مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

زندگی کے ہر پہلو میں اپنے ایمان کا ثبوت دیں

زندگی کے ہر پہلو میں اپنے ایمان کا ثبوت دیں

زندگی کے ہر پہلو میں اپنے ایمان کا ثبوت دیں

‏”‏ایمان بھی اگر اُس کے ساتھ اعمال نہ ہوں تو اپنی ذات سے مُردہ ہے۔‏“‏—‏یعقوب ۲:‏۱۷‏۔‏

۱.‏ ایمان اور اعمال کے تعلق کے بارے میں ابتدائی مسیحی کیا جانتے تھے؟‏

ابتدائی مسیحی اپنے اچھے چال‌چلن سے اپنے ایمان کا ثبوت دیتے تھے۔‏ یسوع کے شاگرد یعقوب نے تمام مسیحیوں کو یوں تاکید کی:‏ ”‏کلام پر عمل کرنے والے بنو نہ محض سننے والے۔‏“‏ پھر اُس نے کہا:‏ ”‏غرض جیسے بدن بغیر روح کے مُردہ ہے ویسے ہی ایمان بھی بغیر اعمال کے مُردہ ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۱:‏۲۲؛‏ ۲:‏۲۶‏)‏ یعقوب کی اس تاکید کے ۳۵ سال بعد بھی زیادہ‌تر مسیحی اُس کی بات پر عمل کر رہے تھے۔‏ اس وجہ سے یسوع مسیح نے سمرنہ کی کلیسیا کو داد دی۔‏ البتہ ایسے بھی مسیحی تھے جو اپنے چال‌چلن سے اپنے ایمان کا ثبوت نہیں دے رہے تھے۔‏ مثال کے طور پر سردیس کی کلیسیا کے چند لوگوں سے یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏مَیں تیرے کاموں کو جانتا ہوں کہ تُو زندہ کہلاتا ہے اور ہے مُردہ۔‏“‏—‏مکاشفہ ۲:‏۸-‏۱۱؛‏ ۳:‏۱‏۔‏

۲.‏ مسیحیوں کو خود سے کونسے سوال کرنے چاہئیں؟‏

۲ یسوع مسیح نے سردیس کے مسیحیوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ بائبل کی سچائیوں کے لئے اپنی محبت کا ثبوت پیش کریں اور یہوواہ خدا کے نزدیک جائیں۔‏ (‏مکاشفہ ۳:‏۲،‏ ۳‏)‏ دراصل یسوع کی اس بات پر تمام مسیحیوں کو عمل کرنا چاہئے۔‏ اس لئے ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”‏کیا میرے اعمال سے ظاہر ہو رہا ہے کہ میرا ایمان مضبوط ہے؟‏ کیا مَیں اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں اپنے پُختہ ایمان کا ثبوت پیش کر رہا ہوں یا کیا مَیں صرف مُنادی اور اجلاسوں کے سلسلے میں سرگرم ہوں؟‏“‏ (‏لوقا ۱۶:‏۱۰‏)‏ یوں تو ہم زندگی کے بہت سے مختلف پہلوؤں پر غور کر سکتے ہیں۔‏ لیکن اس مضمون میں ہم دعوتوں اور ضیافتوں کے موضوع پر غور کریں گے اور خاص طور پر ایسی ضیافتوں پر جو شادی کے سلسلے میں کی جاتی ہیں۔‏

دعوت کرتے وقت

۳.‏ دعوتوں کے سلسلے میں خدا کا نظریہ بیان کریں۔‏

۳ جب ایک مسیحی بہن یا بھائی ہمیں دعوت پر بلاتا ہے تو ہم خوش ہوتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ اُس کے خادم خوش ہوں۔‏ اُس نے سلیمان کے ذریعے اپنے کلام میں یہ بات درج کروائی:‏ ”‏دُنیا میں انسان کے لئے کوئی چیز اِس سے بہتر نہیں کہ کھائے اور پئے اور خوش رہے۔‏“‏ (‏واعظ ۳:‏۱،‏ ۴،‏ ۱۳؛‏ ۸:‏۱۵‏)‏ واقعی سچے مسیحیوں کے پاس خوشی کے بہت سے موقعے ہوتے ہیں۔‏ اپنے خاندان کے ساتھ کھانا کھاتے وقت یا پھر چند مسیحی دوستوں کی دعوت کرتے وقت کیا ہم خوش نہیں ہوتے؟‏—‏ایوب ۱:‏۴،‏ ۵،‏ ۱۸؛‏ لوقا ۱۰:‏۳۸-‏۴۲؛‏ ۱۴:‏۱۲-‏۱۴‏۔‏

۴.‏ جو مسیحی دعوت کرتا ہے اُس کی کیا خواہش ہونی چاہئے؟‏

۴ فرض کریں کہ آپ چند مسیحیوں کو کھانے پر بلانا چاہتے ہیں اور اس دعوت کی ذمہ‌داری آپ ہی کے سر ہے۔‏ آپ کو پہلے ہی سے غور کرنا چاہئے کہ دعوت کے دوران کیا کچھ کِیا جائے گا۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۳‏)‏ یقیناً آپ چاہیں گے کہ دعوت کے دوران ”‏سب باتیں شایستگی .‏ .‏ .‏ کے ساتھ عمل میں آئیں۔‏“‏ اس وجہ سے ”‏جو حکمت اوپر سے آتی ہے“‏ آپ اس کو کام میں لائیں گے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۴:‏۴۰؛‏ یعقوب ۳:‏۱۷‏)‏ پولس رسول نے لکھا کہ ”‏تُم کھاؤ یا پیو یا جو کچھ کرو سب خدا کے جلال کے لئے کرو۔‏“‏ پھر اُس نے یہ تاکید بھی کی کہ کسی ’‏کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنو۔‏‘‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۳۱،‏ ۳۲‏)‏ دعوت پر ہم اور ہمارے مہمان جو کچھ بھی کریں،‏ ہماری خواہش ہوگی کہ اس سے ہمارا ایمان ظاہر ہو۔‏ اس لئے آئیے دیکھتے ہیں کہ دعوت کی تیاری کرتے وقت کن باتوں پر غور کرنا فائدہ‌مند ہوتا ہے۔‏—‏رومیوں ۱۲:‏۲‏۔‏

دعوت کی تیاری

۵.‏ دعوت کی تیاری کرتے ہوئے میزبان کو موسیقی اور شراب کے سلسلے میں کن باتوں پر غور کرنا چاہئے؟‏

۵ کیا آپ اپنی دعوت میں شراب پیش کریں گے؟‏ یاد رکھیں کہ جب یسوع نے ایک بڑی بِھیڑ کو روٹیوں اور مچھلیوں سے سیر کرنے کا معجزہ دکھایا تھا تو اُس نے شراب نہیں پیش کی حالانکہ وہ ایسا معجزہ بھی دکھانے کا اختیار رکھتا تھا۔‏ (‏متی ۱۴:‏۱۴-‏۲۱‏)‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دعوتیں شراب کے بغیر بھی پُرلطف ہو سکتی ہیں۔‏ اگر آپ اپنے مہمانوں کے لئے شراب پیش کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس کی مقدار محدود رکھیں اور اُن مہمانوں کے لئے شربت وغیرہ کا انتظام ضرور کریں جو شراب نہیں پینا چاہتے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۲،‏ ۳،‏ ۸؛‏ ۵:‏۲۳؛‏ ۱-‏پطرس ۴:‏۳‏)‏ کبھی کسی مہمان کو شراب پینے پر مجبور نہ کریں کیونکہ یہ ’‏سانپ کی طرح کاٹ سکتی ہے۔‏‘‏ (‏امثال ۲۳:‏۲۹-‏۳۲‏)‏ کیا آپ دعوت میں موسیقی کا بندوبست کرنا چاہتے ہیں؟‏ اس صورت میں گانوں کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ اُن کے بول اور موسیقی کی تھاپ مسیحیوں کے لئے مناسب ہو۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۸؛‏ یعقوب ۱:‏۲۱‏)‏ بہتیرے مسیحی میزبانوں نے دیکھا ہے کہ دعوت کے دوران کتابچہ یہوواہ کی حمد کے گیت گائیں کی کیسٹیں لگانے سے یا اس میں سے مل کر گیت گانے سے سب پر اچھا اثر پڑتا ہے۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ اس کے علاوہ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ دعوت کے دوران موسیقی کبھی اتنی اُونچی نہ ہو کہ مہمان ایک دوسرے سے بات‌چیت نہ کر پائیں اور پڑوسیوں کو شکایت کا موقع ہو۔‏—‏متی ۷:‏۱۲‏۔‏

۶.‏ ایک میزبان کیسے ظاہر کر سکتا ہے کہ وہ مضبوط ایمان کا مالک ہے؟‏

۶ دعوت کے دوران مسیحی مختلف موضوعات پر بات‌چیت کر سکتے ہیں،‏ کچھ پڑھ کر سنا سکتے ہیں یا پھر تجربے سنا سکتے ہیں۔‏ اگر کسی ایسے موضوع پر بات چھڑ جائے جو مسیحیوں کے لئے مناسب نہ ہو تو میزبان مہمانوں کی توجہ ایک اَور موضوع پر لا سکتا ہے۔‏ کبھی‌کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ مہمانوں میں سے ایک شخص لگاتار باتیں کرتا ہے اور دوسروں کو بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔‏ اس صورتحال میں میزبان کوئی ایسا موضوع چھیڑ سکتا ہے جس میں سب دلچسپی لیتے ہیں۔‏ وہ بچوں اور نوجوانوں کو بھی گفتگو میں شامل کرے گا۔‏ یقیناً ایسی محفل سے بوڑھے اور جوان سب لطف اُٹھائیں گے۔‏ میزبان کے طور پر اگر آپ حکمت اور شائستگی سے کام لیں گے تو آپ کے مہمان جان جائیں گے کہ آپ مضبوط ایمان کے مالک ہیں اور آپ اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اپنے ایمان کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔‏

شادی کی ضیافت

۷.‏ شادی کی ضیافت کا انتظام کرتے وقت مسیحیوں کو خوب سوچ‌بچار کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟‏

۷ مسیحیوں کی شادیاں بڑی خوشی کا موقع ہوتی ہیں۔‏ بائبل میں خدا کے کئی خادموں کا ذکر ہے جو شادی کی ضیافتوں میں شامل ہوئے تھے۔‏ اس کی ایک مثال یسوع اور اُس کے شاگردوں کی ہے۔‏ (‏پیدایش ۲۹:‏۲۱،‏ ۲۲؛‏ یوحنا ۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری شادی بھی خوشی کا موقع ہو تو اس بات پر خوب سوچ‌بچار کریں کہ شادی کی ضیافت کا انتظام کیسا ہوگا۔‏ اس طرح شادی کی ضیافت حد میں رہے گی اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہوگی جو مسیحیوں کے لئے نامناسب ہو۔‏ شادی کی تقریب بھی زندگی کا ایک ایسا پہلو ہے جس سے ایک مسیحی اپنا پُختہ ایمان ظاہر کر سکتا ہے۔‏

۸،‏ ۹.‏ شادی کے سلسلے میں ۱-‏یوحنا ۲:‏۱۶،‏۱۷ کی بات کیسے سچ ثابت ہوتی ہے؟‏

۸ بہت سے لوگ جو خدا کے معیاروں کے بارے میں نہ تو جانتے ہیں اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں وہ شادی کی تقریب کو بےتحاشا پیسے خرچ کرنے کا موقع خیال کرتے ہیں۔‏ یورپ میں شائع ہونے والے ایک رسالے میں ایک عورت بتاتی ہے کہ اُس کی شادی شہزادیوں جیسی تھی۔‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏ہم دونوں ایک شاندار رتھ پر سوار تھے جسے چار گھوڑے کھینچ رہے تھے۔‏ ہمارے پیچھے پیچھے ۱۲ خوبصورت تانگے آ رہے تھے۔‏ اس قافلے میں ایک خاص رتھ بھی شامل تھا جس پر سوار بینڈ موسیقی بجا رہا تھا۔‏ اس کے بعد ہم نے لذیذ کھانے کھائے اور عمدہ موسیقی سے لطف‌اندوز ہوئے۔‏ یہ دن اتنا شاندار تھا کہ مَیں آپ کو بتا ہی نہیں سکتی۔‏ ہر بات میری خواہش کے مطابق ہوئی۔‏ مجھے لگا کہ مَیں رانی ہوں،‏ رانی۔‏“‏

۹ یہ بات درست ہے کہ شادی کے رسم‌ورواج ہر مُلک میں فرق ہوتے ہیں۔‏ لیکن اس عورت کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوحنا رسول کی یہ بات کتنی سچ ہے:‏ ”‏جو کچھ دُنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دُنیا کی طرف سے ہے۔‏“‏ کیا پُختہ مسیحی اپنی شادی کے موقعے پر ’‏شہزادیوں جیسی‘‏ تقریب کا انتظام کریں گے؟‏ کیا وہ چاہیں گے کہ اُن کی شادی اتنی شاندار ہو کہ وہ راجا رانی کی طرح محسوس کریں؟‏ اس کی بجائے اس بات کو مدِنظر رکھنا بہتر ہے کہ ”‏جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔‏“‏—‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۶،‏ ۱۷‏۔‏

۱۰.‏ (‏ا)‏ مسیحی دُلہا دُلہن اپنی شادی کی تقریب کے سلسلے میں کس قسم کے فیصلے کریں گے؟‏ (‏ب)‏ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ شادی پر کتنے لوگوں کو بلایا جائے،‏ اور وہ کس سے مشورہ لے گا؟‏

۱۰ مسیحی دُلہا دُلہن کو شادی کی تقریب کے سلسلے میں سمجھداری اور حقیقت‌پسندی سے کام لینا چاہئے۔‏ یہ بات صحیح ہے کہ شادی کا دن ان کی زندگی میں خاص مقام رکھتا ہے۔‏ لیکن یہ دن ایک مسیحی جوڑے کے طور پر اُن کی زندگی کا محض پہلا دن ہے جبکہ وہ ہمیشہ زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔‏ یہ لازمی نہیں کہ وہ اپنی شادی کے موقعے پر بڑی سے بڑی ضیافت کریں۔‏ اور اگر وہ شادی کی ضیافت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ اس بات پر سوچ‌بچار کریں گے کہ ضیافت کتنی بڑی ہوگی اور اس پر کتنا پیسہ خرچ ہونا چاہئے۔‏ (‏لوقا ۱۴:‏۲۸‏)‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کا سر ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۳؛‏ افسیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ اس کا مطلب ہے کہ شادی کی تقریب کے سلسلے میں تمام فیصلے دُلہا کرے گا کیونکہ یہ اُس کی ذمہ‌داری ہے۔‏ البتہ دُلہا اس بات پر فیصلہ کرنے سے پہلے کہ ضیافت پر کتنے لوگوں کو بلایا جائے گا،‏ اپنی دُلہن سے مشورہ ضرور لے گا۔‏ ہو سکتا ہے کہ دُلہا دُلہن اپنے تمام دوستوں اور رشتہ‌داروں کو ضیافت میں نہیں بلا سکیں۔‏ اس لئے اُنہیں اس سلسلے میں سمجھداری سے کام لینا چاہئے۔‏ جن مسیحی دوستوں اور رشتہ‌داروں کو وہ دعوت نہیں دے سکتے وہ اس بات پر خفا نہیں ہوں گے بلکہ اُن کی مجبوری کو سمجھیں گے۔‏—‏واعظ ۷:‏۹‏۔‏

‏”‏میرِمجلس“‏

۱۱.‏ شادی کی تقریب میں ”‏میرِمجلس“‏ کی کیا ذمہ‌داری ہوتی ہے؟‏

۱۱ اگر دُلہا دُلہن ضیافت دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اُنہیں کس طرح کی تیاری کرنی چاہئے تاکہ شادی کی تقریب میں کوئی غیرمناسب بات نہ پیش آئے؟‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یسوع قانایِ‌گلیل میں جس شادی پر حاضر ہوا تھا وہاں ایک ”‏میرِمجلس“‏ یا ”‏میرِضیافت“‏ (‏کیتھولک ترجمہ‏)‏ کا انتظام کِیا گیا تھا۔‏ یہ شخص یقیناً دُلہا کے مذہب ہی سے تعلق رکھتا تھا۔‏ (‏یوحنا ۲:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ بائبل کی اس مثال کی وجہ سے یہوواہ کے گواہوں کی شادیوں پر ایک ”‏میرِمجلس“‏ کو مقرر کرنے کا رواج عام ہے۔‏ یہ شخص ایک پُختہ مسیحی ہوتا ہے جو خدا کے معیاروں کی قدر کرتا ہے۔‏ دُلہا ہی اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ میرِمجلس کی ذمہ‌داری کس کو سونپی جائے گی۔‏ وہ میرِمجلس کو تفصیل سے بتائے گا کہ وہ شادی کی تقریب کے سلسلے میں کیا کچھ چاہتا ہے اور کن باتوں کو ناپسند کرتا ہے۔‏ میرِمجلس تقریب کی تیاریوں اور تقریب کے دوران بھی اس بات کا ذمہ‌دار ہوتا ہے کہ دُلہے کی خواہشوں پر عمل کِیا جائے۔‏

۱۲.‏ دُلہا تقریب پر شراب پیش کرنے کے سلسلے میں کن باتوں پر غور کرے گا؟‏

۱۲ جیسا کہ ہم پیراگراف ۵ میں دیکھ چکے ہیں،‏ مہمانوں کو شراب پیش کرنا لازمی نہیں ہوتا۔‏ کئی دُلہا دُلہن اپنے مہمانوں کو نشہ‌بازی کے خطرے سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اس لئے وہ شراب پیش نہیں کرتے۔‏ (‏رومیوں ۱۳:‏۱۳؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۱‏)‏ اگر دُلہا دُلہن مہمانوں کو شراب پیش کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو دُلہا اسے محدود مقدار میں پیش کروائے گا۔‏ یاد رکھیں کہ یسوع جس شادی پر حاضر ہوا تھا وہاں مہمانوں کے لئے شراب موجود تھی۔‏ اس ضیافت میں یسوع نے خود بھی عمدہ قسم کی شراب مہیا کی تھی۔‏ جب میرِمجلس نے اس شراب کو چکھا تو اُس نے دُلہے سے کہا:‏ ”‏ہر شخص پہلے اچھی مے پیش کرتا ہے اور ناقص اس وقت جب پی کر چھک گئے مگر تُو نے اچھی مے اب تک رکھ چھوڑی ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۲:‏۱۰‏)‏ یسوع نے یہ مے اس لئے نہیں مہیا کی کہ مہمان متوالے ہو جائیں۔‏ اُسے تو نشہ‌بازی سے نفرت تھی۔‏ (‏لوقا ۱۲:‏۴۵،‏ ۴۶‏)‏ میرِمجلس نے اس بات کا ذکر اس لئے کِیا کیونکہ اُس نے ایسی شادیاں دیکھی تھیں جن میں لوگ نشے میں متوالے ہو گئے تھے۔‏ (‏اعمال ۲:‏۱۵؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۷‏)‏ بائبل میں تاکید کی گئی ہے کہ ”‏شراب میں متوالے نہ بنو کیونکہ اس سے بدچلنی واقع ہوتی ہے۔‏“‏ شادی کی تقریب میں دُلہا اور میرِمجلس دونوں اس بات کی ذمہ‌داری رکھتے ہیں کہ تمام مہمان اس تاکید پر عمل کریں۔‏—‏افسیوں ۵:‏۱۸؛‏ امثال ۲۰:‏۱؛‏ ہوسیع ۴:‏۱۱‏۔‏

۱۳.‏ اگر دُلہا دُلہن شادی کی تقریب میں موسیقی کا انتظام کرتے ہیں تو اُنہیں کن باتوں پر غور کرنا چاہئے اور کیوں؟‏

۱۳ اگر شادی کی تقریب میں موسیقی کا انتظام کِیا گیا ہے تو اسے اتنا اُونچا نہیں ہونا چاہئے کہ لوگ مشکل سے ایک دوسرے سے بات کر پائیں۔‏ کلیسیا کے ایک بزرگ اس سلسلے میں کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں نے دیکھا ہے کہ جوں جوں رونق بڑھتی ہے یا پھر لوگ ڈانس کرنا شروع کرتے ہیں،‏ موسیقی کی آواز بھی بڑھنے لگتی ہے۔‏ اکثر یہ اتنی اُونچی ہو جاتی ہے کہ بات‌چیت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‏ یہ افسوس کی بات ہے کیونکہ شادی کی ضیافت تو ایک دوسرے سے ملنے اور باتیں کرنے کا بہترین موقع ہے۔‏“‏ ضیافت کے دوران کس قسم کی موسیقی پیش کی جائے گی اور اس کی آواز کتنی مدھم رکھی جائے گی یہ ذمہ‌داری بھی دُلہا اور میرِمجلس پر پڑتی ہے۔‏ وہ اس معاملے میں کسی بینڈ یا موسیقار کو اپنی من‌مانی نہیں کرنے دیں گے۔‏ پولس رسول نے لکھا کہ ”‏کلام یا کام جو کچھ کرتے ہو وہ سب خداوند یسوؔع کے نام سے کرو۔‏“‏ (‏کلسیوں ۳:‏۱۷‏)‏ یہ بات موسیقی کے سلسلے میں دُلہا دُلہن کے انتخاب پر بھی لاگو ہوتی ہے۔‏ کیا مہمان دیکھ سکتے ہیں کہ دُلہا دُلہن سب کچھ یسوع کے نام سے کر رہے ہیں؟‏

۱۴.‏ مسیحی کس قسم کی شادیوں کو خوشی سے یاد کرتے ہیں؟‏

۱۴ اگر دُلہا دُلہن شادی کی ضیافت کے سلسلے میں بائبل کے اصولوں پر عمل کریں گے تو سب لوگ اُن کی شادی کو خوشی سے یاد کریں گے۔‏ آدم اور ایڈیٹا ۳۰ سال سے شادی‌شُدہ ہیں۔‏ وہ ایک شادی کے بارے میں یوں کہتے ہیں:‏ ”‏یہ شادی سچے مسیحیوں کی شادیوں کی عمدہ مثال تھی۔‏ ضیافت کے دوران یہوواہ کی حمد کے گیت گائے گئے۔‏ موسیقی اور ڈانس کرنے پر اتنا زور نہیں دیا گیا۔‏ ضیافت کا ہر پہلو خوشگوار تھا اور بائبل کے اصولوں کے مطابق بھی تھا۔‏“‏ یقیناً شادی کی تقریب کے بہت سے پہلوؤں میں دُلہا دُلہن اپنے ایمان کا ثبوت پیش کر سکتے ہیں۔‏

دُلہا دُلہن کے لئے تحفے

۱۵.‏ شادی کے موقعے پر تحفے پیش کرنے کے سلسلے میں مسیحیوں کو بائبل کے کن اصولوں پر عمل کرنا چاہئے؟‏

۱۵ بہت سے ممالک میں شادی کے موقعے پر رشتہ‌دار اور دوست دُلہا دُلہن کو تحفے پیش کرتے ہیں۔‏ اس سلسلے میں مسیحیوں کو بائبل کے کن اصولوں پر عمل کرنا چاہئے؟‏ یوحنا رسول نے کہا تھا کہ ’‏زندگی کی شیخی دُنیا کی طرف سے ہے جو مٹتی جاتی ہے۔‏‘‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سچے مسیحی شیخی نہیں بگھارتے ہیں۔‏ اس وجہ سے دُلہا دُلہن شادی کی تقریب میں تحفے کے ساتھ اُس کے دینے والے کے نام کا اعلان نہیں کرائیں گے۔‏ یاد رکھیں کہ جب مکدنیہ اور اخیہ کے مسیحیوں نے یروشلیم کے مسیحیوں کے لئے چندہ دیا تھا تو چندہ دینے والوں کے نام کا ذکر نہیں کِیا گیا۔‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۲۶‏)‏ بہتیرے مسیحی یہ نہیں چاہیں گے کہ اُن کے تحفے کے ساتھ اُن کا نام لیا جائے کیونکہ وہ اپنی بڑائی نہیں کرانا چاہتے۔‏ اس سلسلے میں متی ۶:‏۱-‏۴ میں دی گئی ہدایت پر بھی غور کریں۔‏

۱۶.‏ تحفوں کے سلسلے میں دُلہا دُلہن دوسروں کا لحاظ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۶ بائبل میں تاکید کی گئی ہے کہ مسیحیوں کو ’‏ایک دوسرے کو چڑانا‘‏ نہیں چاہئے۔‏ لیکن اگر تحفے کے ساتھ دینے والے کا نام اعلان کِیا جائے تو کیا مہمان اس بات پر غور نہیں کریں گے کہ کس کا تحفہ زیادہ قیمتی ہے؟‏ اس طرح لوگوں میں مقابلہ‌بازی ہو سکتی ہے اور جو شخص دُلہا دُلہن کو تحفہ نہیں دے سکتا،‏ اُس کی شرمندگی ہوتی ہے۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۶؛‏ ۶:‏۱۰‏)‏ اس وجہ سے دُلہا دُلہن اپنے مہمانوں کا لحاظ رکھتے ہوئے تحفہ دینے والوں کے نام کا اعلان نہیں کرائیں گے۔‏ بیشک یہ بات غلط نہیں کہ تحفے کے ساتھ ایک کارڈ میں دینے والے کا نام دیا گیا ہو۔‏ لیکن اس کارڈ کو بھی سب کے سامنے پڑھا نہیں جانا چاہئے۔‏ مسیحی تحفے خریدتے،‏ دیتے اور قبول کرتے وقت بھی اپنے مضبوط ایمان کا ثبوت پیش کر سکتے ہیں۔‏ *

۱۷.‏ مسیحی اپنے ایمان اور اعمال سے کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں؟‏

۱۷ جی‌ہاں،‏ ایمان کا ثبوت بداخلاقی سے باز رہنے،‏ اجلاسوں پر حاضر ہونے اور مُنادی میں حصہ لینے سے ہی نہیں پیش کِیا جاتا۔‏ ہم زندگی کے ہر پہلو میں ’‏کام کو پورا‘‏ کرنے سے اپنا ایمان ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۳:‏۲‏)‏ دُعا ہے کہ ہم زندگی کے ہر معاملے میں اپنے پُختہ ایمان کا ثبوت پیش کرتے رہیں۔‏

۱۸.‏ یوحنا ۱۳:‏۱۷ کے الفاظ مسیحیوں کی شادی کی تقریبات کے سلسلے میں کیسے سچ ثابت ہو سکتے ہیں؟‏

۱۸ اپنے شاگردوں کے پاؤں دھونے کے بعد یسوع مسیح نے کہا ”‏اگر تُم ان باتوں کو جانتے ہو تو مبارک ہو بشرطیکہ ان پر عمل بھی کرو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۴-‏۱۷‏)‏ جس علاقے میں ہم رہتے ہیں،‏ ہو سکتا ہے کہ وہاں مہمانوں کے پاؤں دھونے کا رواج نہ ہو۔‏ لیکن دعوتوں اور شادی کی تقریب کے سلسلے میں بہت سے ایسے معاملے ضرور ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم اپنے مہمانوں کے لئے اپنی محبت ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ جی‌ہاں،‏ چاہے ہماری اپنی شادی ہو رہی ہو یا ہم کسی شادی پر مہمان ہوں ہم اپنے ایمان کا ثبوت اپنے اعمال سے دینا چاہیں گے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 16 شادی کی تقریبات کے سلسلے میں مزید تفصیل صفحہ ۱۴ پر مضمون ”‏شادی کی تقریب—‏ابدی خوشی کی بنیاد“‏ میں دی گئی ہے۔‏

آپ کا جواب کیا ہوگا؟‏

بتائے کہ مسیحی ان پہلوؤں میں اپنے ایمان کا ثبوت کیسے پیش کر سکتے ہیں:‏

‏• دوستوں کی دعوت کرتے وقت

‏• شادی کی ضیافت کا انتظام کرتے وقت

‏• شادی کے سلسلے میں تحفے دیتے یا قبول کرتے وقت

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

دوستوں کی دعوت کرتے وقت بھی ”‏جو حکمت اوپر سے آتی ہے“‏ اس کو کام میں لائیں