مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏تیری مرضی زمین پر پوری ہو‘‏

‏’‏تیری مرضی زمین پر پوری ہو‘‏

‏’‏تیری مرضی زمین پر پوری ہو‘‏

‏”‏کیتھولک مذہب کے مطابق،‏ انسان کو صرف چار حقیقتوں کا سامنا ہے:‏ موت،‏ عدالت،‏ جہنم اور جنت۔‏“‏—‏کیتھولک مذہب پر مبنی ایک کتاب۔‏

غور کیجئے کہ اِس فہرست میں زمین کا ذکر نہیں کِیا گیا۔‏ یہ حیرانگی کی بات نہیں ہے کیونکہ دوسرے کئی مذاہب کی طرح کیتھولک مذہب بھی یہی سکھاتا ہے کہ ایک دِن زمین کو تباہ کر دیا جائے گا۔‏ ایک لغت کے مطابق:‏ ”‏کیتھولک مذہب سکھاتا ہے کہ ہماری زمین ہمیشہ تک قائم نہیں رہے گی۔‏“‏ کیتھولک مذہب کے عقیدوں کی کتاب میں لکھا ہے کہ ”‏ہماری زمین ایک دِن نیست‌ونابود ہو جائے گی۔‏“‏ لیکن اگر واقعی ایسا ہوگا تو خدا اپنے کلام میں ایک فردوس‌نما زمین کا وعدہ کیوں کرتا ہے؟‏

خدا کے کلام میں ہمیں صاف صاف بتایا جاتا ہے کہ مستقبل میں زمین ایک فردوس میں تبدیل ہو جائے گی۔‏ یسعیاہ نبی نے زمین کے باشندوں کے بارے میں یوں نبوّت کی:‏ ”‏وہ گھر بنائیں گے اور اُن میں بسیں گے۔‏ وہ تاکستان لگائیں گے اور اُن کے میوے کھائیں گے۔‏ نہ کہ وہ بنائیں اور دوسرا بسے۔‏ وہ لگائیں اور دوسرا کھائے کیونکہ میرے بندوں کے ایّام درخت کے ایّام کی مانند ہوں گے اور میرے برگزیدے اپنے ہاتھوں کے کام سے مُدتوں تک فائدہ اُٹھائیں گے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۶۵:‏۲۱،‏ ۲۲‏)‏ یسعیاہ نبی کے ذریعے خدا نے اسرائیلیوں سے وعدہ کِیا تھا کہ اُن کی سرزمین ایک فردوس کی طرح ہوگی۔‏ لیکن اسرائیلی یہ بھی جانتے تھے کہ ایک دِن پوری زمین ایک فردوس میں تبدیل ہو جائے گی جس میں اِنسان ہمیشہ تک زندہ رہ سکیں گے۔‏

زبور ۳۷:‏۱۱ میں یہ وعدہ پایا جاتا ہے:‏ ”‏حلیم مُلک کے وارث ہوں گے۔‏“‏ اس آیت میں صرف اسرائیلیوں کی سرزمین کی بات نہیں ہو رہی ہے۔‏ زبور ۳۷:‏۲۹ میں بتایا جاتا ہے:‏ ”‏صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔‏“‏ * غور کیجئے کہ زمین پر ہمیشہ کی زندگی ایسے لوگوں کو انعام کے طور پر دی جائے گی جو ”‏صادق“‏ ہیں۔‏ لفظ ”‏صادق“‏ کی تشریح یوں کی گئی ہے:‏ ”‏اِس کا معنی بہت کشادہ ہے۔‏ یہ اُن لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بےکس ہیں،‏ یہوواہ خدا کی خاطر اذیت سہتے ہیں اور جو خدا کے تابع رہتے ہیں۔‏“‏

زمین پر یا آسمان پر؟‏

اپنے پہاڑی وعظ میں یسوع نے کہا تھا:‏ ”‏مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہوں گے۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۵‏)‏ غور کریں کہ اِس آیت میں بھی خدا کے وفادار لوگوں کے لئے زمین پر ہمیشہ کی زندگی کا وعدہ کِیا گیا ہے۔‏ تاہم یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ اُس کے ”‏باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں“‏ اور وہ اُن کے لئے جگہ تیار کرنے جا رہا ہے۔‏ یسوع کے کہنے کا مطلب تھا کہ اُس کے شاگرد ایک دِن اُس کے ساتھ آسمان پر ہوں گے۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۱،‏ ۲؛‏ لوقا ۱۲:‏۳۲؛‏ ۱-‏پطرس ۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ تو پھر زمین پر ہمیشہ کی زندگی کا وعدہ کس سے کِیا گیا ہے؟‏ کیا یہ وعدہ ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے؟‏

کئی علما کا کہنا ہے کہ یسوع کے پہاڑی وعظ اور زبور ۳۷ میں لفظ ”‏زمین“‏ کو علامتی طور پر سمجھا جانا چاہئے۔‏ ایک عالم بیان کرتا ہے کہ یہ لفظ ”‏جنت اور چرچ کی علامت ہے۔‏“‏ ایک تحقیق‌دان کا کہنا ہے کہ اِن آیات کا مطلب یہ نہیں کہ ”‏حلیم اس زمین کے وارث ہوں گے۔‏ اور نہ ہی یہ کہ وہ مستقبل میں ایک بحال کی گئی زمین پر رہیں گے۔‏ بلکہ وہ تو آسمان پر رہیں گے۔‏“‏ ایک اَور تحقیق‌دان کے مطابق ”‏لفظ زمین کو آسمان کا تصور واضح کرنے کے لئے استعمال کِیا گیا ہے۔‏“‏ اور کئی دوسرے تحقیق‌دان مانتے ہیں کہ ”‏بائبل میں بنی‌اسرائیل کی سرزمین خدا کی آسمانی بادشاہت کی علامت کرتی ہے اور یہ بادشاہت اُن لوگوں کے حصے میں آئے گی جو حلیم ہیں۔‏“‏ تو پھر کیا ہمیں زمین پر ہمیشہ کی زندگی کے وعدے کو نظرانداز کر دینا چاہئے؟‏

زمین ہمیشہ تک قائم رہے گی

ابتدا ہی سے خدا نے طے کِیا تھا کہ انسان زمین پر ہمیشہ کے لئے بسا رہے گا۔‏ خدا کا کلام ہمیں بتاتا ہے:‏ ”‏آسمان تو [‏یہوواہ]‏ کا آسمان ہے لیکن زمین اُس نے بنی‌آدم کو دی ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۵:‏۱۶‏)‏ انسان کے لئے خدا نے آسمان نہیں بلکہ زمین کو تیار کِیا تھا۔‏ خدا نے آدم اور حوا کو حکم فرمایا کہ وہ پوری زمین کو باغِ‌عدن کی طرح ایک فردوس میں تبدیل کریں۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۸‏)‏ یہوواہ خدا آج بھی چاہتا ہے کہ زمین فردوس میں تبدیل ہو جائے۔‏ وہ اپنے کلام میں وعدہ کرتا ہے کہ زمین ہمیشہ تک قائم رہے گی۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏ایک پُشت جاتی ہے اور دوسری پُشت آتی ہے پر زمین ہمیشہ قائم رہتی ہے۔‏“‏—‏واعظ ۱:‏۴؛‏ ۱-‏تواریخ ۱۶:‏۳۰؛‏ یسعیاہ ۴۵:‏۱۸‏۔‏

یہوواہ خدا اپنے وعدوں کو ہمیشہ پورا کرتا ہے۔‏ آبی چکر کی مثال دیتے ہوئے اُس کے کلام میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اُس کے وعدے بِلاشُبہ سچے ہوتے ہیں۔‏ ”‏جس طرح آسمان سے بارش ہوتی اور برف پڑتی ہے اور پھر وہ وہاں واپس نہیں جاتی بلکہ زمین کو سیراب کرتی ہے اور اُس کی شادابی اور روئیدگی کا باعث ہوتی ہے .‏ .‏ .‏ اُسی طرح میرا کلام جو میرے مُنہ سے نکلتا ہے ہوگا۔‏ وہ بےانجام میرے پاس واپس نہ آئے گا بلکہ جو کچھ میری خواہش ہوگی وہ اُسے پورا کرے گا اور اُس کام میں جس کے لئے مَیں نے اُسے بھیجا مؤثر ہوگا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۵۵:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ شاید خدا کے وعدے پورے ہونے میں کچھ وقت گزر جائے لیکن وہ اپنے وعدوں کو نبھاتا ضرور ہے۔‏ خدا کے وعدے بےانجام نہیں رہتے بلکہ انجام تک پہنچ کر اُس کے پاس ”‏واپس“‏ لوٹتے ہیں۔‏

انسان کے لئے زمین بنا کر خدا بہت خوش ہوا۔‏ یہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب خدا زمین کو بنا چکا تھا تو اُس نے کہا:‏ ”‏بہت اچھا ہے۔‏“‏ (‏پیدایش ۱:‏۳۱‏)‏ خدا کی مرضی یہ ہے کہ ہماری زمین ایک فردوس میں تبدیل ہو جائے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔‏ ہم جانتے ہیں کہ خدا کے وعدے بےانجام اُس کے پاس واپس نہ لوٹیں گے۔‏ اُس نے وعدہ کِیا ہے کہ انسان امن اور سلامتی سے ہمیشہ کے لئے زمین پر رہیں گے۔‏ یہ وعدہ یقیناً پورا ہوگا۔‏—‏زبور ۱۳۵:‏۶؛‏ یسعیاہ ۴۶:‏۱۰‏۔‏

خدا کی مرضی پوری ہوگی

خدا چاہتا تھا کہ آدم اور حوا ہمیشہ کے لئے زمین پر بسے رہیں۔‏ لیکن اُن کے گُناہ نے تھوڑے عرصے کے لئے خدا کے اِس ارادے میں رکاوٹ ڈال دی۔‏ اُن کی نافرمانی کی وجہ سے اُنہیں باغِ‌عدن میں سے نکال دیا گیا۔‏ اِس طرح اُنہوں نے خدا کے ارادے کو پورا کرنے کا شرف گنوا دیا۔‏ لیکن اس کے باوجود خدا نے اپنے ارادے کو پورا کرنے کا انتظام کِیا۔‏ وہ کیسے؟‏—‏پیدایش ۳:‏۱۷-‏۱۹،‏ ۲۳‏۔‏

باغِ‌عدن میں ہونے والے واقعات کو ہم اِس تمثیل سے واضح کر سکتے ہیں۔‏ ایک شخص بہترین زمین پر گھر تعمیر کرنا چاہتا ہے۔‏ جیسے ہی وہ گھر کی بنیاد ڈالتا ہے،‏ کوئی آ کر اِس بنیاد کو برباد کر دیتا ہے۔‏ لیکن یہ شخص اپنی تجویز پر قائم رہتا ہے اور ایسے اقدام اُٹھاتا ہے جن سے وہ گھر کی تعمیر کو مکمل کر سکے۔‏ شاید اب اِس شخص کو زیادہ خرچہ اُٹھانا پڑے لیکن اس تجویز کو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‏

اسی طرح خدا نے ہر قیمت پر اپنے ارادے کو پورا کرنے کا بندوبست کِیا۔‏ آدم اور حوا کے گُناہ کرنے کے بعد خدا نے اُن کی اولاد کے لئے ایک ایسی ”‏نسل“‏ کا انتظام کِیا جو گُناہ کے داغ کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دے گی۔‏ اِس ”‏نسل“‏ میں اوّل تو یسوع مسیح شامل ہے۔‏ یسوع مسیح نے انسان پر سے گُناہ کے داغ کو مٹانے کے لئے اپنی جان کی قربانی دی۔‏ (‏گلتیوں ۳:‏۱۶؛‏ متی ۲۰:‏۲۸‏)‏ جب یسوع کو زندہ کِیا گیا تو وہ آسمان پر چلا گیا۔‏ وہاں وہ خدا کی بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر خدمت انجام دینے لگا۔‏ اُس کے ساتھ چند ایسے انسان حکمرانی کریں گے جو زمین پر اپنی وفا کا ثبوت دے چکے ہیں۔‏ دراصل یہ بادشاہت ایک دن زمین پر حکمرانی کرے گی۔‏ لہٰذا اوّل تو یسوع مسیح اور اُس کے ساتھ حکمرانی کرنے والے ہی وہ حلیم ہیں جو زمین کے وارث ہوں گے۔‏ (‏زبور ۲:‏۶-‏۹‏)‏ جب یہ حکمران اِس زمین پر حکمرانی کرنا شروع کر دیں گے تو خدا کی مرضی پوری ہوگی اور زمین کو ایک فردوس میں تبدیل کر دیا جائے گا۔‏ اُس وقت چونکہ کروڑوں لوگ بادشاہت کی حکمرانی سے فائدہ حاصل کریں گے اِس لئے وہ بھی ”‏زمین کے وارث“‏ کہلائیں گے۔‏—‏پیدایش ۳:‏۱۵؛‏ دانی‌ایل ۲:‏۴۴؛‏ اعمال ۲:‏۳۲،‏ ۳۳؛‏ مکاشفہ ۲۰:‏۵،‏ ۶‏۔‏

‏’‏تیری مرضی زمین پر پوری ہو‘‏

یوحنا رسول نے ایک رویا میں اس بات کی تصدیق کی کہ خدا کے زیادہ‌تر وفادار خادم زمین پر بسیں گے جبکہ صرف چند آسمان پر جائیں گے۔‏ یوحنا رسول نے یسوع کے وفادار پیروکاروں کو تختوں پر بادشاہوں کے طور پر بیٹھا دیکھا۔‏ خدا کے کلام میں بتایا جاتا ہے کہ ’‏وہ زمین پر بادشاہی کریں گے۔‏‘‏ (‏مکاشفہ ۵:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ غور کیجئے کہ یسوع مسیح کی حکمرانی کے ذریعے یہ زمین بحال ہو جائے گی۔‏ اور اِس کے نتیجے میں خدا کی مرضی پوری ہوگی یعنی یہ زمین ایک فردوس بن جائے گی۔‏

یسوع نے اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ وہ خدا سے یوں دُعا کریں:‏ ”‏تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ کئی لوگ کہتے ہیں کہ اِس زمین کو تباہ کر دیا جائے گا۔‏ دوسرے کہتے ہیں کہ یہ زمین محض جنت کی علامت ہے اور بعض کے مطابق تمام صادق لوگ آسمان پر جائیں گے۔‏ اگر ایسا سچ ہوتا تو کیا یسوع اپنے شاگردوں کو یوں دُعا کرنا سکھاتا کہ تیری مرضی زمین پر پوری ہو؟‏ شروع سے آخر تک خدا کے کلام میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ خدا کی مرضی کے مطابق یہ زمین ایک فردوس میں تبدیل ہو جائے گی۔‏ خدا کے وفادار لوگ دُعا کرتے ہیں کہ اُس کی مرضی پوری ہو۔‏

زمین پر ہمیشہ کی زندگی کا وعدہ اُس خدا نے کِیا ہے جو ”‏لاتبدیل“‏ ہے۔‏ (‏ملاکی ۳:‏۶؛‏ یوحنا ۱۷:‏۳؛‏ یعقوب ۱:‏۱۷‏)‏ ایک صدی سے زائد عرصہ کے لئے یہ رسالہ نہ صرف زمین پر بلکہ آسمان پر خدا کی مرضی کی وضاحت کرتا آ رہا ہے۔‏ اِس موضوع پر مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے آپ یا تو یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کر سکتے ہیں یا پھر آپ اِس رسالے کے ناشرین کو لکھ سکتے ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 عبرانی لفظ عیرتس کا ترجمہ زبور ۳۷:‏۱۱ میں ”‏مُلک“‏ سے کِیا گیا ہے جبکہ زبور ۳۷:‏۲۹ میں اسی لفظ کا ترجمہ ”‏زمین“‏ سے کِیا گیا ہے۔‏ ایک لغت کے مطابق لفظ عیرتس کا صحیح مطلب ”‏پوری زمین ہے۔‏ لیکن کبھی‌کبھار اسے ایک ملک یا علاقے کے لئے بھی استعمال کِیا جا سکتا ہے۔‏“‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان آیات میں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ دراصل پوری زمین کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویر]‏

خدا کے کلام میں بتایا جاتا ہے کہ زمین فردوس میں تبدیل ہو جائے گی

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

اگر زمین واقعی تباہ ہوگی تو کیا یسوع دُعا کرتا کہ خدا کی مرضی زمین پر پوری ہو؟‏