کیا آپ واقعیخوش ہیں؟
کیا آپ واقعیخوش ہیں؟
شاید ہم خود سے یہ سوال پوچھیں، ”کیا مَیں واقعی خوش ہوں؟“ معاشرتی علوم کے ماہر یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ لوگ اس سوال کا کیا جواب دیں گے۔ لیکن کسی کی خوشی کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہوتا ہے۔ جس طرح ہم خاندان کے درمیان پائی جانے والی محبت یا پھر کسی عزیز کی وفات سے پہنچنے والے دُکھ کا اندازہ نہیں لگا سکتے اسی طرح انسانوں کی خوشی کا اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہے۔ تاہم، ماہرین اس اہم سچائی سے واقف ہیں کہ تمام انسانوں میں خوش رہنے کی صلاحیت ہے۔
خوش رہنے کی صلاحیت کے باوجود بہتیرے لوگ سنگین مسائل کی وجہ سے ناخوش رہتے ہیں۔ اس مثال پر غور کریں۔ بعض شہروں میں ایڈز کی وجہ سے مرنے والے لوگوں سے قبرستان بھر چکے ہیں۔ اس لئے اربابِاختیار نے گورکنوں کو پرانی قبریں کھود کر ان میں نئے مردے دفنانے کی اجازت دے دی ہے۔ افریقہ کے علاقوں میں تابوت بنانا گزربسر کا ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے۔ خواہ آپ کہیں بھی رہتے ہوں آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگ سنگین بیماریوں میں مبتلا ہونے اور اپنے دوستوں اور رشتہداروں کے وفات پا جانے کی وجہ سے غمگین رہتے ہیں۔
ترقییافتہ ممالک کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟ ان ممالک میں کبھیکبھار دولتمند لوگوں کو اچانک ہی اپنی دولت سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ریٹائرڈ ہونے والے بہتیرے لوگوں کو دوبارہ کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ انہیں پینشن نہیں دی جاتی۔ بعضاوقات کسی خاندان کی جمعپونجی ہسپتال کے بل ادا کرنے میں ختم ہو جاتی ہے۔ ایک وکیل نے بیان کِیا: ”جب مالی امور اور صحت کے مسائل کا سامنا کرنے والے لوگ مجھ سے مشورہ لینے آتے ہیں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ تو مجھے انہیں یہ بتانا پڑتا ہے کہ آپ کو اپنا گھر بیچنا پڑے گا۔“ لیکن جن لوگوں کو مالی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیا وہ خوش ہیں؟
بعض لوگ امریکہ کے مشہور نغمہگر رچرڈ روجرز کی طرح ہیں۔ اسکے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ”ایسے بہت کم لوگ ہیں جو دوسروں میں اتنی خوشیاں بانٹتے ہیں۔“ وہ اپنے گانوں کے ذریعے دوسروں کو تو خوشیاں دیتا تھا لیکن خود ڈپریشن کا شکار تھا۔ اس نے بہت پیسے بھی حاصل کئے اور شہرت بھی۔ مگر کیا اسے خوشی ملی؟ ایک مصنف نے بیان کِیا: ”[روجرز] نے اپنے کام میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کی، ٹھاٹھباٹھ کی زندگی گزاری اور دو خاص انعام بھی حاصل کئے۔ لیکن اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں وہ ناخوش اور افسردہ ہی رہا۔“
ہو سکتا ہے کہ آپ نے بھی اس بات کا تجربہ کِیا ہو کہ دولت کے ذریعے خوشی حاصل کرنا خود کو دھوکا دینے کے برابر ہے۔ ٹرانٹو، کینیڈا کے ایک نامہنگار نے بیان کِیا کہ بہتیرے دولتمندوں کو بھی ”تنہائی اور اداسی“ کا سامنا ہوتا ہے۔ بینک کے ایک مینیجر کے مطابق، جب امیر والدین اپنے بچوں کو بہت زیادہ پیسے اور تحائف دیتے ہیں تو وہ ”اُن کے لئے مصیبت کے بیج بو رہے ہوتے ہیں۔“
کس بِنا پر خوشی حاصل کی جا سکتی ہے؟
پودے کی نشوونما کے لئے اسے اچھی زمین، پانی اور مناسب آبوہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح تحقیقدان اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ خوش رہنے کیلئے جسمانی صحت، اچھا کام، مناسب خوراک، گھر، لباس اور سچے دوستوں کا ہونا اور اپنی خواہشات کو پورا کرنا ضروری ہے۔
آپ اس بات سے متفق ہوں گے کہ یہ باتیں کسی شخص کے خوش رہنے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ لیکن خوش رہنے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہمارے پاس ”خدایِمبارک“ کا علم ہو جس کا نام یہوواہ ہے۔ (۱-تیمتھیس ۱:۱۱) یہ علم کیسے ہماری مدد کر سکتا ہے؟ خدا ہمارا خالق ہے اور اس نے ہمیں خوش ہونے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ لہٰذا یہوواہ خدا ہی جانتا ہے کہ ہم حقیقی خوشی کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ ہر طرح کے حالات کا سامنا کرتے وقت خوشکُن زندگی بسر کرنے کے لئے خدا لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے۔ اگلے مضمون میں اسی کے بارے میں بات کی جائے گی۔
[صفحہ ۴ پر تصویر]
ایک پودے کی طرح خوشی کو بڑھانے کے لئے بھی مناسب حالات کا ہونا ضروری ہے
[صفحہ ۳ پر تصویر کا حوالہ]
Gideon Mendel/CORBIS ©