مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یسعیاہ کی کتاب سے اہم نکات—‏حصہ اوّل

یسعیاہ کی کتاب سے اہم نکات—‏حصہ اوّل

یہوواہ کا کلام زندہ ہے

یسعیاہ کی کتاب سے اہم نکات—‏حصہ اوّل

‏”‏مَیں کس کو بھیجوں اور ہماری طرف سے کون جائے گا؟‏“‏ یہوواہ خدا کی اس دعوت کے جواب میں آموص کا بیٹا یسعیاہ جواب دیتا ہے:‏ ”‏مَیں حاضر ہوں مجھے بھیج۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۱:‏۱؛‏ ۶:‏۸‏)‏ یوں اُسے ایک نبی مقرر کر دیا جاتا ہے۔‏ نبی کے طور پر یسعیاہ کے سارے کام اُس کے نام کی حامل کتاب میں درج ہیں۔‏

یسعیاہ نبی نے خود اس کتاب کو تحریر کِیا ہے۔‏ یہ کتاب ۷۷۸ قبل‌ازمسیح سے لیکر ۷۳۲ قبل‌ازمسیح کے بعد تک کے ۴۶ سالوں کے واقعات بیان کرتی ہے۔‏ اگرچہ اس میں یہوداہ،‏ اسرائیل اور اردگرد کی قوموں کے خلاف عدالتی پیغام درج ہیں توبھی اس کا بنیادی موضوع سزا دینا نہیں ہے۔‏ اس کی بجائے یہ بیان کرتی ہے کہ ’‏نجات یہوواہ خدا کی طرف سے ہے۔‏‘‏ (‏یسعیاہ ۲۵:‏۹‏)‏ درحقیقت،‏ نام یسعیاہ کا مطلب ہی ”‏یہوواہ کی نجات“‏ ہے۔‏ اس کتاب کا حصہ اوّل یسعیاہ ۱:‏۱–‏۳۵:‏۱۰ کے اہم نکات پر بات کرے گا۔‏

‏”‏صرف ایک بقیہ واپس آئے گا“‏

‏(‏یسعیاہ ۱:‏۱–‏۱۲:‏۶‏)‏

یسعیاہ کی کتاب کے پہلے پانچ ابواب میں درج نبوّتی پیغام یسعیاہ کو نبی مقرر کرنے سے پہلے تحریر کِیا گیا یا بعد میں بائبل اس کی بابت کچھ نہیں کہتی۔‏ (‏یسعیاہ ۶:‏۶-‏۹‏)‏ تاہم،‏ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہوداہ اور یروشلیم ”‏تلوے سے لیکر چاندی تک“‏ روحانی طور پر بیمار ہیں۔‏ (‏یسعیاہ ۱:‏۶‏)‏ بُت‌پرستی بہت بڑھ گئی ہے۔‏ پیشوا بہت خراب ہو گئے ہیں۔‏ عورتیں مغرور ہو گئی ہیں اور لوگ سچے خدا کی عبادت اُس کی مرضی کے مطابق نہیں کر رہے۔‏ یسعیاہ کو اُن لوگوں کو باربار پیغام سنانے کا حکم دیا جاتا ہے جو نہ تو ان باتوں کو سمجھنا اور نہ ہی ان کا علم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‏

یہوداہ کو اسرائیل اور اُسور کی اتحادی فوجوں سے حملے کا خطرہ ہے۔‏ یہوواہ خدا یسعیاہ اور اُسکے بچوں کو ”‏نشانوں اور عجائب‌وغرائب“‏ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یہوداہ کو یقین‌دہانی کراتا ہے کہ اسرائیل اور اُسور کا مشترکہ حملہ کامیاب نہیں ہوگا۔‏ (‏یسعیاہ ۸:‏۱۸‏)‏ دائمی امن صرف ”‏سلامتی کا شاہزادہ“‏ ہی لائے گا۔‏ (‏یسعیاہ ۹:‏۶،‏ ۷‏)‏ یہوواہ خدا اُسور کے خلاف بھی عدالتی کارروائی کرے گا۔‏ وہ اُسور کو اپنے ”‏قہر کے عصا“‏ کے طور پر استعمال کرے گا۔‏ یہوداہ انجام‌کار اسیری میں چلا جائے گا لیکن ”‏صرف ایک بقیہ واپس آئے گا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۱۰:‏۵،‏ ۲۱،‏ ۲۲‏)‏ ”‏یسیؔ کے تنے“‏ سے نکلنے والی ایک علامتی ”‏کونپل“‏ کی حکمرانی کے تحت ہی حقیقی انصاف ممکن ہوگا۔‏—‏یسعیاہ ۱۱:‏۱‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۱:‏۸،‏ ۹‏—‏صیون کی بیٹی ’‏تاکستان میں جھونپڑی اور ککڑی کے کھیت میں چھپر‘‏ کی مانند کیسے چھوڑ دی جائے گی؟‏ اس کا مطلب ہے کہ اُسوری حملے کے دوران،‏ یروشلیم بالکل ویسے ہی بےیارومددگار ہو جائے گا جیسے تاکستان میں کوئی جھونپڑی یا ککڑی کے کھیت میں کوئی چھپر بڑی آسانی سے گر سکتا ہے۔‏ لیکن یہوواہ اُس کی مدد کو پہنچتا ہے اور اُسے سدوم اور عمورہ کی مانند نہیں ہونے دیتا۔‏

۱:‏۱۸‏—‏اس آیت میں درج الفاظ ”‏آؤ ہم باہم حجت کریں“‏ سے کیا مُراد ہے؟‏ یہاں کسی معاملے پر بات‌چیت کرنے اور کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کی دعوت نہیں دی جا رہی۔‏ بلکہ آیت ایک ایسی صورتحال کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس میں راستی سے عدالت کرنے والا خدا یہوواہ اسرائیل کو اپنے طورطریقوں کو بدلنے اور پاک‌صاف ہونے کا موقع دے رہا ہے۔‏

۶:‏۸ الف—‏یہاں اسمِ ضمیر ”‏مَیں“‏ اور ”‏ہماری“‏ کیوں استعمال کئے گئے ہیں؟‏ اسمِ‌ضمیر ”‏مَیں“‏ یہوواہ خدا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏ جمع میں استعمال ہونے والا اسمِ‌ضمیر ”‏ہماری“‏ ظاہر کرتا ہے کہ یہوواہ خدا کے ساتھ کوئی اَور بھی موجود ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ یہ اُس کا ”‏اکلوتا بیٹا“‏ یسوع مسیح ہی ہے۔‏—‏یوحنا ۱:‏۱۴؛‏ ۳:‏۱۶‏۔‏

۶:‏۱۱‏—‏جب یسعیاہ نے کہا:‏ ”‏اَے خداوند یہ کب تک“‏ تو اس کا کیا مطلب تھا؟‏ یسعیاہ یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ اُسے کب تک بےحس لوگوں کو یہوواہ کا پیغام سنانا ہوگا۔‏ بلکہ وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ لوگوں کی روحانی طور پر بیمار حالت کب تک یہوواہ کے نام پر رسوائی کا باعث بنے گی۔‏

۷:‏۳،‏ ۴‏—‏یہوواہ نے شریر بادشاہ آخز کو رہائی کیوں بخشی تھی؟‏ اُسور اور اسرائیل کے بادشاہ نے یہوداہ کے بادشاہ آخز کو تخت سے اُتارنے اور اُس کی جگہ طابیل کے بیٹے کو ایک کٹھ‌پتلی بادشاہ بنانے کا منصوبہ بنایا جوکہ داؤد کے شاہی گھرانے سے نہیں تھا۔‏ یہ شیطانی منصوبہ داؤد کیساتھ کئے گئے بادشاہتی عہد کی تکمیل میں رکاوٹ بن سکتا تھا۔‏ یہوواہ خدا نے اس موعودہ نسل کو بچانے کے لئے جس میں سے ’‏سلامتی کے شہزادے‘‏ نے آنا تھا آخز بادشاہ کو رہائی بخشی۔‏—‏یسعیاہ ۹:‏۶‏۔‏

۷:‏۸‏—‏افرائیم ۶۵ سال کے اندر اندر کیسے ”‏کٹ جائے گا“‏؟‏ یسعیاہ کے یہ پیشینگوئی کرنے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد ”‏شاہِ‌اؔسرائیل فقحؔ کے ایّام“‏ میں لوگوں کا دس قبیلوں پر مشتمل بادشاہت سے نکالا جانا اور اجنبی لوگوں کا اس مُلک میں آباد کِیا جانا شروع ہو گیا۔‏ (‏۲-‏سلاطین ۱۵:‏۲۹‏)‏ اس کے بعد یہ سلسلہ سنحیرب کے بیٹے اُسوری بادشاہ اسرحدون کے دَور تک جاری رہا۔‏ (‏۲-‏سلاطین ۱۷:‏۶؛‏ عزرا ۴:‏۱،‏ ۲؛‏ یسعیاہ ۳۷:‏۳۷،‏ ۳۸‏)‏ اُسوریوں کا سامریہ کے لوگوں کو یہاں آباد کرنا ۶۵ سال تک جاری رہا جس کا ذکر یسعیاہ ۷:‏۸ میں کِیا گیا ہے۔‏

۱۱:‏۱،‏ ۱۰‏—‏یسوع مسیح کیسے ”‏یسیؔ کے تنے سے ایک کونپل“‏ ہونے کے ساتھ ساتھ ’‏یسیؔ کی جڑ‘‏ بھی ہو سکتا ہے؟‏ (‏رومیوں ۱۵:‏۱۲‏)‏ یسوع مسیح جسمانی سلسلۂ‌نسب کے لحاظ سے ”‏یسیؔ کے تنے سے ایک کونپل“‏ تھا۔‏ وہ یسی کے بیٹے داؤد کے ذریعے یسی کی نسل سے تھا۔‏ (‏متی ۱:‏۱-‏۶؛‏ لوقا ۳:‏۲۳-‏۳۲‏)‏ تاہم یسوع کا شاہانہ اختیار حاصل کرنا اُس کے آباؤاجداد کے ساتھ اُس کے رشتے پر اثرانداز ہوتا ہے۔‏ فرمانبردار انسانوں کو زمین پر ہمیشہ کی زندگی دینے کا اختیار حاصل کرنے کے بعد،‏ یسوع مسیح اُن کے لئے ”‏ابدیت کا باپ“‏ بن جاتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۹:‏۶‏)‏ اس لحاظ سے وہ یسی سمیت اپنے تمام آباؤاجداد کی ”‏جڑ“‏ بھی ہے۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱:‏۳‏۔‏ ہمارا خالق ہم سے جو تقاضا کرتا ہے اُس کے مطابق زندگی گزارنے سے انکار کرنا بیل اور گدھے سے بھی کم علم رکھنے کے مترادف ہے۔‏ اس کی دوسری جانب،‏ یہوواہ خدا نے ہمارے لئے جوکچھ کِیا ہے اُس کی قدر کرنا ہمیں لاعلمی ظاہر کرنے یا اُسے چھوڑ دینے سے باز رکھے گا۔‏

۱:‏۱۱-‏۱۳‏۔‏ ریاکاری سے پُر مذہبی رسومات اور رسمی دُعائیں یہوواہ خدا کو ناپسند ہیں۔‏ ہمارے کاموں اور دُعاؤں کو درست دلی میلان سے تحریک ملنی چاہئے۔‏

۱:‏۲۵-‏۲۷؛‏ ۲:‏۲؛‏ ۴:‏۲،‏ ۳‏۔‏ تائب بقیے کی یروشلیم واپسی اور سچی پرستش کی بحالی کے ساتھ ہی یہوداہ کی غلامی اور بربادی نے ختم ہو جانا تھا۔‏ یہوواہ خدا تائب خطاکاروں پر رحم کرتا ہے۔‏

۲:‏۲-‏۴‏۔‏ بادشاہی کی مُنادی اور شاگرد بنانے کے کام میں ہماری پُرجوش شرکت مختلف قوموں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ صلح سے رہنے کے طورطریقے سیکھنے میں مدد دیتی ہے۔‏

۴:‏۴‏۔‏ یہوواہ خدا بداخلاقی اور خون کے جرم کو دُور کر دے گا یا دھو ڈالے گا۔‏

۵:‏۱۱-‏۱۳‏۔‏ تفریح کا مناسب انتخاب کرنے میں ناکام رہنے کا مطلب حاصل‌کردہ علم کے مطابق چلنے سے انکار کرنا ہے۔‏—‏رومیوں ۱۳:‏۱۳‏۔‏

۵:‏۲۱-‏۲۳‏۔‏ مسیحی بزرگوں یا نگہبانوں کو ”‏اپنی نظر میں دانشمند“‏ بننے سے گریز کرنا چاہئے۔‏ اُنہیں ”‏مے پینے“‏ کے سلسلے میں بھی توازن برقرار رکھنا چاہئے۔‏ اس کے علاوہ اُنہیں طرفداری دکھانے سے بھی بچنا چاہئے۔‏

۱۱:‏۳ الف۔‏ یسوع مسیح کا نمونہ اور تعلیمات ظاہر کرتی ہیں کہ یہوواہ کا خوف خوشی بخشتا ہے۔‏

‏”‏[‏یہوواہ]‏ یؔعقوب پر رحم فرمائے گا“‏

‏(‏یسعیاہ ۱۳:‏۱–‏۳۵:‏۱۰‏)‏

یسعیاہ کے ۱۳ تا ۲۳ ابواب قوموں کے خلاف عدالتی فیصلے ہیں۔‏ تاہم،‏ اسرائیل کو مُلک میں پھر آباد کرنے سے ”‏[‏یہوواہ]‏ یعقوؔب پر رحم فرمائے گا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۱۴:‏۱‏)‏ یسعیاہ ۲۴ تا ۲۷ ابواب میں درج یہوداہ کی بربادی کے پیغام کے ساتھ بحالی کا وعدہ بھی کِیا گیا ہے۔‏ یہوواہ خدا ”‏اؔفرائیم [‏اسرائیل]‏ کے متوالوں“‏ پر غضب‌ناک ہے کیونکہ اُنہوں نے ارام کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے۔‏ یہوداہ کے ’‏نبیوں اور کاہنوں‘‏ کے ساتھ یہوواہ خدا اس لئے ناراض ہے کیونکہ اُنہوں نے اُسور کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۲۸:‏۱،‏ ۷‏)‏ ”‏اؔریئیل [‏یروشلیم]‏“‏ کے لوگوں پر اس لئے افسوس کِیا گیا ہے کیونکہ وہ پناہ کے لئے ”‏مصرؔ کو جاتے ہیں۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۲۹:‏۱؛‏ ۳۰:‏۱،‏ ۲‏)‏ اس تمام کے باوجود یہوواہ خدا پر ایمان رکھنے والے لوگوں کے لئے نجات کی پیشینگوئی کی گئی ہے۔‏

جس طرح ”‏جوان شیرببر اپنے شکار پر سے غراتا ہے“‏ اسی طرح یہوواہ ”‏کوہِ‌صیوؔن“‏ کی نگہبانی کرے گا۔‏ (‏یسعیاہ ۳۱:‏۴‏)‏ اس کے علاوہ یہ وعدہ بھی کِیا گیا ہے:‏ ”‏دیکھ ایک بادشاہ صداقت سے سلطنت کرے گا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳۲:‏۱‏)‏ اگرچہ اُسوریوں کی یہوداہ کو دی جانے والی دھمکی کو سُن کر ”‏صلح کے ایلچی“‏ بھی ”‏پھوٹ‌پھوٹ کر روتے ہیں“‏ توبھی یہوواہ خدا وعدہ فرماتا ہے کہ اُس کے لوگ شفا پائیں گے کیونکہ ”‏اُن کے گُناہ بخشے جائیں گے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳۳:‏۷،‏ ۲۲-‏۲۴‏)‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا قہر تمام قوموں پر اور اُس کا غضب اُن کی سب فوجوں پر ہے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳۴:‏۲‏)‏ یہوداہ ہمیشہ تک ویران نہ رہے گا بلکہ ”‏بیابان اور ویرانہ شادمان ہوں گے اور دشت خوشی کرے گا اور نرگس کی مانند شگفتہ ہوگا۔‏“‏—‏یسعیاہ ۳۵:‏۱‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۱۳:‏۱۷‏—‏کس لحاظ سے مادی چاندی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور سونے سے خوش نہیں ہوتے تھے؟‏ مادی اور فارسی فتح کو جنگ کے مالِ‌غنیمت پر ترجیح دیتے تھے۔‏ یہ خورس کے معاملے میں سچ ثابت ہوا جس نے اسیری سے واپس لوٹنے والے یہودیوں کو سونے اور چاندی کے وہ تمام برتن واپس کر دئے جو نبوکدنضر نے یہوواہ کی ہیکل سے لُوٹے تھے۔‏

۱۴:‏۱،‏ ۲‏—‏یہوواہ کے لوگ کس طرح ”‏اپنے اسیر کرنے والوں کو اسیر کریں گے اور اپنے ظلم کرنے والوں پر حکومت کریں گے“‏؟‏ یہ دانی‌ایل کے سلسلے میں سچ ثابت ہوا،‏ جسے مادیوں اور فارسیوں کے تحت بابل میں اُونچے عہدے پر فائز کِیا گیا۔‏ یہ آستر کے حق میں بھی پورا ہوا جسے فارس کی ملکہ بنا دیا گیا۔‏ اس کے علاوہ،‏ مردکی کو بھی فارسیوں کی سلطنت میں وزیر مقرر کِیا گیا تھا۔‏

۲۰:‏۲-‏۵‏—‏کیا واقعی یسعیاہ تین برس تک مکمل طور پر ننگا پھرتا رہا؟‏ یسعیاہ نے غالباً اپنا چوغہ اُتار دیا تھا اور زیرجامہ پہنے پھرتا رہا۔‏ عبرانی لفظ جس کا ترجمہ ”‏ننگا“‏ کِیا گیا ہے وہ ایک شخص کے چوغے کے نیچے پہنے جانے والے کپڑوں کی طرف بھی اشارہ کر سکتا ہے۔‏

۲۱:‏۱‏—‏کونسے علاقے کو ”‏سمندر کے بیابان“‏ کہا گیا ہے؟‏ ‏(‏کیتھولک ترجمہ‏)‏ اگرچہ بابل کے مُلک کے نزدیک کوئی بھی سمندر نہیں تھا توبھی اس علاقے کو سمندر کا بیابان کہا گیا ہے۔‏ کیونکہ دریائےفرات اور دریائےدِجلہ کی وجہ سے ہر سال اس علاقے میں سیلاب آنے سے یہاں دلدلی ”‏سمندر“‏ بن جاتا تھا۔‏

۲۴:‏۱۳-‏۱۶‏—‏یہودی کس طرح ”‏لوگوں کے درمیان یوں [‏ہوں گے]‏ جیسا زیتون کا درخت جھاڑا جائے۔‏ جیسے انگور توڑنے کے بعد خوشہ‌چینی“‏؟‏ جس طرح کٹائی کے بعد درخت پر یا تاکستان میں کچھ پھل باقی رہ جاتا ہے اُسی طرح بہت تھوڑے لوگ یروشلیم اور یہوداہ کی تباہی سے بچیں گے۔‏ باقی بچنے والے لوگ جہاں کہیں جائیں گے وہ ’‏مشرق [‏بابل]‏ میں یہوواہ کی اور سمندر [‏بحیرۂروم]‏ کے جزیروں میں یہوواہ کے نام کی جو اؔسرائیل کا خدا ہے‘‏ تمجید کریں گے۔‏

۲۴:‏۲۱‏—‏”‏آسمانی لشکر“‏ اور ”‏زمین کے بادشاہوں“‏ سے کیا مُراد ہے؟‏ ‏”‏آسمانی لشکر“‏ شریر روحانی فوجوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏ ’‏زمین کے بادشاہ‘‏ زمینی حکمران ہیں جو شیاطین کے زیرِاثر کام کرتے ہیں۔‏—‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏۔‏

۲۵:‏۷‏—‏وہ ”‏پردہ .‏ .‏ .‏ جو تمام لوگوں پر پڑا ہے“‏ اور وہ ”‏نقاب .‏ .‏ .‏ جو سب قوموں پر لٹک رہا ہے“‏ کیا ہے؟‏ یہ موازنہ ہماری توجہ انسان کے دو بڑے دشمنوں گُناہ اور موت کی طرف دلاتا ہے۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱۳:‏۲۰-‏۲۲؛‏ ۱۴:‏۲۲،‏ ۲۳؛‏ ۲۱:‏۱-‏۹‏۔‏ یہوواہ خدا کا نبوّتی کلام ہمیشہ پورا ہوتا ہے جیسے یہ بابل کے سلسلے میں پورا ہوا تھا۔‏

۱۷:‏۷،‏ ۸‏۔‏ اگرچہ زیادہ‌تر اسرائیلیوں نے کوئی توجہ نہ دی توبھی بعض نے یہوواہ خدا پر اُمید رکھی۔‏ اسی طرح،‏ مسیحی دُنیا کے بعض لوگ بادشاہتی پیغام کو قبول کرتے ہیں۔‏

۲۸:‏۱-‏۶‏۔‏ اُسور نے اسرائیل پر غالب آ جانا تھا مگر یہوواہ خدا نے بعض وفادار لوگوں کو بچانا تھا۔‏ یہوواہ کے عدالتی فیصلے راستبازوں کو نااُمید نہیں کرتے۔‏

۲۸:‏۲۳-‏۲۹‏۔‏ یہوواہ خدا خلوصدل لوگوں کی اُن کے حالات کے مطابق تربیت کرتا اور جہاں ضروری ہو تنبیہ فراہم کرتا ہے۔‏

۳۰:‏۱۵‏۔‏ یہوواہ کی طرف سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہمیں انسانی انتظام کے ذریعے نجات پانے کی بجائے ”‏خاموش بیٹھنے“‏ کی ضرورت ہے۔‏ ”‏خاموش“‏ رہنے یا خوفزدہ نہ ہونے سے ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا بھروسا یہوواہ خدا پر ہے اور وہی ہم کو بچائے گا۔‏

۳۰:‏۲۰،‏ ۲۱‏۔‏ خدا کے الہامی کلام بائبل اور ”‏عقلمند اور دیانتدار نوکر“‏ جماعت کے ذریعے ہم یہوواہ کو ’‏دیکھنے‘‏ اور اُس کی آواز ’‏سننے‘‏ کے قابل ہوتے ہیں۔‏—‏متی ۲۴:‏۴۵‏۔‏

یسعیاہ کی پیشینگوئی خدا کے کلام پر ہمارے اعتماد کو مضبوط کرتی ہے

ہم یسعیاہ کی کتاب میں موجود خدا کے پیغام کے لئے کتنے شکرگزار ہو سکتے ہیں!‏ جو پیشینگوئیاں پوری ہو چکی ہیں وہ ہمارے اس اعتماد کو مضبوط کرتی ہیں کہ ’‏یہوواہ خدا کے مُنہ سے نکلنے والا پیغام بےانجام اُس کے پاس واپس نہ لوٹے گا۔‏‘‏—‏یسعیاہ ۵۵:‏۱۱‏۔‏

مسیحا کی بابت پیشینگوئیوں کے بارے میں کیا ہے جوکہ یسعیاہ ۹:‏۷ اور ۱۱:‏۱-‏۵،‏ ۱۰ میں درج ہیں؟‏ کیا یہ یہوواہ خدا کے نجات کے بندوبست پر ہمارے ایمان کو مضبوط نہیں کرتیں؟‏ اِس کتاب میں ایسی پیشینگوئیاں بھی درج ہیں جن کی بڑی تکمیل ہمارے زمانہ میں ہو رہی ہے یا ابھی ہونا باقی ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۲:‏۲-‏۴؛‏ ۱۱:‏۶-‏۹؛‏ ۲۵:‏۶-‏۸؛‏ ۳۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ واقعی،‏ یسعیاہ کی کتاب اس بارے میں مزید ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ”‏یہوواہ کا کلام زندہ“‏ ہے!‏—‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

یسعیاہ اور اُس کے بچے اسرائیل میں ’‏نشان اور عجائب‌وغرائب‘‏ تھے

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

یروشلیم کو ’‏تاکستان میں جھونپڑی‘‏ کی مانند بننا تھا

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

قوموں کے لوگوں کو ”‏اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں“‏ بنانے میں کیسے مدد دی جا رہی ہے؟‏