مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏جیتے رہنے کیلئے زندگی کو اختیار کریں‘‏

‏’‏جیتے رہنے کیلئے زندگی کو اختیار کریں‘‏

‏’‏جیتے رہنے کیلئے زندگی کو اختیار کریں‘‏

‏”‏مَیں نے زندگی اور موت کو اور برکت اور لعنت کو تیرے آگے رکھا ہے پس تُو زندگی کو اختیار کر کہ تُو .‏ .‏ .‏ جیتا رہے۔‏“‏—‏استثنا ۳۰:‏۱۹‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ انسان کس لحاظ میں خدا کی صورت پر بنایا گیا ہے؟‏

‏”‏ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبِیہ کی مانند بنائیں۔‏“‏ خدا کے یہ الفاظ بائبل کے پہلے باب میں پائے جاتے ہیں۔‏ پیدایش ۱:‏۲۶،‏ ۲۷ میں ہم آگے پڑھتے ہیں:‏ ”‏اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کِیا۔‏ خدا کی صورت پر اُسکو پیدا کِیا۔‏“‏ پہلا انسان آدم اپنے خالق کی طرح سوچنےسمجھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔‏ اسکے علاوہ وہ خدا کی خوبیاں یعنی محبت،‏ حکمت،‏ انصاف اور قوت کو ظاہر کر سکتا تھا۔‏ خدا نے اُسے اچھے اور بُرے کی تمیز کرنے کی صلاحیت بھی دی۔‏ اسکی بِنا پر آدم ایسے فیصلے کر سکتا تھا جن سے خدا خوش ہوتا۔‏ (‏رومیوں ۲:‏۱۵‏)‏ آدم کو اپنی مرضی اختیار کرنے کی آزادی تھی۔‏ آدم کو خلق کرنے کے بعد یہوواہ خدا نے اُس پر نظر کی اور کہا:‏ ”‏بہت اچھا ہے۔‏“‏—‏پیدایش ۱:‏۳۱؛‏ زبور ۹۵:‏۶‏۔‏

۲ ہم آدم کی اولاد ہیں اسلئے ہم بھی خدا کی صورت پر بنائے گئے ہیں۔‏ کیا ہم واقعی زندگی میں اپنی راہ کو اختیار کر سکتے ہیں یا پھر کیا خدا پہلے سے ہی ہماری زندگی کی راہ کو مقرر کرتا ہے؟‏ خدا مستقبل کے بارے میں جاننے کی صلاحیت تو رکھتا ہے لیکن وہ نہ تو ہمارے اعمال کو اور نہ ہی ہمارے مستقبل کو پہلے سے مقرر کرتا ہے۔‏ اُس نے ہمیں اپنی راہ اختیار کرنے کی پوری آزادی دی ہے۔‏ البتہ ہمیں اس آزادی کو اچھے فیصلے کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہئے۔‏ اس بات کی اہمیت ہم بنی‌اسرائیل کی مثال سے دیکھ سکتے ہیں۔‏—‏رومیوں ۱۵:‏۴‏۔‏

اچھے اور بُرے فیصلے

۳.‏ دس حکموں میں سے پہلا حکم کونسا تھا اور بنی‌اسرائیل نے اس سلسلے میں کیا فیصلہ کِیا؟‏

۳ یہوواہ نے بنی‌اسرائیل سے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ تیرا خدا جو تجھ کو ملکِ‌مصرؔ یعنی غلامی کے گھر سے نکال لایا مَیں ہوں۔‏“‏ (‏استثنا ۵:‏۶‏)‏ بنی‌اسرائیل خوب جانتے تھے کہ یہوواہ اُنکا خدا ہے کیونکہ ۱۵۱۳ قبلِ‌مسیح میں اُس نے اُنہیں غلامی سے آزاد کر دیا تھا۔‏ اپنے نبی موسیٰ کے ذریعے یہوواہ نے اُنکو دس حکم دئے جن میں سے پہلا حکم یہ تھا:‏ ”‏میرے حضور تُو غیرمعبودوں کو نہ ماننا۔‏“‏ (‏خروج ۲۰:‏۱،‏ ۳‏)‏ اُس وقت بنی‌اسرائیل نے اس حکم پر عمل کرنے کا فیصلہ کِیا تھا۔‏ لہٰذا اُنہوں نے دل‌وجان سے یہوواہ ہی کی عبادت کی۔‏—‏خروج ۲۰:‏۵؛‏ گنتی ۲۵:‏۱۱‏۔‏

۴.‏ (‏ا)‏ موسیٰ نے بنی‌اسرائیل کو کس کے بارے میں فیصلہ کرنے کو کہا؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کونسا اہم فیصلہ کرنا ہے؟‏

۴ اس واقعے کے تقریباً ۴۰ سال بعد بنی‌اسرائیل کو دوبارہ سے ایک اہم فیصلہ کرنا پڑا۔‏ موسیٰ نے اُن سے کہا:‏ ”‏مَیں آج کے دن آسمان اور زمین کو تمہارے برخلاف گواہ بناتا ہوں کہ مَیں نے زندگی اور موت کو اور برکت اور لعنت کو تیرے آگے رکھا ہے پس تُو زندگی کو اختیار کر کہ تُو بھی جیتا رہے اور تیری اولاد بھی۔‏“‏ (‏استثنا ۳۰:‏۱۹‏)‏ اسی طرح ہمیں بھی ایک اہم فیصلہ کرنا ہے۔‏ کیا ہم وفاداری سے یہوواہ خدا کی خدمت کرینگے؟‏ ایسا کرنے سے ہم ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔‏ لیکن اگر ہم یہوواہ خدا کی نافرمانی کرنے کا فیصلہ کریں گے تو ہمیں اسکے بُرے نتائج بھی بھگتنے پڑینگے۔‏ آئیے ہم دو مثالوں پر غور کرکے دیکھتے ہیں کہ اچھے فیصلے اور بُرے فیصلے کرنے کے کونسے نتیجے ہوتے ہیں۔‏

۵،‏ ۶.‏ یشوع نے کیا کرنے کا فیصلہ کِیا اور اسکا کیا نتیجہ نکلا؟‏

۵ سن ۱۴۷۳ قبلِ‌مسیح میں بنی‌اسرائیل ملکِ‌موعود میں داخل ہوئے۔‏ اُن کے راہنما یشوع نے اپنی موت کے کچھ عرصہ پہلے بنی‌اسرائیل کی یوں تاکید کی:‏ ”‏اگر [‏یہوواہ]‏ کی پرستش تُم کو بُری معلوم ہوتی ہو تو آج تُم اُسے جسکی پرستش کرو گے چن لو۔‏ خواہ وہ وہی دیوتا ہوں جنکی پرستش تمہارے باپ‌دادا بڑے دریا کے اُس پار کرتے تھے یا اموریوں کے دیوتا ہوں جن کے مُلک میں تُم بسے۔‏“‏ پھر یشوع نے اسرائیلیوں کو اپنے فیصلے کے بارے میں یوں بتایا:‏ ”‏اب رہی میری اور میرے گھرانے کی بات سو ہم تو [‏یہوواہ]‏ کی پرستش کرینگے۔‏“‏—‏یشوع ۲۴:‏۱۵‏۔‏

۶ اس واقعے کے کئی سال پہلے یہوواہ خدا نے یشوع کو مضبوط اور دلیر ہونے اور شریعت پر عمل کرنے کی ہدایت دی تھی۔‏ یہوواہ نے یہ بھی کہا تھا کہ یشوع دن رات شریعت کی کتاب پر دھیان دینے سے کامیاب ہوگا۔‏ (‏یشوع ۱:‏۷،‏ ۸‏)‏ اور بالکل ایسا ہی ہوا۔‏ یشوع نے خدا کی بات پر عمل کرنے کا فیصلہ کِیا جسکے نتیجے میں اُسے بہت سی برکتیں حاصل ہوئیں۔‏ یشوع نے کہا:‏ ”‏جتنی اچھی باتیں [‏یہوواہ]‏ نے اؔسرائیل کے گھرانے سے کہی تھیں اُن میں سے ایک بھی نہ چُھوٹی۔‏ سب کی سب پوری ہوئیں۔‏“‏—‏یشوع ۲۱:‏۴۵‏۔‏

۷.‏ یسعیاہ نبی کے زمانے میں بنی‌اسرائیل نے کونسی راہ اختیار کی اور اسکا کیا نتیجہ نکلا؟‏

۷ البتہ اسکے ۷۰۰ سال بعد بنی‌اسرائیل نے ایک اَور راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ مثال کے طور پر سال کے آخری دن پر وہ لذیذ کھانے کھاتے،‏ میٹھی مے پیتے اور خوب جشن مناتے۔‏ یہ صرف دوست‌احباب کی محفل نہیں تھی بلکہ یہ جشن دوسری قوموں کے دیوتاؤں کے نام منایا جاتا تھا۔‏ اسرائیلیوں کی اس بےوفائی کی وجہ سے خدا بہت ناراض تھا۔‏ اُس نے یسعیاہ نبی کے ذریعے فرمایا:‏ ”‏تُم .‏ .‏ .‏ [‏یہوواہ]‏ کو ترک کرتے اور اُسکے کوہِ‌مُقدس کو فراموش کرتے اور مشتری کیلئے دسترخوان چنتے اور زہرہ کیلئے شرابِ‌ممزوج کا جام پُر کرتے ہو۔‏“‏ یہوواہ پر بھروسہ کرنے کی بجائے بنی‌اسرائیل ”‏مشتری“‏ اور ”‏زہرہ“‏ نامی دیوتاؤں سے اچھی فصلیں حاصل کرنے کی اُمید باندھتے تھے۔‏ اسرائیل کے اس بُرے فیصلے کی وجہ سے یہوواہ خدا نے اُنہیں یہ سزا سنائی:‏ ”‏مَیں تُم کو گن گن کر تلوار کے حوالہ کرونگا اور تُم سب ذبح ہونے کیلئے خم ہوگے کیونکہ جب مَیں نے بلایا تو تُم نے جواب نہ دیا۔‏ جب مَیں نے کلام کِیا تو تُم نے نہ سنا بلکہ تُم نے وہی کِیا جو میری نظر میں بُرا تھا اور وہ چیز پسند کی جس سے مَیں خوش نہ تھا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۶۵:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ جی‌ہاں،‏ ایسے بُرے فیصلوں کی وجہ سے بنی‌اسرائیل پر خدا کا عذاب نازل ہوا۔‏ اُنکو مشتری اور زہرہ بھی اس عذاب سے بچا نہ سکے۔‏

اچھے فیصلے کرنے کے اقدام

۸.‏ استثنا ۳۰:‏۲۰ کے مطابق اچھے فیصلے کرنے کے تین اقدام کیا ہیں؟‏

۸ موسیٰ نے بنی‌اسرائیل کو زندگی اختیار کرنے کے اِن تین اقدام پر عمل کرنے کو کہا:‏ ’‏تُو [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے محبت رکھ اور اُسکی بات سُن اور اُسی سے لپٹا رہے۔‏‘‏ (‏استثنا ۳۰:‏۲۰‏)‏ آئیے ہم ان اقدام پر غور کرتے ہیں تاکہ ہم بھی اچھے فیصلے کرکے زندگی اختیار کر سکیں۔‏

۹.‏ ہم یہوواہ خدا کیلئے اپنی محبت کا ثبوت کیسے پیش کر سکتے ہیں؟‏

۹ یہوواہ خدا سے محبت رکھیں:‏ ہم نے یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا فیصلہ اسلئے کِیا ہے کہ ہم اُس سے محبت رکھتے ہیں۔‏ ہم بنی‌اسرائیل کی طرح نہیں بننا چاہتے جنہوں نے خدا کے احکام کو ترک کرنے کا فیصلہ کِیا تھا۔‏ اسلئے ہم جنسی بداخلاقی سے کنارہ کرتے ہیں اور مال‌ودولت کے لالچ میں پڑنے سے بھی باز رہتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۱؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۶-‏۱۰‏)‏ ہم یہوواہ خدا سے لپٹے رہتے ہیں اور اُسکے آئین کو مانتے ہیں۔‏ (‏یشوع ۲۳:‏۸؛‏ زبور ۱۱۹:‏۵،‏ ۸‏)‏ جب بنی‌اسرائیل ملکِ‌موعود میں داخل ہونے والے تھے تو موسیٰ نے اُنکی یوں تاکید کی:‏ ”‏دیکھو!‏ جیسا [‏یہوواہ]‏ میرے خدا نے مجھے حکم دیا اُسکے مطابق مَیں نے تُم کو آئین اور احکام سکھا دئے ہیں تاکہ اُس مُلک میں اُن پر عمل کرو جس پر قبضہ کرنے کیلئے جا رہے ہو۔‏ سو تُم انکو ماننا اور عمل میں لانا کیونکہ اَور قوموں کے سامنے یہی تمہاری عقل اور دانش ٹھہرینگے۔‏“‏ (‏استثنا ۴:‏۵،‏ ۶‏)‏ جب ہم یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیتے ہیں تو ہم اُسکو اپنی محبت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔‏ اگر ہم ایسا کرنے کا فیصلہ کرینگے تو خدا ہمیں برکتوں سے نوازیگا۔‏—‏متی ۶:‏۳۳‏۔‏

۱۰-‏۱۲.‏ نوح کے زمانے میں جو کچھ ہوا تھا اس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۰ خدا کی بات سنیں:‏ نوح نے ’‏راستبازی کی مُنادی‘‏ کی۔‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۵‏)‏ لیکن اُس زمانے کے لوگوں کو ”‏خبر نہ ہوئی“‏ یعنی اُنہوں نے نوح کی آگاہیوں کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ اسکا کیا نتیجہ نکلا؟‏ ”‏طوفان آ کر اُن سب کو بہا .‏ .‏ .‏ لے گیا۔‏“‏ یسوع مسیح نے ہمارے زمانے کے بارے میں خبردار کِیا کہ ”‏ابنِ‌آدم کا آنا“‏ نوح کے زمانے کی طرح ہوگا۔‏ یہ اُن لوگوں کیلئے آگاہی ہے جو آج بھی خدا کے کلام کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔‏—‏متی ۲۴:‏۳۹‏۔‏

۱۱ جو لوگ خدا کے کلام کی آگاہیوں کو سُن کر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں اُنکو جان لینا چاہئے کہ اسکا کیا نتیجہ نکلے گا۔‏ پطرس رسول نے انکے بارے میں لکھا:‏ ”‏وہ تو جان‌بُوجھ کر یہ بھول گئے کہ خدا کے کلام کے ذریعہ سے آسمان قدیم سے موجود ہیں اور زمین پانی میں سے بنی اور پانی میں قائم ہے۔‏ اِن ہی کے ذریعہ سے اُس وقت کی دُنیا ڈوب کر ہلاک ہوئی۔‏ مگر اِس وقت کے آسمان اور زمین اُسی کلام کے ذریعہ سے اسلئے رکھے ہیں کہ جلائے جائیں اور وہ بےدین آدمیوں کی عدالت اور ہلاکت کے دن تک محفوظ رہینگے۔‏“‏—‏۲-‏پطرس ۳:‏۳-‏۷‏۔‏

۱۲ ان لوگوں کے برعکس نوح اور اُسکے خاندان نے اچھا فیصلہ کِیا اور اسکا اچھا نتیجہ نکلا۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏ایمان ہی کے سبب سے نوؔح نے ان چیزوں کی بابت جو اُس وقت تک نظر نہ آتی تھیں ہدایت پا کر خدا کے خوف سے اپنے گھرانے کے بچاؤ کیلئے کشتی بنائی۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۷‏)‏ آئیں ہم بھی خدا کے کلام پر کان لگانے میں تیز ہوں اور اس پر فرمانبرداری سے عمل کریں۔‏—‏یعقوب ۱:‏۱۹،‏ ۲۲-‏۲۵‏۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ (‏ا)‏ ہمیں یہوواہ سے کیوں ’‏لپٹے رہنا‘‏ چاہئے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ یہوواہ ”‏ہمارا کمہار“‏ ہماری انسانیت کو روپ دے سکے؟‏

۱۳ خدا ہی سے لپٹے رہیں:‏ ’‏زندگی کو اختیار کرنے‘‏ کیلئے ہمیں نہ صرف یہوواہ خدا سے محبت رکھنی اور اُسکی بات سننی چاہئے بلکہ اُس سے ’‏لپٹے بھی رہنا‘‏ چاہئے۔‏ اسکا مطلب ہے کہ ہمیں خدا کی مرضی کرنے کے فیصلے پر قائم رہنا چاہئے۔‏ یسوع نے اسکی اہمیت یوں ظاہر کی:‏ ”‏اپنے صبر سے تُم اپنی جانیں بچائے رکھو گے۔‏“‏ (‏لوقا ۲۱:‏۱۹‏)‏ اس سلسلے میں ہم جو بھی فیصلہ کرینگے اس سے ہمارے دل کا حال ظاہر ہوگا۔‏ امثال ۲۸:‏۱۴ میں لکھا ہے:‏ ”‏مبارک ہے وہ آدمی جو سدا ڈرتا رہتا ہے لیکن جو اپنے دل کو سخت کرتا ہے مصیبت میں پڑیگا۔‏“‏ اسکی ایک مثال فرعون کی ہے۔‏ جب مصر پر دس آفتیں آئیں تو اُس نے یہوواہ خدا سے ڈرنے کی بجائے اپنے دل کو سخت کر لیا۔‏ یہوواہ خدا نے یہ مقرر نہیں کِیا تھا کہ فرعون اُسکی مرضی کرنے سے انکار کریگا۔‏ یہ فرعون کا اپنا فیصلہ تھا اور یہوواہ نے اُسکو ایسا فیصلہ کرنے کی آزادی دی۔‏ فرعون کے بُرے فیصلے کے باوجود یہوواہ نے اپنے مقصد کو تکمیل تک پہنچایا۔‏ یہوواہ نے فرعون سے کہا:‏ ”‏مَیں نے اسی لئے تجھے کھڑا کِیا ہے کہ تیری وجہ سے اپنی قدرت ظاہر کروں اور میرا نام تمام روی زمین پر مشہور ہو۔‏“‏—‏رومیوں ۹:‏۱۷‏۔‏

۱۴ یسعیاہ نبی نے خدا کے بارے میں کہا کہ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ تُو ہمارا باپ ہے۔‏ ہم مٹی ہیں اور تُو ہمارا کمہار ہے اور ہم سب کے سب تیری دستکاری ہیں۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۶۴:‏۸‏)‏ اگر ہم خدا کے کلام کا مطالعہ کرکے اس پر عمل کرینگے تو یہوواہ خدا ایک کمہار کی طرح ہماری انسانیت کو روپ دے سکیگا۔‏ وہ ہمیں حلیم بننے میں مدد دیگا جسکی وجہ سے ہم میں یہوواہ کو خوش کرنے کی خواہش بڑھتی جائیگی۔‏ اسطرح ہم اپنے خدا سے لپٹے رہینگے۔‏—‏افسیوں ۴:‏۲۳،‏ ۲۴؛‏ کلسیوں ۳:‏۸-‏۱۰‏۔‏

‏’‏اپنے بیٹوں اور پوتوں کو سکھائیں‘‏

۱۵.‏ استثنا ۴:‏۹ کے مطابق موسیٰ نے بنی‌اسرائیل کو کن دو ذمہ‌داریوں پر پورا اُترنے کی ہدایت دی؟‏

۱۵ ملکِ‌موعود کی دہلیز پر موسیٰ نے بنی‌اسرائیل کو یوں ہدایت دی:‏ ”‏تُو ضرور ہی اپنی احتیاط رکھنا اور بڑی حفاظت کرنا تا نہ ہو کہ تُو وہ باتیں جو تُو نے اپنی آنکھ سے دیکھی ہیں بھول جائے اور وہ زندگی‌بھر کیلئے تیرے دل سے جاتی رہیں بلکہ تُو اُنکو اپنے بیٹوں اور پوتوں کو سکھانا۔‏“‏ (‏استثنا ۴:‏۹‏)‏ یہوواہ کی برکت حاصل کرنے کیلئے اسرائیلیوں کو دو ذمہ‌داریوں پر پورا اُترنا تھا۔‏ ایک ذمہ‌داری یہ تھی کہ اُنہیں یہوواہ کے اُن کاموں کی یاد تازہ رکھنی تھی جو اُس نے اُنکے لئے کئے تھے۔‏ دوسری یہ تھی کہ اُنہیں یہ باتیں اپنی اولاد کو بھی سکھانی تھیں۔‏ آج بھی یہوواہ کے خادموں کو ’‏زندگی اختیار کرنے‘‏ کیلئے ان دو ذمہ‌داریوں پر پورا اُترنا پڑیگا۔‏ لیکن یہوواہ نے ہماری خاطر کونسے کام کئے ہیں جو ہم نے اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں؟‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ (‏ا)‏ گلئیڈ سکول میں تعلیم پانے والے مشنریوں نے کن کاموں کو انجام دیا ہے؟‏ (‏ب)‏ کسی ایسے مسیحی کی مثال دیجئے جو بہت عرصے سے شاگرد بنانے کے کام میں سرگرم ہے؟‏

۱۶ ہم نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے کہ یہوواہ نے خوشخبری کی مُنادی اور شاگرد بنانے کے کام کو خوب ترقی دی۔‏ سن ۱۹۴۳ میں واچ‌ٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ قائم کِیا گیا۔‏ اس میں بہت سے مشنریوں کو تربیت دی گئی ہے۔‏ ان مشنریوں نے دُنیابھر میں شاگرد بنانے کے کام کو فروغ دیا ہے۔‏ کئی مشنری جنہوں نے بہت سال پہلے اس سکول سے تعلیم حاصل کی وہ بیماری اور بڑھاپے کی کمزوریوں کے باوجود ابھی بھی اس کام کو سرگرمی سے انجام دے رہے ہیں۔‏ اسکی ایک مثال بہن میری اولسن کی ہے جنہوں نے سن ۱۹۴۴ میں گلئیڈ سکول میں تعلیم پائی تھی۔‏ اُنہوں نے یوراگوئے،‏ کولمبیا اور پورٹوریکو میں مشنری کے طور پر خدمت کی ہے اور ایسا کرنے کیلئے اُنہیں ہسپانوی زبان سیکھنی پڑی۔‏ ضعیف ہونے کے باوجود وہ ہر ہفتے پورٹوریکو کی ایک کلیسیا کے بہن‌بھائیوں کیساتھ ملکر تبلیغی کام میں حصہ لیتی ہیں۔‏

۱۷ بہن نینسی پورٹر ایک بیوہ بہن ہیں جنہوں نے ۱۹۴۷ میں گلئیڈ سکول میں تعلیم پائی تھی۔‏ اُنہیں ملک بہاماس بھیجا گیا جہاں وہ آج تک مشنری کے طور پر خدمت انجام دے رہی ہیں۔‏ بہن نینسی کہتی ہیں کہ میرے لئے ”‏دوسروں کو بائبل سچائی کی تعلیم دینا خوشی کا ایک خاص ذریعہ رہا ہے۔‏ اِس سے ایک باضابطہ روحانی معمول قائم ہو جاتا ہے جو میری زندگی کو منظم اور مستحکم رکھتا ہے۔‏“‏ * بہن نینسی نے ان باتوں کی یاد تازہ رکھی ہے جو یہوواہ نے اُنکی خاطر کی ہیں۔‏ دوسرے عمررسیدہ بہن‌بھائی بھی ایسا کرتے ہیں۔‏ آپ نے بھی اپنی آنکھ سے دیکھا ہوگا کہ یہوواہ خدا نے آپکے علاقے میں شاگرد بنانے کے کام کو ترقی دی ہے۔‏ کیا آپ ان برکات کیلئے شکرگزار ہیں؟‏—‏زبور ۶۸:‏۱۱‏۔‏

۱۸.‏ مشنری بہن‌بھائیوں کی آپ‌بیتیوں پر غور کرنے سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۸ جو بہن‌بھائی بہت عرصہ سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں ہم انکی سرگرمی کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔‏ اُنکی آپ‌بیتیوں پر غور کرنے سے ہم جان جاتے ہیں کہ یہوواہ نے ہمیشہ اُنکا ساتھ دیا ہے۔‏ یہ دیکھ کر ہم بھی حوصلہ پاتے ہیں اور یہوواہ کی خدمت کرنے کے فیصلے پر قائم رہتے ہیں۔‏ کیا آپ بھی مینارِنگہبانی کے رسالے میں شائع ہونے والی آپ‌بیتیاں شوق سے پڑھتے ہیں؟‏

۱۹.‏ مسیحی والدین مینارِنگہبانی میں شائع ہونے والی آپ‌بیتیوں کے ذریعے اپنے بچوں کو کیا سکھا سکتے ہیں؟‏

۱۹ موسیٰ نے بنی‌اسرائیل کو خدا کے کاموں کی یاد زندگی‌بھر تازہ رکھنے کی تاکید کی تھی۔‏ پھر اُس نے کہا:‏ ”‏تُو اُن [‏باتوں]‏ کو اپنے بیٹوں اور پوتوں کو سکھانا۔‏“‏ (‏استثنا ۴:‏۹‏)‏ آج کے بُرے دَور میں نوجوان مسیحیوں کو اچھی مثالوں کی ضرورت ہے۔‏ اس سلسلے میں بہن‌بھائیوں کی آپ‌بیتیاں اُنکے لئے خاص اہمیت رکھتی ہیں۔‏ مینارِنگہبانی میں شائع ہونے والی،‏ عمررسیدہ مسیحی بہنوں کی آپ‌بیتیوں سے غیرشادی‌شُدہ بہنیں سیکھ سکتی ہیں۔‏ مسیحی والدین مشنریوں اور خدا کے دوسرے خادموں کی آپ‌بیتیوں کے ذریعے اپنے بچوں کے دل میں کُل‌وقتی خدمت کرنے کی خواہش پیدا کر سکتے ہیں۔‏ مسیحی نوجوان ایک اَور زبان سیکھ کر اپنے ملک میں اُن لوگوں میں مُنادی کر سکتے ہیں جو مقامی زبان نہیں بولتے۔‏

۲۰.‏ ہم ’‏زندگی کیسے اختیار‘‏ کر سکتے ہیں؟‏

۲۰ توپھر ہم ’‏زندگی کیسے اختیار‘‏ کر سکتے ہیں؟‏ یہوواہ نے ہمیں اپنی راہ اختیار کرنے کی آزادی دی ہے۔‏ لہٰذا ہمیں اُسکی خدمت کرنے کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔‏ اسطرح ہم اُسکے لئے اپنی محبت ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ ہمیں اس فیصلے پر عمربھر قائم رہنا چاہئے کیونکہ موسیٰ نے کہا تھا کہ یہوواہ ہی ”‏تیری زندگی اور تیری عمر کی درازی ہے۔‏“‏—‏استثنا ۳۰:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 17 مضمون ”‏غم کے باوجود شادمان اور شکرگزار“‏ کو دیکھیں جو جون ۱،‏ ۲۰۰۱ کے مینارِنگہبانی،‏ صفحہ ۲۳-‏۲۷ میں شائع ہوا ہے۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• اچھے اور بُرے فیصلہ کرنے والے لوگوں کی مثالوں سے آپ نے کیا سیکھا ہے؟‏

‏• ”‏زندگی کو اختیار“‏ کرنے کیلئے ہمیں کونسے اقدام اُٹھانے پڑینگے؟‏

‏• مسیحیوں کو کن دو ذمہ‌داریوں پر پورا اُترنا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

‏”‏مَیں نے زندگی اور موت کو .‏ .‏ .‏ تیرے آگے رکھا ہے“‏

‏[‏صفحہ ۳۰ پر تصویر]‏

نوح اور اُسکے خاندان نے یہوواہ کی بات سنی اور طوفان میں سے زندہ بچ گئے

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

بہن میری اولسن

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

بہن نینسی پورٹر