مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

زبور کی دوسری کتاب سے اہم نکات

زبور کی دوسری کتاب سے اہم نکات

یہوواہ کا کلام زندہ ہے

زبور کی دوسری کتاب سے اہم نکات

یہوواہ خدا کے خادم جانتے ہیں کہ اُنہیں اذیتوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑیگا۔‏ اس سلسلے میں پولس رسول نے لکھا تھا کہ ”‏جتنے مسیح یسوؔع میں دینداری کیساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں وہ سب ستائے جائینگے۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۲‏)‏ ہم اذیتوں اور آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود یہوواہ خدا کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

اس سوال کا جواب زبور کی دوسری کتاب میں پایا جاتا ہے۔‏ یہ کتاب زبور ۴۲ تا ۷۲ باب پر مشتمل ہے۔‏ اس میں بتایا جاتا ہے کہ اذیت کے وقت یہوواہ خدا کے وفادار رہنے کیلئے ہمیں اُس پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور اُسکی نجات کے انتظار میں بھی رہنا چاہئے۔‏ واقعی خدا کے باقی کلام کی طرح زبور کی دوسری کتاب بھی اُسکے خادموں کیلئے ”‏زندہ اور مؤثر“‏ یعنی فائدہ‌مند ہے۔‏—‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏۔‏

یہوواہ ”‏ہماری پناہ اور قوت ہے“‏

‏(‏زبور ۴۲:‏۱–‏۵۰:‏۲۳‏)‏

ایک لاوی اپنے وطن سے دُور اسیر ہے۔‏ اُسے اس بات پر افسوس ہے کہ وہ یہوواہ کی ہیکل میں جا کر اُسکی عبادت نہیں کر سکتا ہے۔‏ وہ خود کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے:‏ ”‏اَے میری جان!‏ تُو کیوں گِری جاتی ہے؟‏ تُو اندر ہی اندر کیوں بےچین ہے؟‏ خدا سے اُمید رکھ۔‏“‏ (‏زبور ۴۲:‏۵،‏ ۱۱؛‏ ۴۳:‏۵‏)‏ یہ مصرع زبور ۴۲ اور ۴۳ باب میں بار بار دہرایا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دو زبور ایک ہی نظم ہیں۔‏ زبور ۴۴ باب میں خدا سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ یہوداہ کو بچا لے۔‏ ہو سکتا ہے کہ یہ زبور بادشاہ حزقیاہ کے دنوں میں تیار کِیا گیا تھا جب شاہِ‌اسور،‏ یہوداہ پر چڑھائی کرنے کی تیاریاں کر رہا تھا۔‏

زبور ۴۵ باب ایک بادشاہ کی شادی کا گیت ہے۔‏ دراصل یہ گیت مسیح کی بادشاہت کے بارے میں ایک نبوت ہے۔‏ زبور ۴۶ تا ۴۸ باب میں یہوواہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ”‏ہماری پناہ اور قوت ہے“‏ اور ”‏تمام رویِ‌زمین کا شہنشاہ ہے۔‏“‏ (‏زبور ۴۶:‏۱؛‏ ۴۷:‏۲؛‏ ۴۸:‏۳‏)‏ زبور ۴۹ باب میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ کوئی شخص ”‏کسی طرح اپنے بھائی کا فدیہ نہیں دے سکتا۔‏“‏ (‏زبور ۴۹:‏۷‏)‏ زبور ۴۲ تا ۴۹ باب بنی‌قورح کے لکھے ہوئے ہیں جبکہ زبور ۵۰ باب آسف کا لکھا ہوا ہے۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۴۴:‏۱۹‏—‏”‏گیدڑوں کی جگہ“‏ سے کیا مُراد ہے؟‏ ہو سکتا ہے کہ اس سے مُراد میدانِ‌جنگ ہو جہاں سپاہیوں کی لاشیں گیدڑوں کیلئے خوراک بن جاتی ہیں۔‏

۴۵:‏۱۳،‏ ۱۴ الف—‏”‏بادشاہ کی بیٹی“‏ کون ہے جسے ’‏بادشاہ کے حضور پہنچایا جائیگا‘‏؟‏ یہ ”‏ازلی بادشاہ“‏ یہوواہ خدا کی بیٹی ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۵:‏۳‏)‏ یہ ”‏بیٹی“‏ ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ مسیحیوں کی کلیسیا کی نشاندہی کرتی ہے جنکو یہوواہ نے اپنی پاک روح سے مسح کرکے اپنے فرزندوں کے طور پر گود لیا ہے۔‏ (‏رومیوں ۸:‏۱۶‏)‏ یہوواہ کی یہ ”‏بیٹی“‏ ایک ”‏دلہن کی مانند آراستہ“‏ ہے ”‏جس نے اپنے شوہر کیلئے سنگار کِیا ہو۔‏“‏ اِسے آسمان میں اپنے دُلہے یسوع مسیح کے پاس پہنچایا جائیگا۔‏—‏مکاشفہ ۲۱:‏۲‏۔‏

۴۵:‏۱۴ ب،‏ ۱۵—‏اِس زبور میں ”‏کنواری سہیلیاں“‏ کس کی طرف اشارہ کرتی ہیں؟‏ یہ خدا کے خادموں کی ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو زمین پر ممسوح مسیحیوں کا ساتھ دیتی ہے۔‏ یہ ”‏بڑی بِھیڑ“‏ ”‏بڑی مصیبت“‏ میں سے نکل آئیگی۔‏ اسلئے وہ اُس وقت زمین پر موجود ہوگی جب آسمان میں مسیح کی شادی ہوگی۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۳،‏ ۱۴‏)‏ اس موقع پر اُسکی ”‏خوشی اور خرمی“‏ کی انتہا نہ ہوگی۔‏

۴۵:‏۱۶‏—‏بادشاہ کے بیٹے اُسکے باپ‌دادا کے جانشین کیسے ہو سکتے ہیں؟‏ جب یسوع زمین پر پیدا ہوا تھا تو اُسکے انسانی باپ‌دادا تھے۔‏ لیکن جب یسوع انکو اپنی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران زندہ کریگا تو یہی باپ‌دادا اُسکے بیٹے کہلائینگے۔‏ اِن میں سے بعض کو وہ ”‏تمام رویِ‌زمین پر سردار مقرر کریگا۔‏“‏

۵۰:‏۲‏—‏یروشلیم کو ”‏حسن کا کمال“‏ کیوں کہا گیا؟‏ کیونکہ یہوواہ خدا نے اِس شہر میں اپنی ہیکل بنوائی تھی اور اسے اپنے ممسوح بادشاہوں کے دارالحکومت کے طور پر مقرر کِیا تھا۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۴۲:‏۱-‏۳‏۔‏ جسطرح ایک ہرنی بیابان میں پانی کو ترستی ہے اسی طرح یہ لاوی یہوواہ خدا کو ترس رہا تھا۔‏ وہ اس بات پر نہایت افسردہ تھا کہ وہ یروشلیم کی ہیکل میں یہوواہ کی عبادت نہیں کر سکتا تھا۔‏ اس افسردگی کی وجہ سے لاوی کی بھوک ختم ہو گئی اور اُسکے ’‏آنسو دن رات اُسکی خوراک‘‏ بن گئے تھے۔‏ کیا ہم بھی اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کیساتھ مل کر یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کی اتنی ہی خواہش رکھتے ہیں؟‏

۴۲:‏۴،‏ ۵،‏ ۱۱؛‏ ۴۳:‏۳-‏۵‏۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم کسی مجبوری کی وجہ سے عارضی طور پر مسیحی کلیسیا کیساتھ جمع نہیں ہو سکتے ہیں۔‏ ایسی صورتحال میں ہم اُس وقت کو یاد کرنے سے تسلی پا سکیں گے جب ہم کلیسیا کیساتھ جمع ہوتے تھے۔‏ شاید ان یادوں کی وجہ سے ہم خود کو اَور بھی تنہا محسوس کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسی یادیں ہمیں اس بات کا احساس بھی دلائینگی کہ مصیبت کے وقت یہوواہ ہماری پناہ ہے اور ہمیں اُسی سے نجات کی اُمید رکھنی چاہئے۔‏

۴۶:‏۱-‏۳‏۔‏ کسی قسم کی اذیت یا آزمائش کا سامنا کرتے وقت ہمیں اس بات پر پورا بھروسہ رکھنا چاہئے کہ ”‏خدا ہماری پناہ اور قوت ہے۔‏“‏

۵۰:‏۱۶-‏۱۹‏۔‏ جو شخص دوسروں کو دھوکا دیتا اور بُرے کام کرتا ہے اُسے خود کو خدا کا خادم کہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‏

۵۰:‏۲۰‏۔‏ دوسروں کی خطاؤں کا چرچا پھیلانے کی بجائے ہمیں ایک دوسرے کے قصور معاف کرنے چاہئیں۔‏—‏کلسیوں ۳:‏۱۳‏۔‏

‏”‏اَے میری جان!‏ خدا ہی کی آس رکھ“‏

‏(‏زبور ۵۱:‏۱–‏۷۱:‏۲۴‏)‏

بت‌سبع کیساتھ زِنا کرنے کے بعد داؤد نے خدا سے دُعا میں جو معافی مانگی وہ زبور ۵۱ باب میں درج ہے۔‏ زبور ۵۲ تا ۵۷ باب میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ خدا اُن لوگوں کو نجات دلاتا ہے جو اپنا بوجھ اُس پر ڈالتے ہیں اور اُس پر آس رکھتے ہیں۔‏ زبور ۵۸ تا ۶۴ باب سے ظاہر ہوتا ہے کہ داؤد نے اپنی تمام مصیبتوں میں یہوواہ خدا کو اپنی پناہ بنا رکھا تھا۔‏ داؤد نے یوں گایا:‏ ”‏اَے میری جان!‏ خدا ہی کی آس رکھ کیونکہ اُسی سے مجھے اُمید ہے۔‏“‏—‏زبور ۶۲:‏۵‏۔‏

یہوواہ خدا کے دوست ’‏اُسکے نام کے جلال کا گیت گاتے‘‏ ہیں۔‏ (‏زبور ۶۶:‏۲‏)‏ زبور ۶۵ باب میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ خدا ہمارے لئے ہر چیز افراط سے مہیا کرتا ہے۔‏ زبور ۶۷ اور ۶۸ باب میں دکھایا گیا ہے کہ یہوواہ اپنے بندوں کو نجات دلاتا ہے اور زبور ۷۰ اور ۷۱ باب سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہی ہمیں دُشمنوں سے چھڑاتا ہے۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۵۱:‏۱۲‏—‏داؤد کس ”‏مستعد روح“‏ کا ذکر کر رہا تھا؟‏ داؤد یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ یہوواہ خدا اُسکی مدد کرنے کو مستعد یعنی تیار ہو جائے اور وہ یہوواہ کی پاک روح کی درخواست بھی نہیں کر رہا تھا۔‏ وہ تو یہ درخواست کر رہا تھا کہ یہوواہ اُسکی روح یعنی اُسکے دل کو نیک کام کرنے پر آمادہ کرے۔‏

۵۳:‏۱‏—‏جو لوگ خدا کے وجود کو نہیں مانتے اُنہیں ”‏احمق“‏ کیوں کہا گیا ہے؟‏ اسکا مطلب یہ نہیں کہ ایسے لوگ عقلمند نہیں ہیں۔‏ زبور ۵۳:‏۱-‏۴ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کے اعلیٰ اخلاقی معیاروں پر نہیں چلتے اسلئے وہ احمق کہلاتے ہیں۔‏

۵۸:‏۳-‏۵‏—‏شریروں کا زہر سانپ کا سا زہر کیوں ہے؟‏ جسطرح سانپ کا زہر جسم کو تباہ کرتا ہے اسی طرح شریر دوسرے لوگوں کے بارے میں جو جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں اُن سے لوگوں کا نیک نام تباہ ہو جاتا ہے۔‏ اسکے علاوہ وہ ”‏بہرے افعی کی مانند ہیں“‏ کیونکہ وہ اصلاح اور راہنمائی پر کان لگانے سے انکار کرتے ہیں۔‏

۵۸:‏۷‏—‏داؤد نے کیوں دُعا کی کہ شریر ”‏گھل کر بہتے پانی کی مانند ہو جائیں“‏؟‏ شاید داؤد مُلکِ‌موعود کی وادیوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جہاں بارش ہوتے ہی ندی نالوں کا پانی تیزی سے چڑھ جاتا ہے۔‏ لیکن یہ پانی جلد ہی بہ کر ختم ہو جاتا ہے۔‏ اسلئے داؤد دُعا کر رہا تھا کہ شریر بھی اس پانی کی طرح جلد ہی ختم ہو جائیں۔‏

۶۸:‏۱۳‏—‏اس سے کیا مُراد ہے کہ ’‏کبوتر کے بازو چاندی اور سونے سے منڈھے ہوئے ہیں‘‏؟‏ سلیٹی رنگ کے کبوتر کے مضبوط پَروں پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو وہ دھنک کے سات رنگوں کی طرح چمکنے لگتے ہیں۔‏ جب اسرائیلی سپاہی اپنے دُشمنوں پر فتح حاصل کرکے واپس لوٹتے تھے تو وہ داؤد کو ان کبوتروں کی مانند لگتے تھے۔‏ کئی علما کے مطابق یہ لُوٹ کے مال کی قیمتی اشیا کی تشبیہ بھی ہو سکتی ہے۔‏ بہرحال داؤد اس آیت میں ان فتوحات کا ذکر کر رہا ہے جو بنی‌اسرائیل نے یہوواہ خدا کی مدد سے حاصل کی تھیں۔‏

۶۸:‏۱۸‏—‏اس آیت میں کن ”‏قیدیوں“‏ کا ذکر ہے؟‏ جب بنی‌اسرائیل نے ملکِ‌موعود پر قبضہ جمایا تو اُنہوں نے وہاں کے باشندوں کو قیدی بنا لیا۔‏ بعد میں ان میں سے بعض کو لاویوں کی خدمت کیلئے مقرر کِیا گیا اور اس آیت میں انہی کا ذکر ہے۔‏—‏عزرا ۸:‏۲۰‏۔‏

۶۸:‏۳۰‏—‏داؤد خدا سے کیوں درخواست کر رہا تھا کہ وہ ”‏جنگلی جانوروں کو دھمکا دے“‏؟‏ داؤد یہوواہ کی قوم کے دُشمنوں کو جنگلی جانوروں سے تشبیہ دے رہا تھا۔‏ اُسکی درخواست یہ تھی کہ یہوواہ اسرائیل کے دُشمنوں کا ہاتھ روک لے۔‏

۶۹:‏۲۳‏—‏دُشمن کی ”‏کمریں ہمیشہ کانپتی رہیں“‏ سے کیا مُراد ہے؟‏ کمر کے پٹھوں کی مدد سے انسان بھاری بوجھ اُٹھا سکتا ہے۔‏ اگر یہ پٹھے کانپنے لگیں تو اسکا مطلب ہے کہ جسم کمزور پڑ گیا ہے۔‏ داؤد دُعا کر رہا تھا کہ اُسکے دُشمن کمزور پڑ جائیں۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۵۱:‏۱-‏۴،‏ ۱۷‏۔‏ جب ایک شخص گُناہ کرتا ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ خدا اُسے ضرور ترک کر دیگا۔‏ اگر وہ دل سے توبہ کرتا ہے تو خدا اُسے معاف کرنے کو تیار ہے۔‏

۵۱:‏۵،‏ ۷-‏۱۰‏۔‏ انسان پیدائش ہی سے گُناہ کرنے کا رُجحان ورثے میں پاتا ہے۔‏ جب ہم سے کوئی خطا ہو جاتی ہے تو ہم خدا کو اس بات کی یاد دلا سکتے ہیں۔‏ اسکے علاوہ ہم اُس سے یہ بھی التجا کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں پاک‌صاف کر دے،‏ ہمارے دل میں سے گُناہ کرنے کی خواہش کو مٹا دے اور ہمیں روحانی طور پر مضبوط بنا دے۔‏

۵۱:‏۱۸‏۔‏ داؤد کے گُناہوں کی وجہ سے یہوواہ خدا،‏ اسرائیل کی قوم پر عذاب لانے والا تھا۔‏ اس لئے داؤد نے دُعا کی کہ یہوواہ صیون یعنی یروشلیم سے بھلائی کرے۔‏ اسی طرح جب ہم کوئی سنگین گُناہ کرتے ہیں تو خدا اور کلیسیا کے نام پر داغ پڑتا ہے۔‏ ایسی صورتحال میں ہمیں خدا سے التجا کرنی چاہئے کہ وہ اس داغ کو مٹا دے۔‏

۵۲:‏۸‏۔‏ یہوواہ کے حکموں پر عمل کرنے اور اُسکی تنبیہ کو ماننے سے ہم ”‏خدا کے گھر میں زیتون کے ہرے درخت کی مانند“‏ ہو سکتے ہیں۔‏ اسکا مطلب ہے کہ ہمیں اُسکی قربت حاصل ہوگی اور ہم اُسکی خدمت میں خوب پھل لائینگے۔‏—‏عبرانیوں ۱۲:‏۵،‏ ۶‏۔‏

۵۵:‏۴،‏ ۵،‏ ۱۲-‏۱۴،‏ ۱۶-‏۱۸‏۔‏ جب داؤد کے بیٹے ابی‌سلوم نے اُسکے دلی دوست اور مشیر اخیتفل کیساتھ ملکر اُسکے خلاف سازش کی تو داؤد کو دلی صدمہ پہنچا۔‏ لیکن اُس نے اُنکی بےوفائی کی وجہ سے یہوواہ خدا سے مُنہ نہیں پھیرا۔‏ اسی طرح جب ہمارے ساتھ کوئی زیادتی کرتا ہے تو ہمیں خدا پر اپنا بھروسہ قائم رکھنا چاہئے۔‏

۵۵:‏۲۲‏۔‏ ہم یہوواہ پر اپنا بوجھ کیسے ڈال سکتے ہیں؟‏ ہم (‏۱)‏ خدا سے اپنی پریشانی کے بارے میں دُعا کر سکتے ہیں،‏ (‏۲)‏ اُسکے کلام اور اُسکی تنظیم سے راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں اور (‏۳)‏ جہاں تک ہمارے لئے ممکن ہو ہم صورتحال میں بہتری لانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‏—‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶؛‏ ۱۱:‏۱۴؛‏ ۱۵:‏۲۲؛‏ فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏۔‏

۵۶:‏۸‏۔‏ جب ہم مصیبت کا سامنا کرتے ہیں تو یہوواہ جانتا ہے کہ ہم پر کیا گزر رہی ہے اور ہم ایسی صورتحال میں کن احساسات اور جذبات سے گزرتے ہیں۔‏

۶۲:‏۱۱‏۔‏ ‏”‏قدرت خدا ہی کی ہے۔‏“‏ اسکا مطلب ہے کہ یہوواہ قدرت کا سرچشمہ ہے اور اُسے کسی اَور کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔‏

۶۳:‏۳‏۔‏ خدا کی ”‏شفقت زندگی سے بہتر ہے“‏ کیونکہ اسکے بغیر ہماری زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں ہوتا۔‏ اس وجہ سے ہمیں یہوواہ خدا کیساتھ دوستی قائم کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔‏

۶۳:‏۶‏۔‏ خدا کے کلام کے بارے میں سوچنے کا بہترین وقت رات کو ہوتا ہے جب ہر طرف سناٹا ہی سناٹا ہوتا ہے۔‏

۶۴:‏۲-‏۴‏۔‏ جو شخص دوسروں کے بارے میں افواہیں پھیلاتا ہے وہ اُنکی بدنامی کرتا ہے۔‏ اسلئے ہمیں نہ تو ایسی افواہوں پر کان لگانا چاہئے اور نہ ہی اُنہیں پھیلانا چاہئے۔‏

۶۹:‏۴‏۔‏ دوسروں کیساتھ امن سے رہنے کے لئے بعض اوقات ہمیں تب بھی ’‏دینا پڑتا‘‏ یعنی معافی مانگنی پڑتی ہے جب ہم نے کوئی غلطی نہیں کی ہو۔‏

۷۰:‏۱-‏۵‏۔‏ یہوواہ خدا ہماری التجائیں سُن کر ہماری مدد کو آتا ہے۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۷؛‏ یعقوب ۱:‏۱۳؛‏ ۲-‏پطرس ۲:‏۹‏)‏ کبھی‌کبھار خدا ایک آزمائش کو فوراً نہیں ہٹاتا بلکہ وہ ہمیں اسکو برداشت کرنے کیلئے حکمت اور طاقت بخشتا ہے۔‏ وہ ہمیں ایسی آزمائش میں نہیں پڑنے دیتا جو ہماری برداشت سے باہر ہے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۳؛‏ عبرانیوں ۱۰:‏۳۶؛‏ یعقوب ۱:‏۵-‏۸‏۔‏

۷۱:‏۵،‏ ۱۷‏۔‏ داؤد نے بچپن ہی سے یہوواہ خدا پر توکل کِیا جسکی وجہ سے وہ دلیر اور طاقتور بن گیا۔‏ یہ اُس وقت سے بھی پہلے کی بات ہے جب اُس نے جاتی جولیت سے مقابلہ کِیا تھا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۷:‏۳۴-‏۳۷‏)‏ آج بھی بچوں کو چاہئے کہ وہ ہر معاملے میں یہوواہ خدا پر بھروسہ کریں۔‏

‏”‏ساری زمین اُسکے جلال سے معمور ہو“‏

زبور کی دوسری کتاب کا آخری گیت یعنی زبور ۷۲ بادشاہ سلیمان کی حکمرانی کے دوران اسرائیل کے حالات کے بارے میں ہے۔‏ یہ حکمرانی اُس دَور کی طرف اشارہ کرتی ہے جب یسوع مسیح دُنیا پر بادشاہت کریگا۔‏ اُس وقت زمین پر امن‌وسلامتی ہوگی،‏ ظلم اور تشدد کا نام‌ونشان نہ رہیگا اور خوراک کی بہتات ہوگی۔‏ اگر ہم خدا پر آس لگائے رکھیں گے اور اُس کو اپنی پناہ اور قوت بنائیں گے تو ہم بھی اس زمانے کو دیکھینگے۔‏

‏”‏[‏یہوواہ]‏ خدا اؔسرائیل کا خدا مبارک ہو۔‏ وہی عجیب‌وغریب کام کرتا ہے۔‏ اُسکا جلیل نام ہمیشہ کے لئے مبارک ہو اور ساری زمین اُس کے جلال سے معمور ہو۔‏ آمین ثم آمین!‏“‏ اس دُعا کے بعد ’‏داؔؤد بِن‌یسیؔ کی دُعائیں تمام ہو جاتی ہیں۔‏‘‏ (‏زبور ۷۲:‏۱۸-‏۲۰‏)‏ آئیں ہم بھی پورے دل سے یہوواہ خدا کی بڑائی کریں۔‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

کیا آپ جانتے ہیں کہ ”‏بادشاہ کی بیٹی“‏ کون ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

کیا آپ جانتے ہیں کہ یروشلیم کو ”‏حسن کا کمال“‏ کیوں کہا گیا ہے؟‏