مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خوشی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے؟‏

خوشی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے؟‏

خوشی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے؟‏

ریاستہائے متحدہ امریکہ کے منشورِآزادی کو تشکیل دینے والوں کا خیال تھا کہ ”‏خوشی کی جستجو“‏ تمام انسانوں کا حق ہے۔‏ لیکن کسی چیز کی جستجو کرنے اور اسے حاصل کرنے میں بڑا فرق ہے۔‏ اگرچہ بہتیرے نوجوان کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں توبھی آپ کے خیال میں کتنے اپنے مقصد میں کامیاب ہو تے ہیں؟‏ ایک مشہور گلوکار نے گائیک بننے کے لئے سخت کوشش کرنے والے نوجوانوں سے کہا:‏ ”‏کامیابی حاصل کرنے کی توقع نہ رکھیں۔‏“‏

اگر آپ بھی خوشی کی جستجو کے سلسلے میں ایسا ہی محسوس کرتے ہیں تو بےحوصلہ نہ ہوں۔‏ اگر آپ مناسب طریقے سے خوشی کی جستجو کرتے ہیں تو آپ اسے حاصل کر لیں گے۔‏ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے؟‏ پچھلے مضمون میں یہوواہ خدا کو ”‏خدایِ‌مبارک“‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۱‏)‏ خدا اپنے کلام میں راہنمائی فراہم کرتا ہے تاکہ ہماری خوشی کی جستجو مایوسی پر منتج نہ ہو۔‏ یہوواہ افسردگی پر قابو پانے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو خدا ہمیں تسلی دیتا ہے۔‏ آئیے اِس پر غور کریں۔‏

جب کوئی عزیز وفات پا جاتا ہے

کیا موت کے بارے میں کوئی اچھی بات کہی جا سکتی ہے؟‏ موت والدین اور بچوں کو ایک دوسرے سے جُدا کر دیتی ہے۔‏ یہ دوستوں اور رشتہ‌داروں کو ہم سے چھین لیتی ہے۔‏ یہ پورے خاندان کو غمزدہ کر دیتی ہے۔‏

واقعی،‏ موت ایک المیہ ہے۔‏ بعض لوگ اس حقیقت سے انکار کرتے ہوئے موت کو ایک برکت قرار دیتے ہیں۔‏ غور کریں کہ اگست ۲۰۰۵ میں خلیجِ‌میکسیکو میں آنے والے طوفان کترینا کے بعد کیا واقع ہوا۔‏ اس طوفان میں وفات پا جانے والے ایک شخص کے جنازے پر پادری نے کہا:‏ ”‏اس کی وفات کترینا سے نہیں ہوئی بلکہ خدا نے اسے اپنے پاس بلا لیا ہے۔‏“‏ ایک اَور موقع پر ہسپتال کے کلرک نے ایک لڑکی کو بتایا کہ اسے پریشان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ خدا اس کی ماں کو آسمان پر لے گیا ہے۔‏ لڑکی نے روتے ہوئے کہا:‏ ”‏لیکن اس نے میری ماں کو مجھ سے کیوں چھین لیا ہے؟‏“‏

بِلاشُبہ،‏ مُردوں کے بارے میں ایسے غلط نظریات کسی بھی طرح سوگواروں کو تسلی نہیں دے سکتے۔‏ لیکن کیوں؟‏ اس لئے کہ یہ نظریات سچائی پر مبنی نہیں ہیں۔‏ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خدا لوگوں کو اُن کے خاندان اور دوستوں سے چھین کر انہیں دُکھ پہنچاتا ہے۔‏ ان کے مطابق وہ تسلی کا ماخذ ہونے کی بجائے موت کا مجرم ہے۔‏ لیکن خدا کا کلام موت کے بارے میں سچائی کو واضح کرتا ہے۔‏

خدا کے کلام میں موت کو ایک دشمن کہا گیا ہے۔‏ اسے ایک بادشاہ سے تشبیہ دی گئی ہے جو انسانوں پر حکمرانی کرتا ہے۔‏ (‏رومیوں ۵:‏۱۷؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۶‏)‏ یہ ایک ایسا دشمن ہے جس پر کوئی انسان فتح نہیں حاصل کر سکتا۔‏ بائبل کی اس سچائی سے ہم جان جاتے ہیں کہ انسان غمزدہ اور نااُمید کیوں محسوس کرتا ہے۔‏ خدا کا کلام بیان کرتا ہے کہ ایسے احساسات عام بات ہیں۔‏ تاہم،‏ کیا خدا موت کو ہمارے عزیزوں کو آسمان پر لے جانے کے لئے استعمال کرتا ہے؟‏ آئیے خدا کے کلام میں سے اس سوال کا جواب حاصل کریں۔‏

واعظ ۹:‏۵،‏ ۱۰ بیان کرتی ہے:‏ ”‏مُردے کچھ بھی نہیں جانتے .‏ .‏ .‏ کیونکہ پاتال میں جہاں تو جاتا ہے نہ کام ہے نہ منصوبہ۔‏ نہ علم نہ حکمت۔‏“‏ اس آیت میں پاتال کے لئے استعمال ہونے والا عبرانی لفظ شیول ہے۔‏ شیول سے کیا مراد ہے؟‏ یہ ایک علامتی جگہ ہے جہاں مُردے موت کی نیند سو رہے ہیں۔‏ وہ بےخبری کی حالت میں ہیں،‏ نہ تو وہ کوئی کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی منصوبہ بنا سکتے ہیں۔‏ * یوں خدا کا کلام واضح کرتا ہے کہ خدا ہمارے عزیزوں کو اپنے ساتھ آسمان پر نہیں لے جاتا بلکہ وہ قبر میں بےجان ہوتے ہیں۔‏

یسوع مسیح نے اپنے دوست لعزر کی موت کے بعد اس سچائی کی تصدیق کی۔‏ یسوع نے اس کی موت کو نیند سے تشبیہ دی۔‏ اگر لعزر قادرِمطلق خدا کے ساتھ آسمان پر تھا تو یسوع اسے زمین پر دوبارہ مرنے کے لئے زندہ کرنے سے کوئی مہربانی نہیں کر رہا تھا۔‏ یہ الہامی سرگزشت بیان کرتی ہے کہ اس جگہ جا کر جہاں لعزر کو دفن کِیا گیا تھا یسوع نے بلند آواز میں کہا:‏ ”‏اَے لعزؔر نکل آ۔‏“‏ اگلی آیت بیان کرتی ہے:‏ ”‏جو مر گیا تھا وہ .‏ .‏ .‏ نکل آیا۔‏“‏ لعزر نے نئے سرے سے زندگی شروع کی۔‏ یسوع جانتا تھا کہ لعزر آسمان پر نہیں گیا بلکہ قبر میں بےجان پڑا تھا۔‏—‏یوحنا ۱۱:‏۱۱-‏۱۴،‏ ۳۴،‏ ۳۸-‏۴۴‏۔‏

خدا کے کلام میں درج اس واقعے سے ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ خدا موت کے ذریعے انسانوں کو زمین سے آسمان پر نہیں لے جاتا۔‏ اس لئے ہم یہ جانتے ہوئے کہ خدا ہمارے دُکھ کا ذمہ‌دار نہیں ہے،‏ اس کے قریب جا سکتے ہیں۔‏ ہم یہ اعتماد بھی رکھ سکتے ہیں کہ جب ہمارا کوئی عزیز وفات پا جاتا ہے تو خدا ہمارے دُکھ اور غم کو سمجھتا ہے۔‏ مُردوں کی حالت کے بارے میں خدا کے کلام میں جو کچھ درج ہے اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مُردے دوزخ یا اعراف میں اذیت اُٹھانے کی بجائے قبر میں بےخبر ہیں۔‏ پس ہمیں خدا سے اس لئے ناراض یا ناخوش نہیں ہونا چاہئے کہ وہ مُردوں کو اپنے پاس بلا لیتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ یہوواہ خدا اپنے کلام میں مُردوں کے لئے اُمید بھی فراہم کرتا ہے۔‏

اُمید جو خوشی بخشتی ہے

جن صحائف پر ہم نے غور کِیا ہے وہ حقیقی خوشی کے ایک ضروری پہلو یعنی اُمید کو اُجاگر کرتے ہیں۔‏ خدا کے کلام میں جب لفظ اُمید استعمال ہوتا ہے تو اِس کا مطلب اچھی چیزوں کی توقع رکھنا ہوتا ہے۔‏ اُمید خوشی حاصل کرنے میں ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟‏ آئیے ہم یسوع مسیح کے لعزر کو زندہ کرنے کے بیان پر دوبارہ توجہ دیں۔‏

یسوع مسیح نے کم‌ازکم دو وجوہات کی بِنا پر یہ معجزہ کِیا تھا۔‏ پہلی وجہ یہ تھی کہ وہ مریم،‏ مرتھا اور اُن کے غمزدہ رشتےداروں کا دُکھ دور کرنا چاہتا تھا۔‏ اِس طرح وہ لعزر کو دوبارہ دیکھ کر خوش ہوتے۔‏ یسوع نے مرتھا کو دوسری اہم وجہ بتائی:‏ ”‏مَیں نے تجھ سے کہا نہ تھا کہ اگر تو ایمان لائے گی تو خدا کا جلال دیکھے گی؟‏“‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۴۰‏)‏ لعزر کو زندہ کرنے سے یسوع نے ظاہر کِیا کہ یہوواہ خدا کیا کر سکتا ہے اور وہ مستقبل میں کیا کچھ کرے گا۔‏ آئیے اس سلسلے میں مزید صحائف پر غور کریں۔‏

یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹ میں یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏اس سے تعجب نہ کرو کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اُس کی آواز سنکر نکلیں گے۔‏“‏ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے عزیزوں سمیت تمام مُردے جو شیول میں ہیں دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔‏ اعمال ۲۴:‏۱۵ اس عظیم‌الشان واقعہ کے بارے میں یوں بیان کرتی ہے:‏ ”‏راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی۔‏“‏ پس ”‏ناراستوں“‏ یعنی بہتیرے ایسے لوگوں کو بھی خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا موقع ملے گا جو نہ تو یہوواہ خدا کو جانتے تھے اور نہ ہی اس کی خدمت کرتے تھے۔‏

مُردوں کو کہاں پر زندہ کِیا جائے گا؟‏ زبور ۳۷:‏۲۹ بیان کرتی ہے:‏ ”‏صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔‏“‏ اس کا کیا مطلب ہے؟‏ موت کی وجہ سے بچھڑ جانے والے خاندان اور دوست دوبارہ اسی زمین پر ایک دوسرے کی رفاقت سے لطف‌اندوز ہوں گے۔‏ اس اچھے وقت کے بارے میں سوچ کر آپ کے دل یقیناً خوشی سے بھر جاتے ہیں۔‏

یہوواہ ہمیں خوش دیکھنا چاہتا ہے

ہم نے دو طریقوں پر غور کِیا ہے جن سے یہوواہ خدا ہماری خوشی کو دوبالا کر سکتا ہے۔‏ پہلا،‏ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے خدا ہمیں اپنے کلام کے ذریعے علم اور راہنمائی مہیا کرتا ہے۔‏ خدا کے کلام میں درج مشورت موت سے پہنچنے والے دُکھ پر قابو پانے میں ہماری مدد کرتی ہے۔‏ اِس کے ساتھ ساتھ یہ معاشی مشکلات اور صحت کے مسائل کو حل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔‏ یہ ہمیں ناانصافی اور بدعنوانی کا سامنا کرنے کے لئے بھی طاقت بخش سکتی ہے۔‏ اپنی زندگی میں اس مشورت کا اطلاق کرنے سے ہمارے دیگر مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔‏

دوسرا،‏ خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے سے ہمیں اُمید حاصل ہوتی ہے۔‏ ہمارے خاندانی افراد اور دوستوں کا دوبارہ جی اُٹھنا بھی اس اُمید کا حصہ ہے۔‏ مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴ بیان کرتی ہے:‏ ”‏خدا آپ اُن [‏یعنی انسانوں]‏ کے ساتھ رہے گا اور اُن کا خدا ہوگا۔‏ اور وہ اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔‏ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔‏ نہ آہ‌ونالہ نہ درد۔‏ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔‏“‏ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں غمزدہ کرنے والی تمام چیزیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گی۔‏ خدا کا یہ وعدہ پورا ہوگا اور ہم اس کی تکمیل سے خوشی حاصل کر سکیں گے۔‏ اس بات سے ہمیں تسلی ملتی ہے کہ اچھے دن آنے والے ہیں۔‏ یہ جاننا بھی ہمارے لئے خوش‌کُن ہے کہ موت کے بعد ہمیں اذیت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔‏

اس مثال پر غور کریں:‏ کئی سال پہلے ماریا کا شوہر کینسر کی وجہ سے وفات پا گیا۔‏ ابھی اس کے آنسو خشک بھی نہ ہوئے تھے کہ مالی مسائل کی وجہ سے اسے اور اس کی تین بیٹیوں کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔‏ دو سال بعد،‏ ماریا کو پتہ چلا کہ اسے بھی کینسر ہے۔‏ اس کے دو آپریشن ہو چکے ہیں اور اسے روزانہ سخت تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔‏ ان مشکلات کے باوجود،‏ اس نے اپنی سوچ کو مثبت رکھا ہے۔‏ ایسا کرنے سے اسے دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کی تحریک ملتی ہے۔‏ ماریا نے اپنی خوشی کیسے برقرار رکھی؟‏

ماریا کہتی ہے:‏ ”‏جب مَیں مشکل میں ہوتی ہوں تو مَیں اپنے بارے میں حد سے زیادہ نہیں سوچتی۔‏ مَیں خود سے ایسے سوالات پوچھنے سے گریز کرتی ہوں کہ ’‏یہ میرے ساتھ کیوں ہو رہا ہے؟‏ مجھے ایسی مشکلات کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟‏ مَیں بیمار کیوں ہو گئی ہوں؟‏‘‏ نااُمیدی ہمیں کمزور بنا دیتی ہے۔‏ مَیں اپنی طاقت کو یہوواہ خدا کی خدمت اور دوسروں کی مدد کرنے میں استعمال کرتی ہوں۔‏ اس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔‏“‏

اُمید رکھنے سے ماریا کی مدد کیسے ہوتی ہے؟‏ وہ آنے والے وقت کی منتظر ہے جب یہوواہ خدا انسانوں کے تمام مسائل اور بیماریوں کو ختم کرے گا۔‏ جب وہ ہسپتال میں علاج کرانے جاتی ہے تو وہ اپنی اس اُمید کے بارے میں دوسرے مریضوں کو بھی بتاتی ہے جو اپنی زندگی سے مایوس ہو چکے ہیں۔‏ ماریا کے لئے یہ اُمید کتنی اہم ہے؟‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏مَیں اکثر عبرانیوں ۶:‏۱۹ میں درج الفاظ پر غور کرتی ہوں جس میں پولس رسول نے اُمید کو جان کا لنگر کہا۔‏ اس لنگر کے بغیر آپ طوفان میں بہ کر دور چلی جانے والی کشتی کی طرح ہوں گے۔‏ لیکن اگر آپ اس لنگر سے بندھے ہوئے ہیں تو آپ طوفان‌نما مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود محفوظ رہیں گے۔‏“‏ ماریا ”‏اُس ہمیشہ کی زندگی کی اُمید پر“‏ خوش رہنے کے قابل ہوئی ”‏جس کا وعدہ .‏ .‏ .‏ خدا نے کِیا ہے جو جھوٹ نہیں بول سکتا۔‏“‏ یہ اُمید آپ کے لئے بھی خوشی کا باعث بن سکتی ہے۔‏—‏ططس ۱:‏۲‏۔‏

خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے سے آپ مشکلات کے باوجود حقیقی خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ شاید آپ یہ جاننا چاہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے۔‏ یہوواہ کے گواہ ایسا کرنے میں آپ کی مدد کے لئے صحائف میں سے آپ کے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں۔‏ اگر آپ یہوواہ کی فراہم‌کردہ اُمید کی تکمیل کے منتظر ہیں تو آپ اُن لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے:‏ ”‏وہ خوشی اور شادمانی حاصل کریں گے اور غم‌واندوہ کافور ہو جائیں گے۔‏“‏—‏یسعیاہ ۳۵:‏۱۰‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا (‏۲۰۰۳)‏ شیول کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ یہ ”‏خوشی،‏ غم،‏ جزا اور سزا سے پاک جگہ ہے۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

صرف خدا کے کلام کی سچائی دُکھ کو دور کر سکتی ہے

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

خدا کے کلام میں مُردوں کے دوبارہ جی اُٹھنے کی اُمید خوشی کو دوبالا کر سکتی ہے