مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏سب کام شکایت بغیر کِیا کریں‘‏

‏’‏سب کام شکایت بغیر کِیا کریں‘‏

‏’‏سب کام شکایت بغیر کِیا کریں‘‏

‏”‏سب کام شکایت .‏ .‏ .‏ بغیر کِیا کرو۔‏“‏—‏فلپیوں ۲:‏۱۴‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ پولس رسول نے فلپی اور کرنتھس کے مسیحیوں کو کس بات کی تاکید کی اور کیوں؟‏

پولس رسول نے فلپی کی کلیسیا کے نام ایک خط لکھا جس میں اُس نے مُنادی کے کام میں اُنکی سرگرمی اور اُنکی فیاضی کیلئے اُنکو داد دی۔‏ وہ اُنکے نیک کاموں کی وجہ سے بہت خوش تھا۔‏ لیکن اسکے ساتھ ساتھ پولس نے اُنہیں تاکید کی کہ ”‏سب کام شکایت .‏ .‏ .‏ بغیر کِیا کرو۔‏“‏ (‏فلپیوں ۲:‏۱۴‏)‏ اُس نے ایسا کیوں کہا؟‏

۲ پولس جانتا تھا کہ شکایت کرنے یا بڑبڑانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔‏ چند سال پہلے اُس نے کرنتھس کے مسیحیوں کو بھی شکایت نہ کرنے کی تاکید کی تھی۔‏ پولس نے اُنہیں بنی‌اسرائیل کی یاد دلائی جنہوں نے بیابان میں بار بار یہوواہ خدا کو غصہ دلایا تھا۔‏ مگر یہوواہ خدا اسرائیلیوں سے کیوں ناراض ہوا؟‏ کیونکہ اُنہوں نے بُری چیزوں کی خواہش کی تھی۔‏ وہ بُت‌پرست اور حرامکار تھے۔‏ اُنہوں نے یہوواہ کی آزمائش کی تھی اور وہ اکثر بڑبڑاتے بھی تھے۔‏ پولس نے کرنتھس کے مسیحیوں کو بڑبڑانے کے انجام کے بارے میں یوں آگاہ کِیا:‏ ”‏تُم بڑبڑاؤ نہیں جس طرح اُن میں سے بعض بڑبڑائے اور ہلاک کرنے والے سے ہلاک ہوئے۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۶-‏۱۱‏۔‏

۳.‏ خدا کے خادموں کو شکایت نہ کرنے کی تاکید پر کیوں کان لگانا چاہئے؟‏

۳ یہوواہ خدا کے خادم آجکل بھی فلپی کے مسیحیوں کی طرح نیک کاموں میں سرگرم ہیں اور آپس میں محبت رکھتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ البتہ ہمیں بھی شکایت کرنے کے بُرے انجام کو ذہن میں رکھنا چاہئے اور اس تاکید پر عمل کرنا چاہئے کہ ”‏سب کام شکایت .‏ .‏ .‏ بغیر کِیا کرو۔‏“‏ آئیے اب ہم خدا کے کلام میں درج کچھ ایسے واقعات پر غور کرتے ہیں جب خدا کے خادموں نے بڑبڑانا شروع کر دیا تھا۔‏ پھر ہم دیکھیں گے کہ ہم اس بُری عادت میں پڑنے سے خود کو کیسے بچا سکتے ہیں۔‏

بنی‌اسرائیل یہوواہ کے خلاف بڑبڑاتے ہیں

۴.‏ بنی‌اسرائیل بیابان میں کس وجہ سے بڑبڑانے لگے؟‏

۴ بنی‌اسرائیل ۴۰ سال تک بیابان میں رہے۔‏ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ وہ اُس دوران اکثر ’‏بڑبڑاتے‘‏ یا ’‏شکایت کرتے‘‏ کیونکہ وہ حالات سے خوش نہ تھے۔‏ مثال کے طور پر مصر میں غلامی کی زندگی سے رِہائی پانے کے کچھ ہفتے بعد ہی ”‏بنی‌اِسرائیل کی ساری جماعت موسیٰؔ اور ہاؔرون پر بڑبڑانے لگی۔‏“‏ اُن کو اپنے کھانےپینے کی فکر تھی۔‏ وہ کہنے لگے:‏ ”‏کاش کہ ہم [‏یہوواہ]‏ کے ہاتھ سے ملکِ‌مصرؔ میں جب ہی مار دئے جاتے جب ہم گوشت کی ہانڈیوں کے پاس بیٹھ کر دِل بھر کر روٹی کھاتے تھے کیونکہ تُم تو ہم کو اِس بیابان میں اِسی لئے لے آئے ہو کہ سارے مجمع کو بھوکا مارو۔‏“‏—‏خروج ۱۶:‏۱-‏۳‏۔‏

۵.‏ بنی‌اسرائیل حقیقت میں کس پر بڑبڑا رہے تھے؟‏

۵ دراصل یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کو بیابان میں خوراک اور پانی مہیا کِیا تھا۔‏ وہ بھوکا مرنے کے خطرے میں کبھی نہ تھے۔‏ لیکن وہ حالات سے مطمئن نہیں تھے۔‏ اس لئے اُنہوں نے اپنے مسئلے کو بڑھاچڑھا کر پیش کرکے بڑبڑانا شروع کر دیا۔‏ یوں تو وہ موسیٰ اور ہارون پر بڑبڑاتے لیکن حقیقت میں وہ یہوواہ خدا پر بڑبڑا رہے تھے۔‏ اس لئے موسیٰ نے اسرائیلیوں سے کہا:‏ ”‏تُم جو [‏یہوواہ]‏ پر بڑبڑاتے ہو اُسے وہ سنتا ہے اور ہماری کیا حقیقت ہے؟‏ تمہارا بڑبڑانا ہم پر نہیں بلکہ [‏یہوواہ]‏ پر ہے۔‏“‏—‏خروج ۱۶:‏۴-‏۸‏۔‏

۶،‏ ۷.‏ گنتی ۱۴:‏۱-‏۳ کے مطابق بنی‌اسرائیل کی سوچ کیسے بدل گئی تھی؟‏

۶ اس واقعے کے تھوڑے عرصے بعد ہی بنی‌اسرائیل پھر سے بڑبڑانے لگے۔‏ موسیٰ نے ۱۲ آدمیوں کو ملکِ‌موعود یعنی کنعان کا حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا تھا۔‏ ان میں سے ۱۰ نے واپس آ کر بُری خبر سنائی۔‏ اس پر ”‏کُل بنی‌اسرائیل موسیٰؔ اور ہاؔرون کی شکایت کرنے لگے اور ساری جماعت اُن سے کہنے لگی ہائے کاش ہم مصرؔ ہی میں مر جاتے!‏ یا کاش اِس بیابان ہی میں مرتے!‏ [‏یہوواہ]‏ کیوں ہم کو اُس مُلک [‏کنعان]‏ میں لیجا کر تلوار سے قتل کرانا چاہتا ہے؟‏ پھر تو ہماری بیویاں اور بال بچے لُوٹ کا مال ٹھہریں گے۔‏ کیا ہمارے لئے بہتر نہ ہوگا کہ ہم مصرؔ کو واپس چلے جائیں؟‏“‏—‏گنتی ۱۴:‏۱-‏۳‏۔‏

۷ واقعی،‏ بنی‌اسرائیل کی سوچ جلد بدل گئی تھی۔‏ یہوواہ خدا نے اُنہیں مصریوں سے آزادی دلائی تھی اور سمندر کے بیچ میں سے دُشمنوں سے بھاگنے کا راستہ تیار کِیا تھا۔‏ اُس وقت بنی‌اسرائیل اتنے شکرگزار تھے کہ اُنہوں نے گیت گاتے ہوئے یہوواہ خدا کی بڑائی کی تھی۔‏ (‏خروج ۱۵:‏۱-‏۲۱‏)‏ لیکن بیابان میں وہ اپنے حالات سے مطمئن نہ رہے۔‏ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُنہیں زندگی کی کچھ آسائشوں کے بغیر گزارہ کرنا پڑ رہا تھا۔‏ اس کے علاوہ وہ کنعانیوں سے بھی ڈرتے تھے۔‏ جلد ہی اُنہوں نے اس بات کے لئے خدا کا شکر ادا کرنا چھوڑ دیا کہ اُس نے اُنہیں غلامی کی زندگی سے نجات دلائی تھی۔‏ اس کی بجائے وہ خدا پر یہ الزام لگانے لگے کہ وہ اُنہیں اچھی اچھی چیزوں سے محروم رکھ رہا ہے۔‏ بنی‌اسرائیل خدا پر بڑبڑانے سے اپنی ناشکری کا اظہار کرنے لگے۔‏ اس وجہ سے یہوواہ نے کہا:‏ ”‏مَیں کب تک اس خبیث گروہ کی جو میری شکایت کرتی رہتی ہے برداشت کروں؟‏“‏—‏گنتی ۱۴:‏۲۷؛‏ ۲۱:‏۵‏۔‏

پہلی صدی میں

۸،‏ ۹.‏ یسوع کے زمانے میں چند ایسے واقعات کا ذکر کریں جب لوگ بڑبڑانے لگے تھے۔‏

۸ بنی‌اسرائیل تو اُونچی آواز میں یہوواہ خدا پر شکایت لگاتے تھے۔‏ لیکن ۳۲ عیسوی کے عیدِخیام کے موقعے پر ”‏لوگوں میں [‏یسوع]‏ کی بابت چپکے چپکے بہت سی گفتگو ہوئی۔‏“‏ (‏یوحنا ۷:‏۱۲،‏ ۱۳،‏ ۳۲‏)‏ وہ آپس میں یسوع کے بارے میں سرگوشی کر رہے تھے۔‏ بعض کہتے تھے کہ وہ نیک ہے مگر بعض کہتے تھے کہ وہ ایسا نہیں ہے۔‏

۹ ایک مرتبہ جب یسوع اور اُسکے شاگرد،‏ لاوی (‏متی)‏ نامی ایک محصول لینے والے کی دعوت پر گئے تو ”‏فریسی اور اُن کے فقیہ اُس کے شاگردوں سے یہ کہہ کر بڑبڑانے لگے کہ تُم کیوں محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ کھاتے پیتے ہو؟‏“‏ (‏لوقا ۵:‏۲۷-‏۳۰‏)‏ اس کے کچھ عرصہ بعد گلیل میں بعض ”‏یہودی [‏یسوع]‏ پر بڑبڑانے لگے۔‏ اس لئے کہ اُس نے کہا تھا کہ جو روٹی آسمان سے اُتری وہ مَیں ہوں۔‏“‏ یہاں تک کہ یسوع کے بہت سے شاگرد بھی اس بات پر ٹھوکر کھا کر بڑبڑانے لگے۔‏—‏یوحنا ۶:‏۴۱،‏ ۶۰،‏ ۶۱‏۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ یونانی زبان بولنے والے یہودیوں کو کس بات کی شکایت تھی اور کلیسیا کے بزرگ اس سلسلے میں رسولوں سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۰ اب ایک ایسے واقعے پر غور کریں جب شکایت کرنے کا اچھا نتیجہ نکلا۔‏ یہ ۳۳ عیسوی میں پنتِکُست کی عید کے کچھ عرصہ بعد کی بات ہے۔‏ اُن دِنوں میں دُوردراز علاقوں سے آئے ہوئے بہت سے یہودیوں نے مسیحی مذہب اختیار کر لیا تھا اور وہ یہوداہ میں اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کے مہمان تھے۔‏ اُس وقت کھانےپینے کی اشیا سب میں بانٹی جاتی تھیں۔‏ لیکن پھر اس سلسلے میں ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏یونانی مائل یہودی عبرانیوں کی شکایت کرنے لگے۔‏ اس لئے کہ روزانہ خبرگیری میں اُن کی بیواؤں کے بارے میں غفلت ہوتی تھی۔‏“‏—‏اعمال ۶:‏۱‏۔‏

۱۱ البتہ ان یونانی زبان بولنے والے یہودیوں نے اس انداز میں شکایت نہیں کی جیسے بنی‌اسرائیل نے بیابان میں کی تھی۔‏ اُنہوں نے یہ شکایت اپنے فائدے کے لئے نہیں کی۔‏ اس کے علاوہ اُنہوں نے نہ تو بہن‌بھائیوں کو بھڑکانے کی کوشش کی اور نہ ہی یہوواہ خدا پر بڑبڑانا شروع کر دیا۔‏ اس کی بجائے اُنہوں نے جا کر رسولوں کو اپنا مسئلہ پیش کِیا۔‏ اور رسولوں نے یہ دیکھ کر کہ اُن کی شکایت واجب ہے فوراً اس مسئلے کو حل کرنے کے اقدام اُٹھائے۔‏ ایسا کرنے میں اُنہوں نے کلیسیا کے بزرگوں کے لئے اچھی مثال قائم کی۔‏ کلیسیا کی گلہ‌بانی کرتے وقت بزرگوں کو ’‏مسکین کا نالہ سُن کر اپنے کان بند نہیں کر لینے چاہئیں‘‏ بلکہ اُس کی مدد کے لئے فوراً اقدام اُٹھانے چاہئیں۔‏—‏امثال ۲۱:‏۱۳؛‏ اعمال ۶:‏۲-‏۶‏۔‏

بڑبڑانے کے زنگ سے خبردار رہیں

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏ا)‏ بڑبڑانے کی عادت کو کس بات سے تشبیہ دی جا سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ ایک شخص بڑبڑانے کی عادت میں کیسے پڑ سکتا ہے؟‏

۱۲ ان مثالوں سے ہم نے دیکھا ہے کہ شکایت کرنے یا بڑبڑانے کا انجام اکثر بُرا ہی ہوتا ہے۔‏ آج بھی یہ بُری عادت خدا کے خادموں کے لئے نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے۔‏ اس سلسلے میں آئیے ہم ایک تمثیل پر غور کرتے ہیں۔‏ جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے دھات کو زنگ لگتا ہے۔‏ اگر اس زنگ کو جلد صاف نہ کِیا جائے تو دھات بیکار ہو جانے کے حد تک زنگ‌آلود ہو جاتی ہے۔‏ بہت سی گاڑیاں اِس لئے بیکار نہیں ہو جاتیں کیونکہ اُن کا اِنجن خراب ہو جاتا ہے بلکہ اس لئے کہ اُنہیں زنگ کھا جاتا ہے۔‏ لیکن اس کا بڑبڑانے سے کیا تعلق؟‏

۱۳ جس طرح دھات کو زنگ لگتا ہے اسی طرح شکایت کرنا انسان کی فطرت میں ہے۔‏ ہمیں اس خطرے سے آگاہ رہنا چاہئے۔‏ جس طرح ہوا میں نمی یا نمک کی موجودگی سے دھات زیادہ تیزی سے زنگ پکڑتی ہے بالکل اسی طرح مشکلات کا سامنا کرتے وقت انسان شکایت کرنے کے زیادہ خطرے میں ہوتا ہے۔‏ پریشانیوں اور دباؤ کی وجہ سے ہم ایک چھوٹی سی بات کو بہت بڑا مسئلہ خیال کرنے لگتے ہیں۔‏ جوں جوں یہ زمانہ بگڑتا جائے گا اسی حد تک ہم پر دباؤ بھی بڑھتا جائے گا اور شکایت کرنے کی وجوہات میں بھی اضافہ ہوگا۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏)‏ دباؤ کا سامنا کرتے وقت شاید خدا کا ایک خادم اپنے مسیحی بھائی پر بڑبڑانے لگے۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ اُس کی کسی کمزوری سے اُکتا گیا ہو یاپھر اُس کی کسی صلاحیت یا شرف کی وجہ سے اُس سے جلنے لگے۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ خود میں شکایت کرنے کی عادت کو پاتے ہی ہمیں اس کو قابو میں لانے کی کوشش کیوں کرنی چاہئے؟‏

۱۴ چاہے ہم کسی بھی وجہ سے اپنے مسیحی بھائی سے ناراض کیوں نہ ہوں ہمیں خبردار رہنا چاہئے کہ ہم میں بڑبڑانے کی عادت جڑ نہ پکڑے۔‏ اس عادت کو اگر قابو میں نہ رکھا جائے تو ہم ہر چیز میں نقص نکالنا شروع کر دیں گے اور کسی بات سے مطمئن نہیں ہوں گے۔‏ یہ عادت ہماری روحانیت کو زنگ کی طرح کھا کر ختم کر سکتی ہے۔‏ یاد رکھیں کہ بیابان میں بنی‌اسرائیل اس عادت میں پڑ کر یہوواہ خدا پر بڑبڑانے سے بھی باز نہ آئے۔‏ (‏خروج ۱۶:‏۸‏)‏ دُعا ہے کہ ہم ایسا کبھی نہ کریں۔‏

۱۵ اگر دھات پر ایک خاص رنگ چڑھایا جائے تو اس پر زنگ لگنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔‏ اس کے علاوہ اگر زنگ لگتے ہی اسے صاف کر دیا جائے تو بھی یہ نہیں پھیلتا۔‏ اسی طرح اگر ہم خود میں شکایت کرنے اور بڑبڑانے کی عادت کو پاتے ہیں تو ہمیں دُعا کرکے اس پر قابو پانے کے لئے فوری اقدام اُٹھانے چاہئیں۔‏ لیکن یہ کیسے اقدام ہیں؟‏

یہوواہ خدا کی سوچ کو اپنائیں

۱۶.‏ ہم شکایت کرنے کی عادت پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟‏

۱۶ اگر ہمیں بڑبڑانے کی عادت ہے تو ہمارا دھیان سارا وقت ہمارے اپنے مسئلوں پر ہوتا ہے اور ہم اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یہوواہ نے ہمیں کتنی برکتوں سے نوازا ہے۔‏ اس بُری عادت پر قابو پانے کے لئے ہمیں اِن برکتوں پر غور کرنا چاہئے۔‏ مثلاً ہم یہوواہ خدا کے عظیم نام سے پہچانے جاتے ہیں۔‏ (‏یسعیاہ ۴۳:‏۱۰‏)‏ ہم خدا کے نزدیک جا سکتے ہیں اور ہر وقت ”‏دُعا کے سننے والے“‏ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔‏ (‏زبور ۶۵:‏۲؛‏ یعقوب ۴:‏۸‏)‏ ہماری زندگی بامقصد ہے کیونکہ ہم خدا کے وفادار رہ کر شیطان کو جھوٹا ثابت کر سکتے ہیں۔‏ (‏امثال ۲۷:‏۱۱‏)‏ ہمیں بادشاہی کی خوشخبری کی مُنادی کرنے کا شرف حاصل ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یسوع نے اپنی جان دے کر ہمارے لئے گناہوں کی معافی حاصل کی ہے اور اس وجہ سے ہم صاف ضمیر رکھ سکتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ جی‌ہاں،‏ چاہے ہم پر کچھ بھی گزر رہی ہو ہم سے یہ برکتیں کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔‏

۱۷.‏ اگر ہماری کوئی واجب شکایت ہے تو ہمیں پھر بھی حالات کے بارے میں یہوواہ کی سوچ کیوں اپنانی چاہئے؟‏

۱۷ ہمیں حالات کے بارے میں یہوواہ خدا کی سوچ اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ داؤد نے ایک زبور میں یوں گایا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ اپنی راہیں مجھے دکھا۔‏ اپنے راستے مجھے بتا دے۔‏“‏ (‏زبور ۲۵:‏۴‏)‏ فرض کریں کہ آپ کی کوئی واجب شکایت ہے۔‏ یہوواہ خدا کو اس کے بارے میں ضرور معلوم ہے اور وہ آپ کی مدد کو آ سکتا ہے۔‏ لیکن کبھی‌کبھار وہ فوراً ایسا نہیں کرتا بلکہ ہمیں کچھ وقت تک آزمائش سے گزرنے دیتا ہے تاکہ ہم خود میں صبر،‏ برداشت،‏ ایمان اور تحمل جیسی خوبیاں پیدا کر سکیں۔‏—‏یعقوب ۱:‏۲-‏۴‏۔‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ شکایت کئے بغیر مشکلات برداشت کرنے کے کونسے فائدے ہوتے ہیں؟‏

۱۸ شکایت کئے بغیر جب ہم مشکلات برداشت کرتے ہیں تو دوسرے لوگ ہمارے چال‌چلن کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں۔‏ اس کی ایک مثال لیجئے۔‏ سن ۲۰۰۳ میں جرمنی میں یہوواہ کے گواہوں کے ایک گروہ نے مُلک ہنگری کا سفر کرنے کے لئے ایک بس کرائے پر لی۔‏ بس کا ڈرائیور یہوواہ کا گواہ نہیں تھا اور وہ یہوواہ کے گواہوں کے ہمراہ دس دن تک سفر کرنے سے ہچکچا رہا تھا۔‏ لیکن ان دس دن کے بعد اُس کی سوچ بالکل بدل گئی۔‏ اس کی کیا وجہ تھی؟‏

۱۹ دراصل سفر کے دوران چند ایسے واقعات پیش آئے جن کے بارے میں وہ گواہ شکایت کر سکتے تھے لیکن اُن میں سے کسی نے اُف تک نہ کی۔‏ ڈرائیور اس بات سے بہت متاثر ہوا اور اُس نے کہا کہ میرا واسطہ کبھی آپ جیسے لوگوں سے نہیں پڑا۔‏ اُس نے یہ بھی وعدہ کِیا کہ اگلی بار جب یہوواہ کے گواہ اُس سے ملنے کے لئے اُس کے گھر آئیں گے تو وہ اُن کو اندر بلا کر اُن کی باتوں کو غور سے سنے گا۔‏ واقعی یہوواہ کے گواہوں کے اس گروہ نے ’‏سب کام شکایت .‏ .‏ .‏ بغیر کرنے‘‏ سے اس شخص کا دل جیت لیا۔‏

معاف کرنے سے اتحاد برقرار رہتا ہے

۲۰.‏ ہمیں ایک دوسرے کے قصور معاف کیوں کرنے چاہئیں؟‏

۲۰ ہو سکتا ہے کہ جس مسیحی سے آپ کو شکایت ہے اُس نے واقعی آپ سے زیادتی کی ہو۔‏ اگر معاملہ سنجیدہ ہے تو آپ متی ۱۸:‏۱۵-‏۱۷ میں درج اصولوں کو کام میں لا سکتے ہیں۔‏ لیکن اگر معاملہ اتنا سنجیدہ نہیں ہے تو کیا آپ اُس مسیحی کو معاف کرنے کے لئے تیار ہیں؟‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔‏ جیسے [‏یہوواہ]‏ نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تُم بھی کرو۔‏ اور ان سب کے اوپر محبت کو جو کمال کا پٹکا ہے باندھ لو۔‏“‏ (‏کلسیوں ۳:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ کیا ہم دوسروں کو معاف کرنے پر رضامند ہیں؟‏ یاد رکھیں کہ ہم بھی خطاکار ہیں۔‏ یہوواہ خدا کو ہمارے بارے میں بھی بہت سی شکایات ہیں۔‏ لیکن وہ رحیم ہے اور ہمیں بار بار معاف کر دیتا ہے۔‏

۲۱.‏ جب ایک شخص بڑبڑانے کی عادت میں ہو تو دوسرے لوگوں کا ردِعمل کیا ہوگا؟‏

۲۱ مسئلہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن بڑبڑانے سے وہ حل نہیں ہوگا۔‏ جس لفظ کا ترجمہ اُردو میں ”‏بڑبڑانے“‏ سے ہوا ہے عبرانی زبان میں یہ ”‏غرانے“‏ یا ”‏گرجنے“‏ کا مطلب بھی رکھتا ہے۔‏ ایک ایسے شخص کے ساتھ کون وقت گزارنا چاہتا ہے جو غرانے کی عادت میں ہو؟‏ اسی طرح اگر ہم سارا وقت بڑبڑاتے رہتے ہیں تو لوگ ہم سے بھی کنارہ کریں گے۔‏ یہ بات درست ہے کہ غرانے سے ہم لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں لیکن ایسا کرنے سے ہم ان کے دلوں کو جیت نہیں سکتے۔‏

۲۲.‏ ایک لڑکی نے یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں کیا لکھا؟‏

۲۲ جب ہم دوسروں کی خطاؤں کو معاف کرنے کو تیار رہتے ہیں تو ہمارا آپس کا اتحاد بڑھتا ہے۔‏ اور یہ اتحاد یہوواہ کے خادموں کے لئے بہت ہی قیمتی ہے۔‏ (‏زبور ۱۳۳:‏۱-‏۳‏)‏ یورپ کی ایک ۱۷ سالہ لڑکی جو کیتھولک مذہب سے تعلق رکھتی ہے،‏ اُس نے یہوواہ کے گواہوں کے نام ایک خط میں لکھا:‏ ”‏آپ وہ واحد تنظیم ہیں جس کے ممبران نفرت،‏ لالچ،‏ تعصب،‏ خودپرستی اور لڑائی‌جھگڑوں کی وجہ سے آپس میں بٹے نہیں ہیں۔‏“‏

۲۳.‏ اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

۲۳ یہوواہ خدا کی عبادت کرنے سے ہم بہت سی برکتیں پاتے ہیں۔‏ ہم ان برکات کے لئے بیحد شکرگزار ہیں۔‏ اس لئے ہم ایک دوسرے پر بڑبڑانے سے باز رہیں گے اور آپس کے اتحاد کو فروغ دیں گے۔‏ اگلے مضمون میں ہم یہوواہ خدا کی زمینی تنظیم پر بڑبڑانے کی عادت کے بارے میں بات کریں گے جوکہ ایک بہت ہی خطرناک عادت ہے۔‏ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ خود میں خوبیاں پیدا کرنے سے ہم اس عادت سے کیسے بچ سکتے ہیں۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• بڑبڑانے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

‏• بڑبڑانے کی عادت کو ہم کس بات سے تشبیہ دے سکتے ہیں؟‏

‏• اگر ہم بڑبڑانے کی عادت میں پڑنے کے خطرے میں ہیں تو ہم اس پر قابو کیسے پا سکتے ہیں؟‏

‏• ایک دوسرے کو معاف کرنے سے ہم بڑبڑانے کی عادت میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

بنی‌اسرائیل یہوواہ خدا پر بڑبڑانے سے باز نہ آئے

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

کیا آپ حالات کے بارے میں یہوواہ خدا کی سوچ کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر]‏

ایک دوسرے کو معاف کرنے سے ہم آپس کے اتحاد کو برقرار رکھتے ہیں