مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏تُم نے ایوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے“‏

‏”‏تُم نے ایوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے“‏

‏”‏تُم نے ایوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے“‏

‏”‏تُم نے اؔیوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے اور [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے جو اس کا انجام ہوا اُسے بھی معلوم کر لیا جس سے [‏یہوواہ]‏ کا بہت ترس اور رحم ظاہر ہوتا ہے۔‏“‏—‏یعقوب ۵:‏۱۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ پولینڈ میں ایک جوڑے کو کن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا؟‏

جب ہٹلر کی فوج نے شمالی پولینڈ میں ڈینزک پر قبضہ کِیا تو ہیرلڈ اپٹ کو یہوواہ کا گواہ بنے تقریباً ایک سال ہوا تھا۔‏ اُس وقت سچے مسیحیوں کیلئے صورتحال بہت مشکل بلکہ خطرناک ہو گئی تھی۔‏ نازی خفیہ پولیس نے ہیرلڈ کو ایک دستاویز پر دستخط کرنے کیلئے مجبور کِیا جس پر لکھا تھا کہ وہ اپنے ایمان سے انکار کرتا ہے۔‏ مگر ہیرلڈ ایسا کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔‏ کچھ ہفتے قید میں رکھنے کے بعد،‏ ہیرلڈ کو زاکسن‌ہاؤسن کیمپ بھیج دیا گیا جہاں اُسے باربار ماراپیٹا گیا اور دھمکیاں دی گئیں۔‏ ایک افسر نے لاشیں جلانے والی جگہ کی چمنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہیرلڈ سے کہا،‏ ”‏اگر تُم نے اپنے ایمان سے انکار نہ کِیا تو ۱۴ دن کے اندر اندر تم بھی چمنی کے راستے اپنے یہوواہ کے پاس اُوپر پہنچ جاؤ گے۔‏“‏

۲ جب ہیرلڈ کو گرفتار کِیا گیا تو اُس کی بیوی ایل‌سا کی گود میں دس ماہ کی بچی تھی۔‏ مگر نازی خفیہ پولیس کو ایل‌سا پر ذرا رحم نہ آیا۔‏ جلد ہی اُس کی بچی اُس سے چھین لی گئی اور اُسے آشوِٹس کے اذیتی کیمپ بھیج دیا گیا۔‏ مگر وہ بھی ہیرلڈ کی طرح سخت جان ثابت ہوئی اور کئی سال بعد رِہا ہو گئی۔‏ اپنے اس تجربے کی بابت ہیرلڈ نے لکھا:‏ ”‏خدا پر اپنے ایمان کی وجہ سے مَیں نے اپنی زندگی کے ۱۴ برس کیمپوں اور قیدخانوں میں گزارے۔‏ مجھ سے پوچھا گیا:‏ ’‏کیا آپ کی اہلیہ یہ سب کچھ برداشت کرنے میں مددگار ثابت ہوئی؟‏‘‏ بیشک وہ مددگار ثابت ہوئی!‏ مجھے شروع ہی سے پتا تھا کہ وہ کبھی بھی اپنے ایمان کے سلسلے میں سمجھوتا نہیں کرے گی۔‏ اس سے مجھے ثابت‌قدم رہنے میں بہت مدد ملی۔‏ مَیں جانتا تھا کہ وہ چاہے گی کہ مَیں ایمان کے سلسلے میں سمجھوتا کرنے کی بجائے جان دے دوں۔‏ .‏ .‏ .‏ جرمن کیمپ میں ایل‌سا نے بھی بہت سی مشکلات برداشت کیں۔‏“‏

۳،‏ ۴.‏ (‏ا)‏ کن کی مثالیں مسیحیوں کو برداشت کرنے کی حوصلہ‌افزائی دے سکتی ہیں؟‏ (‏ب)‏ بائبل ہمیں ایوب کے تجربے پر غور کرنے کی تاکید کیوں کرتی ہے؟‏

۳ بہتیرے گواہ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ مشکلات برداشت کرنا آسان نہیں۔‏ اسی لئے بائبل تمام مسیحیوں کو ہدایت کرتی ہے:‏ ”‏جن نبیوں نے [‏یہوواہ]‏ کے نام سے کلام کِیا اُنکو دُکھ اُٹھانے اور صبر کرنے کا نمونہ سمجھو۔‏“‏ (‏یعقوب ۵:‏۱۰‏)‏ شروع سے لیکر آج تک،‏ خدا کے بیشمار خادموں کو بِلاوجہ اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔‏ ’‏گواہوں کے اس بڑے بادل‘‏ نے جو مثال قائم کی ہے اُس سے ہماری حوصلہ‌افزائی ہوتی ہے کہ مسیحی زندگی کی اس دوڑ میں صبر سے دوڑیں۔‏—‏عبرانیوں ۱۱:‏۳۲-‏۳۸؛‏ ۱۲:‏۱‏۔‏

۴ پاک صحائف میں،‏ ایوب صبر کی ایک نمایاں مثال ہے۔‏ یعقوب نے لکھا:‏ ”‏دیکھو صبر کرنے والوں کو ہم مبارک کہتے ہیں۔‏ تُم نے اؔیوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے اور [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے جو اس کا انجام ہوا اُسے بھی معلوم کر لیا جس سے [‏یہوواہ]‏ کا بہت ترس اور رحم ظاہر ہوتا ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۵:‏۱۱‏)‏ ایوب کی مثال اُس بڑے انعام کی ایک جھلک پیش کرتی ہے جو خدا نے اپنے وفادار بندوں کو دینے کا وعدہ کِیا ہے۔‏ اس کے علاوہ ایوب کی مثال ایسی سچائیوں کو آشکارا کرتی ہے جو ہمارے لئے آزمائش کے تحت مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔‏ ایوب کی کتاب ہمیں ان سوالوں کے جواب دینے میں مدد دیتی ہے:‏ آزمائش کے تحت،‏ ہمیں کیوں اصل مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے؟‏ کونسی خوبیاں اور کیسا رویہ ہمیں برداشت کرنے میں مدد دے گا؟‏ ہم مصیبت اُٹھانے والے ساتھی مسیحیوں کی حوصلہ‌افزائی کیسے کر سکتے ہیں؟‏

پوری بات کو سمجھنا

۵.‏ جب ہمیں آزمائشوں یا مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو ہمیں کس بنیادی مسئلے کو ذہن میں رکھنا چاہئے؟‏

۵ خدا کی پرستش کے سلسلے میں آنے والی مشکلات کو برداشت کرنے کے لئے پوری بات کو اچھی طرح سمجھنا بہت ضروری ہے۔‏ ورنہ ذاتی مسائل ہمارے لئے خدا کی پرستش سے متعلق معاملات پر توجہ مرکوز رکھنا مشکل بنا دیں گے۔‏ سب سے اہم بات خدا کا وفادار رہنا ہے۔‏ کیونکہ ہمارا آسمانی باپ فرماتا ہے:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ دانا بن اور میرے دل کو شاد کر تاکہ مَیں اپنے ملامت کرنے والے کو جواب دے سکوں۔‏“‏ (‏امثال ۲۷:‏۱۱‏)‏ اپنی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود،‏ ہم اپنے خالق کے دل کو شاد کر سکتے ہیں۔‏ یہ کتنا بڑا شرف ہے!‏ ہم تب ہی اپنے خالق کے دل کو شاد کر سکتے ہیں جب اس کے لئے ہماری محبت ہمیں مشکلات اور آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔‏ حقیقی مسیحی محبت سب کچھ برداشت کرتی ہے۔‏ اسے زوال نہیں۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۷،‏ ۸‏۔‏

۶.‏ شیطان یہوواہ پر کیسے اور کس حد تک تہمت لگاتا ہے؟‏

۶ ایوب کی کتاب شیطان اِبلیس کو یہوواہ خدا پر تہمت لگانے والے کے طور پر بیان کرتی ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ ایوب کی کتاب اس نادیدہ دُشمن کی بُری خصلت اور خدا کے ساتھ ہمارے رشتے کو تباہ کرنے کی اس کی خواہش کو بھی آشکارا کرتی ہے۔‏ جیسےکہ ایوب کے واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے،‏ شیطان یہوواہ کے تمام خادموں پر یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ خودغرض ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ خدا کے لئے انسانوں کی محبت ٹھنڈی پڑ سکتی ہے۔‏ وہ ہزاروں سال سے خدا پر تہمت لگاتا چلا آ رہا ہے۔‏ جب شیطان کو آسمان پر سے گرا دیا گیا تو آسمان سے آنے والی آواز نے اُس کی بابت بیان کِیا کہ وہ ”‏ہمارے بھائیوں پر الزام لگانے والا“‏ ہے جو ”‏رات دن ہمارے خدا کے آگے“‏ اُن پر الزام لگاتا رہتا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۰‏)‏ وفاداری کے ساتھ برداشت کرنے سے ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ اُس کے تمام الزامات بےبنیاد ہیں۔‏

۷.‏ کس چیز کی مدد سے ہم جسمانی کمزوری کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟‏

۷ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اِبلیس ہمیں یہوواہ خدا سے دُور کرنے کے لئے ہماری ہر مشکل سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے گا۔‏ اُس نے یسوع کو کب آزمایا؟‏ اُس وقت جب وہ کافی دن فاقہ کرنے کی وجہ سے بھوکا تھا۔‏ (‏لوقا ۴:‏۱-‏۳‏)‏ تاہم،‏ یہوواہ کے ساتھ اپنے مضبوط رشتے کی بدولت یسوع کامیابی سے اِبلیس کی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوا تھا۔‏ پس یہ کتنا ضروری ہے کہ یہوواہ کے ساتھ اپنے مضبوط رشتے کے ذریعے ہم بیماری یا بڑھاپے سے آنے والی جسمانی کمزوری کا مقابلہ کریں!‏ اگرچہ ”‏ہماری ظاہری انسانیت زائل ہوتی جاتی ہے“‏ توبھی ہم ہمت نہیں ہارتے کیونکہ ”‏ہماری باطنی انسانیت روزبروز نئی ہوتی جاتی ہے۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۱۶‏۔‏

۸.‏ (‏ا)‏ مایوسی ہم پر غلط اثر کیسے ڈال سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح نے کیسا مزاج ظاہر کِیا؟‏

۸ مایوسی بھی خدا کی پرستش کرنے سے حاصل ہونے والی قوتِ‌برداشت کو کمزور کر سکتی ہے۔‏ کوئی شخص سوچ سکتا ہے،‏ ’‏خدا اس کی اجازت کیوں دیتا ہے؟‏‘‏ ایک دوسرا شخص یہ سوچ سکتا ہے،‏ ’‏کلیسیا کا یہ بھائی میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟‏‘‏ ایسے احساسات اصل مسائل پر غور کرنے کی بجائے صرف اپنے حالات پر توجہ مرکوز رکھنے کا باعث بن سکتے ہیں۔‏ اپنے تینوں دوستوں کی وجہ سے ایوب جذباتی طور پر اُتنا ہی پریشان تھا جتنا کہ اپنی جسمانی حالت کی وجہ سے۔‏ (‏ایوب ۱۶:‏۲۰؛‏ ۱۹:‏۲‏)‏ اسی طرح،‏ پولس رسول نے بھی ظاہر کِیا کہ زیادہ دیر تک ناراض یا غصے میں رہنا ’‏ابلیس کو موقع دے‘‏ سکتا ہے۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ دوسروں پر غصہ نکالنے یا اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر حد سے زیادہ سوچنے کی بجائے مسیحیوں کے لئے یہ اچھا ہوگا کہ وہ یسوع مسیح کی مانند ”‏اپنےآپ کو سچے انصاف کرنے والے“‏ یہوواہ خدا کے سپرد کریں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱-‏۲۳‏)‏ پس مسیح جیسا ”‏مزاج“‏ اختیار کرنا شیطان کے حملوں کے خلاف سب سے بڑا تحفظ ہو سکتا ہے۔‏—‏۱-‏پطرس ۴:‏۱‏۔‏

۹.‏ خدا اُن مشکلات اور آزمائشوں کی بابت کیا وعدہ کرتا ہے جن کا ہمیں سامنا ہے؟‏

۹ ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہمارے مسائل کی وجہ خدا کی ہم سے ناراضگی ہے۔‏ جب ایوب کے بظاہر تسلی دینے والے دوست اُس کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے تو اُس کے اندر بھی ایسی غلط سوچ پیدا ہو گئی تھی۔‏ (‏ایوب ۱۹:‏۲۱،‏ ۲۲‏)‏ بائبل ہمیں ان الفاظ کے ساتھ تسلی فراہم کرتی ہے:‏ ”‏نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۱:‏۱۳‏)‏ اس کے برعکس،‏ یہوواہ ہماری ہر قسم کی مشکل کو دُور کرنے اور آزمائش سے نکلنے میں مدد فراہم کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔‏ (‏زبور ۵۵:‏۲۲؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۳‏)‏ مصیبت کے وقت میں خدا کے نزدیک جانے سے ہم صورتحال کی بابت مثبت سوچ رکھنے اور کامیابی سے اِبلیس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔‏—‏یعقوب ۴:‏۷،‏ ۸‏۔‏

برداشت کرنے کے لئے مدد

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏ا)‏ کس چیز نے ایوب کو برداشت کرنے کے قابل بنایا؟‏ (‏ب)‏ نیک ضمیر نے کیسے ایوب کی مدد کی تھی؟‏

۱۰ ایوب مشکل صورتحال یعنی اپنے ”‏تسلی“‏ دینے والوں کی لعن‌طعن اور اپنی مصیبت کی اصل وجہ سے ناواقف ہونے کے باوجود اپنی راستی پر قائم رہا۔‏ اُس کے صبر سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ بِلاشُبہ یہوواہ کے لئے وفاداری ہی نے ایوب کو تمام مشکلات برداشت کرنے کے قابل بنایا۔‏ وہ ”‏خدا سے ڈرتا اور بدی سے دُور رہتا تھا۔‏“‏ (‏ایوب ۱:‏۱‏)‏ یہ اُس کا طرزِزندگی تھا۔‏ اگرچہ ایوب یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا توبھی اُس نے یہوواہ سے مُنہ نہ موڑا۔‏ ایوب کا ایمان تھا کہ اُسے اچھے بُرے ہر حال میں خدا کا وفادار رہنا چاہئے۔‏—‏ایوب ۱:‏۲۱؛‏ ۲:‏۱۰‏۔‏

۱۱ نیک ضمیر بھی ایوب کے لئے مددگار ثابت ہوا تھا۔‏ ایسے وقت میں بھی جب اُسے یہ لگ رہا تھا کہ اُس کی زندگی ختم ہونے والی ہے وہ اس بات سے مطمئن تھا کہ اُس نے ہمیشہ دوسروں کے ساتھ بھلا کِیا ہے اور ہمیشہ یہوواہ کے راست معیاروں کے مطابق کام کِیا ہے۔‏ نیز یہ کہ اُس نے ہر قسم کی بُت‌پرستی سے کنارہ کِیا ہے۔‏—‏ایوب ۳۱:‏۴-‏۱۱،‏ ۲۶-‏۲۸‏۔‏

۱۲.‏ ایوب نے الیہو سے حاصل ہونے والی مدد کے لئے کیسا جوابی عمل دکھایا؟‏

۱۲ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ایوب کو بعض طریقوں سے اپنی سوچ کو درست کرنا پڑا تھا۔‏ اُس نے ایسی مدد کی بہت قدر کی اور یہ ایوب کے تمام صورتحال کو کامیابی کے ساتھ برداشت کرنے کی ایک اَور اہم وجہ تھی۔‏ ایوب نے بڑے احترام کے ساتھ الیہو کی مشورت کو سنا اور یہوواہ کی تنبیہ کے لئے جوابی‌عمل دکھایا۔‏ وہ تسلیم کرتا ہے،‏ ”‏مَیں نے جو نہ سمجھا وہی کہا۔‏ .‏ .‏ .‏ مجھے اپنےآپ سے نفرت ہے اور مَیں خاک اور راکھ میں توبہ کرتا ہوں۔‏“‏ (‏ایوب ۴۲:‏۳،‏ ۶‏)‏ اگرچہ ایوب ابھی تک بیماری میں مبتلا ہے توبھی وہ اس بات سے خوش تھا کہ اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی وجہ سے وہ خدا کے اَور زیادہ قریب ہو گیا تھا۔‏ پس ایوب نے کہا،‏ ”‏مَیں جانتا ہوں کہ تُو [‏یہوواہ]‏ سب کچھ کر سکتا ہے۔‏“‏ (‏ایوب ۴۲:‏۲‏)‏ جب یہوواہ نے ایوب کو اپنی عظیم قدرت کی بابت بتایا تو وہ خالق کے مقابلے میں اپنی حیثیت کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہو گیا۔‏

۱۳.‏ رحم ظاہر کرنا ایوب کے لئے کیسے فائدہ‌مند ثابت ہوا؟‏

۱۳ آخر میں ایوب رحم کی شاندار مثال فراہم کرتا ہے۔‏ اگرچہ اُس کے جھوٹے تسلی دینے والے دوستوں نے اُسے بہت زیادہ دُکھ دیا تھا توبھی جب یہوواہ نے ایوب کو اُن کے لئے دُعا کرنے کو کہا تو وہ فوراً تیار ہو گیا۔‏ اس کے بعد،‏ یہوواہ نے ایوب کو تندرستی بخشی۔‏ (‏ایوب ۴۲:‏۸،‏ ۱۰‏)‏ اس سے صاف ظاہر ہے کہ تلخ‌مزاجی کی بجائے محبت اور رحم ہمیں برداشت کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‏ جب ہم خفگی کو اپنے دل میں نہیں رکھتے تو ہم خدا کی پاک پرستش کرنے کے لئے ازسرِنو تقویت پاتے ہیں۔‏ یہ ایسی روش ہے جسے خدا برکت دیتا ہے۔‏—‏مرقس ۱۱:‏۲۵‏۔‏

برداشت کرنے میں مدد دینے والے دانا صلاح‌کار

۱۴،‏ ۱۵.‏ (‏ا)‏ کونسی خوبیاں ایک صلاح‌کار کو دوسروں کو تسلی دینے کے قابل بنائیں گی؟‏ (‏ب)‏ واضح کریں کہ الیہو ایوب کو مدد دینے کے قابل کیسے ہوا۔‏

۱۴ ایوب کے واقعہ سے ہم دانا صلاح‌کاروں کی اہمیت کی بابت بھی سیکھتے ہیں۔‏ ایسے لوگ اُن بھائیوں کی مانند ہیں جو ”‏مصیبت کے دن کے لئے پیدا“‏ ہوئے ہیں۔‏ (‏امثال ۱۷:‏۱۷‏)‏ ایوب کی مثال سے پتہ چلتا ہے کہ بعض صلاح‌کار تسلی دینے کی بجائے دُکھ پہنچا سکتے ہیں۔‏ ایک دانا صلاح‌کار کو الیہو کی مانند ہمدردی،‏ احترام اور مہربانی ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ بزرگوں یا دیگر پُختہ مسیحیوں کو مسائل سے دبے ہوئے بھائیوں کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہو۔‏ ایسا کرنے کے لئے وہ ایوب کی کتاب سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏—‏گلتیوں ۶:‏۱؛‏ عبرانیوں ۱۲:‏۱۲،‏ ۱۳‏۔‏

۱۵ جس طرح الیہو نے معاملے کو سنبھالا اُس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ وہ دُور کھڑا ایوب کے تین دوستوں کی باتیں سنتا رہا۔‏ (‏ایوب ۳۲:‏۱۱؛‏ امثال ۱۸:‏۱۳‏)‏ الیہو نے ایوب کو ایک دوست کی طرح مخاطب کرکے اُس سے باتیں کیں۔‏ (‏ایوب ۳۳:‏۱‏)‏ تین جھوٹے تسلی دینے والوں کے برعکس الیہو نے خود کو ایوب سے بالاتر نہ سمجھا۔‏ بلکہ اُس نے کہا،‏ ”‏مَیں بھی مٹی سے بنا ہوں۔‏“‏ بِلاسوچےسمجھے بول کر وہ ایوب کی تکلیف میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔‏ (‏ایوب ۳۳:‏۶،‏ ۷؛‏ امثال ۱۲:‏۱۸‏)‏ ایوب کے چال‌چلن پر کیچڑ اُچھالنے کی بجائے،‏ الیہو نے اُس کی راستبازی کی تعریف کی۔‏ (‏ایوب ۳۳:‏۳۲‏)‏ سب سے بڑھکر،‏ الیہو نے چیزوں کو خدائی نقطۂ‌نظر سے دیکھا اور ایوب کی بھی یہ سمجھنے میں مدد کی کہ یہوواہ خدا کبھی ناانصافی نہیں کرے گا۔‏ (‏ایوب ۳۴:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ اُس نے ایوب کی حوصلہ‌افزائی کی کہ خود کو راستباز ثابت کرنے کی بجائے یہوواہ کا انتظار کرے۔‏ (‏ایوب ۳۵:‏۲؛‏ ۳۷:‏۱۴،‏ ۲۳‏)‏ مسیحی کلیسیا میں بزرگ اور دیگر لوگ بھی ایسی باتوں سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏

۱۶.‏ ایوب کے تینوں جھوٹے تسلی دینے والے کیسے شیطان کے آلۂ‌کار ثابت ہوئے؟‏

۱۶ الیہو کی دانشمندانہ مشورت الیفز،‏ بلدد اور ضوفر کی تکلیف‌دہ باتوں کے بالکل برعکس تھی۔‏ یہوواہ نے اُن سے کہا،‏ ”‏تُم نے میری بابت وہ بات نہ کہی جو حق ہے۔‏“‏ (‏ایوب ۴۲:‏۷‏)‏ اگر وہ یہ کہتے بھی کہ اُنہوں نے یہ سب کچھ اچھے مقصد کے تحت کِیا ہے توبھی اچھے دوستوں کا حق ادا کرنے کی بجائے وہ شیطان کے آلۂ‌کار ثابت ہوئے تھے۔‏ صورتحال کو دیکھ کر اُن تینوں نے یہی اندازہ لگایا کہ اپنی تمام‌تر مصیبتوں کا ذمہ‌دار ایوب خود ہی ہے۔‏ (‏ایوب ۴:‏۷،‏ ۸؛‏ ۸:‏۶؛‏ ۲۰:‏۲۲،‏ ۲۹‏)‏ الیفز کے مطابق،‏ خدا کو اپنے خادموں پر بھروسا نہیں اور نہ ہی اُسے اس سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ ہم راستباز ہیں یا نہیں۔‏ (‏ایوب ۱۵:‏۱۵؛‏ ۲۲:‏۲،‏ ۳‏)‏ الیفز نے ایوب پر اُن غلطیوں کا بھی الزام لگایا جو اُس نے نہیں کی تھیں۔‏ (‏ایوب ۲۲:‏۵،‏ ۹‏)‏ اس کے برعکس،‏ الیہو نے ایوب کو خدا کے ساتھ اچھا رشتہ قائم کرنے میں مدد دی جوکہ ایک شفیق صلاح‌کار کی کوشش ہوتی ہے۔‏

۱۷.‏ آزمائش کے تحت ہمیں کیا یاد رکھنا چاہئے؟‏

۱۷ ایوب کی کتاب سے ہم صبر کی بابت ایک اَور سبق سیکھتے ہیں۔‏ ہمارا شفیق خالق ہماری صورتحال کو جانتا ہے اور وہ مختلف طریقوں سے ہماری مدد کرنے کے لئے تیار ہے۔‏ شروع میں ہم نے ایل‌سا اپٹ کی بابت پڑھا تھا۔‏ غور کریں وہ کس نتیجے پر پہنچی تھی:‏ ”‏گرفتار ہونے سے پہلے،‏ مَیں نے ایک یہوواہ کی گواہ بہن کا خط پڑھا جس میں بیان کِیا گیا تھا کہ سخت اذیت کے تحت یہوواہ کی پاک رُوح آپ کو اطمینان بخشتی ہے۔‏ مَیں نے سوچا شاید وہ مجھے جھوٹی تسلی دے رہی ہے۔‏ مگر جب مجھے آزمائش کا سامنا ہوا تو مجھے سمجھ آیا کہ وہ بالکل صحیح کہہ رہی تھی۔‏ واقعی ایسا ہوتا ہے۔‏ اگر آپ نے اس کا تجربہ نہیں کِیا تو اس کا تصور کرنا قدرے مشکل ہے۔‏ یہوواہ نے مجھے غیرمعمولی اطمینان بخشا۔‏ یہوواہ مدد کرتا ہے!‏“‏ ایل‌سا یہ نہیں کہہ رہی تھی کہ یہوواہ ایسا کر سکتا ہے یا اُس نے صدیوں پہلے ایوب کے زمانے میں ایسا کِیا۔‏ وہ ہمارے زمانے کی بات کر رہی تھی کہ آج بھی ”‏یہوواہ مدد کرتا ہے“‏!‏

مبارک ہے وہ آدمی جو صبر کرتا ہے

۱۸.‏ ایوب کو صبر کرنے کا کیا فائدہ ہوا؟‏

۱۸ ہم میں سے بہت کم لوگوں کو ایوب جیسی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔‏ مگر یہ دُنیا ہم پر جیسی بھی مشکلات لائے ہمارے پاس ایوب کی مانند اپنی راستی پر قائم رہنے کی ٹھوس وجوہات ہیں۔‏ سچ تو یہ ہے کہ ایوب کی پوری زندگی صبر کی عمدہ مثال تھی۔‏ صبر نے اُسے مکمل انسان بنا دیا تھا۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۲-‏۴‏)‏ اس کی مدد سے خدا کے ساتھ اُس کا رشتہ مضبوط ہو گیا تھا۔‏ ایوب اس کی تصدیق ان الفاظ میں کرتا ہے،‏ ”‏مَیں نے تیری خبر کان سے سنی تھی پر اب میری آنکھ تجھے دیکھتی ہے۔‏“‏ (‏ایوب ۴۲:‏۵‏)‏ شیطان جھوٹا ثابت ہوا کیونکہ وہ ایوب کی راستی کو توڑنے میں ناکام رہا۔‏ کئی سو سال بعد بھی یہوواہ نے صداقت اور راستبازی کی مثال دینے کے لئے اپنے بندہ ایوب کا ذکر کِیا۔‏ (‏حزقی‌ایل ۱۴:‏۱۴‏)‏ اُس کی راستبازی اور صبر کی مثال آج بھی خدا کے لوگوں کو ایسا کرنے کی تحریک دیتی ہے۔‏

۱۹.‏ آپ کے خیال میں صبر کرنا کیوں فائدہ‌مند ہے؟‏

۱۹ جب یعقوب نے پہلی صدی کے مسیحیوں کو صبر کی بابت لکھا تو اُس نے صبر سے پیدا ہونے والے اطمینان کا ذکر کِیا۔‏ اس کے علاوہ اُس نے اُنہیں یہ یاد دلانے کے لئے کہ یہوواہ اپنے وفادار خادموں کو بیشمار برکات سے نوازتا ہے ایوب کی مثال کو استعمال کِیا۔‏ (‏یعقوب ۵:‏۱۱‏)‏ ایوب ۴۲:‏۱۲ میں ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے اؔیوب کے آخری ایّام میں ابتدا کی نسبت زیادہ برکت بخشی۔‏“‏ ایوب نے جوکچھ کھویا خدا نے اس کا دُگنا اُسے دیا۔‏ اس کے علاوہ اُس نے لمبی عمر اور خوشحال زندگی پائی۔‏ (‏ایوب ۴۲:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ اسی طرح،‏ اس دُنیا کے آخری دنوں میں ہم جو بھی دُکھ‌تکلیف اُٹھاتے ہیں وہ ختم کر دی جائے گی۔‏ خدا کی نئی دُنیا میں اس کا ذکر تک نہ ہوگا۔‏ (‏یسعیاہ ۶۵:‏۱۷؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۴‏)‏ ہم نے ایوب کے صبر کا حال سنا ہے اور ہمارا یہ عزم ہے کہ یہوواہ خدا کی مدد کے ساتھ ہم اُس کے نمونے کی نقل کریں گے۔‏ بائبل میں وعدہ کِیا گیا ہے:‏ ”‏مبارک وہ شخص ہے جو آزمایش کی برداشت کرتا ہے کیونکہ جب مقبول ٹھہرا تو زندگی کا وہ تاج حاصل کرے گا جس کا [‏یہوواہ]‏ نے اپنے محبت کرنے والوں سے وعدہ کِیا ہے۔‏“‏—‏یعقوب ۱:‏۱۲‏۔‏

آپ کیسے جواب دیں گے؟‏

‏• ہم کیسے یہوواہ کے دل کو شاد کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہمیں یہ کیوں نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہمارے مسائل کی وجہ خدا کی ناراضگی ہے؟‏

‏• کن چیزوں نے ایوب کو برداشت کرنے میں مدد دی؟‏

‏• ساتھی ایمانداروں کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے ہم الیہو کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

ایک دانا صلاح‌کار ہمدردی،‏ احترام اور مہربانی ظاہر کرتا ہے

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویریں]‏

ہیرلڈ اور ایل‌سا اپٹ