کیا آپ تباہی سے بچ نکلنے کیلئے تیار ہیں؟
کیا آپ تباہی سے بچ نکلنے کیلئے تیار ہیں؟
”تُو اپنے پورے خاندان کیساتھ کشتی میں آ کیونکہ مَیں نے تجھی کو اپنے سامنے اس زمانہ میں راستباز دیکھا ہے۔“—پیدایش ۷:۱۔
۱. نوح کے زمانے میں یہوواہ خدا نے بچاؤ کیلئے کونسا بندوبست کِیا؟
یہوواہ خدا نے نوح کے زمانے میں ”بےدین دُنیا پر طوفان“ بھیجا۔ لیکن اُس نے نوح اور اسکے خاندان کو اس طوفان سے بچانے کا بندوبست بھی کِیا۔ (۲-پطرس ۲:۵) اس عالمگیر طوفان کے دوران زندگی کو محفوظ رکھنے کیلئے خدا نے راستباز نوح کو ایک کشتی بنانے کیلئے واضح ہدایات دیں۔ (پیدایش ۶:۱۴-۱۶) جیساکہ ہم یہوواہ کے ایک فرمانبردار خادم سے توقع کرینگے، ”نوؔح نے یوں ہی کِیا۔ جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا ویسا ہی عمل کِیا۔“ آج ہمارا وجود بھی کسی حد تک نوح کی فرمانبرداری کی وجہ سے ہے۔—پیدایش ۶:۲۲۔
۲، ۳. (ا) نوح کے زمانے کے لوگوں نے اسکے کام کیلئے کیسا ردِعمل دکھایا؟ (ب) نوح کس بھروسے پر کشتی میں داخل ہوا؟
۲ کشتی کی تعمیر کوئی آسان کام نہ تھا۔ اتنی بڑی کشتی بنانا بہتیرے لوگوں کیلئے حیرانکُن تھا۔ لیکن بچنے کیلئے ان لوگوں کو کشتی میں داخل ہونے کی ضرورت تھی۔ تاہم، لوگوں کی نجات صرف اسی بات پر موقوف نہیں تھی۔ خدا بہت جلد اس دُنیا کو غرق کرنے والا تھا۔—پیدایش ۶:۳؛ ۱-پطرس ۳:۲۰۔
۳ نوح اور اسکے خاندان نے کئی سال تک بڑی محنت سے کشتی بنائی۔ جب کشتی بن چکی تو یہوواہ خدا نے نوح سے کہا: ”تُو اپنے پورے خاندان کے ساتھ کشتی میں آ کیونکہ مَیں نے تجھی کو اپنے سامنے اس زمانہ میں راستباز دیکھا ہے۔“ یہوواہ پر بھروسا کرتے ہوئے ”نوؔح اور اُسکے بیٹے اور اُسکی بیوی اور اُسکے بیٹوں کی بیویاں“ کشتی میں داخل ہوئے۔ پھر یہوواہ خدا نے اپنے پرستاروں کو بچانے کے لئے کشتی کا دروازہ بند کر دیا۔ جب طوفان آیا تو یہ ناؤ ہی بچاؤ کا سبب بنی۔—پیدایش ۷:۱، ۷، ۱۰، ۱۶۔
زمانۂنوح جیسی حالتیں
۴، ۵. (ا) یسوع نے اپنی آسمانی بادشاہت شروع کرنے کے وقت کا موازنہ کس کے دنوں کیساتھ کِیا؟ (ب) نوح کے زمانے اور ہمارے زمانے میں کونسی حالتیں ایک جیسی ہیں؟
۴ ”جیسا نوؔح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابنِآدم کے آنے کے وقت ہوگا۔“ (متی ۲۴:۳۷) ان الفاظ سے یسوع نے ظاہر کِیا کہ اُسکے آسمانی بادشاہت شروع کرنے کے وقت حالتیں نوح کے دنوں جیسی ہونگی اور یہ بات واقعی سچ ثابت ہوئی ہے۔ اسکے علاوہ، جیسے نوح نے گواہی دی تھی سن ۱۹۱۹ سے سب قوموں کو بالکل اُسی طرح آگاہی دی جا رہی ہے۔ لیکن لوگ اس آگاہی کیلئے ویسا ہی ردِعمل ظاہر کرتے ہیں جیسا نوح کے زمانے کے لوگوں نے ظاہر کِیا تھا۔
۵ طوفان کے ذریعے، یہوواہ خدا نے اُن لوگوں کے خلاف کارروائی کی جنکے سبب سے ”زمین ظلم سے بھر“ گئی تھی۔ (پیدایش ۶:۱۳) یہ بات سب لوگوں کیلئے بالکل واضح تھی کہ نوح اور اسکا خاندان شریروں کا ساتھ دینے کی بجائے اطمینان سے کشتی بنا رہے ہیں۔ یہاں بھی ہم اپنے زمانے جیسی صورتحال دیکھتے ہیں۔ آجکل بھی خلوصدل لوگ ”صادق اور شریر میں اور خدا کی عبادت کرنے والے اور نہ کرنے والے میں امتیاز“ کر سکتے ہیں۔ (ملاکی ۳:۱۸) یہوواہ کے گواہوں کی ایمانداری، مہربانی، امنپسندی اور مستعدی کی وجہ سے بہت سے لوگ اُنکی تعریف کرتے ہیں۔ یہ خوبیاں خدا کے لوگوں کو دُنیا سے فرق کرتی ہے۔ یہوواہ کے گواہ ہر طرح کے ظلموتشدد سے گریز کرتے اور یہوواہ خدا کی روح کو اپنی راہنمائی کرنے دیتے ہیں۔ اسلئے وہ امنوسلامتی سے رہتے اور صداقت کی راہ پر چلتے ہیں۔—یسعیاہ ۶۰:۱۷۔
۶، ۷. (ا) زمانۂنوح کے لوگ کس بات کو نہ سمجھ سکے، اور آجکل بھی لوگ کیسے اسی طرح کا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں؟ (ب) کونسی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہوواہ کے گواہ دوسروں سے مختلف ہیں؟
۶ نوح کے زمانے کے لوگ اس بات کو نہ سمجھ سکے کہ نوح کو خدا کی زیرِہدایت کام کرنے سے اسکی حمایت حاصل ہے۔ اسلئے نہ تو اُنہوں نے اسکی منادی کو سنجیدہ خیال کِیا اور نہ ہی اسکی آگاہی کیلئے کوئی مثبت جوابیعمل دکھایا۔ آجکل لوگ یہوواہ کے گواہوں اور اُنکے پیغام کو کیسا خیال کرتے ہیں؟ اگرچہ بیشتر لوگ اُنکے چالچلن اور کام سے متاثر تو ہوتے ہیں توبھی وہ خوشخبری اور بائبل کی آگاہیوں پر توجہ نہیں دیتے۔ شاید پڑوسی، ساتھی کارکن یا رشتہدار سچے مسیحیوں کی شاندار خوبیوں کی تعریف کرتے ہیں لیکن پھر افسوس سے کہتے ہیں، ”ان میں صرف ایک خرابی ہے کہ وہ یہوواہ کے گواہ ہیں!“ یہ لوگ اس بات کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ گواہ خدا کی پاک روح کی راہنمائی میں چلنے کی وجہ سے محبت، اطمینان، مہربانی، نیکی، حلم اور پرہیزگاری جیسی خوبیاں ظاہر کرتے ہیں۔ (گلتیوں ۵:۲۲-۲۵) یہوواہ کے گواہوں کی ان خوبیوں کی وجہ سے لوگوں کو انکے پیغام کو فوراً قبول کر لینا چاہئے۔
۷ مثال کے طور پر، روس میں یہوواہ کے گواہ اپنی عبادتگاہ تعمیر کر رہے تھے۔ ایک راہگیر نے رُک کر کام کرنے والے ایک گواہ سے کہا: ”یہاں تو بہت اچھی طرح کام ہو رہا ہے۔ نہ تو کوئی سگریٹنوشی اور نہ ہی کوئی گالیگلوچ کر رہا ہے۔ ہر ایک بڑی سنجیدگی سے کام کر رہا ہے! کہیں آپ یہوواہ کے گواہ تو نہیں؟“ گواہ نے اُس شخص سے پوچھا، ”اگر میں کہوں کہ ہم یہوواہ کے گواہ نہیں تو کیا آپ یقین کر لینگے؟“ اس شخص نے فوراً جواب دیا، ”ہرگز نہیں۔“ روس کے ایک دوسرے شہر کا سٹی ناظم گواہوں کو اپنی نئی عبادتگاہ تعمیر کرتے دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ اگرچہ وہ پہلے یہ سوچتا تھا کہ تمام مذہبی گروہ ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن یہوواہ کے گواہوں کو بےلوث کام کرتے دیکھ کر اسکا نظریہ بدل گیا۔ ان دونوں مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کے خادم اُن لوگوں سے بالکل مختلف ہیں جو بائبل کے معیاروں کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے۔
۸. لوگ اس شریر دُنیا کے خاتمے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
۸ جب طوفان سے تباہ ہونے والی ”پہلی دُنیا“ اپنے دن گن رہی تھی تو نوح وفاداری سے ”راستبازی کی منادی“ کرتا رہا۔ (۲-پطرس ۲:۵) چنانچہ جب یہ دُنیا اپنے دن گن رہی ہے تو یہوواہ کے لوگ اسکے راست معیاروں کے بارے میں بتاتے اور نئی دُنیا میں جانے کے امکان کی بابت خوشخبری کا اعلان کرتے ہیں۔ (۲-پطرس ۳:۹-۱۳) نوح اور اُسکے خداترس خاندان کو کشتی میں محفوظ رکھا گیا۔ لیکن آجکل کی بابت کیا ہے؟
بچنے کیلئے ایمان رکھنا ضروری ہے
۹، ۱۰. شیطان کے قبضے میں پڑی اس دُنیا کے خاتمے سے بچنے کیلئے ایمان کیوں ضروری ہے؟
۹ شیطان کے قبضے میں پڑی اس دُنیا کی تباہی سے بچنے کیلئے ایک شخص کو کیا کرنا چاہئے؟ (۱-یوحنا ۵:۱۹) سب سے پہلے تو اسے بچنے کی ضرورت کو سمجھنا چاہئے۔ اسکے بعد اسے اس بچاؤ کیلئے کچھ کرنا چاہئے۔ نوح کے زمانے میں لوگ اپنے روزمرّہ کاموں میں مگن تھے۔ وہ آنے والی تباہی پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اسلئے انکا خیال تھا کہ اس تباہی سے بچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ خدا پر بھی ایمان نہیں رکھتے تھے۔
۱۰ اس کے برعکس، نوح اور اُس کے خاندان نے مخلصی اور تحفظ کی ضرورت کو پہچان لیا تھا۔ وہ قادرِمطلق خدا یہوواہ پر ایمان بھی رکھتے تھے۔ پولس رسول نے لکھا: ”بغیر ایمان کے [یہوواہ] کو پسند آنا ناممکن ہے۔ اسلئےکہ خدا کے پاس آنے والے کو ایمان لانا چاہئے کہ وہ موجود ہے اور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔ ایمان ہی کے سبب سے نوؔح نے اُن چیزوں کی بابت جو اُس وقت تک نظر نہ آتی تھیں ہدایت پاکر خدا کے خوف سے اپنے گھرانے کے بچاؤ کیلئے کشتی بنائی جس سے اُس نے دُنیا کو مجرم ٹھہرایا اور اُس راستبازی کا وارث ہوا جو ایمان سے ہے۔“—عبرانیوں ۱۱:۶، ۷۔
۱۱. یہوواہ خدا نے ماضی میں جسطرح سے تحفظ فراہم کِیا اس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۱ اس دُنیا کے خاتمے سے بچنے کیلئے ہمیں اسکی تباہی پر یقین رکھنے سے زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بچ نکلنے کیلئے خدا کی تمام فراہمیوں پر ایمان رکھنا اور ان سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ بِلاشُبہ، ہمیں خدا کے بیٹے یسوع مسیح کی فدیے کی قربانی پر ایمان رکھنا چاہئے۔ (یوحنا ۳:۱۶، ۳۶) تاہم، ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ صرف کشتی میں موجود لوگ ہی طوفان سے زندہ بچے تھے۔ بالکل اسی طرح سے، قدیم اسرائیل میں بچنے کیلئے پناہ کے شہر بنائے گئے تھے۔ اگر کسی اسرائیلی سے سہواً یعنی انجانے میں خون ہو جاتا تو وہ بچنے کیلئے پناہ کے شہر میں بھاگ جاتا اور سردار کاہن کی موت تک وہیں رہتا تھا۔ (گنتی ۳۵:۱۱-۳۲) موسیٰ کے زمانے میں مصر پر آنے والی دسویں آفت میں مصریوں کے تمام پہلوٹھے مر گئے مگر اسرائیلیوں کے پہلوٹھے بچ گئے۔ مگر کیوں؟ یہوواہ نے موسیٰ کو ہدایت کی: ”[فسح کے برّے کا] تھوڑا سا خون لیکر جن گھروں میں وہ [اسرائیلی] اُسے کھائیں اُنکے دروازوں کے دونوں بازوؤں اور اُوپر کی چوکھٹ پر لگا دیں۔ . . . اور تُم میں سے کوئی صبح تک اپنے گھر کے دروازہ سے باہر نہ جائے۔“ (خروج ۱۲:۷، ۲۲) کیا کسی بھی اسرائیلی پہلوٹھے نے خدا کی ہدایات کے خلاف دروازوں کے بازوؤں اور اُوپر کی چوکھٹ پر لگے خون کو نظرانداز کرکے گھر سے باہر جانے کی جرأت کی تھی؟
۱۲. ہمیں خود سے کونسا سوال پوچھنا چاہئے، اور کیوں؟
۱۲ ہمیں ہر لحاظ سے اپنی صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ کیا ہم حقیقت میں یہوواہ کے روحانی تحفظ کے بندوبست کے تحت چل رہے ہیں؟ ایسا تحفظ رکھنے والے اشخاص کے چہروں پر دُنیا کے خاتمے کے وقت شکرگزاری اور خوشی کے آنسو ہونگے۔ جبکہ دیگر لوگ غم اور پچھتاوے کے آنسو بہائینگے۔
تنظیمی تبدیلیاں ہمیں بچاؤ کیلئے تیار کرتی ہیں
۱۳. (ا) تنظیمی تبدیلیاں کونسا مقصد سرانجام دیتی ہیں؟ (ب) بعض ترقیپسندانہ تبدیلیوں کی بابت بیان کریں۔
۱۳ یہوواہ خدا اپنی زمینی تنظیم میں تبدیلیاں لانے سے اسے ترقی عطا کر رہا ہے۔ ان تبدیلیوں نے ہمارے روحانی تحفظ کے بندوبست کو خوشآئند، مستحکم اور مضبوط بنا دیا ہے۔ سن ۱۸۷۰ سے ۱۹۳۲ تک ایلڈرز (بزرگوں) اور ڈیکنز (خادموں) کا انتخاب جمہوری طریقے یعنی کلیسیائی اراکین کے ووٹوں سے کِیا جاتا تھا۔ مقررکردہ خدمتی ڈائریکٹر کی مدد کے لئے ۱۹۳۲ میں ان ایلڈرز کی جگہ کلیسیاؤں کی منتخبکردہ خدمتی کمیٹی نے لے لی۔ سن ۱۹۳۸ میں، کلیسیا میں تمام خادموں کی تقرریاں تھیوکریٹک یعنی خدائی طریقے سے کرنے کا بندوبست کِیا گیا۔ سن ۱۹۷۲ سے یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی کی زیرِہدایت سفارشات کی جانی ہیں اور سفارش منظور ہونے کے بعد کلیسیاؤں کو خط بھیج کر نگہبانوں اور خدمتگزار خادموں کی خدائی طریقے سے تقرری کی جانی ہے۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ گورننگ باڈی کا کام بہت بڑھ گیا، اسلئے انکے کام کو آسان بنانے کیلئے مزید تبدیلیاں کی گئیں۔
۱۴. سن ۱۹۵۹ میں کونسا تربیتی پروگرام شروع ہوا؟
۱۴ سن ۱۹۵۰ میں، زبور ۴۵:۱۶ پر محتاط غوروخوض کرنے کے بعد ایک تربیتی پروگرام شروع کِیا گیا جو اب تک جاری ہے۔ یہ آیت بیان کرتی ہے: ”تیرے بیٹے تیرے باپدادا کے جانشین ہونگے جنکو تُو تمام رویِزمین پر سردار مقرر کریگا۔“ کلیسیائی بزرگوں کو اب اور ہرمجدون کے بعد مسیحی کارگزاریوں کو پورا کرنے کیلئے تربیت دی جا رہی ہے۔ (مکاشفہ ۱۶:۱۴، ۱۶) سن ۱۹۵۹ میں بادشاہتی خدمتی سکول کا آغاز ہوا۔ اس میں صدارتی نگہبانوں کیلئے ایک مہینے پر مشتمل ہدایتی کورس کا بندوبست کِیا گیا۔ مگر اب اس سکول میں دی جانے والی ہدایات سے تمام نگہبان اور خادم فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ اسکے بعد یہ بھائی اپنی اپنی کلیسیاؤں میں ہر گواہ کی تربیت کرنے میں پیشوائی کر رہے ہیں۔ اسطرح روحانی طور پر ترقی کرنے اور بادشاہی کی خوشخبری کو اَور زیادہ مؤثر انداز میں پیش کرنے میں سب کی مدد ہوتی ہے۔—مرقس ۱۳:۱۰۔
۱۵. کن دو طریقوں سے کلیسیا کو پاک رکھا جاتا ہے؟
۱۵ مسیحی کلیسیا کا حصہ بننے والے تمام لوگوں کو چند تقاضوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ جسطرح نوح کے زمانے میں اُسکا تمسخر اُڑانے والے لوگ کشتی میں داخل نہیں ہو سکے تھے اُسی طرح ۲-پطرس ۳:۳-۷) سن ۱۹۵۲ سے یہوواہ کے گواہوں نے غیرتائب گنہگار اشخاص کو خارج کرکے کلیسیا کو تحفظ فراہم کرنے کے خاص انتظام کی حمایت کی ہے۔ جبکہ تائب اشخاص کی ”اپنے پاؤں کیلئے سیدھے راستے“ بنانے یعنی اپنی روش میں تبدیلی لانے میں مدد کی جاتی ہے۔—عبرانیوں ۱۲:۱۲، ۱۳؛ امثال ۲۸:۱۳؛ گلتیوں ۶:۱۔
آجکل بھی ایسے لوگ خدا کی کلیسیا کا حصہ نہیں رہ سکتے۔ (۱۶. یہوواہ کے لوگوں کی روحانی حالت کیسی ہے؟
۱۶ یہوواہ کے لوگ روحانی لحاظ سے خوشحال ہیں۔ یہوواہ خدا نے یسعیاہ نبی کی معرفت فرمایا: ”دیکھو میرے بندے کھائینگے پر تُم بھوکے رہو گے۔ میرے بندے پئیں گے پر تُم پیاسے رہو گے۔ میرے بندے شادمان ہونگے پر تُم شرمندہ ہوگے۔ اور میرے بندے دل کی خوشی سے گائینگے پر تُم دلگیری کے سبب سے نالان ہوگے اور جانکاہی سے واویلا کرو گے۔“ (یسعیاہ ۶۵:۱۳، ۱۴) یہوواہ خدا ہمیں وقت پر روحانی خوراک کثرت سے فراہم کرتا ہے جو ہمیں روحانی طور پر مضبوط بناتی ہے۔—متی ۲۴:۴۵۔
بچ نکلنے کیلئے تیار رہیں
۱۷. کیا چیز ہمیں تباہی سے بچ نکلنے کے قابل بنائیگی؟
۱۷ اب وقت ہے کہ ہم پہلے سے کہیں زیادہ ”محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کیلئے ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔ اور ایک دوسرے کیساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں جیسا بعض لوگوں کا دستور ہے بلکہ ایک دوسرے کو نصیحت کریں۔“ (عبرانیوں ۱۰:۲۳-۲۵) یہوواہ کے گواہوں کی ۰۰۰،۹۸ سے زائد کلیسیاؤں میں سے کسی ایک کیساتھ رفاقت رکھنا ہمیں تباہی سے بچ نکلنے کے قابل بنائیگا۔ جب ہم ”نئی انسانیت“ ظاہر کرتے اور پورے دل سے نجات کیلئے یہوواہ کی فراہمیوں کی بابت دوسروں کو بتانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں ساتھی ایمانداروں کی حمایت حاصل ہوگی۔—افسیوں ۴:۲۲-۲۴؛ کلسیوں ۳:۹، ۱۰؛ ۱-تیمتھیس ۴:۱۶۔
۱۸. آپ مسیحی کلیسیا کیساتھ رفاقت رکھنے کیلئے پُرعزم کیوں ہیں؟
۱۸ شیطان اور اسکی شریر دُنیا ہمیں مسیحی کلیسیا سے دُور کرنا چاہتی ہے۔ تاہم، ہم اسکا حصہ رہتے ہوئے اس شریر نظام کے خاتمے سے بچ نکلنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ دُعا ہے کہ یہوواہ خدا کی محبت اور اُسکی فراہمیوں کیلئے شکرگزاری شیطان کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے ہمارے عزم کو اَور زیادہ مضبوط کرے۔ اس وقت حاصل ہونے والی یہوواہ کی برکات پر غوروخوض کرنے سے ہمارے اس عزم کو اَور زیادہ تقویت ملیگی۔ ان میں سے چند برکات کے بارے میں اگلے مضمون میں باتچیت کی جائیگی۔
آپ کیا جواب دینگے؟
• نوح کے زمانے اور ہمارے زمانے میں کونسی حالتیں ایک جیسی ہیں؟
• اس دُنیا کی تباہی سے بچنے کیلئے کس چیز کی ضرورت ہے؟
• کن ترقیپسندانہ تبدیلیوں سے ہمارے تحفظ کیلئے یہوواہ کا بندوبست مضبوط ہوا ہے؟
• ہم بچ نکلنے کیلئے تیار کیسے رہ سکتے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
نوح کے زمانے کے لوگوں نے اسکے پیغام پر توجہ نہ دی
[صفحہ ۱۴ پر تصویر]
خدا کی آگاہی پر سنجیدگی سے توجہ دینے میں ہمارا فائدہ ہے
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
بادشاہتی خدمتی سکول کیا مقصد انجام دیتا ہے؟
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
اب وقت ہے کہ ہم مسیحی کلیسیا کیساتھ رفاقت رکھیں