مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

زبور کی تیسری اور چوتھی کتاب سے اہم نکات

زبور کی تیسری اور چوتھی کتاب سے اہم نکات

یہوواہ کا کلام زندہ ہے

زبور کی تیسری اور چوتھی کتاب سے اہم نکات

خدا سے دُعا میں زبورنویس پوچھتا ہے:‏ ”‏کیا تیری شفقت کا چرچا گور میں ہوگا یا تیری وفاداری کا جہنم میں؟‏“‏ (‏زبور ۸۸:‏۱۱‏)‏ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ ہم زندگی کے بغیر یہوواہ کی ستائش نہیں کر سکتے۔‏ یہوواہ خدا کی حمدوثنا کرنے کیلئے زندہ رہنا بہت ضروری ہے اور اس بات کو ہمیں خدا کی حمد کرنے کی تحریک دینی چاہئے۔‏

زبور ۷۳ سے ۱۰۶ پر مشتمل تیسری اور چوتھی کتاب ہمیں خالق کی حمدوتعریف کرنے اور اُسکے نام کو مبارک کہنے کی بہت سی وجوہات فراہم کرتی ہے۔‏ ان زبوروں پر غوروخوض کرنے سے ’‏خدا کے کلام‘‏ کیلئے ہماری قدردانی میں اضافہ ہونا چاہئے۔‏ اسکے علاوہ،‏ انہیں ہمیں حمدوتعریف کرنے کے طریقوں کو بہتر بنانے کی تحریک بھی دینی چاہئے۔‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏)‏ پس آئیے سب سے پہلے زبور کی تیسری کتاب پر غور کریں۔‏

‏”‏میرے لئے یہی بھلا ہے کہ خدا کی نزدیکی حاصل کروں“‏

‏(‏زبور ۷۳:‏۱–‏۸۹:‏۵۲‏)‏

تیسری کتاب کے پہلے ۱۱ زبور آسف یا اُسکے خاندان نے ترتیب دئے ہیں۔‏ تیسری کتاب کا پہلا زبور بیان کرتا ہے کہ کیسے آسف غلط سوچ میں پڑ جانے سے بچ گیا اور درست فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔‏ زبور ۷۳:‏۲۸ میں وہ کہتا ہے:‏ ”‏میرے لئے یہی بھلا ہے کہ خدا کی نزدیکی حاصل کروں۔‏“‏ اسکے بعد زبور ۷۴ میں یروشلیم کی بربادی پر نوحہ کِیا گیا ہے۔‏ زبور ۷۵،‏ ۷۶ اور ۷۷ یہوواہ کو راستی سے عدالت کرنے والے،‏ حلیموں کو بچانے والے اور دُعا کے سننے والے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔‏ زبور ۷۸ موسیٰ کے زمانہ سے لیکر داؤد کے زمانہ تک اسرائیل کے ماضی کا احاطہ کرتا ہے۔‏ زبور ۷۹ ہیکل کی بربادی پر نوحہ ہے۔‏ اسکے بعد زبور ۸۰ خدا کے لوگوں کے بحال کئے جانے کی بابت التجا ہے۔‏ زبور ۸۱ یہوواہ کے فرمانبردار رہنے کی تاکید کرتا ہے۔‏ زبور ۸۲ اور ۸۳ میں خدا سے دُعا کی گئی ہے کہ وہ صحیح انصاف نہ کرنے والے حاکموں اور دُشمنوں کو سزا دے۔‏

بنی قورح کا مزمور بیان کرتا ہے:‏ ”‏میری جان [‏یہوواہ]‏ کی بارگاہوں کی مشتاق ہے بلکہ گداز ہو چلی۔‏“‏ (‏زبور ۸۴:‏۲‏)‏ زبور ۸۵ اسیری سے واپس لوٹنے والوں پر خدا کی برکت کیلئے درخواست ہے۔‏ یہ زبور اس بات پر بہت زور دیتا ہے کہ روحانی برکات جسمانی برکات سے زیادہ اہم ہیں۔‏ زبور ۸۶ میں داؤد یہوواہ سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اُسکی حفاظت کریں اور اُسے ہدایت دے۔‏ زبور ۸۷ میں صیون اور اُس میں پیدا ہونے والوں کی بابت ایک خوشی کا گیت ہے۔‏ اسکے بعد زبور ۸۸ میں یہوواہ سے دُعا کی گئی ہے۔‏ زبور ۸۹ میں خدا کی اُس شفقت کی بڑائی کی گئی ہے جو اُس نے داؤد کیساتھ عہد باندھ کر ظاہر کی تھی۔‏ اسے اِیتان اِزراخی نے ترتیب دیا ہے جوکہ شاید سلیمان کے زمانے کے چار دانشوروں میں سے ایک تھا۔‏—‏۱-‏سلاطین ۴:‏۳۱‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۹:۷۳—‏شریروں نے کیسے اپنے ”‏مُنہ آسمان پر“‏ اُٹھا رکھے ہیں اور ”‏اُنکی زبانیں زمین کی سیر کرتی“‏ ہیں؟‏ شریر آسمان اور زمین پر رہنے والوں میں سے کسی کی پروا نہیں کرتے اور اپنے مُنہ سے خدا کی تکفیر کرنے سے نہیں ڈرتے۔‏ اسکے علاوہ،‏ وہ اپنی زبان کو انسانوں پر تہمت لگانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔‏

۷۴:‏۱۳،‏ ۱۴‏—‏یہوواہ نے کب ’‏پانی میں اژدہاؤں کے سر کچلے اور لویاتان کے سر کے ٹکڑے‘‏ کئے؟‏ ‏”‏شاہِ‌مصرؔ فرؔعون“‏ کو ”‏بڑے گھڑیال“‏ کا لقب دیا گیا ہے ”‏جو اپنے دریاؤں میں لیٹ رہتا ہے۔‏“‏ (‏حزقی‌ایل ۲۹:‏۳‏)‏ لویاتان شاید فرعون کے سرداروں کی نمائندگی کرتا ہے۔‏ اُن کے سروں کا کچلا جانا غالباً اُس وقت کی طرف اشارہ کرتا ہے جب یہوواہ نے اسرائیلیوں کو مصر کی غلامی سے آزاد کرایا اور فرعون اور اُس کی فوجوں کو شکست دی تھی۔‏

۷۵:‏۴،‏ ۵،‏ ۱۰‏—‏اصطلاح ”‏سینگ“‏ کس چیز کی نشاندہی کرتی ہے؟‏ جانور کے سینگ ایک طاقتور ہتھیار ہیں۔‏ لہٰذا،‏ لفظ ”‏سینگ“‏ علامتی طور پر طاقت یا اختیار کو ظاہر کرتا ہے۔‏ یہوواہ کے اپنے لوگوں کے سینگ اُونچے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اُنہیں سرفرازی بخشتا ہے۔‏ جبکہ ”‏شریروں کے سب سینگ کاٹ“‏ ڈالتا ہے۔‏ ہمیں ’‏اپنے سینگ اُونچے نہ کرنے‘‏ کی بابت خبردار کِیا گیا ہے جسکا مطلب ہے کہ ہمیں مغرور یا متکبر نہیں ہونا چاہئے۔‏ چونکہ سرفرازی یہوواہ کی طرف سے آتی ہے،‏ اسلئے ہمیں کلیسیائی ذمہ‌داریوں کو بھی یہوواہ ہی کی طرف سے خیال کرنا چاہئے۔‏—‏زبور ۷۵:‏۷‏۔‏

۷۶:‏۱۰‏—‏”‏انسان کا غضب“‏ کیسے یہوواہ کی تعریف کا باعث بن سکتا ہے؟‏ اگرچہ ہم خدا کے خادم ہیں توبھی جب وہ قوموں کو ہمارے خلاف غصہ دکھانے کی اجازت دیتا ہے تو اسکے مثبت نتائج ہو سکتے ہیں۔‏ جب ہم کسی بھی مشکل کا سامنا کرتے ہیں تو یہ مختلف طریقوں سے ہماری تربیت کر سکتی ہے۔‏ یہوواہ صرف اُسی حد تک تکلیف کی اجازت دیتا ہے جس سے ہماری تربیت ہو سکتی ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۱۰‏)‏ خدا ’‏غضب کے بقیہ کے خلاف خود کمربستہ ہوتا ہے۔‏‘‏ تاہم اُس صورت میں کیا ہو اگر ہم برداشت کرتے کرتے مر جاتے ہیں؟‏ اس سے بھی یہوواہ کی تعریف ہوتی ہے کیونکہ جو لوگ ہمیں وفاداری کیساتھ برداشت کرتے دیکھتے ہیں وہ بھی خدا کو جلال دینا شروع کر دیتے ہیں۔‏

۷۸:‏۲۴،‏ ۲۵‏—‏من کو ”‏آسمانی خوراک“‏ اور ”‏فرشتوں کی غذا“‏ کیوں کہا گیا ہے؟‏ ان دونوں اصطلاحوں کا یہ مطلب نہیں کہ من فرشتوں کی خوراک ہے۔‏ اسے ”‏آسمانی خوراک“‏ اس لئے کہا گیا تھا کیونکہ یہ آسمان سے نازل ہوئی تھی۔‏ (‏زبور ۱۰۵:‏۴۰‏)‏ چونکہ فرشتے آسمان پر رہتے ہیں اس لئے الفاظ ”‏فرشتوں کی غذا“‏ کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ خدا جو آسمان پر رہتا ہے وہی اس خوراک کا فراہم کرنے والا ہے۔‏ (‏زبور ۱۱:‏۴‏)‏ علاوہ‌ازیں یہ بھی کہ اسرائیلیوں کیلئے من مہیا کرنے کیلئے شاید خدا نے فرشتوں کو استعمال کِیا ہو۔‏

۸۲:‏۱،‏ ۶‏—‏کن کو ”‏اِلہٰ“‏ اور ”‏حق‌تعالیٰ کے فرزند“‏ کہا گیا ہے؟‏ دونوں اصطلاحیں اسرائیلی قاضیوں یا انصاف کرنے والوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔‏ یہ بالکل موزوں ہے کیونکہ اُنہیں خدا کے نمائندوں کے طور پر خدمت انجام دینی تھی۔‏—‏یوحنا ۱۰:‏۳۳-‏۳۶‏۔‏

۸۳:‏۲‏—‏’‏سر اُٹھانے‘‏ کا کیا مطلب ہے؟‏ یہ اشارہ کسی کی مخالفت،‏ کسی سے لڑنے یا کسی کو مغلوب کرنے کیلئے طاقت استعمال کرنے یا کوئی کارروائی کرنے کیلئے تیار رہنے کی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۷۳:‏۲-‏۵،‏ ۱۸-‏۲۰،‏ ۲۵،‏ ۲۸‏۔‏ ہمیں شریروں کو ترقی کرتے دیکھ کر نہ تو حسد کرنا چاہئے اور نہ ہی اُنکے خراب طورطریقے اپنانے چاہئیں۔‏ شریر پھسلنی جگہوں پر ہیں اور وہ یقیناً ”‏ہلاکت“‏ میں پڑیں گے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ جب تک ناکامل انسانوں کی حکمرانی ہے شرارت کا خاتمہ ممکن نہیں اسلئے اگر ہم خود اسے ختم کرنا چاہیں گے تو ہماری تمام‌تر کوششیں بےکار ثابت ہونگی۔‏ آسف کی مانند،‏ دانشمندی اسی میں ہے کہ شرارت کا مقابلہ کرنے کیلئے ”‏خدا کی نزدیکی حاصل“‏ کریں اور خدا کیساتھ قریبی رشتہ رکھنے سے اُس میں خوش رہیں۔‏

۷۳:‏۳،‏ ۶،‏ ۸،‏ ۲۷‏۔‏ ہمیں غرور،‏ ظلم،‏ بڑا بول بولنے اور خدا سے بےوفائی کرنے سے بچنا چاہئے۔‏ اگرچہ ایسی عادات پیدا کرنا بظاہر فائدہ‌مند نظر آ سکتا ہے توبھی ہمیں ان سے بچنا چاہئے۔‏

۷۳:‏۱۵-‏۱۷‏۔‏ جب ہمیں کسی بات کی واضح سمجھ نہیں تو ہمیں مشکوک نظریات کو دوسروں کے سامنے بیان کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔‏ کیونکہ ’‏ایسی باتیں کرنا‘‏ دوسروں کو بےحوصلہ کر سکتا ہے۔‏ ہمیں اپنی تمام فکروں کی بابت اطمینان سے غور کرنا اور ساتھی مسیحیوں کیساتھ ملکر انہیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏—‏امثال ۱۸:‏۱‏۔‏

۷۳:‏۲۱-‏۲۴‏۔‏ شریروں کو پھلتےپھولتے دیکھ کر ’‏رنجیدہ ہونا‘‏ کسی بےعقل یا جاہل جانور کی مانند بننا ہے۔‏ یہ ایک جذباتی عمل ہے۔‏ اسکی بجائے ہمیں راہنمائی کیلئے اس اعتماد کیساتھ یہوواہ کی مشورت پر دھیان دینا چاہئے کہ وہ ہمارا ”‏دہنا ہاتھ پکڑ“‏ کر ہمیں بچا لیگا اور ہماری مدد کریگا۔‏ اسکے علاوہ،‏ یہوواہ ہمیں ”‏جلال میں قبول فرمائیگا“‏ یعنی اپنے قریب آنے کا موقع دیگا۔‏

۷۷:‏۶‏۔‏ روحانی سچائیوں کیلئے دلی فکرمندی ظاہر کرنے،‏ اور انکی تلاش کرنے کیلئے مطالعہ اور غوروخوض کرنے کیلئے وقت نکالنے کی ضرورت ہے۔‏ ہمیں اپنی زندگی میں خاموشی کیساتھ دل ہی دل میں غوروخوض کرنے کیلئے بھی کچھ وقت نکالنا چاہئے!‏

۷۹:‏۹‏۔‏ یہوواہ ہماری دُعاؤں کو سنتا ہے بالخصوص جب ہم اُسکے نام کی تقدیس کیلئے دُعا مانگتے ہیں۔‏

۸۱:‏۱۳،‏ ۱۶‏۔‏ یہوواہ کی آواز پر دھیان دینا اور اُسکی راہوں پر چلنا بہت زیادہ برکات کا باعث بنتا ہے۔‏—‏امثال ۱۰:‏۲۲‏۔‏

۸۲:‏۲،‏ ۵‏۔‏ ناانصافیوں کی وجہ سے ”‏زمین کی سب بنیادیں“‏ ہل گئی ہیں۔‏ ناانصافی کے کام انسانی معاشرے کے استحکام کو درہم‌برہم کر دیتے ہیں۔‏

۸۴:‏۱-‏۴،‏ ۱۰-‏۱۲‏۔‏ زبور لکھنے والوں کی یہوواہ کی پرستش کی جگہ کیلئے قدردانی اور اُسکی خدمت کے کاموں سے اُنہیں جو اطمینان حاصل ہوتا تھا وہ ہمارے لئے عمدہ مثالیں ہیں۔‏

۸۶:‏۵‏۔‏ ہم یہوواہ کے کتنے شکرگزار ہو سکتے ہیں کہ وہ ”‏معاف کرنے کو تیار“‏ ہے!‏ وہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہتا ہے جب وہ توبہ کرنے والے کسی گنہگار پر اپنی شفقت کی نظر کر سکتا ہے۔‏

۸۷:‏۵،‏ ۶‏۔‏ کیا زمین پر فردوس میں زندگی پانے والے لوگ آسمان پر زندگی پانے والوں کے نام جان سکیں گے؟‏ یہ آیات اس امکان کو ظاہر کرتی ہیں۔‏

۸۸:‏۱۳،‏ ۱۴‏۔‏ جب کسی معاملے میں دُعا کا جواب جلدی نہیں ملتا تو اسکا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کیلئے اپنی عقیدت کا مزید مظاہرہ کریں۔‏

‏”‏اُسکا شکر کرو اور اُسکے نام کو مبارک کہو“‏

‏(‏زبور ۹۰:‏۱–‏۱۰۶:‏۴۸‏)‏

زبور کی چوتھی کتاب میں یہوواہ خدا کی حمدوتعریف کرنے کی جو مختلف وجوہات بتائی گئی ہیں ذرا اُن پر غور کریں۔‏ زبور ۹۰ میں موسیٰ خدا کے ”‏ازلی بادشاہ“‏ ہونے کا مقابلہ انسانوں کی مختصر سی زندگی کے ساتھ کرتا ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۷‏)‏ زبور ۹۱:‏۲ میں موسیٰ یہوواہ کو اپنی ’‏پناہ اور گڑھ‘‏ یعنی اپنے لئے تحفظ اور سلامتی کی جگہ کے طور پر بیان کرتا ہے۔‏ اگلے چند زبور خدا کی اعلیٰ صفات،‏ بلند خیالات اور شاندار کاموں کو بیان کرتے ہیں۔‏ تین زبوروں کا آغاز جزوِجملہ ”‏[‏یہوواہ]‏ سلطنت کرتا ہے“‏ سے ہوا ہے۔‏ (‏زبور ۹۳:‏۱؛‏ ۹۷:‏۱؛‏ ۹۹:‏۱‏)‏ یہوواہ کو اپنے خالق‌ومالک کے طور پر بیان کرتے ہوئے،‏ زبور لکھنے والا ہمیں ’‏اُسکا شکر کرنے اور اُسکے نام کو مبارک کہنے‘‏ کی دعوت دیتا ہے۔‏—‏زبور ۱۰۰:‏۴‏۔‏

یہوواہ خدا سے ڈرنے والا بادشاہ اپنی حکومت کیسے چلائے گا؟‏ اسکا جواب زبور ۱۰۱ میں دیا گیا ہے جسے بادشاہ داؤد نے ترتیب دیا ہے۔‏ اگلا زبور ہمیں بتاتا ہے کہ یہوواہ خدا ’‏بیکسوں کی دُعا پر توجہ دیتا اور اُنکی دُعا کو حقیر نہیں جانتا۔‏‘‏ ‏(‏زبور ۱۰۲:‏۱۷‏)‏ زبور ۱۰۳ یہوواہ کی شفقت اور رحم کی بابت بیان کرتا ہے۔‏ زمین پر یہوواہ خدا کی بنائی ہوئی مختلف چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زبورنویس پکار اُٹھتا ہے:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ تیری صنعتیں کیسی بےشمار ہیں!‏ تُو نے یہ سب کچھ حکمت سے بنایا۔‏“‏ (‏زبور ۱۰۴:‏۲۴‏)‏ چوتھی کتاب کے آخری دو زبوروں میں یہوواہ خدا کے حیرت‌انگیز تخلیقی کاموں کی وجہ سے اُسکی تعریف کی گئی ہے۔‏—‏زبور ۱۰۵:‏۲،‏ ۵؛‏ ۱۰۶:‏۷،‏ ۲۲‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۹۱:‏۱،‏ ۲‏—‏’‏حق‌تعالیٰ کا پردہ‘‏ کیا ہے اور ہم اس میں کیسے ”‏سکونت“‏ کر سکتے ہیں؟‏ یہ امن‌وسلامتی کی علامتی جگہ،‏ ایسی حالت ہے جہاں ہم روحانی طور پر نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔‏ جو لوگ خدا پر توکل نہیں کرتے وہ اس جگہ کو نہیں جانتے گویا یہ اُن سے پوشیدہ یعنی پردے میں ہے۔‏ جب ہم یہوواہ کو اپنی پناہ اور گڑھ بناتے،‏ کائنات کے حاکمِ‌اعلیٰ کے طور پر اُس کی حمد کرنے کے علاوہ بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کرتے ہیں تو ہم درحقیقت قادرِمطلق کے سایہ میں سکونت کرتے ہیں۔‏ ہم روحانی طور پر محفوظ محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمیشہ ہماری مدد کیلئے تیار ہے۔‏—‏زبور ۹۰:‏۱‏۔‏

۹۲:‏۱۲‏—‏کس طرح صادق ”‏کھجور کے درخت کی مانند سرسبز“‏ ہیں؟‏ کھجور کا درخت اپنی پیداوار کی وجہ سے مشہور ہے۔‏ صادق اشخاص کھجور کے درخت کی مانند یہوواہ کی نظروں میں بالکل سیدھے یا راستباز ثابت ہوتے اور ”‏اچھا پھل“‏ لاتے ہیں جس میں اُنکے نیک کام شامل ہیں۔‏—‏متی ۷:‏۱۷-‏۲۰‏۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۹۰:‏۷،‏ ۸،‏ ۱۳،‏ ۱۴‏۔‏ جب ہم کوئی غلط کام کرتے ہیں تو اس سے خدا کیساتھ ہمارا رشتہ متاثر ہوتا ہے۔‏ ہمارے پوشیدہ گُناہ بھی اُس سے نہیں چھپ سکتے۔‏ تاہم،‏ اگر ہم توبہ کرتے اور اپنی بُری روش کو ترک کرتے ہیں تو یہوواہ ہم پر رحم کرتا اور ’‏ہمارے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے۔‏‘‏

۹۰:‏۱۰،‏ ۱۲‏۔‏ چونکہ زندگی بہت مختصر ہے اسلئے ہمیں ’‏اپنے دنوں کا حساب‘‏ رکھنا چاہئے۔‏ مگر کیسے؟‏ ”‏دانا دل حاصل“‏ کرنے یا دانشمندی سے چلنے سے۔‏ اسطرح ہم اپنی باقی زندگی سے اپنے خالق یہوواہ خدا کو خوش کرنے کے قابل ہونگے۔‏ اسکا مطلب روحانی نشانے قائم کرنا اور اپنے وقت کو دانشمندی سے استعمال کرنا ہے۔‏—‏افسیوں ۵:‏۱۵،‏ ۱۶؛‏ فلپیوں ۱:‏۱۰‏۔‏

۹۰:‏۱۷‏۔‏ یہ دُعا کرنا موزوں ہے کہ یہوواہ خدا ’‏ہمارے ہاتھوں کے کام کو قیام بخشے‘‏ اور منادی میں ہماری کوششوں کو برکت دے۔‏

۹۲:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏ خدا کے کلام کے اچھے طالبعلم بننے اور یہوواہ کے لوگوں کیساتھ باقاعدہ رفاقت رکھنے سے،‏ عمررسیدہ لوگ بھی ”‏تروتازہ“‏ یعنی روحانی طور پر صحت‌مند رہ سکتے اور کلیسیا کیلئے بیش‌قیمت اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں۔‏

۹۴:‏۱۹‏۔‏ ہماری ”‏فکروں“‏ کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو،‏ بائبل میں پائی جانے والی ”‏تسلی“‏ کی بابت پڑھنا اور اس پر سوچ‌بچار کرنا ہمیں اطمینان بخش سکتا ہے۔‏

۹۵:‏۷،‏ ۸‏۔‏ پاک صحائف سے دی جانے والی مشورت کو سننا،‏ اُس پر دھیان دینا اور پھر اُس پر فوراً عمل کرنا ہمیں اپنے دلوں کو سخت کرنے سے محفوظ رکھے گا۔‏—‏عبرانیوں ۳:‏۷،‏ ۸‏۔‏

۱۰۶:‏۳۶،‏ ۳۷‏۔‏ یہ آیات بیان کرتی ہیں کہ بُتوں کی پوجا شیاطین کے لئے قربانیاں چڑھانے کے برابر ہے۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو شخص بُتوں کا استعمال کرتا ہے وہ شیاطین کے زیرِاثر آ سکتا ہے۔‏ پس بائبل تاکید کرتی ہے:‏ ”‏اپنےآپ کو بُتوں سے بچائے رکھو۔‏“‏—‏۱-‏یوحنا ۵:‏۲۱‏۔‏

‏”‏خداوند کی حمد کرو“‏

زبور کی چوتھی کتاب کے آخری تین زبور اس تاکید کیساتھ ختم ہوتے ہیں:‏ ”‏خداوند کی حمد کرو۔‏“‏ چوتھی کتاب کا آخری زبور تو شروع بھی اسی بات سے ہوتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۰۴:‏۳۵؛‏ ۱۰۵:‏۴۵؛‏ ۱۰۶:‏۱،‏ ۴۸‏)‏ درحقیقت،‏ زبور کی چوتھی کتاب میں،‏ جزوِجملہ ”‏خداوند کی حمد کرو“‏ کئی مرتبہ آیا ہے۔‏

واقعی ہمارے پاس یہوواہ خدا کی حمد کرنے کی وجہ ہے۔‏ زبور ۷۳ سے لیکر ۱۰۶ میں ہمارے سوچ‌بچار کرنے کیلئے بہت کچھ ہے جس سے ہمارے دل اپنے آسمانی باپ کیلئے شکرگزاری سے معمور ہو جاتے ہیں۔‏ جب ہم اُن تمام کاموں کی بابت سوچتے ہیں جو اُس نے ہمارے لئے کئے اور مستقبل میں کرے گا تو اس سے یقیناً ہمیں دل‌وجان سے ’‏خدا کی حمد‘‏ کرنے کی تحریک ملتی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

آسف کی مانند ”‏خدا کی نزدیکی“‏ حاصل کرنے سے ہم شرارت کا مقابلہ کر سکتے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

بحرِقلزم میں فرعون کو شکست کا سامنا ہوا

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

کیا آپ جانتے ہیں کہ من کو ”‏فرشتوں کی غذا“‏ کیوں کہا گیا ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

کیا چیز ہمیں ”‏فکروں“‏ پر قابو پانے میں مدد دے سکتی ہے؟‏