مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

وہ خدا کی مخصوص قوم میں پیدا ہوئے

وہ خدا کی مخصوص قوم میں پیدا ہوئے

وہ خدا کی مخصوص قوم میں پیدا ہوئے

‏”‏[‏یہوواہ]‏ تیرے خدا نے تجھ کو رُویِ‌زمین کی اَور سب قوموں میں سے چن لیا ہے۔‏“‏—‏استثنا ۷:‏۶‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ یہوواہ نے اپنے بندوں کی خاطر کیا کِیا تھا اور اس طرح بنی‌اسرائیل اُس کے لئے کیا بن گئے؟‏

سن ۱۵۱۳ قبلِ‌مسیح میں بنی‌اسرائیل خدا کی خاص ملکیت بنے۔‏ یہوواہ خدا نے اُس وقت کی عالمی طاقت کو نیچا دیکھا کر اسرائیلوں کو غلامی سے چھڑا لیا تھا۔‏ ایسا کرنے سے خدا اُن کا نجات دلانے والا اور مالک بن گیا۔‏ یہوواہ خدا نے موسیٰ سے کہا:‏ ”‏تُو بنی‌اِسرائیل سے کہہ مَیں [‏یہوواہ]‏ ہُوں اور مَیں تمکو مصریوں کے بوجھوں کے نیچے سے نکال لوں گا۔‏ اور مَیں تمکو اُن کی غلامی سے آزاد کروں گا اور مَیں اپنا ہاتھ بڑھا کر اور اُن کو بڑی بڑی سزائیں دیکر تمکو رہائی دوں گا۔‏ اور مَیں تمکو لے لوں گا کہ میری قوم بن جاؤ اور مَیں تمہارا خدا ہوں گا۔‏“‏—‏خروج ۶:‏۶،‏ ۷؛‏ ۱۵:‏۱-‏۷،‏ ۱۱‏۔‏

۲ اسرائیلیوں کو مصر سے رہائی دلانے کے بعد یہوواہ خدا نے اُن کے ساتھ ایک عہد باندھا۔‏ پہلے تو یہوواہ خدا ایک شخص،‏ ایک خاندان یا ایک قبیلے کے ساتھ پیش آتا تھا لیکن اب وہ اپنے بندوں سے ایک قوم کے طور پر پیش آنے لگا۔‏ (‏خروج ۱۹:‏۵،‏ ۶؛‏ ۲۴:‏۷‏)‏ یہوواہ خدا نے اپنے بندوں کو ایسے احکام دئے جن کا اُن کی روزمرہ زندگی اور عبادت پر گہرا اثر پڑتا۔‏ موسیٰ نے بنی‌اسرائیل سے کہا:‏ ”‏ایسی بڑی قوم کون ہے جس کا معبود اس قدر اُس کے نزدیک ہو جیسا [‏یہوواہ]‏ ہمارا خدا کہ جب کبھی ہم اُس سے دُعا کریں ہمارے نزدیک ہے۔‏ اور کون ایسی بزرگ قوم ہے جس کے آئین اور احکام ایسے راست ہیں جیسی یہ ساری شریعت ہے جِسے مَیں آج تمہارے سامنے رکھتا ہوں۔‏“‏—‏استثنا ۴:‏۷،‏ ۸‏۔‏

یہوواہ کے گواہ

۳،‏ ۴.‏ خدا نے کس اہم مقصد کے لئے اسرائیل کو ایک قوم کے طور پر وجود دیا تھا؟‏

۳ صدیوں بعد یہوواہ نے اپنے نبی یسعیاہ کے ذریعے اسرائیلوں کو یاد دلایا کہ اُس نے اُنہیں کس اہم مقصد کے لئے ایک قوم کے طور پر وجود دیا تھا۔‏ یسعیاہ بتاتا ہے:‏ ”‏اَے یعقوؔب!‏ [‏یہوواہ]‏ جس نے تجھکو پیدا کِیا اور جس نے اَے اؔسرائیل تجھکو بنایا یوں فرماتا ہے کہ خوف نہ کر کیونکہ مَیں نے تیرا فدیہ دیا ہے۔‏ مَیں نے تیرا نام لیکر تجھے بلایا ہے۔‏ تُو میرا ہے۔‏ کیونکہ مَیں [‏یہوواہ]‏ تیرا خدا اؔسرائیل کا قدوس تیرا نجات دینے والا ہوں۔‏ .‏ .‏ .‏ میرے بیٹوں کو دُور سے اور میری بیٹیوں کو زمین کی انتہا سے لاؤ۔‏ ہر ایک کو جو میرے نام سے کہلاتا ہے اور جس کو مَیں نے اپنے جلال کے لئے خلق کِیا جِسے مَیں نے پیدا کِیا ہاں جِسے مَیں ہی نے بنایا۔‏ [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے تُم میرے گواہ ہو اور میرا خادم بھی جِسے مَیں نے برگزیدہ کِیا۔‏ .‏ .‏ .‏ مَیں نے ان لوگوں کو اپنے لئے بنایا تاکہ وہ میری حمد کریں۔‏“‏—‏یسعیاہ ۴۳:‏۱،‏ ۳،‏ ۶،‏ ۷،‏ ۱۰،‏ ۲۱‏۔‏

۴ چونکہ بنی‌اسرائیل یہوواہ خدا کے نام سے پہچانے جاتے تھے اِس لئے اُنہوں نے دوسری قوموں کے سامنے خدا کی حکمرانی کو سربلند کِیا۔‏ وہ ’‏یہوواہ خدا کے جلال کے لئے خلق‘‏ کئے گئے تھے۔‏ جس شاندار طریقے سے خدا نے اُن کو نجات دلائی تھی،‏ اِس کو بیان کرنے سے وہ ’‏خدا کی حمد کرتے‘‏ اور اُس کے نام کو جلال دیتے۔‏ اِس طرح اسرائیل ایک قوم کے طور پر یہوواہ کے گواہ بن جاتے۔‏

۵.‏ بنی‌اسرائیل کس لحاظ سے ایک مخصوص‌شُدہ قوم تھے؟‏

۵ گیارھویں صدی قبلِ‌مسیح میں بادشاہ سلیمان نے اِس بات کی طرف اشارہ کِیا کہ یہوواہ خدا نے اسرائیلیوں کو ایک خاص قوم بنایا تھا۔‏ اُس نے دعا کرتے ہوئے خدا سے کہا:‏ ”‏تُو نے زمین کی سب قوموں میں سے ان کو الگ کِیا کہ وہ تیری میراث ہوں۔‏“‏ (‏۱-‏سلاطین ۸:‏۵۳‏)‏ خدا کے ساتھ ہر اسرائیلی کا ایک خاص رشتہ تھا۔‏ موسیٰ نے اسرائیلیوں کو بتایا:‏ ”‏تُم [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کے فرزند ہو۔‏ .‏ .‏ .‏ تُو [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کی مُقدس قوم ہے۔‏“‏ (‏استثنا ۱۴:‏۱،‏ ۲‏)‏ چونکہ پیدائش سے ہی اسرائیلی ایک ایسی قوم کا حصہ تھے جو خدا کے لئے مخصوص تھی اِس لئے اُنہیں ذاتی طور پر اپنی زندگی کو خدا کے لئے وقف کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔‏ (‏زبور ۷۹:‏۱۳؛‏ ۹۵:‏۷‏)‏ ہر نئی نسل کو خدا کے احکام کی تعلیم دی جاتی اور وہ اِن احکام کے فرمانبردار ہونے کے پابند تھے کیونکہ اسرائیل نے خدا کے ساتھ عہد باندھ رکھا تھا۔‏—‏استثنا ۱۱:‏۱۸،‏ ۱۹‏۔‏

ذاتی فیصلہ

۶.‏ اسرائیلوں کو ذاتی طور پر کس بات کا فیصلہ کرنا تھا؟‏

۶ یہ بات سچ ہے کہ اسرائیلی پیدائش ہی سے خدا کی مخصوص قوم کا حصہ تھے۔‏ اس کے باوجود ہر شخص کو ذاتی طور پر خدا کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرنا پڑتا تھا۔‏ مُلکِ‌موعود میں داخل ہونے سے پہلے موسیٰ نے اسرائیلوں سے کہا:‏ ”‏مَیں آج کے دن آسمان اور زمین کو تمہارے برخلاف گواہ بناتا ہوں کہ مَیں نے زندگی اور موت کو اور برکت اور لعنت کو تیرے آگے رکھا ہے۔‏ پس تُو زندگی کو اختیار کر کہ تُو بھی جیتا رہے اور تیری اولاد بھی۔‏ تاکہ تُو [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے محبت رکھے اور اُس کی بات سنے اور اُسی سے لپٹا رہے کیونکہ وہی تیری زندگی اور تیری عمر کی درازی ہے تاکہ تُو اُس مُلک میں بسا رہے جس کو تیرے باپ‌دادا اؔبرہام اور اضحاؔق اور یعقوؔب کو دینے کی قسم [‏یہوواہ]‏ نے اُن سے کھائی تھی۔‏“‏ (‏استثنا ۳۰:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ اس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہر اسرائیلی کو ذاتی طور پر خدا سے محبت کرنے،‏ اُس کی بات سننے اور اُس سے لپٹے رہنے کی ضرورت تھی۔‏ وہ اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کر سکتے تھے لیکن اُنہیں اپنے فیصلے کے نتائج بھی بھگتنے تھے۔‏—‏استثنا ۳۰:‏۱۶-‏۱۸‏۔‏

۷.‏ یشوع کی موت کے بعد کیا ہوا؟‏

۷ قضاۃ کی کتاب میں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا سے وفاداری یا بےوفائی کرنے کے کیا نتائج ہوتے ہیں۔‏ پہلے تو اسرائیلی یشوع کی اچھی مثال پر قائم رہے اور یہوواہ نے اُنہیں برکت سے نوازا۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏وہ لوگ [‏یہوواہ]‏ کی پرستش یشوؔع کے جیتے جی اور اُن بزرگوں کے جیتے جی کرتے رہے جو یشوؔع کے بعد زندہ رہے اور جنہوں نے [‏یہوواہ]‏ کے سب بڑے کام جو اُس نے اؔسرائیل کے لئے کئے دیکھے تھے۔‏“‏ لیکن یشوع کی موت کے کچھ عرصہ بعد ”‏ایک اَور پُشت پیدا ہوئی جو نہ [‏یہوواہ]‏ کو اور نہ اُس کام کو جو اُس نے اؔسرائیل کے لئے کِیا جانتی تھی۔‏ اور بنی‌اسرائیل نے [‏یہوواہ]‏ کے آگے بدی کی اور بعلیم کی پرستش کرنے لگے۔‏“‏ (‏قضاۃ ۲:‏۷،‏ ۱۰،‏ ۱۱‏)‏ جس قوم کے لئے یہوواہ خدا نے کئی کارنامے کر دکھائے تھے،‏ اُس کی نئی نسل ایک مخصوص‌شُدہ قوم میں پیدا ہونے کے شرف کو نہیں پہچانتی تھی۔‏—‏زبور ۷۸:‏۳-‏۷،‏ ۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

مخصوصیت پر قائم رہنے کا ثبوت

۸،‏ ۹.‏ (‏ا)‏ یہوواہ خدا نے اپنی قوم کو کس طرح کے موقعے فراہم کئے تاکہ وہ اپنی مخصوصیت پر قائم رہنے کا ثبوت دے سکیں؟‏ (‏ب)‏ جب ایک شخص اپنی مرضی سے قربانیاں چڑھاتا تو اُسے کیا حاصل ہوتا؟‏

۸ یہوواہ خدا نے اپنی قوم کو ایسے موقعے فراہم کئے جن پر وہ اپنی مخصوصیت پر قائم رہنے کا ثبوت دے سکتے تھے۔‏ مثال کے طور پر شریعت کے مطابق اسرائیلوں کو قربانیاں چڑھانی تھیں۔‏ اِن میں سے کئی قربانیاں لازمی تھیں۔‏ (‏عبرانیوں ۸:‏۳‏)‏ لیکن کئی ایسی بھی قربانیاں تھیں جو اسرائیلی خدا کی خوشنودی حاصل کرنے اور اپنی شکرگزاری کا اظہار کرنے کے لئے اپنی مرضی سے چڑھا سکتے تھے۔‏ ان قربانیوں میں سوختنی قربانیاں،‏ نذر کی قربانیاں اور سلامتی کے ذبیحے شامل تھے۔‏—‏احبار ۷:‏۱۱-‏۱۳‏۔‏

۹ جب اسرائیلی اپنی مرضی سے خدا کے لئے قربانیاں چڑھاتے تو وہ اُن سے خوش ہوتا۔‏ خدا کے کلام میں بتایا جاتا ہے کہ سوختنی قربانیاں اور نذر کی قربانیاں ’‏[‏یہوواہ]‏ کے لئے راحت انگیز خوشبو کی آتشین قربانی تھیں۔‏‘‏ (‏احبار ۱:‏۹؛‏ ۲:‏۲‏)‏ جب سلامتی کے ذبیحے چڑھائے جاتے تو گوشت کے کچھ حصے کاہن اور قربانی چڑھانے والا کھاتے جبکہ جانور کا خون اور چربی یہوواہ خدا کے حضور پیش کئے جاتے۔‏ اِس طرح یہ قربانی یہوواہ خدا کے ساتھ ایک پُرامن رشتے کی علامت ہوتی۔‏ شریعت میں لکھا تھا:‏ ”‏جب تُم [‏یہوواہ]‏ کے حضور سلامتی کے ذبیحے گذرانو تو ان کو اُس طرح گذراننا کہ تُم مقبول ہو۔‏“‏ (‏احبار ۱۹:‏۵‏)‏ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں اسرائیلی پیدائش سے ہی ایک مخصوص قوم کا حصہ تھے۔‏ لیکن ایسے اشخاص جو اپنے پورے دِل سے یہوواہ خدا کی خدمت کرنا چاہتے تھے وہ اپنی مرضی سے قربانیاں چڑھانے سے خدا کی نظروں میں ”‏مقبول“‏ ہوتے اور خدا اُنہیں اپنی برکت سے نوازتا۔‏—‏ملاکی ۳:‏۱۰‏۔‏

۱۰.‏ یسعیاہ اور ملاکی کے دنوں میں یہوواہ خدا نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیسے کِیا؟‏

۱۰ افسوس کی بات ہے کہ خدا کی مخصوص‌شُدہ قوم اکثر اُس سے بےوفائی کرتی تھی۔‏ اپنے نبی یسعیاہ کے ذریعے خدا نے اسرائیلیوں سے کہا:‏ ”‏تُو بّروں کو اپنی سوختنی قربانیوں کے لئے میرے حضور نہیں لایا اور تُو نے اپنے ذبیحوں سے میری تعظیم نہیں کی۔‏ مَیں نے تجھے ہدیہ لانے پر مجبور نہیں کِیا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۳:‏۲۳‏)‏ اگر اسرائیلی قربانیاں خوشی سے اور محبت کی بِنا پر نہ چڑھاتے تو یہوواہ خدا انہیں قبول نہ کرتا۔‏ مثال کے طور پر یسعیاہ کے زمانے کے تین سو سال بعد ملاکی نبی کے دنوں میں اسرائیلی عیب‌دار جانوروں کو قربانی کے طور پر چڑھا رہے تھے۔‏ ملاکی نبی نے اسرائیلوں سے کہا:‏ ”‏ربُ‌الافواج [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے مَیں تُم سے خوش نہیں ہوں اور تمہارے ہاتھ کا ہدیہ ہرگز قبول نہ کروں گا۔‏ .‏ .‏ .‏ تُم لُوٹ کا مال اور لنگڑے اور بیمار ذبیحے لائے اور اِسی طرح کے ہدیے گذرانے۔‏ کیا مَیں اِن کو تمہارے ہاتھ سے قبول کروں؟‏ [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے۔‏“‏—‏ملاکی ۱:‏۱۰،‏ ۱۳؛‏ عاموس ۵:‏۲۲‏۔‏

مخصوص قوم ترک کر دی جاتی ہے

۱۱.‏ اسرائیلوں کو کون سا موقع دیا گیا تھا؟‏

۱۱ جب اسرائیلی ایک مخصوص‌شُدہ قوم بنے تو یہوواہ خدا نے اُن سے وعدہ کِیا کہ ”‏اگر تُم میری بات مانو اور میرے عہد پر چلو تو سب قوموں میں سے تُم ہی میری خاص ملکیت ٹھہرو گے کیونکہ ساری زمین میری ہے۔‏ اور تُم میرے لئے کاہنوں کی ایک مملکت اور ایک مُقدس قوم ہوگے۔‏“‏ (‏خروج ۱۹:‏۵،‏ ۶‏)‏ خدا کا یہ وعدہ تب پورا ہوا جب مسیحا نے اسرائیلوں کے بیچ میں رہ کر سب سے پہلے اُن کو خدا کی بادشاہت میں حکمرانی کرنے کا موقع دیا۔‏ (‏پیدایش ۲۲:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ ۴۹:‏۱۰؛‏ ۲-‏سموئیل ۷:‏۱۲،‏ ۱۶؛‏ لوقا ۱:‏۳۱-‏۳۳؛‏ رومیوں ۹:‏۴،‏ ۵‏)‏ لیکن زیادہ‌تر اسرائیلوں نے خدا سے بےوفائی کی۔‏ (‏متی ۲۲:‏۱۴‏)‏ اُنہوں نے مسیحا کو رد کرکے اُسے آخرکار قتل کر دیا۔‏—‏اعمال ۷:‏۵۱-‏۵۳‏۔‏

۱۲.‏ یسوع کی کن باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے اسرائیل کو اپنی مخصوص قوم کے طور پر ترک کر دیا تھا؟‏

۱۲ اپنی موت سے چند دِن پہلے یسوع نے یہودی مذہبی راہنماؤں سے کہا:‏ ”‏کیا تُم نے کتابِ‌مُقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کِیا۔‏ وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا۔‏ یہ [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے؟‏ اِس لئے مَیں تُم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تُم سے لے لی جائے گی اور اُس قوم کو جو اُس کے پھل لائے دیدی جائے گی۔‏“‏ (‏متی ۲۱:‏۴۲،‏ ۴۳‏)‏ یسوع نے یہ بھی کہا:‏ ”‏اَے یرؔوشلیم!‏ اَے یرؔوشلیم!‏ تُو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے اُن کو سنگسار کرتا ہے!‏ کتنی بار مَیں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے اُسی طرح مَیں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کر لوں مگر تُم نے نہ چاہا!‏ دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے۔‏“‏ (‏متی ۲۳:‏۳۷،‏ ۳۸‏)‏ دراصل یسوع یہودیوں کو بتا رہا تھا کہ خدا نے اُن کو اپنی مخصوص قوم کے طور پر ترک کر دیا ہے۔‏

ایک نئی قوم

۱۳.‏ یرمیاہ نبی کے ذریعے یہوواہ نے اپنے لوگوں کے بارے میں کون سی پیشینگوئی کی تھی؟‏

۱۳ یرمیاہ نبی کے ذریعے یہوواہ نے اپنے لوگوں کے بارے میں ایک پیشینگوئی کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏دیکھ وہ دن آتے ہیں [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے جب مَیں اؔسرائیل کے گھرانے اور یہوؔداہ کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھوں گا۔‏ اُس عہد کے مطابق نہیں جو مَیں نے اُن کے باپ‌دادا سے کِیا جب مَیں نے اُن کی دست‌گیری کی تاکہ اُن کو ملکِ‌مصرؔ سے نکال لاؤں اور اُنہوں نے میرے اُس عہد کو توڑا اگرچہ مَیں اُن کا مالک تھا [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے۔‏ بلکہ یہ وہ عہد ہے جو مَیں اُن دِنوں کے بعد اؔسرائیل کے گھرانے سے باندھوں گا۔‏ [‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے مَیں اپنی شریعت اُن کے باطن میں رکھوں گا اور اُن کے دل پر اُسے لکھوں گا اور مَیں اُن کا خدا ہوں گا اور وہ میرے لوگ ہوں گے۔‏“‏—‏یرمیاہ ۳۱:‏۳۱-‏۳۳‏۔‏

۱۴.‏ خدا کی نئی قوم کب اور کس بِنا پر وجود میں آئی؟‏ خدا کی نئی قوم میں کون شامل ہیں؟‏

۱۴ اِس نئے عہد کی بنیاد تب ڈالی گئی جب یسوع کی موت کے بعد اُس نے یہوواہ خدا کو اپنے خون کی قیمت پیش کی۔‏ (‏لوقا ۲۲:‏۲۰؛‏ عبرانیوں ۹:‏۱۵،‏ ۲۴-‏۲۶‏)‏ تاہم نیا عہد تب وجود میں آیا جب پنتِکُست ۳۳ عیسوی میں روح‌القدس نازل ہوئی اور ’‏خدا کا اؔسرائیل‘‏ یعنی ایک نئی قوم پیدا ہوئی۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱۶؛‏ رومیوں ۲:‏۲۸،‏ ۲۹؛‏ ۹:‏۶؛‏ ۱۱:‏۲۵،‏ ۲۶‏)‏ ممسوع مسیحیوں کے نام ایک خط میں پطرس رسول نے لکھا:‏ ”‏تُم ایک برگزیدہ نسل۔‏ شاہی کاہنوں کا فرقہ۔‏ مُقدس قوم اور ایسی اُمت ہو جو خدا کی خاص ملکیت ہے تاکہ اُس کی خوبیاں ظاہر کرو جس نے تمہیں تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا ہے۔‏ پہلے تُم کوئی اُمت نہ تھے مگر اب خدا کی اُمت ہو۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ یہوواہ خدا اور اسرائیل کی قوم کے درمیان جو عہد تھا وہ ۳۳ عیسوی میں ختم ہو گیا تھا۔‏ خدا کی خوشنودی اب روحانی اسرائیل یعنی مسیحی کلیسیا پر تھی۔‏ یہ ایک ایسی قوم ثابت ہونی تھی جو ’‏بادشاہی کے پھل لاتی۔‏‘‏—‏متی ۲۱:‏۴۳‏۔‏

اپنی زندگی وقف کرنے کا فیصلہ

۱۵.‏ پنتِکُست ۳۳ میں پطرس نے کس قسم کے بپتسمے کی بنیاد ڈالی؟‏

۱۵ پنتِکُست ۳۳ کے بعد ہر شخص کو،‏ چاہے وہ یہودی تھا یا غیرقوم سے تعلق رکھتا تھا،‏ ذاتی طور پر خدا کے لئے اپنی زندگی وقف کرکے ”‏باپ اور بیٹے اور روحُ‌القدس کے نام سے“‏ بپتسمہ لینا تھا۔‏ * (‏متی ۲۸:‏۱۹‏)‏ پنتِکُست کے موقع پر پطرس رسول نے یہودیوں اور نومریدوں سے کہا:‏ ”‏توبہ کرو اور تُم میں سے ہر ایک اپنے گُناہوں کی معافی کے لئے یسوؔع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے تو تُم روحُ‌القدس انعام میں پاؤگے۔‏“‏ (‏اعمال ۲:‏۳۸‏)‏ یہودیوں اور نومریدوں کے بپتسمے سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اُنہوں نے یہوواہ خدا کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی ہے اور وہ اِس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ یسوع مسیح کے وسیلے سے ہی یہوواہ خدا اُن کے گناہوں کو معاف کرے گا۔‏ اُنہیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا تھا کہ یسوع اُن کا سردار کاہن،‏ راہنما اور مسیحی کلیسیا کا سردار ہے۔‏—‏کلسیوں ۱:‏۱۳،‏ ۱۴،‏ ۱۸‏۔‏

۱۶.‏ یہودی اور غیرقومی روحانی اسرائیل کے رُکن کیسے بنے؟‏

۱۶ کچھ سال بعد پولس رسول نے بیان کِیا:‏ ”‏[‏مَیں]‏ پہلے دمشقیوں کو پھر یرؔوشلیم اور سارے مُلک یہودیہ کے باشندوں کو اور غیرقوموں کو سمجھاتا رہا کہ توبہ کریں اور خدا کی طرف رجوع لاکر توبہ کے موافق کام کریں۔‏“‏ (‏اعمال ۲۶:‏۲۰‏)‏ پولس نے یہودی اور غیرقوموں کو اِس بات کا یقین دلایا کہ یسوع ہی مسیحا ہے۔‏ پھر اُس نے خدا کے کلام کے ذریعے اُن کی مدد کی تاکہ وہ اپنی زندگی کو خدا کے لئے وقف کرکے بپتسمہ لے سکیں۔‏ (‏اعمال ۱۶:‏۱۴،‏ ۱۵،‏ ۳۱-‏۳۳؛‏ ۱۷:‏۳،‏ ۴؛‏ ۱۸:‏۸‏)‏ اِس طرح یہ یہودی اور غیرقومی روحانی اسرائیل کے رُکن بن گئے۔‏

۱۷.‏ آج کون سا کام اپنے اختتام تک پہنچنے والا ہے اور کن کی تعداد بڑھ رہی ہے؟‏

۱۷ آج روحانی اسرائیل پر مہر کرنے کا کام اختتام پر ہے۔‏ جب یہ کام پورا ہو جائے گا تب وہ ”‏چار فرشتے“‏ جو ”‏بڑی مصیبت“‏ کی تباہی کی چاروں ہواؤں کو تھامے ہوئے ہیں اِن کو چھوڑ دیں گے۔‏ اُس وقت کے آنے تک،‏ ’‏دوسری بھیڑوں‘‏ کی تعداد بڑھ رہی ہے۔‏ وہ زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھتے ہیں۔‏ یہ ”‏دوسری بھیڑیں“‏ اپنی مرضی سے ”‏برّہ کے خون“‏ یعنی یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان لا کر اپنی زندگی کو خدا کے لئے وقف کرتی اور بپتسمہ لیتی ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۱-‏۴،‏ ۹-‏۱۵؛‏ ۲۲:‏۱۷؛‏ یوحنا ۱۰:‏۱۶؛‏ متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ اِن میں سے بہتیرے ایسے نوجوان ہیں جن کے والدین مسیحی ہیں۔‏ اگر آپ ان نوجوانوں میں سے ایک ہیں تو اگلا مضمون آپ کے لئے بہت دلچسپ ہوگا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

جواب دیجئے

‏• نوجوان اسرائیلوں کو ذاتی طور پر اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کرنے کی ضرورت کیوں نہیں تھی؟‏

‏• اسرائیلی اپنی مخصوصیت پر قائم رہنے کا ثبوت کیسے دے سکتے تھے؟‏

‏• خدا نے اسرائیلوں کو اپنی مخصوص قوم کے طور پر کیوں ترک کر دیا؟‏

‏• پنتِکُست ۳۳ عیسوی کے بعد یہودیوں اور غیرقوموں کو روحانی اسرائیل کے رُکن بننے کے لئے کیا کرنا تھا؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر]‏

ہر اسرائیلی پیدائش سے خدا کی مخصوص قوم کا حصہ تھا

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

ہر اسرائیلی کو ذاتی طور پر خدا کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرنا تھا

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

اسرائیلی اپنی مرضی سے قربانیاں چڑھا کر خدا کے لئے اپنی محبت ظاہر کرتے تھے

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

پنتِکُست ۳۳ عیسوی کے بعد یسوع کے ہر پیروکار کو ذاتی طور پر خدا کے لئے اپنی زندگی وقف کرکے بپتسمہ لینا تھا