مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

وفاداری سے اپنے بادشاہ مسیح کی خدمت کریں

وفاداری سے اپنے بادشاہ مسیح کی خدمت کریں

وفاداری سے اپنے بادشاہ مسیح کی خدمت کریں

‏”‏سلطنت اور حشمت اور مملکت اُسے دی گئی تاکہ سب لوگ اور اُمتیں اور اہلِ‌لغت اُس کی خدمتگزاری کریں۔‏“‏—‏دانی‌ایل ۷:‏۱۴‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ پنتِکُست ۳۳ عیسوی میں یسوع نے مکمل طور پر حکمرانی کرنا شروع نہیں کی تھی؟‏

ایک ایسے شخص کا تصور کریں جسے بادشاہ کے طور پر مقرر کِیا گیا ہے۔‏ وہ زمین پر اپنی رعایا کے بیچ میں رہ کر اُن کا بھروسا جیتتا ہے اور اُن کی وفاداری حاصل کر لیتا ہے۔‏ پھر وہ اپنی رعایا کے لئے اپنی جان دے دیتا ہے۔‏ خدا اُسے زندہ کر دیتا ہے جس کے بعد وہ شخص آسمان سے حکمرانی کرنا شروع کر دیتا ہے۔‏ صرف ایک ہی شخص نے ایسا کِیا ہے اور یہ ہے یسوع مسیح۔‏ (‏لوقا ۱:‏۳۲،‏ ۳۳‏)‏ یسوع کی موت کے بعد اُسے جی اُٹھایا گیا تھا اور وہ واپس آسمان پر چلا گیا تھا۔‏ پھر پنتِکُست ۳۳ عیسوی میں خدا نے یسوع کو ”‏سب چیزوں کا سردار بنا کر کلیسیا کو دے دیا۔‏“‏ (‏افسیوں ۱:‏۲۰-‏۲۲؛‏ اعمال ۲:‏۳۲-‏۳۶‏)‏ اِس طرح یسوع نے حکمرانی کرنا شروع کر دی۔‏ البتہ اُس وقت یسوع کی رعایا ممسوح مسیحیوں ہی پر مشتمل تھی جنہیں ’‏خدا کا اؔسرائیل‘‏ بھی کہا جاتا ہے۔‏—‏گلتیوں ۶:‏۱۶؛‏ کلسیوں ۱:‏۱۳‏۔‏

۲ پنتِکُست ۳۳ عیسوی کے تقریباً ۳۰ سال بعد پولس رسول نے لکھا کہ یسوع ”‏خدا کی دہنی طرف جا بیٹھا۔‏ اور اُسی وقت سے منتظر ہے کہ اُس کے دُشمن اُس کے پاؤں کی چوکی بنیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ پہلی صدی کے آخر میں یوحنا رسول نے خدا کی بادشاہت کی ایک رویا دیکھی۔‏ اِس رویا میں حاکمِ‌اعلیٰ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو بادشاہ کے طور پر مقرر کِیا۔‏ (‏مکاشفہ ۱۱:‏۱۵؛‏ ۱۲:‏۱-‏۵‏)‏ آج ہمارے پاس اِس بات کے بےشمار ثبوت موجود ہیں کہ یسوع مسیح نے ۱۹۱۴ عیسوی میں مکمل طور پر حکمرانی کرنا شروع کر دی تھی۔‏

۳.‏ (‏ا)‏ سن ۱۹۱۴ سے بادشاہت کی خوشخبری نے کس لحاظ سے ایک نیا روپ اختیار کر لیا؟‏ (‏ب)‏ ہمیں خود سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

۳ جی‌ہاں،‏ سن ۱۹۱۴ سے بادشاہت کی خوشخبری نے ایک نیا روپ اختیار کر لیا۔‏ اُس وقت یسوع مسیح نے خدا کی بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر ”‏اپنے دُشمنوں میں“‏ حکمرانی شروع کر دی۔‏ (‏زبور ۱۱۰:‏۱،‏ ۲؛‏ متی ۲۴:‏۱۴؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۷-‏۱۲‏)‏ یسوع کی وفادار رعایا اُس کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے بادشاہت کی خوشخبری دُنیابھر میں سنا رہی ہے۔‏ یہ خوشخبری اِس سے پہلے اِس حد تک نہیں سنائی گئی۔‏ (‏دانی‌ایل ۷:‏۱۳،‏ ۱۴؛‏ متی ۲۸:‏۱۸‏)‏ ممسوح مسیحی ”‏بادشاہی کے فرزند“‏ کہلاتے ہیں اور ”‏مسیح کے ایلچی ہیں۔‏“‏ یسوع کی دوسری ’‏بھیڑیں‘‏ خدا کی بادشاہت کے قاصدوں کے طور پر ممسوح مسیحیوں کا ساتھ دے رہی ہیں۔‏ (‏متی ۱۳:‏۳۸؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۲۰؛‏ یوحنا ۱۰:‏۱۶‏)‏ لیکن ہمیں ذاتی طور پر اِس بات پر غور کرنا چاہئے کہ آیا ہم یسوع کے اختیار کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟‏ کیا ہم ہر حال میں اُس کے وفادار رہتے ہیں یا نہیں؟‏ ہم ایک ایسے بادشاہ کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں جو آسمان سے ہم پر حکمرانی کر رہا ہے؟‏ آئیں پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں یسوع کا وفادار کیوں ہونا چاہئے۔‏

ایک قابل بادشاہ

۴.‏ جب یسوع زمین پر تھا تو اُس نے کیا کچھ کِیا؟‏

۴ ہم یسوع کے وفادار اس لئے ہیں کیونکہ ہم اُس کے کاموں کی قدر کرتے ہیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۱:‏۸‏)‏ جب یسوع زمین پر تھا تو اُس نے چھوٹے پیمانے پر دکھایا کہ وہ حکمرانی شروع کرنے کے بعد دُنیابھر میں کیا انجام دے گا۔‏ یسوع نے بھوکوں کو کھانا کھلایا۔‏ اِس کے علاوہ اُس نے بیماروں،‏ اندھوں،‏ معذوروں،‏ بہروں اور گُونگوں کو شفا دی۔‏ یسوع نے مُردوں کو بھی جی اُٹھایا۔‏ (‏متی ۱۵:‏۳۰،‏ ۳۱؛‏ لوقا ۷:‏۱۱-‏۱۶؛‏ یوحنا ۶:‏۵-‏۱۳‏)‏ زمین پر یسوع کے کاموں کے بارے میں سیکھنے سے ہم اُس کی خوبیوں کو بھی جان لیتے ہیں۔‏ اِن میں سے سب سے قابلِ‌غور خوبی یسوع کی محبت ہے،‏ جس کی بِنا پر اُس نے انسانوں کے لئے اپنی زندگی کی قربانی دی۔‏ (‏مرقس ۱:‏۴۰-‏۴۵‏)‏ اِس سلسلے میں نپولین بوناپارٹ نے یوں کہا تھا:‏ ”‏سکندرِاعظم،‏ قیصر،‏ شارلمین اور مَیں نے سلطنتیں قائم کیں۔‏ لیکن ہم کس بل‌بوتے پر ایسا کر پائے؟‏ صرف طاقت کے زور سے۔‏ لیکن یسوع مسیح نے اپنی بادشاہت کی بنیاد محبت پر ڈالی اور اِس دن تک اُس کے لئے کروڑوں لوگ جان دینے کے لئے تیار ہیں۔‏“‏

۵.‏ لوگ یسوع کی شخصیت سے متاثر کیوں تھے؟‏

۵ یسوع حلیم اور دل کا فروتن تھا۔‏ اس لئے ایسے لوگ جو بوجھ تلے دبے تھے اُس کی شخصیت اور تعلیم سے آرام پاتے تھے۔‏ (‏متی ۱۱:‏۲۸-‏۳۰‏)‏ بچے بھی یسوع کے پاس جانا پسند کرتے تھے۔‏ خاکسار لوگ خوشی سے یسوع کے شاگرد بنے۔‏ (‏متی ۴:‏۱۸-‏۲۲؛‏ مرقس ۱۰:‏۱۳-‏۱۶‏)‏ عورتوں کے ساتھ یسوع بڑی عزت سے پیش آتا تھا۔‏ اِس کے نتیجے میں بہتیری عورتیں یسوع کی وفادار بن گئیں۔‏ جب یسوع اپنے تبلیغی کام میں مصروف تھا تو اِن عورتوں میں سے کئی ایسی بھی تھیں جنہوں نے اپنے مال سے اُس کی خدمت کی۔‏—‏لوقا ۸:‏۱-‏۳‏۔‏

۶.‏ لعزر کی موت کے وقت یسوع نے کون سے جذبات کا اظہار کِیا تھا؟‏

۶ یسوع کے دوست لعزر کی موت پر ہونے والے واقعات پر غور کرنے سے ہمیں یسوع کی محبت اور ہمدردی کا احساس ہوتا ہے۔‏ جب یسوع نے لعزر کی بہنوں کے غم کو دیکھا تو وہ ”‏نہایت رنجیدہ ہوا“‏ اور اُس کے ”‏آنسو بہنے لگے۔‏“‏ یسوع جانتا تھا کہ وہ اپنے دوست کو جی اُٹھانے والا ہے لیکن دوسروں کے رنج کو دیکھ کر اُسے بھی صدمہ پہنچا۔‏ اس کے بعد یسوع نے خدا کی دی ہوئی قوت کے ذریعے،‏ لعزر کو زندہ کر دیا۔‏ یہ محبت اور ہمدردی ظاہر کرنے کی کیا ہی عمدہ مثال تھی۔‏—‏یوحنا ۱۱:‏۱۱-‏۱۵،‏ ۳۳-‏۳۵،‏ ۳۸-‏۴۴‏۔‏

۷.‏ یسوع کی رعایا اُس کی قدر کیوں کرتی ہے؟‏ (‏صفحہ ۳۲ پر دئے گئے بکس کو بھی دیکھیں۔‏)‏

۷ یسوع سچائی سے محبت اور بدکاری سے نفرت کرتا ہے۔‏ دو بار اُس نے بڑی دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لالچی تاجروں کو ہیکل سے نکالا۔‏ (‏متی ۲۱:‏۱۲،‏ ۱۳؛‏ یوحنا ۲:‏۱۴-‏۱۷‏)‏ جب یسوع زمین پر تھا تو اُسے مختلف قسم کی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔‏ اِس لئے جب ہمیں دباؤ یا مشکل حالات کا سامنا ہوتا ہے تو یسوع جانتا ہے کہ ہم پر کیا گزر رہی ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۵:‏۷-‏۹‏)‏ یسوع نفرت اور ناانصافی کا بھی شکار بنا۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۱۵-‏۱۸؛‏ ۱۱:‏۵۳،‏ ۵۴؛‏ ۱۸:‏۳۸–‏۱۹:‏۱۶‏)‏ آخرکار یسوع نے دلیری سے ایک ہولناک موت قبول کر لی جس کے ذریعے یہوواہ خدا کی مرضی پوری ہوئی اور یسوع کی رعایا کو ہمیشہ کی زندگی پانے کا موقع ملا۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ کیا یسوع کی ایسی خوبیوں کے بارے میں جاننے سے آپ میں اُس کے وفادار رہنے کی خواہش نہیں بڑھتی؟‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۸؛‏ مکاشفہ ۵:‏۶-‏۱۰‏)‏ لیکن یسوع کی رعایا بننے کے لئے ہمیں کونسی شرطیں پوری کرنی ہوں گی؟‏

رعایا میں شامل ہونے کی شرائط

۸.‏ یسوع کی رعایا بننے کے لئے ہمیں کونسی شرطیں پوری کرنی ہوں گی؟‏

۸ کسی ملک کا باشندہ بننے کیلئے ایک شخص کو اُس ملک کی کچھ شرطیں پوری کرنی ہوتی ہیں۔‏ شاید وہ ملک چاہتا ہے کہ نیا باشندہ اچھی شخصیت کا مالک ہو اور تندرست بھی ہو۔‏ اسی طرح یسوع کی رعایا کو نہ صرف اُونچے اخلاقی معیاروں کا مالک ہونا چاہئے بلکہ روحانی طور پر تندرست بھی ہونا چاہئے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹-‏۱۱؛‏ گلتیوں ۵:‏۱۹-‏۲۳‏۔‏

۹.‏ ہم یسوع کے لئے اپنی وفاداری کیسے ثابت کر سکتے ہیں؟‏

۹ یسوع مسیح اپنی رعایا سے وفاداری چاہتا ہے۔‏ رعایا یسوع کے فرمانبردار ہونے سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیتی ہے۔‏ مثال کے طور پر مال‌ودولت کی بجائے وہ خدا کی مرضی اور اُس کی بادشاہت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیتی ہے۔‏ (‏متی ۶:‏۳۱-‏۳۴‏)‏ مشکل حالات کا سامنا کرتے وقت بھی وہ یسوع کی خوبیوں کو اپنانے کی کوشش کرتی ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱-‏۲۳‏)‏ اور یسوع کی مثال پر چلتے ہوئے وہ دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔‏—‏متی ۷:‏۱۲؛‏ یوحنا ۱۳:‏۳-‏۱۷‏۔‏

۱۰.‏ (‏ا)‏ یسوع کے پیروکار خاندان میں کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ یسوع کے وفادار ہیں؟‏ (‏ب)‏ یسوع کے پیروکار کلیسیا میں کیسے ثابت کرتے ہیں کہ وہ یسوع کے وفادار ہیں؟‏

۱۰ یسوع کے پیروکار اپنے خاندان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے سے بھی اُس کے وفادار ہوتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر جب شوہر،‏ یسوع کی خوبیوں کی نقل کرتا ہوا اپنے بیوی‌بچوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آتا ہے تو وہ دکھاتا ہے کہ وہ یسوع کا وفادار ہے۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۲۵،‏ ۲۸-‏۳۰؛‏ ۶:‏۴؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۷‏)‏ بیویاں ”‏حلیمی اور عاجزی“‏ ظاہر کرنے سے اور اپنے پاک چال‌چلن سے خود کو یسوع کی وفادار ثابت کرتی ہیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۱-‏۴‏،‏ کیتھولک ورشن؛‏ افسیوں ۵:‏۲۲-‏۲۴‏)‏ جب یسوع نوعمر تھا تو وہ اپنے والدین کے تابع رہا۔‏ اسی طرح جب بچے یسوع کی نقل کرتے ہوئے اپنے والدین کے فرمانبردار رہتے ہیں تو وہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ یسوع کے وفادار ہیں۔‏ (‏لوقا ۲:‏۵۱،‏ ۵۲؛‏ افسیوں ۶:‏۱‏)‏ یسوع مسیح کے پیروکار اُس کی نقل کرتے ہوئے ایک دوسرے سے ’‏برادرانہ محبت رکھتے‘‏ اور ’‏ہمدردی اور نرم دلی‘‏ سے پیش آتے ہیں۔‏ وہ یسوع کی خوبیوں کی نقل کرنے کی کوشش میں ’‏فروتن بنتے اور بدی کے عوض بدی نہیں کرتے اور گالی کے بدلے گالی نہیں دیتے۔‏‘‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۸،‏ ۹؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۱‏۔‏

فرمانبردار رعایا

۱۱.‏ یسوع کی رعایا کن شریعتوں کے تابع ہے؟‏

۱۱ جب ایک شخص کسی ملک کا باشندہ بننا چاہتا ہے تو اُسے اُس ملک کے قوانین کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔‏ اسی طرح یسوع کی رعایا ”‏مسیح کی شریعت“‏ کے تابع ہے یعنی وہ اپنی زندگی یسوع کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق جیتی ہے۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۲‏)‏ وہ خاص طور پر محبت کی ”‏بادشاہی شریعت“‏ پر عمل کرتی ہے۔‏ (‏یعقوب ۲:‏۸‏)‏ اِن شریعتوں میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ ہم ”‏مسیح کی شریعت“‏ کے وفادار کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

۱۲ یسوع کی رعایا گنہگار لوگوں پر مشتمل ہے۔‏ (‏رومیوں ۳:‏۲۳‏)‏ اِس لئے اُنہیں چاہئے کہ وہ ’‏بھائیوں کی بےریا محبت پیدا کریں‘‏ اور ’‏دل‌وجان سے آپس میں بہت محبت رکھیں۔‏‘‏ (‏۱-‏پطرس ۱:‏۲۲‏)‏ ”‏اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو“‏ تو مسیح کی شریعت پر عمل کرتے ہوئے اُسے ’‏دوسرے کی برداشت کرنا اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرنے چاہئیں۔‏‘‏ کیا آپ اِس بات کے شکرگزار نہیں ہیں کہ آپ اُن لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے ہمارے عزیز بادشاہ کے تابع ہو کر محبت کا ”‏کمال کا پٹکا“‏ باندھ رکھا ہے؟‏—‏کلسیوں ۳:‏۱۳،‏ ۱۴‏۔‏

۱۳ یسوع نے کہا تھا کہ جو محبت اُس نے تمام انسانوں کے لئے دکھائی تھی یہ عام محبت سے مختلف ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ اگر ہم صرف اُن سے محبت کریں گے جو ہم سے محبت کرتے ہیں ”‏تو کیا زیادہ کرتے“‏ ہیں؟‏ کیا ایسا کرنے سے ہماری محبت میں کمی نہ ہوگی؟‏ یسوع نے ہدایت دی تھی کہ ہمیں یہوواہ خدا کی محبت کی نقل کرتے ہوئے اپنے دُشمنوں اور اذیت پہنچانے والوں سے بھی محبت رکھنی چاہئے۔‏ (‏متی ۵:‏۴۶-‏۴۸‏)‏ ایسا کرنے سے بادشاہت کی رعایا وفاداری سے اپنے کام کو انجام دے پاتی ہے۔‏ یہ کام کیا ہے؟‏

وفا کا امتحان

۱۴.‏ خدا کی بادشاہت کی منادی کرنا اتنا اہم کیوں ہے؟‏

۱۴ خدا کی بادشاہت کی رعایا ’‏اُس کی بادشاہی کی گواہی‘‏ دینے کے کام میں مصروف ہے۔‏ (‏اعمال ۲۸:‏۲۳‏)‏ بادشاہی کی گواہی دینا بہت ہی اہم ہے کیونکہ اِس کے ذریعے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا حکمرانی کرنے کا حق رکھتا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۴-‏۲۸‏)‏ خدا کی بادشاہت کی منادی کرنے سے ہم لوگوں کو اِس بادشاہت کی رعایا بننے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔‏ لوگ اِس پیغام کو سُن کر جو ردِعمل دکھاتے ہیں،‏ اس کی بِنا پر یسوع اُن کی عدالت کرے گا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۶-‏۱۰‏)‏ یسوع کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جب ہم دوسروں کو بادشاہت کی خوشخبری سناتے ہیں تو ہم ایک اعلیٰ طریقے سے یسوع کے وفادار ثابت ہوتے ہیں۔‏—‏متی ۲۸:‏۱۸-‏۲۰‏۔‏

۱۵.‏ مسیحیوں کو اپنی وفاداری کا امتحان کیوں دینا پڑ رہا ہے؟‏

۱۵ بادشاہت کی منادی کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ شیطان ہماری مخالفت کرتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ دُنیاوی حکمران یسوع مسیح کے اختیار کو پہچاننے سے انکار کرتے ہیں۔‏ (‏زبور ۲:‏۱-‏۳،‏ ۶-‏۸‏)‏ اِس لئے یسوع نے اپنے شاگردوں کو آگاہی دی کہ ”‏نوکر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا۔‏ اگر انہوں نے مجھے ستایا تو تمہیں بھی ستائیں گے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۲۰‏)‏ یسوع کے پیروکار ایک ایسی روحانی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں اُن کی وفاداری کا امتحان لیا جا رہا ہے۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۳-‏۵؛‏ افسیوں ۶:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏

۱۶.‏ خدا کی بادشاہت کی رعایا ’‏جو خدا کا ہے خدا کو کیسے ادا‘‏ کرتی ہے؟‏

۱۶ اس کے باوجود خدا کی بادشاہت کی رعایا اپنے بادشاہ کے تابع رہنے کے ساتھ ساتھ دُنیاوی حکمرانوں کا احترام بھی کرتی ہے۔‏ (‏ططس ۳:‏۱،‏ ۲‏)‏ یسوع نے کہا تھا:‏ ”‏جو قیصرؔ کا ہے قیصرؔ کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔‏“‏ (‏مرقس ۱۲:‏۱۳-‏۱۷‏)‏ اِس لئے یسوع کی رعایا دُنیاوی حکمرانوں کے قوانین کے فرمانبردار رہتی ہے،‏ بشرطیکہ ایسا کرنے سے وہ خدا کے حکموں کی خلاف‌ورزی نہ کرے۔‏ (‏رومیوں ۱۳:‏۱-‏۷‏)‏ جب یہودیوں کی صدرِعدالت نے خدا کے قانون کی خلاف‌ورزی کرتے ہوئے یسوع کے شاگردوں کو حکم دیا کہ وہ منادی کرنا بند کر دیں تو اُنہوں نے بڑے احترام سے جواب دیا تھا کہ اُنہیں ”‏آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔‏“‏—‏اعمال ۱:‏۸؛‏ ۵:‏۲۷-‏۳۲‏۔‏

۱۷.‏ مخالفت کا سامنا کرتے وقت ہم وفادار کیوں رہ سکتے ہیں؟‏

۱۷ مخالفت کا سامنا کرتے وقت یسوع کے وفادار رہنے کے لئے اُس کی رعایا کو بڑی دلیری سے کام لینا پڑتا ہے۔‏ یسوع نے کہا تھا:‏ ”‏جب میرے سبب سے لوگ تمکو لعن‌طعن کریں گے اور ستائیں گے اور ہر طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہیں گے تو تُم مبارک ہوگے۔‏ خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ پہلی صدی کے مسیحیوں نے تجربہ کِیا تھا کہ یسوع کے یہ الفاظ سچ ہیں۔‏ اُنہیں پٹوایا گیا کیونکہ وہ خدا کی بادشاہی کی منادی کر رہے تھے۔‏ اس کے باوجود وہ خوش تھے کیونکہ وہ ”‏اُس نام کی خاطر بےعزت ہونے کے لائق تو ٹھہرے۔‏ اور وہ ہیکل میں اور گھروں میں ہر روز تعلیم دینے اور اس بات کی خوشخبری سنانے سے کہ یسوؔع ہی مسیح ہے باز نہ آئے۔‏“‏ (‏اعمال ۵:‏۴۱،‏ ۴۲‏)‏ جب آپ مشکلات،‏ مخالفت اور بیماری کی حالت میں خدا کی بادشاہت کے وفادار رہتے ہیں تو یہ قابلِ‌تعریف بات ہے۔‏—‏رومیوں ۵:‏۳-‏۵؛‏ عبرانیوں ۱۳:‏۶‏۔‏

۱۸.‏ یسوع نے پُنطیُس پیلاطُس سے جو الفاظ کہے تھے اِن سے ہم کیا جان جاتے ہیں؟‏

۱۸ خدا کی بادشاہت کے مقررہ بادشاہ کے طور پر یسوع نے رومی حاکم پُنطیُس پیلاطُس سے کہا تھا:‏ ”‏میری بادشاہی اس دُنیا کی نہیں۔‏ اگر میری بادشاہی اس دُنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تاکہ مَیں یہودیوں کے حوالے نہ کِیا جاتا۔‏ مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۸:‏۳۶‏)‏ یسوع کے ان الفاظ سے ہم جان جاتے ہیں کہ بادشاہت کی رعایا جنگوں میں حصہ نہیں لیتی۔‏ وہ ’‏سلامتی کے شاہزادے‘‏ یسوع کے وفادار ہونے کے ناتے دُنیاوی معاملوں میں کسی حکومت کا ساتھ نہیں دیتی۔‏—‏یسعیاہ ۲:‏۲-‏۴؛‏ ۹:‏۶،‏ ۷‏۔‏

وفاداری کا انعام

۱۹.‏ یسوع مسیح کی رعایا اعتبار کے ساتھ مستقبل کا سامنا کیوں کرتی ہے؟‏

۱۹ ‏’‏بادشاہوں کے بادشاہ‘‏ یسوع مسیح کی رعایا اعتبار کے ساتھ مستقبل کا سامنا کرتی ہے۔‏ وہ بےچینی سے اُس وقت کی منتظر ہے جب یسوع بادشاہ کے طور پر اپنی قدرت کا مظاہرہ کرے گا۔‏ (‏مکاشفہ ۱۹:‏۱۱–‏۲۰:‏۳؛‏ متی ۲۴:‏۳۰‏)‏ ”‏بادشاہی کے فرزند“‏ یعنی ممسوح مسیحی آسمان میں اپنی بیش‌قیمت میراث پانے کے منتظر ہیں جب وہ بادشاہوں کے طور پر یسوع کے ساتھ حکمرانی کریں گے۔‏ (‏متی ۱۳:‏۳۸؛‏ لوقا ۱۲:‏۳۲‏)‏ یسوع کی وفادار دوسری ”‏بھیڑیں“‏ اُس وقت کی منتظر ہیں جب اُن کا بادشاہ کہے گا:‏ ”‏آؤ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنایِ‌عالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اُسے میراث میں لو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۰:‏۱۶؛‏ متی ۲۵:‏۳۴‏)‏ آئیں ہم اپنے بادشاہ یسوع مسیح کی وفاداری سے خدمت کرنے کی ٹھان لیں۔‏

کیا آپ بتا سکتے ہیں؟‏

‏• یسوع ہماری وفاداری کا مستحق کیوں ہے؟‏

‏• یسوع کی رعایا اپنی وفاداری کا ثبوت کیسے دیتی ہے؟‏

‏• ہم بادشاہ یسوع مسیح کے وفادار کیوں ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۳۲ پر بکس]‏

یسوع مسیح کی شاندار خوبیاں

بے طرفدار‏—‏یوحنا ۴:‏۷-‏۳۰‏۔‏

رحم‌دل‏—‏متی ۹:‏۳۵-‏۳۸؛‏ ۱۲:‏۱۸-‏۲۱؛‏ مرقس ۶:‏۳۰-‏۳۴‏۔‏

محبت‏—‏یوحنا ۱۳:‏۱؛‏ ۱۵:‏۱۲-‏۱۵‏۔‏

وفادار‏—‏متی ۴:‏۱-‏۱۱؛‏ ۲۸:‏۲۰؛‏ مرقس ۱۱:‏۱۵-‏۱۸‏۔‏

ہمدرد‏—‏مرقس ۷:‏۳۲-‏۳۵؛‏ لوقا ۷:‏۱۱-‏۱۵؛‏ عبرانیوں ۴:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

رضامند‏—‏متی ۱۵:‏۲۱-‏۲۸‏۔‏

‏[‏صفحہ ۳۰ پر تصویر]‏

ایک دوسرے سے محبت رکھنے سے ہم ”‏مسیح کی شریعت“‏ کو عمل میں لاتے ہیں

‏[‏صفحہ ۳۲ پر تصویریں]‏

یسوع مسیح کی خوبیوں پر غور کرنے سے کیا آپ کے دل میں بھی وفاداری سے اُس کی خدمت کرنے کی خواہش اُبھرتی ہے؟‏