مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏مَیں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں“‏

‏”‏مَیں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں“‏

‏”‏مَیں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں“‏

‏”‏آہ!‏ مَیں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں۔‏ مجھے دن‌بھر اُسی کا دھیان رہتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۱۹:‏۹۷‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ زبور ۱۱۹ کے الہامی الفاظ لکھنے والے کو کن مشکلات کا سامنا تھا؟‏ (‏ب)‏ زبورنویس نے کیسا ردِعمل دکھایا،‏ اور کیوں؟‏

زبور ۱۱۹ کے لکھنے والے کو سخت آزمائش کا سامنا تھا۔‏ شریعت کی بےحرمتی کرنے والے مغرور لوگ اُس کا مذاق اُڑاتے اور اُس پر جھوٹے الزام لگاتے تھے۔‏ اُمرا بھی اُس کے خلاف منصوبے باندھتے اور اُسے ستاتے تھے۔‏ یہانتک‌کہ وہ اُس کی جان لینے کے درپے تھے۔‏ ان حالات سے پریشان ہوکر اُس نے کہا،‏ ”‏غم کے مارے میری جان گھلی جاتی ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۹،‏ ۲۳،‏ ۲۸،‏ ۵۱،‏ ۶۱،‏ ۶۹،‏ ۸۵،‏ ۸۷،‏ ۱۶۱‏)‏ ان مشکلات کے باوجود زبورنویس نے یہوواہ کی شریعت سے اپنی محبت کے اظہار میں بیان کِیا:‏ ”‏آہ!‏ مَیں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں۔‏ مجھے دن‌بھر اُسی کا دھیان رہتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۱۹:‏۹۷‏۔‏

۲ پس ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں،‏ ”‏خدا کی شریعت زبورنویس کے لئے اطمینان اور تسلی کا باعث کیسے بنی؟‏“‏ دراصل زبورنویس کے اس اعتماد نے اُسے تقویت بخشی کہ یہوواہ کو اُس کی فکر ہے۔‏ اس کے علاوہ شریعت کے پُرمحبت بندوبست سے واقفیت نے بھی زبورنویس کو خوشی بخشی تھی۔‏ وہ جانتا تھا کہ یہوواہ اُس کے ساتھ مہربانی سے پیش آیا ہے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ خدا کی شریعت سے حاصل ہونے والی راہنمائی کی بدولت نہ صرف زبورنویس کی زندگی محفوظ رہی بلکہ اُسے اپنے دُشمنوں سے زیادہ عقل‌ودانش بھی حاصل ہوئی۔‏ شریعت کی فرمانبرداری نے اُسے اطمینان اور نیک ضمیر عطا کِیا۔‏—‏زبور ۱۱۹:‏۱،‏ ۹،‏ ۶۵،‏ ۹۳،‏ ۹۸،‏ ۱۶۵‏۔‏

۳.‏ آجکل مسیحیوں کے لئے خدا کے معیاروں کی پابندی کرنا کیوں مشکل ہے؟‏

۳ آجکل بھی خدا کے بعض خادم ایمان کی سخت آزمائشوں کا سامنا کر رہے ہیں۔‏ شاید ہمیں زبورنویس کی مانند جان‌لیوا صورتحال کا سامنا تو نہ ہو لیکن اس بات سے انکار نہیں کِیا جا سکتا کہ ہم ’‏بُرے دنوں‘‏ میں رہ رہے ہیں۔‏ بیشتر لوگ جن سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے وہ روحانی چیزوں کی کوئی قدر نہیں کرتے۔‏ وہ خودغرض ہیں اور اُن کا مقصد زیادہ سے زیادہ مال‌ودولت حاصل کرنا ہے۔‏ وہ دوسروں کو حقیر سمجھتے اور اُن کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏)‏ نوجوان مسیحیوں کو بھی ہر روز اخلاقی پاکیزگی کی آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ ایسی صورتحال میں،‏ یہوواہ اور اُس کے راست معیاروں کے لئے محبت دکھانا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ ہم اپنی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۴.‏ زبورنویس نے خدا کی شریعت کے لئے قدردانی کیسے ظاہر کی،‏ اور کیا مسیحیوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے؟‏

۴ جس چیز نے زبورنویس کو دباؤ کا مقابلہ کرنے میں مدد دی وہ خوشی کے ساتھ خدا کی شریعت پر غوروخوض کے لئے وقت مقرر کرنا تھا۔‏ اس طرح اُس کے اندر خدا کی شریعت کے لئے محبت پیدا ہو گئی۔‏ واقعی،‏ زبور ۱۱۹ کی ہر آیت یہوواہ کی شریعت کے کسی نہ کسی پہلو کا ذکر کرتی ہے۔‏ * آجکل مسیحی اُس موسوی شریعت کے تابع نہیں جو خدا نے اسرائیلیوں کو دی تھی۔‏ (‏کلسیوں ۲:‏۱۴‏)‏ تاہم،‏ اُس شریعت میں جو اُصول بیان کئے گئے وہ آج بھی اُتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں۔‏ یہ اُصول زبورنویس کے لئے تسلی اور اطمینان کا باعث تھے۔‏ آجکل بھی یہ اُصول مشکلات سے نپٹنے والے خدا کے خادموں کو اطمینان اور تسلی بخش سکتے ہیں۔‏

۵.‏ اب ہم موسوی شریعت کے کن پہلوؤں پر غور کریں گے؟‏

۵ آئیے غور کریں کہ ہم موسوی شریعت کے صرف تین پہلوؤں یعنی سبت کے انتظام،‏ بالیں جمع کرنے کے بندوبست اور لالچ سے خبردار رہنے کے حکم سے کیسے حوصلہ‌افزائی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ ہر پہلو پر غور کرنے سے ہم یہ دیکھیں گے کہ اگر ہم اپنے زمانے میں درپیش مشکلات کا سامنا کرنا چاہتے ہیں تو موسوی شریعت کے ان احکام کے پسِ‌پردہ اُصولوں کی قدر کرنا کتنا ضروری ہے۔‏

اپنی روحانی ضروریات کی فکر کرنا

۶.‏ انسانوں کی بنیادی ضروریات کیا ہیں؟‏

۶ انسانوں کو مختلف چیزوں کی ضرورت کے ساتھ خلق کِیا گیا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ اچھی صحت کیلئے خوراک،‏ پانی اور رہائش بہت ضروری ہیں۔‏ مگر اسکے ساتھ ساتھ انسانوں کو اپنی ”‏روحانی ضروریات“‏ سے بھی باخبر رہنا چاہئے۔‏ (‏متی ۵:‏۳‏،‏ این ڈبلیو‏)‏ یہوواہ خدا کے نزدیک انسان کی اس بنیادی ضرورت کو پورا کرنا اتنا اہم تھا کہ اُس نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ اپنی روحانی ضروریات پر توجہ دینے کے لئے ہفتے میں سے ایک دن معمول کا کوئی کام نہ کریں۔‏

۷،‏ ۸.‏ (‏ا)‏ خدا نے سبت اور دوسرے دنوں کے درمیان کیسے فرق کِیا؟‏ (‏ب)‏ سبت نے کونسا مقصد انجام دیا؟‏

۷ سبت کے انتظام نے روحانی چیزوں کی اہمیت پر زور دیا۔‏ بائبل میں سبت کا لفظ پہلی بار بیابان میں من کی فراہمی کے ساتھ استعمال ہوا تھا۔‏ اسرائیلیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ چھ دن تک اس معجزانہ خوراک کو جمع کریں۔‏ چھٹے دن اُنہیں ”‏دو دن کا کھانا“‏ جمع کرنا تھا کیونکہ ساتویں دن اُنہیں خوراک نہیں ملنی تھی۔‏ ساتواں دن ”‏خداوند کا مُقدس سبت“‏ ہوگا جس کے دوران سب نے آرام کرنا تھا۔‏ (‏خروج ۱۶:‏۱۳-‏۳۰‏)‏ دس حکموں میں سے ایک یہ تھا کہ سبت کے دن کسی بھی طرح کا کوئی کام نہ کرنا۔‏ یہوواہ نے اسے ایک مُقدس دن ٹھہرایا اور اسے نہ ماننے کی سزا موت تھی۔‏—‏خروج ۲۰:‏۸-‏۱۱؛‏ گنتی ۱۵:‏۳۲-‏۳۶‏۔‏

۸ سبت کی بابت حکم نے لوگوں کی روحانی اور جسمانی ضروریات کے لئے یہوواہ خدا کی فکرمندی کو ظاہر کِیا۔‏ یسوع مسیح نے فرمایا:‏ ”‏سبت آدمی کے لئے بنا ہے۔‏“‏ (‏مرقس ۲:‏۲۷‏)‏ اس سے نہ صرف اسرائیلیوں کو آرام کرنے بلکہ اپنے خالق کے نزدیک جانے اور اُس کے لئے محبت ظاہر کرنے کا موقع بھی ملتا تھا۔‏ (‏استثنا ۵:‏۱۲‏)‏ یہ دن صرف اور صرف روحانی کاموں کے لئے مخصوص تھا۔‏ اس میں خاندان کے طور پر عبادت،‏ دُعا اور خدا کی شریعت پر غوروخوض کرنا شامل تھا۔‏ اس انتظام نے اسرائیلیوں کو اپنا سارا وقت اور قوت دُنیا کا مال‌ودولت جمع کرنے میں استعمال کرنے سے باز رکھا۔‏ سبت کا دن اُنہیں یاد دلاتا تھا کہ یہوواہ خدا کے ساتھ اُن کا رشتہ اُن کی زندگیوں میں سب سے اہم ہے۔‏ یسوع مسیح نے بھی اس لاتبدیل اُصول کو دہراتے ہوئے کہا:‏ ”‏لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے مُنہ سے نکلتی ہے۔‏“‏—‏متی ۴:‏۴‏۔‏

۹.‏ سبت کا انتظام مسیحیوں کو کیا سکھاتا ہے؟‏

۹ آجکل خدا کے لوگوں سے ۲۴ گھنٹے کا سبت منانے کا تقاضا تو نہیں کِیا جاتا توبھی سبت کا انتظام محض ماضی کی ایک دلچسپ حقیقت سے زیادہ مطلب رکھتا ہے۔‏ (‏کلسیوں ۲:‏۱۶‏)‏ کیا یہ اس بات کی یاددہانی نہیں کراتا کہ ہمیں بھی روحانی کاموں کو پہلا درجہ دینا چاہئے؟‏ ہمیں مالی چیزوں یا تفریح کو اپنے روحانی کاموں سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہئے۔‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ پس ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏میری زندگی میں کیا چیز پہلا درجہ رکھتی ہے؟‏ کیا مَیں بائبل مطالعے،‏ دُعا،‏ عبادت پر حاضر ہونے اور منادی کرنے کو پہلا درجہ دیتا ہوں؟‏ یا کیا دوسرے کام میرا سارا وقت لے لیتے ہیں؟‏“‏ اگر ہم روحانی کاموں کو اپنی زندگیوں میں پہلا درجہ دیتے ہیں تو یہوواہ خدا کا وعدہ ہے کہ ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔‏—‏متی ۶:‏۲۴-‏۳۳‏۔‏

۱۰.‏ روحانی کاموں میں وقت صرف کرنے سے ہم کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟‏

۱۰ جو وقت ہم بائبل اور اس پر مبنی کتابوں کا مطالعہ کرنے میں صرف کرتے ہیں وہ ہمیں یہوواہ خدا کے نزدیک جانے میں مدد دے سکتا ہے۔‏ (‏یعقوب ۴:‏۸‏)‏ سوزین بیان کرتی ہے،‏ تقریباً ۴۰ سال پہلے جب مَیں نے بِلاناغہ بائبل پڑھائی شروع کی تو پہلے پہل مجھے ایسا کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔‏ مَیں اسے محض ایک فرض سمجھتی تھی۔‏ لیکن جتنا زیادہ مَیں نے پاک کلام کو پڑھا اُتنا ہی یہ مجھے دلچسپ لگنے لگا۔‏ اب یہ حال ہے کہ جس دن وہ کسی وجہ سے ذاتی بائبل پڑھائی نہیں کر سکتی تو اُسے بہت دُکھ ہوتا ہے۔‏ وہ کہتی ہے،‏ ”‏اس سے مجھے یہوواہ خدا کو بطور ایک باپ جاننے میں مدد ملی ہے۔‏ مَیں اُس پر بھروسا اور توکل رکھ سکتی اور دُعا میں اُس کے قریب جا سکتی ہوں۔‏ یہ جاننا واقعی بہت خوشی بخشتا ہے کہ یہوواہ خدا اپنے خادموں سے کتنا پیار کرتا ہے،‏ اُسے میری کتنی فکر ہے اور وہ میرے لئے کیسے کیسے کام کرتا ہے۔‏“‏ اس سے بڑی اَور کونسی خوشی ہو سکتی ہے جو ہم اپنی روحانی ضروریات کا خیال رکھنے سے حاصل کر سکتے ہیں!‏

بالیں چننے کی بابت خدا کا حکم

۱۱.‏ بالیں چننے کے بندوبست پر کیسے عمل کِیا جاتا تھا؟‏

۱۱ یہوواہ خدا کی فکرمندی کو ظاہر کرنے والا موسوی شریعت کا دوسرا پہلو بالیں چننے کا حق تھا۔‏ یہوواہ خدا نے حکم دیا کہ جب کوئی اسرائیلی کسان اپنی فصل کی کٹائی کرے تو جو باقی بچ جائے اُسے ضرورتمند اور نادار اسرائیلیوں کے لئے چھوڑ دے۔‏ کسانوں کو اپنے کھیت کونے کونے تک کاٹنے یا انگورستان یا زیتون کا دانہ دانہ چننے یا جو بالیں پیچھے رہ جاتی تھیں اُنہیں چننے کی اجازت نہیں تھی۔‏ یہ غریبوں،‏ مسافروں،‏ یتیموں اور بیواؤں کے لئے ایک پُرمحبت بندوبست تھا۔‏ اگرچہ بالیں چننا ایک مشقت‌طلب کام تھا توبھی اس بندوبست کی وجہ سے اُنہیں دوسروں سے بھیک نہیں مانگنی پڑتی تھی۔‏—‏احبار ۱۹:‏۹،‏ ۱۰؛‏ استثنا ۲۴:‏۱۹-‏۲۲؛‏ زبور ۳۷:‏۲۵‏۔‏

۱۲.‏ بالیں چننے کے بندوبست سے کسانوں کو کیا موقع ملتا تھا؟‏

۱۲ بالیں چننے کی بابت خدا کی شریعت میں یہ بیان نہیں کِیا گیا تھا کہ ایک کسان اپنی فصل میں سے کتنا حصہ غریبوں کے لئے چھوڑے گا۔‏ اس کا فیصلہ کسانوں نے خود کرنا تھا۔‏ اس طرح بالیں چننے کے بندوبست نے اُنہیں سخاوت یا فیاضی کی بھی تعلیم دی۔‏ اس سے کسانوں کو فصل کے اصل مالک یہوواہ خدا کے لئے شکرگزاری ظاہر کرنے کا موقع بھی ملا۔‏ کیونکہ لکھا ہے کہ ’‏محتاجوں پر رحم کرنے والا اپنے خالق کی تعظیم کرتا ہے۔‏‘‏ (‏امثال ۱۴:‏۳۱‏)‏ اس کی ایک مثال اسرائیلی بوعز ہے۔‏ اُس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اُس کی فصل میں بالیں چننے والی روت کو کافی اناج ملے۔‏ بوعز کی اس فیاضی کے بدلے یہوواہ خدا نے اُسے بیشمار برکات سے نوازا۔‏—‏روت ۲:‏۱۵،‏ ۱۶؛‏ ۴:‏۲۱،‏ ۲۲؛‏ امثال ۱۹:‏۱۷‏۔‏

۱۳.‏ بالیں چننے کی بابت شریعت کے حکم سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۳ بالیں چننے کی بابت حکم کے پیچھے جو اُصول تھا وہ آج بھی نہیں بدلا۔‏ یہوواہ خدا اپنے خادموں سے ضرورتمندوں کا خیال رکھنے کی توقع کرتا ہے۔‏ ہم جتنی زیادہ فیاضی دکھائیں گے یہوواہ ہمیں اُتنی ہی زیادہ برکات دے گا۔‏ یسوع مسیح نے فرمایا:‏ ”‏دیا کرو۔‏ تمہیں بھی دیا جائے گا۔‏ اچھا پیمانہ داب‌داب کر اور ہلاہلا کر اور لبریز کرکے تمہارے پلے میں ڈالیں گے کیونکہ جس پیمانہ سے ناپتے ہو اُسی سے تمہارے لئے ناپا جائے گا۔‏“‏—‏لوقا ۶:‏۳۸‏۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ ہم فیاضی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں،‏ نیز اس سے ہمیں اور جن کی ہم مدد کرتے ہیں اُنہیں کیسے فائدہ پہنچ سکتا ہے؟‏

۱۴ پولس رسول نے بھی حوصلہ‌افزائی کی:‏ ”‏جہاں تک موقع ملے سب کے ساتھ نیکی کریں خاصکر اہلِ‌ایمان کے ساتھ۔‏“‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱۰‏)‏ پس ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ جب ساتھی مسیحیوں کو ایمان کی آزمائشوں کا سامنا ہوتا ہے تو ہم اُن کی روحانی مدد کرنے کے لئے دستیاب ہوں۔‏ مگر کیا اُنہیں کسی طرح سے عملی مدد کی ضرورت ہے،‏ مثلاً کیا کسی بہن‌بھائی کو کنگڈم ہال آنے یا گھر کا سوداسلف لانے کے لئے مدد درکار ہے؟‏ کیا آپ کی کلیسیا میں عمررسیدہ،‏ بیمار یا دیگر ایسے لوگ ہیں جو گھر تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں؟‏ کیا وہ آپ کے ملاقات کے لئے جانے اور اُن کی مدد کرنے سے خوش ہوں گے؟‏ اگر ہم بہن‌بھائیوں کی ایسی ضروریات سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہوواہ ان حاجتمندوں کی دُعاؤں کا جواب دینے کے لئے ہمیں بھی استعمال کر سکتا ہے۔‏ اگرچہ ایک دوسرے کا خیال رکھنا ایک مسیحی ذمہ‌داری ہے توبھی اس سے مدد کرنے والوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔‏ ساتھی ایمانداروں کے لئے محبت ظاہر کرنا اطمینان اور خوشی بخش سکتا اور یہوواہ خدا کی نظر میں مقبول ٹھہرنے کا باعث بن سکتا ہے۔‏—‏امثال ۱۵:‏۲۹‏۔‏

۱۵ خودایثاری ظاہر کرنے کا ایک اَور اہم طریقہ اپنے وقت اور طاقت کو خدا کے مقاصد کی بابت بیان کرنے کے لئے استعمال کرنا ہے۔‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ اگر کسی مسیحی کو ایک شخص کو اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے مخصوص کرنے کے مقام تک پہنچانے کا موقع ملا ہے تو وہ یسوع مسیح کے ان الفاظ کی صداقت کو سمجھ سکتا ہے:‏ ”‏دینا لینے سے مبارک ہے۔‏“‏—‏اعمال ۲۰:‏۳۵‏۔‏

لالچ سے خبردار رہیں

۱۶،‏ ۱۷.‏ دسویں حکم نے کس چیز سے منع کِیا،‏ اور کیوں؟‏

۱۶ خدا کی شریعت کا تیسرا پہلو جس پر ہم اب غور کریں گے اُس کا تعلق دسویں حکم سے ہے جس میں لالچ کرنے سے منع کِیا تھا۔‏ شریعت میں بیان کِیا گیا:‏ ”‏تُو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا۔‏ تُو اپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا اور نہ اُس کے غلام اور اُس کی لونڈی اور اُس کے بیل اور اُس کے گدھے کا اور نہ اپنے پڑوسی کی کسی اَور چیز کا لالچ کرنا۔‏“‏ (‏خروج ۲۰:‏۱۷‏)‏ انسان ایسا قانون نافذ نہیں کر سکتا کیونکہ وہ دلوں کو نہیں پڑھ سکتا۔‏ لہٰذا،‏ اس حکم نے موسوی شریعت کو انسانی انصاف سے کہیں بالاتر بنا دیا۔‏ اس نے ہر اسرائیلی کو خبردار کر دیا کہ وہ براہِ‌راست خدا کے حضور جوابدہ ہے جو یہ جانتا ہے کہ انسان کے دل میں کیا ہے۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۶:‏۷‏)‏ اس کے علاوہ،‏ اس حکم نے بہت سے بُرے کاموں کی اصل وجہ کو نمایاں کِیا۔‏—‏یعقوب ۱:‏۱۴‏۔‏

۱۷ لالچ سے خبردار رہنے کی بابت حکم نے اسرائیلیوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ مال‌ودولت کے پیچھے نہ بھاگیں،‏ حرص نہ کریں اور اپنے حالات پر دل ہی دل میں نہ کڑھیں۔‏ اس نے اُنہیں چوری چکاری یا بدکاری کے پھندے میں پڑنے کے خلاف بھی خبردار کِیا۔‏ ہر دَور میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں کامیاب انسان سمجھا جاتا ہے اور اُن کی چیزیں دوسروں کو بہت متاثر کرتی ہیں۔‏ اگر ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا ہے اور ہم اپنی سوچ پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں تو نہ صرف ہماری خوشی ختم ہو جائے گی بلکہ ہم دوسروں سے حسد کرنے لگیں گے۔‏ بائبل لالچ کو ”‏ناپسندیدہ عقل“‏ کا نام دیتی ہے۔‏ لہٰذا اچھا ہوگا کہ ہم لالچ سے بچیں۔‏—‏رومیوں ۱:‏۲۸-‏۳۰‏۔‏

۱۸.‏ آجکل دُنیا میں کیسی رُوح پائی جاتی ہے،‏ اور اس کے کونسے نقصانات ہو سکتے ہیں؟‏

۱۸ آجکل دُنیا کی روح مادہ‌پرستی اور مقابلہ‌بازی کی حوصلہ‌افزائی کرتی ہے۔‏ اشتہاربازی کے ذریعے تجارتی دُنیا نہ صرف انسانوں کے اندر نئی نئی چیزیں حاصل کرنے کی خواہش بلکہ یہ سوچ بھی پیدا کر دیتی ہے کہ ان چیزوں کے بغیر ہم خوش نہیں رہ سکتے۔‏ درحقیقت خدا کی شریعت نے اسی چیز کی مذمت کی تھی۔‏ اس سے ملتی‌جلتی ایک خواہش کسی بھی قیمت پر دُنیا میں آگے نکل جانا اور مال‌ودولت جمع کرنا ہے۔‏ پولس رسول نے آگاہ کِیا:‏ ”‏جو دولتمند ہونا چاہتے ہیں وہ ایسی آزمایش اور پھندے اور بہت سی بیہودہ اور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں جو آدمیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غرق کر دیتی ہیں۔‏ کیونکہ زر کی دوستی ہر قسم کی بُرائی کی جڑ ہے جس کی آرزو میں بعض نے ایمان سے گمراہ ہوکر اپنے دلوں کو طرح طرح کے غموں سے چھلنی کر لیا۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ (‏ا)‏ یہوواہ کی شریعت سے محبت رکھنے والے شخص کے لئے کونسی چیزیں حقیقی اہمیت رکھتی ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں کس موضوع پر بات کی جائے گی؟‏

۱۹ خدا کے حکموں سے محبت رکھنے والے لوگ مادہ‌پرستی کے خطرات سے خبردار رہتے اور ان سے بچ جاتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ زبورنویس نے یہوواہ سے دُعا کی:‏ ”‏میرے دل کو اپنی شہادتوں کی طرف رُجوع دِلا نہ کہ لالچ کی طرف۔‏ تیرے مُنہ کی شریعت میرے لئے سونے چاندی کے ہزاروں سکوں سے بہتر ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۳۶،‏ ۷۲‏)‏ ان الفاظ کی صداقت پر یقین ہمیں ایسا توازن قائم رکھنے میں مدد دے گا جس سے ہم مادہ‌پرستی کے پھندوں،‏ لالچ اور بےاطمینانی سے بچ سکتے ہیں۔‏ مال‌ودولت کی بجائے ”‏دینداری“‏ ہمارے لئے فائدہ‌مند ہو سکتی ہے۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۶‏۔‏

۲۰ یہوواہ خدا نے موسیٰ کے ذریعے اسرائیلیوں کو جو شریعت دی اُس کے پسِ‌پردہ اُصول آج بھی ہمارے لئے اُتنے ہی اہم ہیں۔‏ ہم اپنی زندگیوں میں جتنا زیادہ ان اُصولوں پر عمل کریں گے اُتنا ہی زیادہ ہم اُن کی اہمیت کو سمجھیں گے۔‏ ہم اُن سے جس قدر پیار کریں گے اُسی قدر زیادہ خوش ہوں گے۔‏ شریعت میں ہمارے لئے بہت سے اہم سبق پائے جاتے ہیں۔‏ ان اسباق کو ہم اُن لوگوں کی زندگیوں اور تجربات سے سیکھ سکتے ہیں جن کا بائبل ذکر کرتی ہے۔‏ اگلے مضمون میں ان میں سے چند ایک پر بات کی جائے گی۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 زبور ۱۱۹ کی ۱۷۶ آیات میں سے ۴ کے علاوہ باقی سب یہوواہ خدا کے احکام،‏ صداقت کے احکام،‏ قوانین،‏ شریعت،‏ شہادتوں،‏ فرمان،‏ آئین،‏ فرمودہ احکام،‏ کلام اور قول کا ذکر کرتی ہیں۔‏

آپ کیسے جواب دیں گے؟‏

‏• زبور ۱۱۹ کا لکھنے والا یہوواہ کی شریعت سے محبت کیوں رکھتا تھا؟‏

‏• مسیحی سبت کے بندوبست سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏• بالیں چننے کی بابت خدا کی شریعت کی کیا اہمیت ہے؟‏

‏• لالچ سے خبردار رہنے کی بابت حکم ہمیں کیسے محفوظ رکھتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

سبت کی بابت حکم نے کس چیز پر زور دیا؟‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

بالیں چننے کی بابت حکم سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏