مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

زبور کی پانچویں کتاب سے اہم نکات

زبور کی پانچویں کتاب سے اہم نکات

یہوواہ کا کلام زندہ ہے

زبور کی پانچویں کتاب سے اہم نکات

ایک دولتمند شاید یوں کہے:‏ ”‏ہمارے بیٹے جوانی میں قدآور پودوں کی مانند ہوں۔‏ اور ہماری بیٹیاں محل کے کونے کے لئے تراشے ہوئے پتھروں کی مانند ہوں۔‏ .‏ .‏ .‏ ہمارے کھتے بھرے ہوں .‏ .‏ .‏ ہماری بھیڑبکریاں ہمارے کوچوں میں ہزاروں اور لاکھوں بچے دیں۔‏“‏ علاوہ‌ازیں،‏ شاید دولتمند پکار اُٹھے:‏ ”‏مبارک ہے وہ قوم جس کا یہ حال ہے۔‏“‏ تاہم،‏ زبورنویس اس کے برعکس یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏مبارک ہے وہ قوم جس کا خدا [‏یہوواہ]‏ ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۴۴:‏۱۲-‏۱۵‏)‏ جس قوم کا خدا یہوواہ ہے وہ واقعی خوش ہے۔‏ یہوواہ خدایِ‌مبارک ہے اور اُس کے پرستار ہمیشہ خوش رہتے ہیں۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۱‏)‏ اس سچائی کا ثبوت ۱۰۷ سے ۱۵۰ کے الہامی زبوروں سے ملتا ہے۔‏

زبور کی پانچویں کتاب یہوواہ کی اعلیٰ صفات کو نمایاں کرتی ہے جس میں اُس کی شفقت،‏ سچائی اور نیکی شامل ہے۔‏ جتنا زیادہ ہم خدا کی شخصیت کو سمجھتے ہیں اُتنا ہی زیادہ ہم اُس سے محبت کرنے اور اُس کا خوف ماننے کی تحریک پاتے ہیں۔‏ اس طرح ہم اپنی خوشی کو برقرار رکھتے ہیں۔‏ زبور کی پانچویں کتاب میں ہمارے لئے کتنا بیش‌قیمت پیغام پایا جاتا ہے!‏—‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏۔‏

یہوواہ کی شفقت کی وجہ سے خوش

‏(‏زبور ۱۰۷:‏۱–‏۱۱۹:‏۱۷۶‏)‏

بابل کی غلامی سے لوٹنے والے یہودیوں نے گیت گایا:‏ ”‏کاشکہ لوگ [‏یہوواہ]‏ کی شفقت کی خاطر اور بنی‌آدم کے لئے اُس کے عجائب کی خاطر اُس کی ستایش کرتے!‏“‏ (‏زبور ۱۰۷:‏۸،‏ ۱۵،‏ ۲۱،‏ ۳۱‏)‏ خدا کی ستایش کرتے ہوئے داؤد کہتا ہے:‏ ”‏تیری سچائی افلاک کے برابر ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۰۸:‏۴‏)‏ گیت کے اگلے الفاظ میں اُس نے کہا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ میرے خدا!‏ میری مدد کر۔‏ اپنی شفقت کے مطابق مجھے بچا لے۔‏“‏ (‏زبور ۱۰۹:‏۱۸،‏ ۱۹،‏ ۲۶‏)‏ زبور ۱۱۰ میں یسوع مسیح کی حکمرانی کی نبوّتی تصویر پیش کی گئی ہے۔‏ زبور ۱۱۱:‏۱۰ میں بیان کِیا گیا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا خوف دانائی کا شروع ہے۔‏“‏ اگلے زبور کے مطابق،‏ ”‏مبارک ہے وہ آدمی جو [‏یہوواہ]‏ سے ڈرتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۱۲:‏۱‏۔‏

اصلی متن میں زبور ۱۱۳ تا ۱۱۸ میں ”‏ہللویاہ“‏ یا ”‏یاہ کی حمد کرو!‏“‏ کی اصطلاح کو بار بار دُہرایا گیا ہے اس لئے ان زبوروں کو ہلَل مزامیر کا نام دیا گیا ہے۔‏ مِشنہ یعنی یہودی زبانی روایت کو تیسری صدی میں تحریری شکل دی گئی۔‏ اس روایت کے مطابق،‏ یہودی یہ زبور فسح کے موقع پر اور اپنی تین سالانہ عیدوں پر گایا کرتے تھے۔‏ زبور ۱۱۹ بائبل کے تمام مزامیر اور ابواب سے لمبا ہے،‏ اور یہ یہوواہ کے کلام کی بڑائی کرتا ہے۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۱۰۹:‏۲۳‏—‏داؤد کی اس بات کا کیا مطلب ہے کہ ”‏مَیں ڈھلتے سایہ کی طرح جاتا رہا۔‏ مَیں ٹڈی کی طرح اُڑا دیا گیا“‏؟‏ یہاں داؤد شاعرانہ انداز میں یہ بیان کر رہا ہے کہ اُسے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے اُس کی موت قریب ہے۔‏—‏زبور ۱۰۲:‏۱۱‏۔‏

۱۱۰:‏۱،‏ ۲‏—‏”‏[‏داؤد کے]‏ خداوند“‏ یسوع مسیح نے خدا کے دہنے ہاتھ بیٹھ کر کیا کِیا تھا؟‏ مُردوں میں سے زندہ ہونے اور آسمان پر جانے کے بعد،‏ یسوع خدا کے دہنے ہاتھ ۱۹۱۴ تک اپنے بادشاہ بننے کا انتظار کرتا رہا۔‏ اس عرصہ کے دوران،‏ یسوع اپنے ممسوح ساتھیوں پر حکمرانی کرتا رہا،‏ منادی کرنے اور شاگرد بنانے کے کام میں اُن کی راہنمائی کرتا رہا اور اُنہیں اپنے ساتھ حکمرانی کرنے کے لئے تیار کرتا رہا۔‏—‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۸-‏۲۰؛‏ لوقا ۲۲:‏۲۸-‏۳۰‏۔‏

۱۱۰:‏۴‏—‏یہوواہ خدا نے کیا ’‏قسم کھائی ہے جس سے وہ پھرے گا نہیں‘‏؟‏ یہ قسم ایک عہد ہے جو یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کے ساتھ باندھا کہ وہ اُسے بادشاہ اور سردار کاہن مقرر کرے گا۔‏—‏لوقا ۲۲:‏۲۹‏۔‏

۱۱۳:‏۳‏—‏کس طریقے سے ”‏آفتاب کے طلوع سے غروب تک“‏ یہوواہ کے نام کی حمدوثنا ہوتی ہے؟‏ خدا کی حمدوثنا کرنے میں ہر روز خدا کی پرستش کرنے والے اشخاص ہی شامل نہیں۔‏ سورج مشرق سے نکلتا اور مغرب میں غروب ہوتا ہے،‏ اس کی کرنوں سے تمام دُنیا روشن ہوتی ہے۔‏ اسی طرح،‏ یہوواہ کی حمدوثنا تمام زمین پر ہوتی ہے۔‏ یہ سب کچھ کسی منظم کوشش کے بغیر نہیں ہو سکتا۔‏ یہوواہ کے گواہوں کے طور پر،‏ ہمیں خدا کی حمد کرنے اور سرگرمی کے ساتھ منادی کے کام میں حصہ لینے کا عظیم شرف حاصل ہے۔‏

۱۱۶:‏۱۵‏—‏کس طریقے سے ”‏[‏یہوواہ]‏ کی نگاہ میں اُس کے مُقدسوں کی موت گراں‌قدر ہے“‏؟‏ یہوواہ کے پرستار اُس کی نگاہ میں گراں‌قدر ہیں۔‏ وہ اُن کی موت کو ایک گروہ یا جماعت کی موت خیال کرتا ہے،‏ اس لئے وہ اس کی کبھی بھی اجازت نہیں دے سکتا۔‏ اگر یہوواہ ایسا ہونے دیتا تو اُس کے دُشمن اس سے زیادہ طاقتور ثابت ہوتے۔‏ اس کے علاوہ،‏ نئی دُنیا کی بنیاد رکھنے والا کوئی انسان زمین پر باقی نہ رہتا۔‏

۱۱۹:‏۷۱‏—‏مصیبت اُٹھانے سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟‏ تکلیف ہمیں یہوواہ خدا پر مکمل بھروسا کرنا،‏ دُعا میں اَور زیادہ اُسکے طالب ہونا،‏ زیادہ سے زیادہ بائبل مطالعہ کرنا اور اُسکی باتوں پر عمل کرنا سکھاتی ہے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ مصیبت کے وقت ہمارا ردِعمل ہمیں اپنی کمزوریوں کو دُرست کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‏ اگر ہم مشکلات کو اپنے اندر بہتری لانے دیتے ہیں تو یہ ہمیں تلخ نہیں بنائینگی۔‏

۱۱۹:‏۹۶‏—‏”‏ہر کمال کی انتہا“‏ کا کیا مطلب ہے؟‏ زبورنویس کمال کی بابت انسانی نقطۂ‌نظر سے بات کر رہا ہے۔‏ اُس کے ذہن میں غالباً یہ بات تھی کہ کمال کی بابت انسانی سوچ محدود ہے۔‏ اس کے برعکس،‏ خدا کے احکام کی کوئی حد نہیں۔‏ اس مشورت کا اطلاق زندگی کے تمام حلقوں پر ہوتا ہے۔‏ نیو انٹرنیشنل ورشن بیان کرتی ہے،‏ ”‏ہر کمال کی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے۔‏ لیکن تیرے احکام لامحدود ہیں۔‏“‏

۱۱۹:‏۱۶۴‏—‏”‏دن میں سات بار“‏ خدا کی ستایش کرنا کس بات کو ظاہر کرتا ہے؟‏ سات کا عدد اکثر کسی چیز کے مکمل ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ زبورنویس کہہ رہا ہے کہ تمام حمدوستایش کا حقدار صرف یہوواہ خدا ہے۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱۰۷:‏۲۷-‏۳۱‏۔‏ جب ہرمجدون آئے گی تو دُنیاوی حکمت ”‏حواس‌باختہ“‏ ہو جائے گی۔‏ (‏مکاشفہ ۱۶:‏۱۴،‏ ۱۶‏)‏ یہ کسی کو تباہی سے بچا نہ سکے گی۔‏ صرف وہی لوگ زندہ بچیں گے جو نجات کے لئے یہوواہ پر آس لگاتے اور اُس کی ”‏شفقت کی خاطر .‏ .‏ .‏ اُس کی ستایش کرتے“‏ ہیں۔‏

۱۰۹:‏۳۰،‏ ۳۱؛‏ ۱۱۰:‏۵‏۔‏ ایک سپاہی کا تلوار چلانے والا داہنا ہاتھ سپر کے تحفظ سے محروم ہوتا ہے جوکہ اُس کے بائیں ہاتھ میں ہوتی ہے۔‏ علامتی طور پر،‏ یہوواہ اپنے خادموں کے ”‏دہنے ہاتھ“‏ ہے تاکہ اُن کیلئے لڑائی کرے۔‏ وہ اُنہیں تحفظ اور مدد دیتا ہے۔‏ یہ ہمارے پاس ”‏[‏اُسکا]‏ بڑا شکر“‏ کرنے کی شاندار وجہ ہے!‏

۱۱۳:‏۴-‏۹‏۔‏ یہوواہ اسقدر بلندوبالا ہے کہ اُسے ”‏آسمان .‏ .‏ .‏ پر نظر“‏ کرنے کے لئے بھی جھکنا پڑتا ہے۔‏ اس کے باوجود،‏ وہ مسکین،‏ محتاج اور بانجھ عورت پر رحم کرتا ہے۔‏ ہمارا حاکمِ‌اعلیٰ یہوواہ فروتن ہے اور وہ اپنے پرستاروں سے بھی اس کا تقاضا کرتا ہے۔‏—‏یعقوب ۴:‏۶‏۔‏

۱۱۴:‏۳-‏۷‏۔‏ یہوواہ کے شاندار کاموں کی بابت سیکھنا جو اُس نے اپنے لوگوں کی خاطر بحرِقلزم،‏ دریائےیردن اور کوہِ‌سینا پر کئے ہم پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔‏ انسان ”‏زمین“‏ کی نمائندگی کرتے ہیں اس لئے اُنہیں علامتی طور پر ’‏خدا کے حضور تھرتھرانے‘‏ کی ضرورت ہے۔‏

۱۱۹:‏۹۷-‏۱۰۱‏۔‏ خدا کے کلام سے دانش،‏ عقل اور سمجھ حاصل کرنے سے ہم خدا سے دُور جانے سے بچتے ہیں۔‏

۱۱۹:‏۱۰۵‏۔‏ خدا کا کلام ہمارے قدموں کے لئے چراغ ہے جو ہمیں آجکل کی مشکلات سے نپٹنے میں مدد دیتا ہے۔‏ یہ علامتی طور پر ہماری راہ کے لئے روشنی بھی ہے،‏ اسلئےکہ یہ مستقبل کی بابت خدا کے مقصد کو پہلے سے بیان کرتا ہے۔‏

مشکلات کے باوجود خوش

‏(‏زبور ۱۲۰:‏۱–‏۱۴۵:‏۲۱‏)‏

ہم کٹھن صورتحال اور مشکلات کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏ زبور ۱۲۰ سے ۱۳۴ ہمیں اس سوال کا واضح جواب دیتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا پر مدد کے لئے آس لگانے سے ہم تکلیف کو برداشت کرنے اور اپنی خوشی کو برقرار رکھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔‏ یہ زبور ہیکل کی زیارت کے گیت کہلاتے ہیں اور اسرائیلی غالباً یہ گیت سالانہ عیدوں پر یروشلیم جاتے وقت گایا کرتے تھے۔‏

زبور ۱۳۵ اور ۱۳۶ میں یہوواہ کو بےجان بُتوں سے بالکل فرق اپنی مرضی پوری کرنے والے خدا کے طور پر بیان کِیا گیا ہے۔‏ زبور ۱۳۶ کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے جیسے ہر آیت کا آخری حصہ پہلے حصے کا جواب دیتا ہے۔‏ اگلا زبور اُن یہودیوں کی دل‌شکستہ حالت کو بیان کرتا ہے جو بابل کی اسیری میں رہتے ہوئے صیون میں یہوواہ کی پرستش کرنے کے خواہشمند تھے۔‏ زبور ۱۳۸ سے ۱۴۵ داؤد نے تحریر کئے۔‏ وہ ’‏پورے دل سے یہوواہ کا شکر ادا کرنا‘‏ چاہتا تھا۔‏ لیکن وہ ایسا کیوں کرنا چاہتا تھا؟‏ وہ اس کی وجہ بیان کرتا ہے،‏ ”‏کیونکہ مَیں عجیب‌وغریب طور سے بنا ہوں۔‏“‏ (‏زبور ۱۳۸:‏۱؛‏ ۱۳۹:‏۱۴‏)‏ زبور ۱۴۰ سے ۱۴۴ میں داؤد بُرے آدمی سے حفاظت کے لئے،‏ صادقوں کو تنبیہ کرنے کے لئے،‏ دُشمنوں سے رہائی پانے کے لئے اور اپنے چال‌چلن کے سلسلے میں ہدایت‌وراہنمائی کے لئے درخواست کرتا ہے۔‏ وہ یہوواہ کے لوگوں کی خوشی کو خاص طور پر نمایاں کرتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۴۴:‏۱۵‏)‏ خدا کی عظمت اور نیکی پر غور کرنے کے بعد داؤد کہتا ہے:‏ ”‏میرے مُنہ سے [‏یہوواہ]‏ کی ستایش ہوگی اور ہر بشر اُس کے پاک نام کو ابدالآباد مبارک کہے۔‏“‏—‏زبور ۱۴۵:‏۲۱‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۱۲۲:‏۳‏—‏یروشلیم ایک ”‏گنجان“‏ آباد شہر کی مانند کیسے بنا ہوا تھا؟‏ پُرانے زمانے میں زیادہ‌تر شہروں میں گھر ساتھ ساتھ بنے ہوتے تھے۔‏ یروشلیم میں بھی گھر اسی طرح بنے ہوئے تھے۔‏ اس لئے شہر کی حفاظت کرنا آسان ہوتا تھا۔‏ اس کے علاوہ،‏ گھروں کے قریب قریب ہونے کی وجہ سے تحفظ کے لئے ایک دوسرے کی مدد پر بھروسا کرنا ممکن تھا۔‏ اس سے اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے متحد ہوکر یہوواہ کی پرستش کرنے کی نمائندگی ہوتی ہے جو ملکر یروشلیم آیا کرتے تھے۔‏

۱۲۳:‏۲‏—‏غلاموں کی آنکھوں کی تمثیل کس بات کو واضح کرتی ہے؟‏ غلام اور لونڈیاں دو وجوہات کی بِنا پر اپنے آقا یا بی‌بی کے ہاتھوں کی طرف دیکھتے تھے:‏ (‏۱)‏ اُن کی مرضی معلوم کرنے کے لئے،‏ (‏۲)‏ تحفظ اور ضروریاتِ‌زندگی حاصل کرنے کے لئے۔‏ اسی طرح،‏ ہم یہوواہ خدا کی مرضی جاننے اور اُس کی کرمفرمائی حاصل کرنے کے لئے اُس کی طرف دیکھتے ہیں۔‏

۱۳۱:‏۱-‏۳‏—‏داؤد نے ’‏اپنے دل کو دودھ چھڑائے ہوئے بچے کی مانند جو ماں کی گود میں ہے‘‏ کیسے مطمئن کِیا؟‏ جیسے ایک دودھ چھڑایا ہوا بچہ اپنی ماں کی گود میں تسکین اور تحفظ حاصل کرنا سیکھ لیتا ہے،‏ ویسے ہی داؤد نے اپنے دل کو ’‏دودھ چھڑائے ہوئے بچے کی مانند جو ماں کی گود میں ہے‘‏ مطمئن کرنا سیکھ لیا تھا۔‏ مگر کیسے؟‏ اپنے دل میں تکبر پیدا نہ کرنے،‏ بلندنظر نہ بننے اور اپنے لئے بڑی بڑی چیزوں کی تلاش نہ کرنے سے۔‏ اعلیٰ مرتبہ حاصل کرنے کی بجائے داؤد اپنی حدود کو پہچانتا اور فروتنی دکھاتا تھا۔‏ ہمیں داؤد کے نمونے کی نقل کرنی چاہئے،‏ خاص طور پر اُس وقت جب ہمیں کلیسیا میں کوئی شرف ملتا ہے۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱۲۰:‏۱،‏ ۲،‏ ۶،‏ ۷‏۔‏ الزام‌تراشی اور سخت‌کلامی دوسروں کو ناقابلِ‌برداشت تکلیف پہنچا سکتی ہے۔‏ ”‏صلح‌دوست“‏ ہونے کا ایک طریقہ اپنی زبان پر قابو رکھنا ہے۔‏

۱۲۰:‏۳،‏ ۴‏۔‏ اگر ہمیں کسی شخص کی ”‏دغاباز زبان“‏ کا سامنا ہے تو ہم اس بات کو جان کر تسلی حاصل کر سکتے ہیں کہ یہوواہ اپنے وقت پر معاملات کو دُرست کرے گا۔‏ تہمت لگانے والے ‏”‏زبردست“‏ کے ہاتھوں تکلیف اُٹھائیں گے۔‏ ایسے لوگ یقیناً یہوواہ کے عدالتی فیصلوں کا سامنا کرتے وقت علامتی طور پر ”‏جھاؤ کے انگاروں کے ساتھ“‏ تکلیف اُٹھائیں گے۔‏

۱۲۷:‏۱،‏ ۲‏۔‏ ہمیں اپنے تمام کاموں میں یہوواہ کی ہدایت‌وراہنمائی کے طالب ہونا چاہئے۔‏

۱۳۳:‏۱-‏۳‏۔‏ یہوواہ کے لوگوں کا اتحاد تسلی‌بخش،‏ صحت‌بخش اور تازگی‌بخش ہے۔‏ ہمیں اسے نکتہ‌چینی،‏ لڑائی‌جھگڑے یا شکایت کرنے سے برباد نہیں کرنا چاہئے۔‏

۱۳۷:‏۱،‏ ۵،‏ ۶‏۔‏ اسیری میں جانے والے یہوواہ کے پرستار صیون کو بہت عزیز رکھتے تھے جو اُس وقت خدا کی تنظیم کی نمائندگی کرتا تھا۔‏ ہماری بابت کیا ہے؟‏ کیا ہم اُس تنظیم کے وفادار ہیں جسے یہوواہ اس وقت استعمال کر رہا ہے؟‏

۱۳۸:‏۲‏۔‏ یہوواہ ”‏اپنے کلام کو اپنے ہر نام سے زیادہ عظمت“‏ دینے کے لئے وہ تمام وعدے پورے کرے گا جو اُس نے اپنے نام کے وسیلے سے کئے ہیں۔‏ ان وعدوں کی تکمیل ہماری سوچ سے بھی بڑھکر ہوگی۔‏ واقعی،‏ ہمارا مستقبل نہایت شاندار ہے!‏

۱۳۹:‏۱-‏۶،‏ ۱۵،‏ ۱۶‏۔‏ یہوواہ ہمارے کاموں،‏ ہمارے خیالات اور ہمارے اُن الفاظ سے بھی واقف ہے جو ابھی تک ہماری زبان پر نہیں آئے۔‏ وہ ہمیں اُس وقت سے جانتا ہے جب ہم اپنی ماں کے رحم میں بےترتیب مادّہ تھے اور ہمارے جسم کے مختلف حصے بھی نہیں بنے تھے۔‏ ہماری بابت یہوواہ کا علم ”‏نہایت عجیب“‏ ہے،‏ ہم اُس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے۔‏ یہ جاننا کسقدر تسلی‌بخش ہے کہ یہوواہ نہ صرف اُن مشکلات سے واقف ہے جن کا ہمیں سامنا ہو سکتا ہے بلکہ وہ ان اثرات کو بھی سمجھتا ہے جو یہ ہم پر چھوڑتی ہیں!‏

۱۳۹:‏۷-‏۱۲‏۔‏ ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں خدا ہماری مدد کے لئے نہیں پہنچ سکتا۔‏

۱۳۹:‏۱۷،‏ ۱۸‏۔‏ کیا خدا کا علم ہمارے لئے بیش‌بہا ہے؟‏ (‏امثال ۲:‏۱۰‏)‏ اگر ایسا ہے تو ہم ہمیشہ خوش رہ سکتے ہیں۔‏ یہوواہ کے خیالات ”‏شمار میں ریت سے بھی زیادہ“‏ ہیں۔‏ اس لئے ہم یہوواہ کی بابت ہمیشہ سیکھتے رہیں گے۔‏

۱۳۹:‏۲۳،‏ ۲۴‏۔‏ ہمیں یہوواہ سے اپنے محرکات کو جانچنے کی درخواست کرنی چاہئے۔‏ تاکہ اُس کی مدد سے ہم اپنی ”‏بُری روش“‏ یعنی نامناسب خیالات،‏ خواہشات اور رُجحانات کو دُرست کرنے کے قابل ہو سکیں۔‏

۱۴۳:‏۴-‏۷‏۔‏ سنگین مشکلات کے تحت بھی ہم کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟‏ زبورنویس ہمیں اس کا طریقہ بیان کرتا ہے۔‏ یہوواہ کے کاموں پر سوچ‌بچار کرنے،‏ جوکچھ اُس نے ہمارے لئے کِیا ہے اُس پر غور کرنے اور مدد کے لئے دُعا کرنے سے۔‏

‏”‏یاہ کی حمد کرو!‏“‏

زبور کی پہلی چار کتابوں کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے:‏ یہوواہ کی حمد کرو!‏ (‏زبور ۴۱:‏۱۳؛‏ ۷۲:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ ۸۹:‏۵۲؛‏ ۱۰۶:‏۴۸‏)‏ آخری کتاب بھی ان الفاظ کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔‏ زبور ۱۵۰:‏۶ بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہر مُتنفّس [‏یاہ]‏ کی حمد کرے۔‏ [‏یاہ]‏ کی حمد کرو۔‏“‏ یہ الفاظ خدا کی نئی دُنیا میں یقیناً پورے ہوں گے۔‏

جب ہم اُس خوش‌کُن وقت کے منتظر ہیں ہمارے پاس سچے خدا کو جلال دینے اور اُس کے نام کی حمد کرنے کی بےشمار وجوہات ہیں۔‏ جب ہم اُس خوشی کا تصور کرتے ہیں جو ہمیں یہوواہ خدا کو جاننے اور اُس کے ساتھ قریبی رشتہ رکھنے سے حاصل ہوتی ہے تو کیا ہمیں پورے دل سے اُس کی حمد کرنے کی تحریک نہیں ملتی؟‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

یہوواہ کے کام حیرت‌انگیز ہیں

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

یہوواہ کے خیالات ”‏شمار میں ریت سے زیادہ“‏ ہیں