”گلّے کے لئے نمونہ“ بننے والے بزرگ
”گلّے کے لئے نمونہ“ بننے والے بزرگ
”خدا کے اُس گلّہ کی گلّہبانی کرو جو تُم میں ہے۔ . . . خوشی سے اور . . . دلی شوق سے۔ . . . گلّہ کے لئے نمونہ بنو۔“—۱-پطرس ۵:۲، ۳۔
۱، ۲. (ا) یسوع نے پطرس کو کونسی ذمہداری سونپی؟ کیا وہ اس ذمہداری پر پورا اُترا؟ (ب) یہوواہ خدا مسیحی بزرگوں کو کیسا خیال کرتا ہے؟
سن ۳۳ عیسوی کی عیدِپنتِکُست کے کچھ دن پہلے پطرس چھ اَور رسولوں کے ساتھ گلیل کی جھیل کے کنارے ناشتہ کر رہا تھا۔ اس موقع پر یسوع مسیح بھی اُن کے ساتھ تھا۔ یسوع کو چند دن پہلے موت سے جی اُٹھایا گیا تھا۔ پطرس یسوع کو دیکھ کر خوش بھی تھا اور پریشان بھی۔ کچھ دن پہلے ہی تو اُس نے یسوع کا شاگرد ہونے سے انکار کِیا تھا۔ شاید پطرس کا خیال تھا کہ یسوع اُس سے ناراض ہوگا۔ (لوقا ۲۲:۵۵-۶۰؛ ۲۴:۳۴؛ یوحنا ۱۸:۲۵-۲۷؛ ۲۱:۱-۱۴) لیکن یسوع جانتا تھا کہ پطرس نے اپنی غلطی سے توبہ کر لی ہے۔ اس لئے اُس نے پطرس کو ایک خاص ذمہداری سونپی۔ اُس نے پطرس سے کہا کہ میری بھیڑوں کو چرا اور اُن کی گلّہبانی کر۔ (یوحنا ۲۱:۱۵-۱۷) پطرس نے یسوع کو مایوس نہ کِیا بلکہ وہ اس ذمہداری پر پورا اُترا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ اُس زمانے میں بہت سے لوگ مسیحی مذہب اختیار کر رہے تھے اور اُن کو سخت اذیت کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ اس مشکل دور میں پطرس نے شہر یروشلیم میں رہنے والے دوسرے رسولوں اور بزرگوں کے ساتھ مل کر مسیحیوں کی راہنمائی کی۔—اعمال ۱:۱۵-۲۶؛ ۲:۱۴؛ ۱۵:۶-۹۔
۲ آج ہم دُنیا کے سب سے مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ اِس لئے یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کے ذریعے ایسے روحانی گلّہبانوں یعنی مسیحی بزرگوں کا انتظام کِیا ہے جو اُس کی بھیڑوں کی راہنمائی کر سکیں۔ (افسیوں ۴:۱۱، ۱۲؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱) دُنیابھر میں یہوواہ کے گواہوں کا متحد بھائیچارا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بزرگ اس ذمہداری پر پورا اُتر رہے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ پطرس کی طرح یہ مسیحی بزرگ بھی غلطیاں کرتے ہیں۔ (گلتیوں ۲:۱۱-۱۴؛ یعقوب ۳:۲) لیکن یہوواہ خدا جانتا ہے کہ یہ بزرگ اُن بھیڑوں کی راہنمائی کرنے کے قابل ہیں جن کو اُس نے اپنے بیٹے کے خون سے مول لیا ہے۔ یہوواہ خدا ان بزرگوں کے لئے گہری محبت رکھتا ہے اور اُن کو ”دُگنی عزت کے لائق“ سمجھتا ہے۔—۱-تیمتھیس ۵:۱۷، کیتھولک ورشن۔
۳. مسیحی بزرگ کلیسیا کی راہنمائی کرنے میں اپنی خوشی اور دلی شوق کو کیسے برقرار رکھتے ہیں؟
۳ مسیحی بزرگ کلیسیا کی راہنمائی کرنے میں اپنی خوشی اور دلی شوق کو کیسے برقرار رکھتے ہیں؟ پطرس رسول کی طرح وہ بھی خدا کی پاک روح کی مدد سے کلیسیا کی راہنمائی کرتے ہیں۔ اس پاک روح کی بِنا پر وہ اپنی ذمہداری کو پورا کرنے کی طاقت پاتے ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۷) خدا کی پاک روح اُن میں روح کے پھل بھی پیدا کرتی ہے۔ ان میں محبت، خوشی، اطمینان، تحمل، مہربانی، نیکی، ایمانداری، حلم اور پرہیزگاری جیسی خوبیاں شامل ہیں۔ (گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) آئیے اب ہم دیکھتے ہیں کہ مسیحی بزرگ کلیسیا کے لئے نمونہ بننے اور اس کی راہنمائی کرنے میں روح کے پھل کیسے ظاہر کرتے ہیں۔
محبت
۴، ۵. (ا) یہوواہ خدا اور یسوع مسیح گلّہ کے لئے اپنی محبت کیسے ظاہر کرتے ہیں؟ (ب) کلیسیا کے بزرگ خدا کے گلّہ کے لئے اپنی محبت کیسے ظاہر کرتے ہیں؟
۴ محبت خدا کی پاک روح کے پھل کی سب سے اہم خوبی ہے۔ یسعیاہ ۶۵:۱۳، ۱۴؛ متی ۲۴:۴۵-۴۷) اس کے ساتھ ساتھ وہ ہر بھیڑ یعنی ہر ایک مسیحی کی بھی فکر رکھتا ہے۔ (۱-پطرس ۵:۶، ۷) یسوع کو بھی اپنے گلّے سے محبت ہے۔ اُس نے اپنی بھیڑوں کے لئے اپنی جان تک قربان کر دی۔ اس کے علاوہ وہ ہر ایک مسیحی کو ”نام بنام“ بلاتا ہے۔—یوحنا ۱۰:۳، ۱۴-۱۶۔
یہوواہ خدا اپنے گلّے یعنی تمام کلیسیاؤں کے لئے روحانی خوراک مہیا کرنے سے ان کے لئے اپنی گہری محبت ظاہر کرتا ہے۔ (۵ یہوواہ خدا اور یسوع کی طرح کلیسیا کے بزرگ بھی خدا کے گلّہ کے لئے محبت رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ ”تعلیم دینے کی طرف متوجہ“ رہتے ہوئے ایسی تقریریں پیش کرتے ہیں جن سے کلیسیا کی روحانی پیاس بجھتی ہے اور اُس کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۳، ۱۶) اس کے علاوہ وہ بہت سی ایسی خدمات انجام دیتے ہیں جن کی کلیسیا کو خبر نہیں ہوتی مثلاً فہرستیں اور شیڈول تیار کرنا، خطوط لکھنا وغیرہ۔ ان خدمات کی وجہ سے کلیسیا ”شایستگی اور قرینہ“ کے ساتھ خدا کی خدمت کر سکتی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۴۰) چونکہ کلیسیا کے بہنبھائیوں کو اکثر یہ احساس نہیں ہوتا کہ مسیحی بزرگ اُن کے لئے کتنی خدمات انجام دیتے ہیں اس لئے وہ ان باتوں کے لئے اپنی شکرگزاری کا اظہار نہیں کر سکتے۔ واقعی کلیسیا کے بزرگ محبت کی راہ اختیار کرکے کلیسیا کی خدمت کرتے ہیں۔—گلتیوں ۵:۱۳۔
۶، ۷. (ا) کلیسیا کے بزرگ اپنے مسیحی بہنبھائیوں سے اچھی طرح واقف کیسے ہو سکتے ہیں؟ (ب) کلیسیا کے بزرگوں کو اپنے دُکھسُکھ میں شریک کرنے سے کیا فائدے ہوتے ہیں؟
۶ مسیحی بزرگ کلیسیا کے ہر رُکن کا خیال رکھتے ہیں۔ (فلپیوں ۲:۴) اُن کی کوشش ہے کہ وہ ہر ایک بہنبھائی سے اچھی طرح واقف ہو جائیں۔ ایسا کرنے کا ایک طریقہ ان بہنبھائیوں کے ساتھ مُنادی کے کام میں حصہ لینا ہے۔ یسوع اکثر اپنے شاگردوں کے ساتھ ملکر تبلیغی کام میں حصہ لیتا تھا۔ اور ایسے موقعوں پر وہ اُن کی حوصلہافزائی بھی کرتا تھا۔ (لوقا ۸:۱) ایک تجربہکار مسیحی بزرگ نے کہتے ہیں: ”میرے خیال میں ایک بہن یا بھائی کے ساتھ جانپہچان بنانے اور اُن کی حوصلہافزائی کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ ہم اُن کے ساتھ مُنادی کریں۔“ کیا آپ نے بھی حال ہی میں کلیسیا کے کسی بزرگ کے ساتھ مُنادی کے کام میں حصہ لیا ہے؟ اگر نہیں تو ایسا کرنے کا بندوبست ضرور کریں۔
۷ یسوع اپنے شاگردوں سے محبت رکھتا تھا اسلئے وہ اُن کے دُکھسُکھ میں شریک ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر جب یسوع کے ۷۰ شاگرد اپنے تبلیغی دورے سے واپس لوٹے تو اُن کی خوشی کو دیکھ کر یسوع بھی ”خوشی میں بھر گیا۔“ (لوقا ۱۰:۱۷-۲۱) جب یسوع نے اپنے دوست لعزر کی موت پر مریم اور دوسرے لوگوں کو روتے ہوئے دیکھا تو اُس کے بھی ”آنسو بہنے لگے۔“ (یوحنا ۱۱:۳۳-۳۵) اسی طرح کلیسیا کے بزرگوں کو بھی اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے دُکھسُکھ میں شریک ہونا چاہئے۔ بزرگ ان کے لئے گہری محبت محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے وہ ”خوشی کرنے والوں کے ساتھ خوشی“ کرتے اور ’رونے والوں کے ساتھ روتے ہیں۔‘ (رومیوں ۱۲:۱۵) آپ بھی کلیسیا کے بزرگوں کو اپنے دُکھسُکھ میں شریک کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اُنہیں اپنے کسی سُکھ کے بارے میں بتائیں گے تو اُن کی بھی حوصلہافزائی ہوگی۔ (رومیوں ۱:۱۱، ۱۲) اور اگر آپ اُن کو اپنے کسی دُکھ سے باخبر کریں گے تو وہ آپ کو تسلی دے سکتے اور مضبوط بنا سکتے ہیں۔—۱-تھسلنیکیوں ۱:۶؛ ۳:۱-۳۔
۸، ۹. (ا) ایک بزرگ نے اپنی بیوی کے لئے محبت کیسے ظاہر کی؟ (ب) جب کلیسیا کے بزرگ اپنے خاندان کے ساتھ محبت سے پیش آتے ہیں تو کیا ظاہر ہوتا ہے؟
۸ ایک بزرگ اپنے خاندان کے ساتھ جس طرح سے پیش آتا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کلیسیا سے کتنی محبت رکھتا ہے۔ (۱-تیمتھیس ۳:۱، ۴) ایک شادیشُدہ بزرگ اپنی بیوی کے ساتھ محبت اور عزت سے پیش آتا ہے۔ اس طرح کلیسیا کے باقی شادیشُدہ بھائی اُس کے نمونہ سے سیکھ سکتے ہیں۔ (افسیوں ۵:۲۵؛ ۱-پطرس ۳:۷) اس سلسلے میں لنڈا نامی ایک مسیحی بہن کے بیان پر غور کریں جن کے شوہر اپنی موت تک یعنی ۲۰ سال کے لئے کلیسیا کے ایک بزرگ رہے۔ لنڈا اپنے شوہر کے بارے میں بتاتی ہیں: ”میرے شوہر کلیسیا کی خدمت میں بہت مصروف رہتے تھے۔ لیکن وہ مجھے ہمیشہ احساس دلاتے کہ وہ میرے ہی تعاون سے ایسا کر رہے ہیں۔ وہ میری بہت قدر کرتے تھے۔ جب بھی وہ کلیسیا کے کاموں سے فارغ ہوتے تو وہ میرے ساتھ وقت گزارتے۔ مَیں جانتی تھی کہ وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں اس لئے جب وہ کلیسیا کے لئے وقت صرف کرتے تو مَیں اُن سے ناراض نہیں ہوتی تھی۔“
۹ ایک مسیحی بزرگ اپنے بچوں کی تربیت اور حوصلہافزائی کرنے سے اُن کے لئے محبت ظاہر کرتا ہے۔ جو نمونہ وہ قائم کرتا ہے اُس کے مطابق دوسرے والدین بھی اپنے بچوں کی پرورش کر سکتے ہیں۔ (افسیوں ۶:۴) کلیسیا کے بزرگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ بزرگ کا عہدہ روحالقدس کے ذریعے اُنہی کو دیا جاتا ہے جو اپنے خاندان کی خبرگیری کرتے ہیں۔ جب وہ اپنے خاندان کے ساتھ محبت سے پیش آتے ہیں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس عہدے کے حقدار ہیں۔—۱-تیمتھیس ۳:۴، ۵۔
خوشی اور اطمینان
۱۰. (ا) کلیسیا کی خوشی اور سلامتی کس طرح خطرے میں پڑ سکتی ہے؟ (ب) پہلی صدی کی کلیسیاؤں میں کونسا مسئلہ کھڑا ہوا تھا اور اس مسئلے کو کس طرح حل کِیا گیا؟
۱۰ خدا کی پاک روح ہر ایک مسیحی کو اطمینان بخش سکتی ہے اور کلیسیا کے بزرگوں کے آپس میں اور پوری کلیسیا میں بھی سلامتی پیدا کر سکتی ہے۔ لیکن اگر کلیسیا کے افراد کُھل کر ایک دوسرے سے باتچیت نہ کریں تو کلیسیا کی خوشی اور سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ بادشاہ سلیمان نے کہا کہ ”صلاح کے بغیر ارادے پورے نہیں ہوتے۔“ (امثال ۱۵:۲۲) واقعی جہاں لوگ ایک دوسرے سے مشورہ لیتے ہیں وہاں ہر معاملہ پُرامن طریقے سے طے کِیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب پہلی صدی کے مسیحیوں میں ختنہ کرانے کا مسئلہ کھڑا ہوا تو رسولوں اور یروشلیم کے بزرگوں نے ملکر خدا کی پاک روح کی راہنمائی طلب کی۔ اُنہوں نے کُھل کر اپنی اپنی رائے کا اظہار کِیا اور آخرکار ایک دل ہو کر ایک نتیجے پر پہنچے۔ جب اُنہوں نے کلیسیاؤں کو اس نتیجے کی خبر پہنچائی تو بہنبھائیوں نے تسلی پائی اور وہ ”خوش ہوئے۔“ (اعمال ۱۵:۶-۲۳، ۲۵، ۳۱؛ ۱۶:۴، ۵) اس طرح خدا کے گلّے کی خوشی اور سلامتی برقرار رہی۔
۱۱. بزرگ کلیسیا کی خوشی اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے کیا کچھ کر سکتے ہیں؟
۱۱ آج بھی کلیسیا کے بزرگ ایک دوسرے سے مشورہ کرنے سے کلیسیا کی خوشی اور سلامتی کو برقرار رکھتے ہیں۔ جب کلیسیا میں کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے تو تمام بزرگ اکٹھے ہو کر اس کے بارے میں کُھل کر اپنی اپنی رائے بیان کرتے ہیں۔ پھر وہ ایک دوسرے کی بات کو دھیان سے سنتے ہیں۔ (امثال ۱۳:۱۰؛ ۱۸:۱۳) خدا کی پاک روح کی راہنمائی کے لئے دُعا کرنے کے بعد وہ بائبل کے اصولوں اور ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ جماعت کی ہدایت پر بھی غور کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ طے کرتے ہیں کہ اس مسئلے کو کیسے حل کِیا جائے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷؛ ۱-کرنتھیوں ۴:۶) جب کلیسیا کے بزرگ ایک مسئلے کے بارے میں فیصلہ کر لیتے ہیں تو تمام بزرگ اس فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایسے بزرگ جو شاید اس فیصلے کے ساتھ مطمئن نہیں ہیں وہ بھی ایسا کرتے ہیں۔ اس طرح وہ کلیسیا کے بہنبھائیوں کے لئے خدا کے حضور چلنے کے سلسلے میں اچھا نمونہ قائم کرتے ہیں اور کلیسیا کی خوشی اور سلامتی بھی برقرار رہتی ہے۔ (میکاہ ۶:۸) کیا آپ بھی اپنی کلیسیا کے بزرگوں کے فیصلوں کو قبول کرکے اُن پر عمل کرتے ہیں؟
تحمل اور مہربانی
۱۲. یسوع کو اپنے شاگردوں کے ساتھ تحمل اور مہربانی سے پیش آنے کی ضرورت کیوں پڑی تھی؟
۱۲ یسوع کے رسول بار بار غلطیاں کرتے تھے۔ اس کے باوجود یسوع اُن کے ساتھ تحمل اور مہربانی سے پیش آتا تھا۔ مثال کے طور پر وہ اُن کو بار بار سمجھاتا تھا کہ اُن کو خاکسار ہونا چاہئے اور خود کو بڑا نہیں خیال کرنا چاہئے۔ (متی ۱۸:۱-۴؛ ۲۰:۲۵-۲۷) مرنے سے پہلے اُس آخری رات کو یسوع نے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھوئے کیونکہ وہ اُن کو خاکسار بننے کی اہمیت سمجھانا چاہتا تھا۔ کیا شاگردوں نے یہ بات سمجھ لی؟ جینہیں، کیونکہ اس کے فوراً بعد اُن ”میں یہ تکرار بھی ہوئی کہ ہم میں سے کون بڑا سمجھا جاتا ہے؟“ (لوقا ۲۲:۲۴؛ یوحنا ۱۳:۱-۵) اس کے باوجود یسوع نے اُن کو ڈانٹا نہیں بلکہ بڑی نرمی سے اُن کو سمجھایا کہ ”بڑا کون ہے؟ وہ جو کھانا کھانے بیٹھا یا وہ جو خدمت کرتا ہے؟ کیا وہ نہیں جو کھانا کھانے بیٹھا ہے؟ لیکن مَیں تمہارے درمیان خدمت کرنے والے کی مانند ہوں۔“ (لوقا ۲۲:۲۷) چونکہ یسوع نے اپنے شاگردوں کے لئے تحمل اور مہربانی کا اچھا نمونہ قائم کِیا اس لئے شاگرد آخرکار اُس کی بات سمجھ گئے۔
۱۳، ۱۴. کلیسیا کے بزرگوں کو کن حالات میں مہربانی اختیار کرنی چاہئے؟
۱۳ کلیسیا کے بزرگ یسوع کے نمونے پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ ایک مسیحی غلطی کرتا ہے جس کی وجہ سے کلیسیا کے بزرگوں کو بار بار اُسے ہدایت کرنی پڑتی ہے۔ ایسی صورتحال میں بزرگوں کو اُس مسیحی پر غصہ نہیں کرنا چاہئے۔ ’بےقاعدہ چلنے والوں کو سمجھاتے‘ وقت اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ وہ خود بھی غلطیاں کرتے ہیں۔ اس لئے اُسے اس مسیحی کے ساتھ تحمل اور مہربانی سے پیش آنا چاہئے بالکل ایسے جیسے یہوواہ خدا اور یسوع مسیح تمام مسیحیوں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔—۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۴؛ یعقوب ۲:۱۳۔
۱۴ جب کلیسیا کا کوئی رُکن سنگین گُناہ کرتا ہے تو بزرگوں کو اُس کی اصلاح کرنی پڑتی ہے۔ اور اگر وہ شخص اپنے کئے سے توبہ نہیں کرتا تو بزرگوں کو اُسے کلیسیا سے نکالنا پڑتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۵:۱۱-۱۳) اس کے باوجود بزرگوں کو ایسے شخص کے ساتھ سخت لہجہ نہیں اختیار کرنا چاہئے۔ وہ اُس شخص کی بُری حرکت سے نفرت کرتے ہیں نہ کہ اُس شخص سے۔ (یہوداہ ۲۳) جب کلیسیا کے بزرگ ایک ایسے شخص کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ دوبارہ سے کلیسیا کا رُکن بننے کے لئے قدم اُٹھائے۔—لوقا ۱۵:۱۱-۲۴۔
نیکی اور ایمان
۱۵. کلیسیا کے بزرگ خدا کی مثال پر کیسے عمل کرتے ہیں اور وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
۱۵ یہوواہ خدا ایسے لوگوں ’پر بھی مہربان ہے‘ جو اُسکی نعمتوں کی قدر نہیں کرتے۔ (زبور ۱۴۵:۹؛ متی ۵:۴۵) چونکہ یہوواہ خدا سب پر بھلائی کرتا ہے اس لئے وہ اپنے خادموں کو ”بادشاہی کی . . . خوشخبری کی مُنادی“ دُنیابھر میں کرنے کو کہتا ہے۔ (متی ۲۴:۱۴) کلیسیا کے بزرگ خدا کی اس مثال پر عمل کرتے ہوئے مُنادی کے کام میں پیش پیش رہتے ہیں۔ وہ ایمان رکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے تمامتر وعدے پورے کرے گا اِس لئے وہ مُنادی کرنے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔—رومیوں ۱۰:۱۰، ۱۳، ۱۴۔
۱۶. بزرگ ’اہلِایمان کے ساتھ نیکی‘ کرنے کی اپنی ذمہداری پر کیسے پورا اُترتے ہیں؟
۱۶ کلیسیا کے بزرگ تبلیغی کام میں حصہ لینے سے ”سب کے ساتھ نیکی“ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اُنہیں ”خاص کر اہلِایمان کے ساتھ“ نیکی کرنے کی ذمہداری سونپی گئی ہے۔ (گلتیوں ۶:۱۰) اس ذمہداری پر پورا اُترنے کے لئے وہ کلیسیا کے بہنبھائیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے اُن سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ ”جب ہم بہنبھائیوں سے ملاقات کرتے ہیں تو ہم اُن کو داد دیتے ہیں اور اُنہیں بتاتے ہیں کہ ہم خدا کی خدمت میں اُن کی محنت کی بہت قدر کرتے ہیں۔ مجھے ایسا کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔“ کبھیکبھار بزرگ ایسی ملاقاتوں کے دوران بہنبھائیوں کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ خدا کے لئے اپنی خدمت میں بہتری کیسے لا سکتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت وہ پولس رسول کی طرح بہنبھائیوں کے دلوں کو چُھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ غور کریں کہ اُس نے ایک کلیسیا کو کس انداز میں ہدایت دی۔ ہم پڑھتے ہیں: ”خداوند میں ہمیں تُم پر بھروسا ہے کہ جو حکم ہم تمہیں دیتے ہیں اُس پر عمل کرتے ہو اور کرتے بھی رہو گے۔“ (۲-تھسلنیکیوں ۳:۴) جب بہنبھائی جان جاتے ہیں کہ کلیسیا کے بزرگ اُن پر بھروسا کرتے ہیں تو وہ خوشی سے ”اپنے پیشواؤں [یعنی بزرگوں] کے فرمانبردار“ رہتے ہیں۔ (عبرانیوں ۱۳:۱۷) جب کلیسیا کے بزرگ آپ کی حوصلہافزائی کرنے کے لئے آپ سے ملاقات کرتے ہیں تو اُن کا شکریہ ضرور ادا کریں۔
حلم اور پرہیزگاری
۱۷. پطرس نے یسوع مسیح کی کونسی بات دل میں اُتار لی؟
۱۷ یسوع مسیح حلیم تھا۔ (متی ۱۱:۲۹) یہاں تک کہ جب اُسے دغابازی سے دُشمن کے ہاتھ پکڑوایا گیا تب بھی یسوع نے غصہ کرنے سے پرہیز کِیا۔ اس کے برعکس پطرس نے اپنی تلوار کھینچی اور مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ یسوع نے اُسے روکتے ہوئے کہا: ”کیا تُو نہیں سمجھتا کہ مَیں اپنے باپ سے مِنت کر سکتا ہوں اور وہ فرشتوں کے بارہ تمن سے زیادہ میرے پاس ابھی موجود کر دے گا؟“ (متی ۲۶:۵۱-۵۳؛ یوحنا ۱۸:۱۰) پطرس نے یسوع کی بات دل میں اُتار لی۔ اس لئے اُس نے دوسرے مسیحیوں کو بھی یہ ہدایت دی: ”مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اُس کے نقشِقدم پر چلو۔ . . . نہ وہ گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دُکھ پا کر کسی کو دھمکاتا تھا۔“—۱-پطرس ۲:۲۱-۲۳۔
۱۸، ۱۹. (ا) کلیسیا کے بزرگوں کو کن صورتحال میں خود پر قابو رکھنا چاہئے؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کن سوالات کا جواب پائیں گے؟
۱۸ اسی طرح کلیسیا میں بھی ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جس میں بزرگوں کو اپنے غصے پر قابو رکھنا چاہئے۔ مثال کے طور پر جب وہ کلیسیا کے کسی فرد کی ہدایت کرتے ہیں تو کبھیکبھار ایسا ہوتا ہے کہ وہ اُن پر بھڑک پڑتا ہے۔ یا پھر جب بزرگ کسی ایسے مسیحی کی اصلاح کرتے ہیں جو روحانی طور پر کمزور پڑ گیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اُس ”بےتامل بولنے والے“ کی طرح اُن کو جواب دے جس کی ”باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں۔“ (امثال ۱۲:۱۸) ایسی صورتحال میں بزرگ یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔ وہ اُس مسیحی کو سخت لہجے میں جواب نہیں دیتے اور نہ ہی کسی اَور طریقے سے اُس سے بدلہ لیتے ہیں۔ اس کی بجائے وہ اُس کے ساتھ ہمدردی سے پیش آتے ہیں۔ بزرگوں کا یہ رحمدل رویہ ایسے مسیحی کے لئے برکت سے کم نہیں ہے کیونکہ یہ رویہ اُس کے دل کو جیت سکتا ہے۔ (۱-پطرس ۳:۸، ۹) جب کلیسیا کے بزرگ آپ کی اصلاح کرتے ہیں تو کیا آپ بھی خود کو قابو میں رکھتے ہوئے اُن کے ساتھ حلم سے پیش آتے ہیں؟
عبرانیوں ۶:۱۰) اس کے باوجود کئی بپتسمہیافتہ بھائی اس ”اچھے کام“ میں حصہ لینے کی خواہش نہیں رکھتے۔ (۱-تیمتھیس ۳:۱) اس کی کیا وجہ ہے؟ یہوواہ خدا اُن بھائیوں کی تربیت کیسے کرتا ہے جن کو وہ اپنے گلّے کے گلّہبانوں کے طور پر مقرر کرتا ہے؟ ان دو سوالوں کا جواب ہم اگلے مضمون میں پائیں گے۔
۱۹ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح اُن ہزاروں بزرگوں کی محنت کی بہت قدر کرتے ہیں جو خوشی سے اُن کے گلّے کی گلّہبانی کر رہے ہیں۔ یہوواہ اور یسوع اُن خادموں کی بھی بہت قدر کرتے ہیں جو ”مُقدسوں کی خدمت“ کرنے میں کلیسیا کے بزرگوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ (کیا آپ کو یاد ہے؟
• کلیسیا کے بزرگ خدا کے گلّے کے لئے اپنی محبت کیسے ظاہر کرتے ہیں؟
• تمام بہنبھائی کلیسیا میں خوشی اور سلامتی کو کیسے فروغ دیتے ہیں؟
• مسیحیوں کی اصلاح کرتے وقت بزرگ تحمل اور مہربانی سے کیوں پیش آتے ہیں؟
• کلیسیا کے بزرگ کس بات پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ نیکی کرنے میں مثال کیسے قائم کرتے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۹ پر تصویر]
بزرگ کلیسیا کے لئے گہری محبت رکھتے ہیں اس لئے وہ اس کی خدمت کرتے ہیں
[صفحہ ۱۹ پر تصویریں]
بزرگ اپنے خاندان کے ساتھ تفریح بھی کرتے ہیں
بزرگ اپنے خاندان کے ساتھ مُنادی کے کام میں حصہ لیتے ہیں
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
جب بزرگ کُھل کر مشورہ کرتے ہیں تو کلیسیا کی خوشی اور سلامتی برقرار رہتی ہے