڑی سرگرمی کیساتھ منادی کرنے اور تعلیم دینے کے کام میں حصہ لیا ہے۔‏ آجکل یہ کام بڑے پیمانے پر کِیا جا رہا ہے اور شاید آپ بھی اس میں حصہ لیتے ہیں۔‏ اب اس کام کو زیادہ سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس خراب دُنیا کا خاتمہ بالکل قریب ہے!‏ خدا کی طرف سے سونپا گیا یہ کام اُس وقت تک جاری رہیگا جب تک یہوواہ خدا ”‏بڑی مصیبت“‏ کے وقت انسانی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۲۱‏)‏ اُس وقت بُرائی کا مکمل خاتمہ ہو جائیگا اور زمین پر ہر طرف سچی پرستش بحال ہو جائیگی۔‏

۸.‏ اپنے کام کے سلسلے میں ہم خدا کی حمایت کا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏

۸ جب ہم دل‌وجان سے منادی میں حصہ لیتے ہیں تو حجی اور زکریاہ نبی کی پیشینگوئیوں کے مطابق ہم بھی یہوواہ خدا کی حمایت اور برکت کا یقین رکھ سکتے ہیں۔‏ خدا کے خادموں کو ڈرانے دھمکانے یا اُنکے کام پر پابندی لگانے کے باوجود کوئی بھی حکومت منادی کے کام کو ترقی کرنے سے روک نہیں سکی۔‏ ذرا سوچیں کہ یہوواہ نے کیسے پہلی عالمی جنگ کے بعد سے آج تک بادشاہتی کام کو برکت بخشی ہے۔‏ لیکن ابھی اَور بہت کچھ کرنا باقی ہے۔‏

۹.‏ ہمیں ماضی کی کس صورتحال پر غور کرنا چاہئے اور کیوں؟‏

۹ حجی اور زکریاہ نبی کی پیشینگوئیاں کیسے ہمیں منادی کرنے اور تعلیم دینے کے خدا کے حکم کی فرمانبرداری کرنے کی تحریک دے سکتی ہیں؟‏ آیئے چند ایسی باتوں پر غور کریں جو ہم ان دو کتابوں سے سیکھ سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ہیکل کی تعمیر کی بابت تفصیلات پر غور کریں۔‏ اسیری سے واپس آنے والے یہودیوں نے ہیکل کی تعمیر کرنی تھی۔‏ جیساکہ ہم پہلے سیکھ چکے ہیں یروشلیم واپس لوٹنے والے یہودی ہیکل کی بنیاد ڈالنے کے بعد اس کام کو ثابت‌قدمی سے جاری نہ رکھ سکے۔‏ اُنکے اندر کونسی غلط سوچ پیدا ہو گئی تھی؟‏ علاوہ‌ازیں،‏ ہم اس سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

درست نظریہ رکھیں

۱۰.‏ یہودیوں کے اندر کونسی غلط سوچ پیدا ہو گئی تھی اور اسکا کیا نتیجہ نکلا؟‏

۱۰ اسیری سے واپس لوٹنے والے یہودیوں کے اندر غلط سوچ پیدا ہو گئی اور وہ کہنے لگے،‏ ”‏ابھی .‏ .‏ .‏ وقت نہیں آیا۔‏“‏ (‏حجی ۱:‏۲‏)‏ تاہم اسیری سے واپس لوٹنے اور ۵۳۶ قبل‌ازمسیح میں ہیکل کی بنیاد ڈالتے وقت اُنہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ”‏ابھی .‏ .‏ .‏ وقت نہیں آیا۔‏“‏ مگر بعد میں وہ پڑوسی ملکوں اور حکومت کی طرف سے آنے والی مخالفت سے متاثر ہو گئے تھے۔‏ اُنہوں نے اپنے گھروں اور ذاتی آرام‌وآسائش پر زیادہ توجہ دینا شروع کر دی۔‏ اسلئے یہوواہ نے اُنکے ذاتی گھروں اور ہیکل کا موازنہ کرتے ہوئے سوال کِیا:‏ ”‏کیا تمہارے لئے مسقف گھروں میں رہنے کا وقت ہے جبکہ یہ گھر ویران پڑا ہے؟‏“‏—‏حجی ۱:‏۴‏۔‏

۱۱.‏ یہوواہ خدا کو حجی کے زمانے کے یہودیوں کو کیوں نصیحت کرنی پڑی تھی؟‏

۱۱ جی‌ہاں،‏ یہودی بھول گئے تھے کہ اُنکی زندگیوں میں کیا چیز اہمیت رکھتی ہے۔‏ ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے کے یہوواہ کے مقصد کو اہمیت دینے کی بجائے وہ اپنی ذات اور اپنے اپنے گھر بنانے میں مگن ہو گئے۔‏ خدا کی پرستش کے گھر کو تعمیر کرنے کے کام کو نظرانداز کر دیا گیا تھا۔‏ حجی ۱:‏۵ میں درج یہوواہ کی نصیحت نے یہودیوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ ’‏اپنی روش پر غور کریں۔‏‘‏ درحقیقت،‏ یہوواہ اُنہیں یہ کہہ رہا تھا کہ وہ سنجیدگی سے اس بات پر غور کریں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور ہیکل کی تعمیر کو اپنی زندگیوں میں پہلا درجہ نہ دینے سے وہ کیسے متاثر ہو رہے ہیں۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ حجی ۱:‏۶ یہودیوں کی حالت کو کیسے بیان کرتی ہے اور اس آیت کا کیا مطلب ہے؟‏

۱۲ ذرا سوچیں کہ جب یہودیوں نے ذاتی کاموں کو اپنی زندگیوں میں پہلا درجہ دینا شروع کر دیا تو اسکا اُن پر کیا اثر پڑا ہوگا۔‏ حجی ۱:‏۶ میں بیان‌کردہ یہوواہ کے نظریے پر غور کریں:‏ ”‏تُم نے بہت سا بویا پر تھوڑا کاٹا۔‏ تُم کھاتے ہو پر آسودہ نہیں ہوتے۔‏ تُم پیتے ہو پر پیاس نہیں بجھتی۔‏ تُم کپڑے پہنتے ہو پر گرم نہیں ہوتے اور مزدور اپنی مزدوری سُوراخدار تھیلی میں جمع کرتا ہے۔‏“‏

۱۳ یہودی واپس اُس سرزمین میں پہنچ گئے تھے جسکا خدا نے اُنکے ساتھ وعدہ کِیا تھا۔‏ لیکن اُنہیں ویسی پیداوار حاصل نہیں ہو رہی تھی جیسی وہ چاہتے تھے۔‏ جیسےکہ یہوواہ نے انہیں پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا اُسکی برکت اُنکے ساتھ نہیں تھی۔‏ (‏استثنا ۲۸:‏۳۸-‏۴۸‏)‏ اسکا یہ نتیجہ نکلا کہ یہودیوں کے محنت کرنے کے باوجود اُنہیں اچھی پیداوار اور خوراک دستیاب نہیں تھی۔‏ یہوواہ کی برکت نہ ہونے کا دوسرا نقصان یہ تھا کہ اُنکے لئے موسم کے مطابق مناسب لباس حاصل کرنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔‏ بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنی کمائی سُوراخدار تھیلی میں جمع کر رہے ہیں اور اُنہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ حجی ۱:‏۶ سے ہم کیا سبق سیکھتے ہیں؟‏

۱۴ جب حجی نبی نے اسرائیلیوں کے مسقف گھروں کا ذکر کِیا تو اس سے ہم یہ نہیں سیکھتے کہ ہمیں اپنے گھروں کو کیسے بنانا یا آراستہ کرنا چاہئے۔‏ عاموس نبی نے یہودیوں کے اسیری میں جانے سے بہت پہلے اسرائیل کے دولتمندوں کو اُنکے ”‏ہاتھی دانت کے گھر“‏ بنانے اور ”‏ہاتھی دانت کے پلنگ“‏ پر لیٹنے کی بابت ملامت کی تھی۔‏ (‏عاموس ۳:‏۱۵؛‏ ۶:‏۴‏)‏ اُنکے خوبصورت گھر اور سازوسامان زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکے۔‏ دُشمنوں نے اُنہیں برباد کر دیا۔‏ تاہم،‏ ۷۰ سال کی اسیری کے بعد بھی خدا کے لوگوں نے اس سے کوئی سبق نہ سیکھا۔‏ کیا ہم بھی اُنکی مانند بنیں گے؟‏ پس ہم میں سے ہر ایک کو خود سے یہ پوچھنا چاہئے:‏ ’‏مَیں اپنے گھر اور اُسکی سجاوٹ کو کتنی اہمیت دیتا ہوں؟‏ دُنیا میں اچھی ملازمت حاصل کرنے کیلئے اضافی تعلیم کی بابت میرا کیا نظریہ ہے؟‏ کیونکہ اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں اور ہماری اہم روحانی کارگزاریاں متاثر ہو سکتی ہیں۔‏‘‏—‏لوقا ۱۲:‏۲۰،‏ ۲۱؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۷-‏۱۹‏۔‏

۱۵ حجی ۱:‏۶ میں ہم جوکچھ پڑھتے ہیں اُسے ہمیں یاد دلانا چاہئے کہ ہماری زندگیوں میں خدا کی برکت کا ہونا بہت لازمی ہے۔‏ حجی کے زمانے کے یہودیوں کو خدا کی برکت حاصل نہیں تھی اور یہ اُنکے نقصان اُٹھانے کا باعث بنی تھی۔‏ اس سے قطع‌نظر کہ ہمارے پاس مادی چیزیں افراط سے ہیں یا نہیں،‏ یہوواہ کی برکت حاصل کرنے میں ناکام رہنا خدا کیساتھ ہمارے رشتے کو متاثر کریگا۔‏ (‏متی ۲۵:‏۳۴-‏۴۰؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۹:‏۸-‏۱۲‏)‏ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم خدا کی برکت کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏

یہوواہ کی پاک رُوح کی مدد

۱۶-‏۱۸.‏ یہودیوں کیلئے زکریاہ ۴:‏۶ کا کیا مطلب تھا؟‏

۱۶ حجی کے زمانے کے دوسرے نبی زکریاہ کو بھی اس بات پر زور دینے کی تاکید کی گئی کہ یہوواہ اپنے وفادار خادموں کو کسطرح تحریک دینے کیساتھ ساتھ برکت بخش رہا تھا۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کیسے آپکو بھی برکت دیگا۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏نہ تو زور سے اور نہ توانائی سے بلکہ میری رُوح سے ربُ‌الافواج فرماتا ہے۔‏“‏ (‏زکریاہ ۴:‏۶‏)‏ آپ نے اکثر اس آیت کو پڑھا یا سنا ہوگا۔‏ لیکن یہ حجی اور زکریاہ نبی کے زمانے کے یہودیوں کیلئے کیا مطلب رکھتی تھی؟‏ علاوہ‌ازیں،‏ آج ہمارے لئے اسکا کیا مطلب ہے؟‏

۱۷ یاد کریں کہ حجی اور زکریاہ نبی کے الہامی الفاظ نے اُس وقت کے لوگوں پر بہت اچھا اثر ڈالا تھا۔‏ ان نبیوں کے پیغام نے وفادار یہودیوں کو نئے سرے سے تحریک دی۔‏ حجی نبی نے ۵۲۰ قبل‌ازمسیح کے چھٹے مہینے میں نبوّت کرنا شروع کی۔‏ زکریاہ نبی نے بھی اُسی سال کے آٹھویں مہینے میں نبوّت کرنا شروع کی تھی۔‏ (‏زکریاہ ۱:‏۱‏)‏ جیسےکہ آپ حجی ۲:‏۱۸ میں پڑھتے ہیں نویں مہینے میں ہیکل کی تعمیر کا کام پورے جوش‌وخروش کیساتھ دوبارہ شروع ہو گیا۔‏ پس یہودیوں نے نہ صرف کچھ کرنے کی تحریک پائی بلکہ یہوواہ کی حمایت پر مکمل بھروسے کیساتھ اُسکی فرمانبرداری بھی کی۔‏ یہوواہ کی اس حمایت کی بابت آپ زکریاہ ۴:‏۶ میں پڑھ سکتے ہیں۔‏

۱۸ جب ۵۳۷ قبل‌ازمسیح میں یہودی وطن واپس لوٹے تو اُنکے پاس کوئی فوج نہیں تھی۔‏ اسکے باوجود،‏ یہوواہ نے بابل سے واپسی پر راستے میں اُنکی حفاظت اور راہنمائی کی۔‏ اسکے علاوہ،‏ جب اُنہوں نے ہیکل کی تعمیر کا کام شروع کِیا تو خدا کی پاک رُوح معاملات کی نگرانی کر رہی تھی۔‏ جب اُنہوں نے پورے دل‌وجان سے دوبارہ کام شروع کِیا تو یہوواہ نے اپنی پاک رُوح کے ذریعے یقیناً اُنکی مدد کی تھی۔‏

۱۹.‏ خدا کی پاک رُوح نے کس مشکل پر قابو پانے میں مدد دی تھی؟‏

۱۹ آٹھ مختلف رویتوں کے ذریعے،‏ زکریاہ نبی کو یہ یقین دلایا گیا کہ یہوواہ وفاداری سے ہیکل کی تعمیر کرنے والے لوگوں کی ضرور مدد کریگا۔‏ تیسرے باب میں درج چوتھی رویا بیان کرتی ہے کہ شیطان یہودیوں کو ہیکل کی تعمیر کرنے سے روکنے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔‏ (‏زکریاہ ۳:‏۱‏)‏ یقیناً شیطان کبھی بھی یہ نہیں چاہیگا کہ سردار کاہن یشوع نئی ہیکل میں خدمت انجام دے۔‏ اگرچہ شیطان ہیکل کی تعمیر کو رکوانے کی پوری کوشش کر رہا تھا توبھی یہوواہ کی پاک رُوح نے رکاوٹوں کو دُور کرنے اور یہودیوں کو پورے جوش‌وخروش کیساتھ تعمیر کا کام مکمل کرنے میں مدد دینے کیلئے اہم کردار ادا کِیا۔‏

۲۰.‏ ہیکل تعمیر کرنے کے سلسلے میں خدا کی پاک رُوح نے یہودیوں کی کیسے مدد کی تھی؟‏

۲۰ بظاہر ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ کام پر پابندی لگانے کی حمایت کرنے والے حکومتی کارندوں کی طرف سے بہت زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑیگا۔‏ تاہم،‏ یہوواہ نے وعدہ کِیا تھا کہ مشکلات کا یہ ’‏پہاڑ میدان ہو جائیگا‘‏ یعنی مشکلات ختم ہو جائینگی۔‏ (‏زکریاہ ۴:‏۷‏)‏ بالکل ایسا ہی واقع ہوا!‏ جب دارا بادشاہ اوّل نے تفتیش کرائی تو اُسے خورس فارس کا ایک طومار ملا جس میں یہودیوں کو ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔‏ پس دارا بادشاہ نے پابندی ختم کروا دی اور یہ حکم جاری کِیا کہ تعمیر کے کام کے اخراجات کو پورا کرنے کے سلسلے میں یہودیوں کی مدد کیلئے شاہی خزانے سے پیسہ دیا جائے۔‏ حالات نے واقعی کیسا پلٹا کھایا!‏ کیا اس میں خدا کی پاک رُوح کا ہاتھ تھا؟‏ ہم یقین کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ہی تھا۔‏ پس دارا اوّل کی حکومت کے چھٹے برس،‏ ۵۱۵ قبل‌ازمسیح میں ہیکل کی تعمیر کا کام مکمل ہو گیا۔‏—‏عزرا ۶:‏۱،‏ ۱۵‏۔‏

۲۱.‏ (‏ا)‏ پُرانے وقتوں میں،‏ خدا نے ”‏سب قوموں“‏ کو کیسے ہلایا تھا اور ”‏مرغوب چیزیں“‏ کیسے نکلی تھیں؟‏ (‏ب)‏ ہمارے زمانے میں اسکی تکمیل کیسے ہوتی ہے؟‏

۲۱ حجی ۲:‏۵ میں نبی نے یہودیوں کو خدا کا وہ عہد یاد دلایا جو اُس نے کوہِ‌سینا پر اُنکے ساتھ اُس وقت باندھا تھا جب ”‏سارا پہاڑ زور سے ہل رہا تھا۔‏“‏ (‏خروج ۱۹:‏۱۸‏)‏ حجی اور زکریاہ نبی کے زمانے میں،‏ یہوواہ نے ایک اَور طریقے سے قوموں کو ہلایا جیسےکہ حجی ۲ باب کی ۶ اور ۷ آیت میں علامتی زبان میں بیان کِیا گیا ہے۔‏ فارس کی سلطنت میں غیریقینی صورتحال نے پیدا ہونا تھا مگر ہیکل کا کام ہر صورت مکمل ہوکر رہنا تھا۔‏ پرستش کے اس گھر میں نہ صرف یہودیوں بلکہ غیریہودیوں نے جو قوموں کی ”‏مرغوب چیزیں“‏ ہیں خدا کو جلال دینا تھا۔‏ ہمارے زمانے میں،‏ خدا نے مسیحیوں کے منادی کرنے کے ذریعے ’‏سب قوموں کو ہلایا‘‏ ہے اور آسمانی اُمید رکھنے والے مسیحیوں کے علاوہ قوموں کی ”‏مرغوب چیزیں“‏ بھی اُنکے ساتھ ملکر خدا کی عبادت کر رہی ہیں۔‏ واقعی،‏ آسمانی اُمید رکھنے والے اور دوسری بھیڑیں دونوں ملکر خدا کے گھر کو جلال سے معمور کر رہی ہیں۔‏ ایسے سچے پرستار ایمان کیساتھ اُس وقت کا انتظار کرتے ہیں جب یہوواہ ایک دوسرے مفہوم میں آسمان اور زمین کو ہلائیگا۔‏ جسکا مقصد سلطنتوں کو اُلٹنا اور اُنکی توانائی کو نیست کرنا ہوگا۔‏—‏حجی ۲:‏۲۲‏۔‏

۲۲.‏ قومیں کیسے ’‏ہلائی‘‏ جا رہی ہیں،‏ اسکا کیا نتیجہ نکلا ہے،‏ اور ابھی کیا واقع ہونا باقی ہے؟‏

۲۲ ہمیں ”‏آسمان‌وزمین اور بحروبر“‏ سے تشبِیہ دی جانے والی مختلف چیزوں میں واقع ہونے والی غیرمعمولی تبدیلی کی یاد دلائی جاتی ہے۔‏ ایک تبدیلی تو یہ ہے کہ شیطان اِبلیس اور اُسکے شیاطین کو زمین پر گرا دیا گیا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۷-‏۱۲‏)‏ اس کے علاوہ،‏ آسمانی اُمید رکھنے والے مسیحیوں کی زیرِہدایت کی جانے والی منادی نے موجودہ دُنیا کی مختلف چیزوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۱:‏۱۸‏)‏ علاوہ‌ازیں،‏ یہوواہ کی خدمت کرنے کیلئے دُنیا کی مرغوب چیزوں کی ایک ”‏بڑی بِھیڑ“‏ روحانی اسرائیل یعنی خدا کے ممسوحوں کیساتھ مل گئی ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ بڑی بِھیڑ ممسوح مسیحیوں کیساتھ ملکر اس خوشخبری کا اعلان کرتی ہے کہ بہت جلد ہرمجدون پر خدا قوموں کو ہلائیگا۔‏ اس واقعہ کیساتھ ہی پوری زمین پر سچی پرستش بحال ہو جائیگی۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• حجی اور زکریاہ نبی نے کب اور کن حالات کے تحت خدا کی خدمت کی تھی؟‏

‏• آپ حجی اور زکریاہ نبی کے پیغام کا اطلاق کیسے کر سکتے ہیں؟‏

‏• آپ زکریاہ ۴:‏۶ کو کیسے حوصلہ‌افزا پاتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویریں]‏

حجی اور زکریاہ نبی کی کتابیں ہمیں خدا کی حمایت کا یقین دلاتی ہیں

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

‏”‏کیا تمہارے لئے مُسقف گھروں میں رہنے کا وقت ہے جبکہ یہ گھر ویران پڑا ہے؟‏“‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

یہوواہ کے لوگ ’‏قوموں کی مرغوب چیزوں‘‏ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں