مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

نوجوانو،‏ یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا فیصلہ کریں

نوجوانو،‏ یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا فیصلہ کریں

نوجوانو،‏ یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا فیصلہ کریں

‏”‏آج تُم اُسے جس کی پرستش کرو گے چن لو۔‏“‏—‏یشوع ۲۴:‏۱۵‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ بہتیرے مسیحی مذاہب میں کونسے غلط قسم کے بپتسمے دئے گئے ہیں؟‏

‏”‏مسیح کے بارے میں علم حاصل کرنے کے بعد ہی بچوں کو مسیحی بننا چاہئے۔‏“‏ دوسری صدی کے آخر میں لکھے گئے یہ الفاظ طرطلیان نامی ایک عالم کے تھے۔‏ وہ ننھے بچوں کو بپتسمہ دینے کی رسم پر اعتراض کر رہا تھا۔‏ یہ رسم اُس وقت کی برگشتہ مسیحیت میں جڑ پکڑ رہی تھی۔‏ خدا کے کلام اور طرطلیان کی خلاف‌ورزی کرتے ہوئے چرچ کے رہنما آگسٹین نے دعویٰ کِیا کہ بچوں کو بپتسمہ دینے سے اُن پر سے پیدائشی گناہ کا داغ مٹا لیا جاتا ہے۔‏ اُس نے یہ بھی کہا کہ ایسے بچے جو بپتسمہ لینے سے پہلے مر جاتے ہیں،‏ اُنہیں جہنم کی آگ میں دھکیل دیا جائے گا۔‏ اِس لئے جب ایک بچہ پیدا ہوتا تھا تو اُسے جلد از جلد بپتسمہ دیا جاتا۔‏

۲ بہتیرے مسیحی مذاہب میں اب بھی ننھے بچوں کو بپتسمہ دیا جاتا ہے۔‏ اس کے علاوہ تاریخ کے مطابق جب مسیحی دوسرے ملکوں پر فتح حاصل کرتے تو اُن کے حکمران اور مذہبی راہنما کافروں کو بپتسمہ لینے پر مجبور کرتے تھے۔‏ لیکن خدا کے کلام میں نہ تو بچوں کو اور نہ ہی کسی اَور کو مجبوراً بپتسمہ دینے کو کہا گیا ہے۔‏

فیصلہ آپ کا ہے

۳،‏ ۴.‏ مسیحی والدین کے بچے اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کرنے کے قابل کیسے بن سکتے ہیں؟‏

۳ خدا اپنے کلام میں فرماتا ہے کہ اگر والدین میں سے ایک بھی اُس کی خدمت کر رہا ہو تو وہ اُن کے بچوں کو ”‏پاک“‏ ٹھہراتا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۱۴‏)‏ کیا اس طرح اُن کے بچے خدا کے مخصوص‌شُدہ خادم بن جاتے ہیں؟‏ جی‌نہیں۔‏ تاہم جب والدین بچوں کو یہوواہ خدا کی تعلیم دیتے ہیں تو بچے اپنی زندگی کو خدا کے لئے وقف کرنے کا خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔‏ بادشاہ سلیمان نے کہا تھا:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ اپنے باپ کے فرمان کو بجا لا اور اپنی ماں کی تعلیم کو نہ چھوڑ .‏ .‏ .‏ یہ چلتے وقت تیری رہبری اور سوتے وقت تیری نگہبانی اور جاگتے وقت تجھ سے باتیں کرے گی۔‏ کیونکہ فرمان چراغ ہے اور تعلیم نُور اور تربیت کی ملامت حیات کی راہ ہے۔‏“‏—‏امثال ۶:‏۲۰-‏۲۳‏۔‏

۴ اگر بچے اپنے مسیحی والدین کی راہنمائی قبول کریں گے تو یہ اُن کی حفاظت کا باعث بنے گا۔‏ بادشاہ سلیمان نے یہ بھی کہا تھا:‏ ”‏دانا بیٹا باپ کو خوش رکھتا ہے لیکن احمق بیٹا اپنی ماں کا غم ہے۔‏ اَے میرے بیٹے!‏ تُو سُن اور دانا بن اور اپنے دل کی راہبری کر۔‏“‏ (‏امثال ۱۰:‏۱؛‏ ۲۳:‏۱۹‏)‏ نوجوانو،‏ اگر آپ اپنے والدین کی راہنمائی سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اُن کی نصیحت پر عمل کرنا اور اُن کی صلاح اور تربیت کو قبول کرنا چاہئے۔‏ آپ پیدائشی طور پر دانشمند نہیں ہیں لیکن آپ ”‏دانا بن“‏ کر خود ”‏حیات کی راہ“‏ اختیار کر سکتے ہیں۔‏

تربیت اور نصیحت دینے سے کیا مُراد ہے؟‏

۵.‏ پولس رسول نے والدین اور بچوں کو کیا نصیحت دی تھی؟‏

۵ پولس رسول نے لکھا تھا:‏ ”‏اَے فرزندو!‏ خداوند میں اپنے ماں باپ کے فرمانبردار رہو کیونکہ یہ واجب ہے۔‏ اپنے باپ کی اور ماں کی عزت کر (‏یہ پہلا حکم ہے جس کے ساتھ وعدہ بھی ہے)‏ تاکہ تیرا بھلا ہو اور تیری عمر زمین پر دراز ہو۔‏ اور اَے اولاد والو!‏ تُم اپنے فرزندوں کو غصہ نہ دلاؤ بلکہ [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر ان کی پرورش کرو۔‏“‏—‏افسیوں ۶:‏۱-‏۴‏۔‏

۶،‏ ۷.‏ بچوں کو ’‏یہوواہ کی طرف سے نصیحت دے کر‘‏ اُن کی پرورش کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ کیا ایسا کرنے سے والدین اپنے بچوں کو خدا کی خدمت کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟‏

۶ مسیحی والدین اپنے بچوں کو ”‏[‏یہوواہ]‏ کی طرف سے تربیت اور نصیحت“‏ دے کر اُن کی پرورش کرتے ہیں۔‏ کیا ایسا کرنے سے وہ اپنے بچوں کو خدا کی خدمت کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟‏ جی‌نہیں۔‏ ایسے والدین کی نکتہ‌چینی کون کر سکتا ہے جو اپنے بچوں کو صحیح اور اخلاقی طور پر فائدہ‌مند باتیں سکھاتے ہیں؟‏ جو لوگ خدا کے وجود کو نہیں مانتے،‏ وہ بھی تو اپنے بچوں کو اپنی سوچ سکھاتے ہیں اور کوئی اُن کی نکتہ‌چینی نہیں کرتا۔‏ رومن کیتھولک مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اِس کوشش میں ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے مذہب کی تربیت دیں اور کم ہی لوگ اِن کی نکتہ‌چینی کرتے ہیں۔‏ اِسی طرح جب یہوواہ کے گواہ اپنے بچوں کو یہوواہ خدا کی تعلیم دیتے اور اُس کے اخلاقی معیاروں کے مطابق اُن کی پرورش کرتے ہیں تو اُن پر بھی یہ الزام نہیں لگانا چاہئے کہ وہ اپنے بچوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔‏

۷ ایک لغت کے مطابق افسیوں ۶:‏۴ میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏نصیحت“‏ سے کِیا گیا ہے یہ ایک ایسے عمل کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے ذریعے ”‏سوچ کو صحیح کِیا جا سکتا،‏ غلط کو درست کِیا جا سکتا اور روحانیت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔‏“‏ شاید ایک نوجوان اپنے والدین کی راہنمائی پر عمل کرنے سے اِس لئے انکار کرے کیونکہ دوسرے نوجوان اُس پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور وہ اُن کو خوش کرنا چاہتا ہے۔‏ اگر ایسا ہے تو پھر کیا اِس نوجوان پر دباؤ ڈالنے کا الزام والدین پر پڑنا چاہئے یا پھر اُس کے ساتھیوں پر؟‏ فرض کریں کہ ایک نوجوان کے ساتھی اُس پر منشیات لینے،‏ زیادہ سے زیادہ شراب پینے اور بداخلاقی کرنے کا دباؤ ڈال رہے ہوں۔‏ ایسی صورتحال میں اگر والدین اپنے بچوں کی سوچ میں تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہوئے اُنہیں ان اعمال کے خطروں سے آگاہ کرتے ہیں تو کیا اُن کی نکتہ‌چینی کی جا سکتی ہے؟‏

۸.‏ تیمتھیس کو ’‏سیکھی ہوئی باتوں پر یقین دلانے‘‏ میں کیا کچھ شامل تھا؟‏

۸ جب تیمتھیس نوجوان تھا تو پولس رسول نے اُس کے نام ایک خط میں لکھا:‏ ”‏اُن باتوں پر جو تُو نے سیکھی تھیں اور جن کا یقین تجھے دلایا گیا تھا یہ جان کر قائم رہ کہ تُو نے اُنہیں کن لوگوں سے سیکھا تھا۔‏ اور تُو بچپن سے ان پاک نوشتوں سے واقف ہے جو تجھے مسیح یسوؔع پر ایمان لانے سے نجات حاصل کرنے کے لئے دانائی بخش سکتے ہیں۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ تیمتھیس کی ماں اور نانی یہودی مذہب سے تعلق رکھتی تھیں۔‏ تیمتھیس کے بچپن سے ہی اُنہوں نے خدا کے کلام کے ذریعے اُس کے ایمان کو پُختہ کِیا۔‏ (‏اعمال ۱۶:‏۱؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۱:‏۵‏)‏ بعد میں جب تیمتھیس کی ماں اور نانی مسیحی بنیں تو اُنہوں نے تیمتھیس کو مسیحی بننے پر مجبور نہیں کِیا بلکہ خدا کے کلام میں ’‏سیکھی ہوئی باتوں پر یقین دلانے‘‏ کے لئے اُسے دلیلیں پیش کیں۔‏

نوجوانو،‏ انتخاب آپ کا ہے

۹.‏ (‏ا)‏ خدا نے ہمیں کس صلاحیت کے ساتھ خلق کِیا اور کیوں؟‏ (‏ب)‏ خدا کے اکلوتے بیٹے کی خوشی کونسے کام میں تھی؟‏

۹ یہوواہ خدا نے ہمیں مشینوں کی طرح نہیں بنایا جو اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کر سکتیں۔‏ اس کی بجائے اُس نے ہمیں ایسے خلق کِیا کہ ہم اپنی مرضی کے مطابق کام کر سکتے ہیں۔‏ ہمارا خدا چاہتا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے اُس کی خدمت کریں۔‏ وہ بہت خوش ہوتا ہے جب بوڑھے اور جوان لوگ اُس کے لئے گہری محبت ظاہر کرتے ہوئے اُس کی خدمت کو انجام دیتے ہیں۔‏ خدا کی تابعداری کرنے کی سب سے بہترین مثال اُس کے اکلوتے بیٹے یسوع مسیح کی ہے۔‏ اُس کے بارے میں یہوواہ خدا نے خود کہا تھا:‏ ”‏یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔‏“‏ (‏متی ۳:‏۱۷‏)‏ اور بیٹے نے یہوواہ خدا سے کہا تھا:‏ ”‏اَے میرے خدا!‏ میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے۔‏“‏—‏زبور ۴۰:‏۸؛‏ عبرانیوں ۱۰:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۱۰.‏ خدا کس قسم کی خدمت قبول کرتا ہے؟‏

۱۰ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم خوشی سے اُس کی مرضی کے تابع رہیں۔‏ زبورنویس نے پیشینگوئی کرتے ہوئے کہا تھا:‏ ”‏لشکرکشی کے دن تیرے لوگ خوشی سے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔‏ تیرے جوان پاک آرایش میں ہیں اور صبح کے بطن سے شبنم کی مانند۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۰:‏۳‏)‏ خدا کی تنظیم (‏چاہے یہ آسمان پر ہو یا زمین پر)‏ یہوواہ کے لئے گہری محبت رکھنے اور اُس کے تابع رہنے کے بل‌بوتے سے ہی وجود میں ہے۔‏

۱۱.‏ مسیحی والدین کے بچوں کو کون سا فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے؟‏

۱۱ اِس لئے آپ نوجوانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ نہ ہی آپکے والدین اور نہ ہی کلیسیا کے بزرگ آپ کو بپتسمہ لینے پر مجبور کریں گے۔‏ یہوواہ کی خدمت کرنے کا فیصلہ آپ کا اپنا ہونا چاہئے۔‏ یشوع نے اسرائیلیوں سے کہا:‏ ”‏نیک‌نیتی اور صداقت سے اُس کی پرستش کرو۔‏ .‏ .‏ .‏ آج تُم اُسے جس کی پرستش کرو گے چن لو۔‏“‏ (‏یشوع ۲۴:‏۱۴-‏۲۲‏)‏ آپ کو بھی اپنی مرضی سے یہوواہ کے لئے زندگی وقف کرکے اُس کی خدمت کرنی چاہئے۔‏

اپنی ذمہ‌داری قبول کریں

۱۲.‏ (‏ا)‏ والدین اپنے بچوں کی جگہ کیا نہیں کر سکتے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نوجوانوں کو فیصلے کرنے کا ذمہ‌دار کب ٹھہراتا ہے؟‏

۱۲ ایک ایسا وقت آتا ہے جب خدا،‏ بچوں کو اُن کے والدین کی وفادار خدمت کے ناتے پاک ٹھہرانا بند کر دیتا ہے۔‏ (‏ا-‏کرنتھیوں ۷:‏۱۴‏)‏ خدا کے کلام میں یعقوب نے لکھا:‏ ”‏جو کوئی بھلائی کرنا جانتا ہے اور نہیں کرتا اُس کے لئے یہ گُناہ ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۴:‏۱۷‏)‏ جس طرح بچے اپنے والدین کی جگہ خدا کی خدمت نہیں کر سکتے اسی طرح والدین بھی اپنے بچوں کی جگہ خدا کی خدمت نہیں کر سکتے۔‏ (‏حزقی‌ایل ۱۸:‏۲۰‏)‏ آپ نوجوان لوگ ایک ایسی عمر کو پہنچتے ہیں جب آپ خدا کے بارے میں تعلیم حاصل کرکے اُس کے مقاصد کو سمجھنے لگتے ہیں اور اُس کے ساتھ دوستی قائم کر سکتے ہیں۔‏ اُس وقت خدا کی نظر میں آپ اُس کی خدمت کرنے کا خود فیصلہ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔‏

۱۳.‏ نوجوانوں کو اپنے آپ سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

۱۳ کیا آپ ایک ایسے نوجوان ہیں جس کے والدین مسیحی ہیں؟‏ کیا آپ باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہوتے اور خدا کی بادشاہی کی منادی کرتے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو اپنے آپ سے پوچھئے کہ ”‏مَیں یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہوں؟‏ کیا مَیں اِس لئے اجلاسوں پر حاضر ہوتا اور منادی میں حصہ لیتا ہوں کیونکہ میرے والدین مجھ سے اس کی توقع رکھتے ہیں؟‏ یا مَیں ایسا اِس لئے کر رہا ہوں کیونکہ مَیں یہوواہ خدا کو خوش کرنا چاہتا ہوں؟‏“‏ کیا آپ نے ’‏خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کر لی ہے؟‏‘‏—‏رومیوں ۱۲:‏۲‏۔‏

آپ کو بپتسمہ لینے سے کونسی چیز روکتی ہے؟‏

۱۴.‏ کن مثالوں سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بپتسمہ لینے میں زیادہ دیر نہیں کرنی چاہئے؟‏

۱۴ ‏”‏مجھے بپتسمہ لینے سے کونسی چیز روکتی ہے؟‏“‏ جس حبشی خوجہ نے فلپس سے یہ سوال کِیا تھا،‏ اُس نے اُسی لمحے سیکھا تھا کہ یسوع خدا کا مسیحا ہے۔‏ لیکن حبشی خوجہ پہلے سے ہی خدا کے کلام میں سے کافی علم حاصل کر چکا تھا۔‏ اِس لئے وہ جانتا تھا کہ دوسروں کے سامنے اُسے اِس بات کا اعتراف کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے کہ وہ خدا کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور مسیحی کلیسیا کا حصہ بننا چاہتا ہے۔‏ اُسے اپنے اِس فیصلے سے بہت خوشی حاصل ہوئی۔‏ (‏اعمال ۸:‏۲۶-‏۳۹‏)‏ اِسی طرح لدیہ نامی ایک عورت نے ”‏پولس کی باتوں پر توجہ“‏ دی اور اپنے گھرانے سمیت ”‏بپتسمہ لے لیا۔‏“‏ (‏اعمال ۱۶:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ پولس اور سیلاس نے فلپی کے ایک داروغہ کو ”‏[‏یہوواہ]‏ کا کلام سنایا“‏ اور اُس نے ”‏اُسی وقت اپنے سب لوگوں سمیت بپتسمہ لیا۔‏“‏ (‏اعمال ۱۶:‏۲۵-‏۳۴‏)‏ کیا آپ یہوواہ خدا اور اُس کے مقصد کے بارے میں بنیادی تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور اُس کی خدمت کرنا چاہتے ہیں؟‏ کیا آپ کا چال‌چلن اچھا ہے اور آپ باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہوتے اور منادی میں حصہ لیتے ہیں؟‏ تو پھر آپ بپتسمہ لینے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں؟‏—‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ بعض نوجوان کس غلط‌فہمی کا شکار ہیں؟‏ (‏ب)‏ اپنی زندگی یہوواہ کے لئے وقف کرنے سے نوجوانوں کو کیا فائدہ ہوگا؟‏

۱۵ کیا آپ بپتسمہ لینے سے اِس لئے ہچکچا رہے ہیں کیونکہ ایسا کرنے کے بعد اگر آپ کوئی غلط قدم اُٹھا بھی لیں تو آپ خدا کے سامنے جوابدہ ٹھہریں گے؟‏ اگر ایسا ہے تو ذرا سوچئے:‏ کیا آپ اس لئے گاڑی چلانا نہیں سیکھیں گے کیونکہ گاڑی کا حادثہ ہو سکتا ہے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ اسی طرح اگر آپ بپتسمہ لینے کے لائق ہیں تو آپ کو ہچکچانا نہیں چاہئے۔‏ اگر آپ یہوواہ کے لئے اپنی زندگی وقف کریں گے اور اُس کی مرضی پوری کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو یہ بذاتخود آپ کو غلط قدم اُٹھانے سے روک سکتا ہے۔‏ (‏فلپیوں ۴:‏۱۳‏)‏ آپ کو اِس غلط‌فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ اگر آپ بپتسمہ نہیں لیں گے تو آپ خدا کے سامنے جوابدہ بھی نہیں ہوں گے۔‏ بالغ ہو جانے پر آپ یہوواہ خدا کے سامنے اپنے اعمال کے لئے جوابدہ ہو جاتے ہیں چاہے آپ نے بپتسمہ لیا ہو یا نہیں۔‏—‏رومیوں ۱۴:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

۱۶ دُنیابھر میں یہوواہ کے گواہوں کا کہنا ہے کہ چھوٹی عمر میں بپتسمہ لینا اُن کے لئے بہت فائدہ‌مند ثابت ہوا ہے۔‏ مغربی یورپ کے ایک ۲۳ سالہ یہوواہ کے گواہ کی مثال لیجئے۔‏ وہ بتاتا ہے کہ ۱۳ سال کی عمر میں بپتسمہ لینے سے وہ ”‏جوانی کی خواہشوں“‏ پر غالب آ سکا۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۲‏)‏ چھوٹی عمر میں ہی اُس نے فیصلہ کِیا کہ وہ کُل‌وقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کرے گا۔‏ آج وہ یہوواہ کے گواہوں کے ایک برانچ دفتر میں خوشی خوشی کام کر رہا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ ایسے نوجوان جو یہوواہ خدا کی خدمت کریں گے یہوواہ اُنہیں اپنی برکات سے نوازے گا۔‏ آپ بھی اِن نوجوانوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔‏

۱۷.‏ کن معاملوں میں نوجوانوں کو ’‏یہوواہ کی مرضی کو سمجھ لینا‘‏ چاہئے؟‏

۱۷ اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کرنے اور بپتسمہ لینے کے بعد ہم زندگی کے ہر پہلو میں اُس کی مرضی کو خاطر میں لاتے ہیں۔‏ خدا کی خدمت کرنے کے اپنے وعدے پر پورا اُترنے کے لئے ہمیں ’‏وقت کو غنیمت جاننا‘‏ چاہئے۔‏ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏ وقت کو بےمعنی باتوں میں صرف کرنے کی بجائے ہمیں اسی وقت کو خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے،‏ اجلاسوں پر حاضر ہونے اور ’‏بادشاہی کی خوشخبری‘‏ کی منادی کرنے میں صرف کرنا چاہئے۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۱۵،‏ ۱۶؛‏ متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ یہوواہ خدا کی مرضی پوری کرنے اور اُس کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے سے ہماری زندگی کے ہر پہلو پر اچھا اثر پڑے گا۔‏ اِس میں ہماری تفریح،‏ ہمارے کھانےپینے کی عادتیں اور موسیقی کا انتخاب بھی شامل ہے۔‏ کیوں نہ ایسی تفریح کا انتخاب کریں جس سے آپ خدا کی نئی دُنیا میں بھی لطف اُٹھا سکیں گے؟‏ ہزاروں ایسے نوجوان جو یہوواہ کے گواہ ہیں آپ کو بتا سکتے ہیں کہ ایسی تفریح کا انتخاب ممکن ہے جس سے آپ خوب مزہ لے سکتے ہیں اور جو ”‏[‏یہوواہ]‏ کی مرضی“‏ کے مطابق بھی ہے۔‏—‏افسیوں ۵:‏۱۷-‏۱۹‏۔‏

‏”‏ہم تمہارے ساتھ جائیں گے“‏

۱۸.‏ نوجوانوں کو خود سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

۱۸ سن ۱۵۱۳ قبلِ‌مسیح سے لے کر سن ۳۳ عیسوی تک اسرائیل کی قوم نے یہوواہ خدا کے گواہوں کے طور پر اُس کی عبادت کی۔‏ (‏یسعیاہ ۴۳:‏۱۲‏)‏ نوجوان اسرائیلی اپنی پیدائش کی بِنا پر اس قوم کا حصہ تھے۔‏ پنتِکُست ۳۳ عیسوی سے یہوواہ نے زمین پر ایک نئی ”‏قوم“‏ کا انتخاب کِیا جسے روحانی اسرائیل کہا جاتا ہے۔‏ یہ قوم خدا کے ”‏نام کی ایک اُمت“‏ ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۹،‏ ۱۰؛‏ اعمال ۱۵:‏۱۴؛‏ گلتیوں ۶:‏۱۶‏)‏ پولس رسول بیان کرتا ہے کہ یسوع نے اِس قوم کو پاک کرکے اُسے ’‏اپنی خاص ملکیت کے لئے ایک ایسی اُمت بنایا ہے جو نیک کاموں میں سرگرم ہے۔‏‘‏ (‏ططس ۲:‏۱۴‏)‏ نوجوانو،‏ آپ خود اِس بات کا نتیجہ اخذ کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ اِس قوم کے لوگ کون ہیں۔‏ آج ہم کس قوم کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ ’‏وہ صادق اور وفادار ہے‘‏؟‏ وہ کون ہیں جو خدا کے کلام میں پائے جانے والے معیاروں کے مطابق اپنی زندگی جی رہے ہیں؟‏ وہ کون ہیں جو یہوواہ کے گواہوں کے طور پر اُس کی بادشاہی کو سربلند کر رہے ہیں؟‏ (‏یسعیاہ ۲۶:‏۲-‏۴‏)‏ بائبل میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ خدا اپنے بندوں سے کیا توقعات رکھتا ہے۔‏ ذرا دُنیائےمسیحیت اور دوسرے مذاہب کے اعمال پر نظر ڈالیں۔‏ کیا وہ خدا کی توقعات پر پورا اُتر رہے ہیں؟‏

۱۹.‏ دُنیابھر میں کروڑوں لوگوں کو کس بات کا یقین ہے؟‏

۱۹ دُنیابھر میں کروڑوں لوگوں کو اِس بات کا پکا یقین ہے کہ یہ ”‏صادق قوم“‏ یہوواہ کے گواہوں کے ممسوح مسیحیوں پر مشتمل ہے۔‏ روحانی اسرائیل کی اِس قوم سے وہ کہتے ہیں:‏ ”‏ہم تمہارے ساتھ جائیں گے کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔‏“‏ (‏زکریاہ ۸:‏۲۳‏)‏ ہماری دلی دُعا ہے کہ آپ نوجوان بھی خدا کے لوگوں کے ساتھ مل کر اُس کی عبادت کریں۔‏ اِس طرح آپ ”‏زندگی کو اختیار“‏ کرکے خدا کی نئی دُنیا میں ہمیشہ زندہ رہنے کی شاندار اُمید رکھ سکیں گے۔‏—‏استثنا ۳۰:‏۱۵-‏۲۰؛‏ ۲-‏پطرس ۳:‏۱۱-‏۱۳‏۔‏

جواب دیجئے

‏• بچوں کو تربیت اور نصیحت دینے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

‏• خدا کس قسم کی خدمت قبول کرتا ہے؟‏

‏• مسیحی والدین کے بچوں کو کون سا فیصلہ کرنا ہے؟‏

‏• بپتسمہ لینے میں دیر کیوں نہیں کرنی چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

آپ کس کی بات مانیں گے؟‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر]‏

اپنی زندگی کو وقف کرکے بپتسمہ لینے سے نوجوانوں کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۳۰ پر تصویر]‏

آپ کو بپتسمہ لینے سے کونسی چیز روکتی ہے؟‏