مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ خدا کی تنبیہ کو ہمیشہ قبول کریں

یہوواہ خدا کی تنبیہ کو ہمیشہ قبول کریں

یہوواہ خدا کی تنبیہ کو ہمیشہ قبول کریں

‏”‏[‏یہوواہ]‏ کی تنبیہ کو حقیر نہ جان۔‏“‏—‏امثال ۳:‏۱۱‏۔‏

۱.‏ ہمیں خدا کی تنبیہ کو کیوں قبول کرنا چاہئے؟‏

ہم میں سے ہر ایک کو خدا کی تنبیہ قبول کرنی چاہئے۔‏ مگر کیوں؟‏ اسرائیل کے بادشاہ سلیمان نے اِس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ [‏یہوواہ]‏ کی تنبیہ کو حقیر نہ جان اور اُس کی ملامت سے بیزار نہ ہو۔‏ کیونکہ [‏یہوواہ]‏ اُسی کو ملامت کرتا ہے جس سے اُسے محبت ہے۔‏ جیسے باپ اُس بیٹے کو جس سے وہ خوش ہے۔‏“‏ (‏امثال ۳:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ آپ کا آسمانی باپ آپ کو اِس لئے تنبیہ کرتا ہے کیونکہ اُسے آپ سے محبت ہے۔‏

۲.‏ ”‏تنبیہ“‏ کی تعریف کریں،‏ اور ایک شخص کو کیسے تنبیہ کی جا سکتی ہے؟‏

۲ لفظ ”‏تنبیہ“‏ تادیب،‏ اصلاح،‏ ہدایت اور تعلیم‌وتربیت کا مفہوم پیش کرتا ہے۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏بالفعل ہر قِسم کی تنبیہ خوشی کا نہیں بلکہ غم کا باعث معلوم ہوتی ہے مگر جو اُس کو سہتےسہتے پُختہ ہو گئے ہیں اُن کو بعد میں چین کے ساتھ راستبازی کا پھل بخشتی ہے۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۱۱‏)‏ خدا کی تنبیہ کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا آپ کو راست روش پر چلنے اور پاک خدا یہوواہ کے نزدیک جانے میں مدد دے سکتا ہے۔‏ (‏زبور ۹۹:‏۵‏)‏ آپ کی یہ اصلاح مسیحی بہن‌بھائیوں کی طرف سے اور عبادت سے سیکھی جانے والی باتوں کے ذریعے ہو سکتی ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ خدا کے کلام اور ’‏دیانتدار داروغہ‘‏ کی طرف سے حاصل ہونے والی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے بھی آپ کی اصلاح ہو سکتی ہے۔‏ (‏لوقا ۱۲:‏۴۲-‏۴۴‏)‏ جب اِن طریقوں سے آپ کی توجہ کسی حلقے میں بہتری لانے کی طرف دلائی جاتی ہے تو آپ کسقدر شکرگزار ہو سکتے ہیں!‏ لیکن سنگین گُناہ کی صورت میں کس قِسم کی تنبیہ درکار ہو سکتی ہے؟‏

کلیسیا سے خارج کرنے کی وجہ

۳.‏ کس صورت میں کسی شخص کو کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے؟‏

۳ خدا کے خادم بائبل اور مسیحی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔‏ اُن کی عبادتوں اور کنونشنوں پر یہوواہ خدا کے معیاروں کے بارے میں بات‌چیت کی جاتی ہے۔‏ اس طرح وہ خدا کے تقاضوں سے اچھی طرح واقف ہونے کے قابل ہوتے ہیں۔‏ اگر کوئی شخص سنگین گُناہ میں پڑ جاتا ہے اور توبہ نہیں کرتا تو اس صورت میں اُسے کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے۔‏

۴،‏ ۵.‏ خارج کرنے کی بابت کونسی صحیفائی مثال یہاں پیش کی گئی ہے،‏ اور کلیسیا کو اُس شخص کو بحال کرنے کی تاکید کیوں کی گئی تھی؟‏

۴ خارج کرنے کی بابت ایک صحیفائی مثال پر غور کیجئے۔‏ کرنتھس کی کلیسیا میں ایسی حرامکاری ہو رہی تھی ”‏جیسی غیرقوموں میں بھی نہیں ہوتی یعنی کہ ایک آدمی اپنے باپ کی بیوی کو رکھتا“‏ تھا۔‏ پولس رسول نے کرنتھیوں کو تاکید کی کہ ”‏ایسے شخص کو جسم کی ہلاکت کے لئے شیطان کے حوالے کِیا جائے تاکہ رُوح کی حفاظت کی جائے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۱-‏۵‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏)‏ جب اُس شخص کو خارج کر دیا تو وہ شیطان کے حوالہ کر دیا گیا اب وہ گنہگار شخص دوبارہ سے شیطان کی دُنیا کا حصہ بن گیا تھا۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ اس شخص کو خارج کر دینے سے کلیسیا سے بُرا جسمانی اثر ختم کر دیا گیا اور اس طرح کلیسیا کے روحانی جذبہ کو برقرار رکھا گیا تاکہ وہ خدا کی خوبیاں ظاہر کرنا جاری رکھے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۲۲؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۱-‏۱۳‏۔‏

۵ کچھ ہی عرصے بعد پولس رسول نے کرنتھس کے مسیحیوں کو اُس شخص کو کلیسیا میں بحال کرنے کی تاکید کی۔‏ مگر کیوں؟‏ پولس رسول نے کہا،‏ تاکہ اِن مسیحیوں پر ”‏شیطان کا .‏ .‏ .‏ داؤ نہ چلے۔‏“‏ اس کے علاوہ،‏ اب وہ شخص توبہ کرکے اخلاقی طور پر پاک‌صاف زندگی بسر کرنے لگا تھا۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۸-‏۱۱‏)‏ اگر کرنتھس کے مسیحی اُسے کلیسیا میں بحال کرنے سے انکار کرتے تو اِن پر شیطان کا داؤ چل جاتا اور وہ شیطان اِبلیس کی مانند سنگدل اور معاف نہ کرنے والے بن جاتے۔‏ پس ایسا لگتا ہے کہ اُنہوں نے جلد ہی اُس تائب شخص کا ’‏قصور معاف کر دیا اور اُسے تسلی دی۔‏‘‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۵-‏۷‏۔‏

۶.‏ کسی شخص کو کلیسیا سے خارج کیوں کِیا جاتا ہے؟‏

۶ کسی شخص کو کلیسیا سے خارج کیوں کِیا جاتا ہے؟‏ اِسلئےکہ یہوواہ خدا کے پاک نام پر رسوائی نہ آئے اور اُس کے لوگوں کی نیک‌نامی بھی برقرار رہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۱:‏۱۴-‏۱۶‏)‏ ایک غیرتائب یعنی توبہ نہ کرنے والے شخص کو کلیسیا سے نکال دینے سے خدا کے معیار اور کلیسیا کی روحانی پاکیزگی برقرار رہتی ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ یہ اُس شخص کے اپنے گُناہ کی سنگینی کو سمجھنے کا باعث بن سکتا ہے۔‏

بحالی کے لئے توبہ ضروری ہے

۷.‏ داؤد پر اپنی خطاؤں کا اقرار نہ کرنے کا کیا اثر ہوا؟‏

۷ سنگین گُناہ کرنے والے اشخاص اگر دل سے توبہ کرتے ہیں تو اُنہیں کلیسیا سے خارج نہیں کِیا جاتا۔‏ بِلاشُبہ،‏ بعض کے لئے دل سے توبہ کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔‏ زبور ۳۲ کو لکھنے والے اسرائیل کے بادشاہ داؤد کی مثال پر غور کیجئے۔‏ یہ زبور بیان کرتا ہے کہ کچھ عرصہ تک داؤد نے بت‌سبع کے ساتھ اپنے سنگین گُناہ اور اسی طرح کے دیگر گُناہوں کا اقرار نہیں کِیا تھا۔‏ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جیسے ایک درخت شدید گرمی میں اپنی تازگی کھو دینے کے بعد مرجھا جاتا ہے اسی طرح اپنے گُناہوں پر شدید جسمانی اور ذہنی اذیت نے داؤد کو تھکا دیا۔‏ مگر جب اُس نے ’‏اپنی خطاؤں کا اقرار کِیا تو یہوواہ خدا نے اُسے معاف کر دیا۔‏‘‏ (‏زبور ۳۲:‏۳-‏۵‏)‏ اس کے بعد داؤد نے یہ گیت گایا:‏ ”‏مبارک ہے وہ آدمی جس کی بدکاری کو [‏یہوواہ]‏ حساب میں نہیں لاتا۔‏“‏ (‏زبور ۳۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ واقعی،‏ خدا کے رحم کا تجربہ کرنا شاندار تھا!‏

۸،‏ ۹.‏ توبہ کا اظہار کن کاموں سے ہوتا ہے،‏ اور ایک خارج‌شُدہ شخص کے بحال ہونے کے لئے یہ کتنی اہم ہے؟‏

۸ صاف ظاہر ہے کہ خدا کے رحم سے فائدہ اُٹھانے کیلئے گنہگار شخص کو توبہ کرنی چاہئے۔‏ تاہم،‏ توبہ کرنے کا مطلب نہ تو شرمندہ ہونا اور نہ ہی اپنی غلطی کے دوسروں پر ظاہر ہونے سے خوفزدہ ہونا ہے۔‏ دراصل ”‏توبہ کرنے“‏ کا مطلب اپنے بُرے چال‌چلن پر پچھتانا اور ”‏اپنی سوچ کو بدلنا“‏ ہے۔‏ ایک تائب شخص ”‏شکستہ اور خستہ دل“‏ ہوتا ہے اور اپنی ”‏غلطی کو دُرست“‏ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔‏—‏زبور ۵۱:‏۱۷؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۷:‏۱۱‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔‏

۹ مسیحی کلیسیا میں بحال ہونے کے لئے توبہ ایک اہم قدم ہے۔‏ ایک مخصوص عرصہ گزر جانے کے بعد ایک خارج‌شُدہ شخص کو خودبخود ہی کلیسیا میں واپس قبول نہیں کر لیا جاتا۔‏ اُس کے بحال ہونے سے پہلے اُس کی دلی حالت میں تبدیلی آنا ضروری ہے۔‏ اُسے یہ احساس ہونا چاہئے کہ اُس کا گُناہ یہوواہ خدا اور کلیسیا پر کتنی رسوائی لایا ہے۔‏ گنہگار شخص کو توبہ کرنے،‏ خلوصدلی سے معافی کے لئے دُعا مانگنے اور اپنے آپ کو خدا کے راست تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔‏ کلیسیا میں بحال ہونے کی درخواست کرتے وقت اُسے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ اُس نے توبہ کر لی ہے اور وہ ”‏توبہ کے موافق کام“‏ کر رہا ہے۔‏—‏اعمال ۲۶:‏۲۰‏۔‏

گُناہوں کا اقرار کیوں کریں؟‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ ہمیں گُناہ کو چھپانے کی کوشش کیوں نہیں کرنی چاہئے؟‏

۱۰ گُناہ کرنے والے بعض اشخاص شاید یہ کہیں:‏ ’‏اگر مَیں اپنے گُناہ کے بارے میں کسی کو بتاؤں گا تو مجھ سے ایسے سوال پوچھے جائیں گے جن سے مجھے شرمندگی ہوگی اور مجھے کلیسیا سے خارج کر دیا جائے گا۔‏ لیکن اگر مَیں کسی کو نہیں بتاؤں گا تو مَیں شرمندگی سے بچ جاؤں گا اور کلیسیا میں کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔‏‘‏ ایسی سوچ رکھنے والا شخص بعض اہم باتوں پر توجہ دینے میں ناکام رہتا ہے۔‏ یہ کونسی باتیں ہیں؟‏

۱۱ یہوواہ ”‏خدایِ‌رحیم اور مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی۔‏ ہزاروں پر فضل کرنے والا۔‏ گُناہ اور تقصیر اور خطا کا بخشنے والا“‏ ہے۔‏ اپنے لوگوں کی اصلاح کرنے کے لئے وہ اُنہیں ”‏مناسب تنبیہ“‏ کرتا ہے۔‏ (‏خروج ۳۴:‏۶،‏ ۷؛‏ یرمیاہ ۳۰:‏۱۱‏)‏ اگر آپ سنگین گُناہ کرنے کے بعد اُسے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کے لئے خدا کے رحم سے فائدہ اُٹھانا ممکن نہیں۔‏ یہوواہ خدا آپ کے گُناہ سے واقف ہے اور وہ اسے نظرانداز نہیں کرتا۔‏—‏امثال ۱۵:‏۳؛‏ حبقوق ۱:‏۱۳‏۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ اگر آپ اپنے گُناہ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا واقع ہو سکتا ہے؟‏

۱۲ اگر آپ نے کوئی سنگین گُناہ کِیا ہے تو اس کا اقرار کرنا نیک ضمیر حاصل کرنے میں آپ کی مدد کر سکتا ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۸-‏۲۰‏)‏ لیکن اس کا اقرار نہ کرنا آپ کے ضمیر کو آلودہ کر سکتا ہے جس کی وجہ سے آپ گُناہ کرنے کی عادت میں پڑ سکتے ہیں۔‏ یاد رکھیں کہ آپ کا گُناہ صرف انسانوں یا کلیسیا کے خلاف ہی نہیں بلکہ یہوواہ خدا کے خلاف بھی ہے۔‏ زبورنویس نے گیت گایا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا تخت آسمان پر ہے۔‏ اُس کی آنکھیں بنی‌آدم کو دیکھتی اور اُس کی پلکیں اُن کو جانچتی ہیں۔‏ [‏یہوواہ]‏ صادق کو پرکھتا ہے پر شریر اور ظلم دوست سے اُس کی رُوح کو نفرت ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۱:‏۴،‏ ۵‏۔‏

۱۳ یہوواہ خدا کسی بھی ایسے شخص کو برکت نہیں دے گا جو اپنے سنگین گُناہ کو چھپانے اور مسیحی کلیسیا میں رہنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ (‏یعقوب ۴:‏۶‏)‏ پس اگر آپ گُناہ میں پڑ گئے ہیں اور اب غلطی کی دُرستی کرنا چاہتے ہیں تو اس کا اقرار کرنے سے نہ ہچکچائیں۔‏ بصورتِ‌دیگر،‏ جب آپ اپنے گُناہ سے متعلق سنگین معاملات کے بارے میں مشورت پڑھیں یا سنیں گے تو آپ کا ضمیر آپ کو ملامت کرے گا۔‏ اِس کے علاوہ،‏ یہوواہ خدا ساؤل کی طرح اپنی رُوح آپ سے جُدا کر سکتا ہے۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۶:‏۱۴‏)‏ خدا کی رُوح کے جُدا ہونے کے بعد آپ اَور سنگین گُناہوں میں پڑ سکتے ہیں۔‏

کلیسیائی بزرگوں پر اعتماد کریں

۱۴.‏ ایک گنہگار شخص کو یعقوب ۵:‏۱۴،‏ ۱۵ میں درج مشورت پر کیوں عمل کرنا چاہئے؟‏

۱۴ ایک تائب گنہگار کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏ اُسے چاہئے کہ وہ ”‏کلیسیا کے بزرگوں کو بلائے اور وہ [‏یہوواہ]‏ کے نام سے اُس کو تیل مل کر اُس کے لئے دُعا کریں۔‏ جو دُعا ایمان کے ساتھ ہوگی اُس کے باعث بیمار بچ جائے گا اور [‏یہوواہ]‏ اُسے اُٹھا کھڑا کرے گا۔‏“‏ (‏یعقوب ۵:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ کلیسیائی نگہبانوں یا بزرگوں کے پاس جانا ”‏توبہ کے موافق پھل“‏ لانے کا ایک طریقہ ہے۔‏ (‏متی ۳:‏۸‏)‏ یہ وفادار اور مہربان اشخاص ’‏یہوواہ کے نام سے اُس کو تیل مل کر اُس کے لئے دُعا کریں گے۔‏‘‏ تازگی‌بخش تیل کی طرح بائبل سے دی جانے والی اُن کی مشورت دل سے توبہ کرنے والے شخص کو تسلی دے گی۔‏—‏یرمیاہ ۸:‏۲۲‏۔‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ مسیحی بزرگ حزقی‌ایل ۳۴:‏۱۵،‏ ۱۶ میں درج خدا کے نمونے کی نقل کیسے کرتے ہیں؟‏

۱۵ ہمارے چوپان یہوواہ خدا نے ۵۳۷ قبل‌ازمسیح میں یہودیوں کو بابل کی اسیری سے رِہا کرانے اور پھر ۱۹۱۹ عیسوی میں روحانی اسرائیل کو ’‏بڑے بابل‘‏ کی غلامی سے آزاد کرانے سے محبت کا کیا ہی شاندار نمونہ قائم کِیا ہے!‏ (‏مکاشفہ ۱۷:‏۳-‏۵؛‏ گلتیوں ۶:‏۱۶‏)‏ ایسا کرنے سے اُس نے اپنے اِس وعدے کو پورا کِیا:‏ ”‏مَیں ہی اپنے گلّہ کو چراؤں گا اور اُن کو لٹاؤں گا .‏ .‏ .‏ مَیں گم‌شُدہ کی تلاش کروں گا اور خارج‌شُدہ کو واپس لاؤں گا اور شکستہ کو باندھوں گا اور بیماروں کو تقویت دُونگا۔‏“‏—‏حزقی‌ایل ۳۴:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

۱۶ یہوواہ خدا نے اپنی علامتی بھیڑوں کو چرایا،‏ انہیں محفوظ جگہ پر لٹایا اور گم‌شُدہ کی تلاش بھی کی۔‏ اسی طرح مسیحی چرواہے خدا کے گلّہ کو روحانی طور پر چراتے اور اس کی حفاظت کرتے ہیں۔‏ وہ کلیسیا سے دُور چلی جانے والی بھیڑوں کی تلاش کرتے ہیں۔‏ جیسے خدا ’‏شکستہ کو باندھتا‘‏ ہے ویسے ہی کلیسیائی بزرگ کسی کے قول‌وفعل سے زخمی ہو جانے والی بھیڑوں کو ’‏باندھتے‘‏ یعنی اُن کی مرہم‌پٹی کرتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ جیسے خدا ”‏بیماروں کو تقویت“‏ دیتا ہے ویسے ہی بزرگ غلطی کرنے والے اشخاص کو روحانی طور پر مدد دیتے ہیں۔‏

چرواہوں کا مدد کرنے کا طریقہ

۱۷.‏ ہمیں بزرگوں سے روحانی مدد حاصل کرنے سے کیوں نہیں ہچکچانا چاہئے؟‏

۱۷ بزرگ خوشی سے اس مشورت پر عمل کرتے ہیں:‏ ”‏خوف کھاکر رحم کرو۔‏“‏ (‏یہوداہ ۲۳‏)‏ جنسی بداخلاقی میں پڑ کر بعض مسیحیوں نے سنگین گُناہ کِیا ہے۔‏ لیکن اگر وہ دل سے تائب ہیں تو وہ روحانی طور پر ان کی مدد کرنے کے خواہشمند بزرگوں سے رحم اور محبت سے پیش آنے کی توقع کر سکتے ہیں۔‏ پولس رسول نے خود کو ان بزرگوں میں شامل کرتے ہوئے لکھا:‏ ”‏یہ نہیں کہ ہم ایمان کے بارے میں تُم پر حکومت جتاتے ہیں بلکہ خوشی میں تمہارے مددگار ہیں۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۴‏)‏ پس بزرگوں سے روحانی مدد حاصل کرنے سے کبھی نہ ہچکچائیں۔‏

۱۸.‏ بزرگ خطاکاروں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں؟‏

۱۸ اگر آپ نے کوئی سنگین گُناہ کِیا ہے تو آپ بزرگوں پر کیوں اعتماد کر سکتے ہیں؟‏ اسلئےکہ بنیادی طور پر وہی خدا کے گلّہ کے چرواہے ہیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۱-‏۴‏)‏ کوئی بھی پُرمحبت چرواہا اپنی بھیڑ کے زخمی ہو جانے پر اُسے مارتا نہیں۔‏ اسی طرح بزرگ خطاکاروں کو مجرم قرار دے کر سزا دینے کی بجائے اُنہیں روحانی طور پر بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏یعقوب ۵:‏۱۳-‏۲۰‏)‏ بزرگوں کو ”‏گلّہ پر ترس“‏ کھاتے ہوئے اُن کی عدالت کرنی چاہئے۔‏ (‏اعمال ۲۰:‏۲۹،‏ ۳۰؛‏ یسعیاہ ۳۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ دیگر مسیحیوں کی طرح بزرگوں کو بھی ’‏انصاف کرنے،‏ رحم‌دلی کو عزیز رکھنے اور خدا کے حضور فروتنی سے چلنے‘‏ کی ضرورت ہے۔‏ (‏میکاہ ۶:‏۸‏)‏ ’‏یہوواہ خدا کی چراگاہ کی بھیڑوں‘‏ کی زندگی اور پاک خدمت کے سلسلے میں فیصلے کرتے وقت ایسی خوبیاں ضروری ہیں۔‏—‏زبور ۱۰۰:‏۳‏۔‏

۱۹.‏ کسی شخص کو بحال کرنے کی کوشش کرتے وقت مسیحی بزرگ کیسا رُجحان رکھتے ہیں؟‏

۱۹ مسیحی چرواہے رُوح‌اُلقدس کی مدد سے مقرر کئے جاتے ہیں اور وہ اُس کی راہنمائی میں چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ اگر ”‏کوئی آدمی کسی قصور میں پکڑا“‏ جاتا ہے یعنی اس سے انجانے میں کوئی گُناہ ہو جاتا ہے تو روحانی طور پر لائق اشخاص اُسے ”‏حلم‌مزاجی سے بحال“‏ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱؛‏ اعمال ۲۰:‏۲۸‏)‏ بزرگ حلم‌مزاجی یعنی نرمی کے ساتھ خدا کے اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے اس کی سوچ کو دُرست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک اچھا ڈاکٹر ٹوٹی ہوئی ہڈی کو احتیاط کے ساتھ اپنی جگہ پر بٹھاتا ہے تاکہ ہڈی جڑ بھی جائے اور زیادہ تکلیف بھی نہ ہو۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۱۲‏)‏ بزرگ دُعا اور صحائف پر غوروخوض کرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا رحم دکھایا جائے یا نہیں۔‏ اس لئے بزرگوں کا فیصلہ یہ ظاہر کرے گا کہ یہوواہ خدا اس معاملے کو کیسے دیکھتا ہے۔‏—‏متی ۱۸:‏۱۸‏۔‏

۲۰.‏ کن حالات میں کلیسیا کے سامنے یہ اعلان کرنا ضروری ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کو تنبیہ کی گئی ہے؟‏

۲۰ اگر کسی شخص کے گُناہ کے بارے میں زیادہ‌تر لوگ جانتے ہیں یا جلد جان جائیں گے تو پھر کلیسیا کی نیک‌نامی برقرار رکھنے کے لئے کلیسیا کے سامنے اعلان کرنا مناسب ہوگا۔‏ اگر کلیسیا کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے تو اس صورت میں بھی اعلان کِیا جائے گا۔‏ جب عدالتی تنبیہ پانے والا شخص روحانی طور پر بحال ہو رہا ہوتا ہے تو وہ ایک ایسے زخمی شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کے زخم بھر رہے ہیں اور وہ کچھ وقت کے لئے آزادی سے ہر کام نہیں کر سکتا۔‏ غالباً،‏ کچھ عرصے کے لئے تائب شخص کے لئے اجلاسوں پر تبصرے پیش کرنے کی بجائے سننا زیادہ فائدہ‌مند ہوگا۔‏ بزرگ اُسے دوبارہ مضبوط ”‏ایمان“‏ پیدا کرنے اور اپنی مسیحی شخصیت کے مختلف پہلوؤں میں بہتری لانے میں مدد دینے کے لئے بائبل مطالعہ کرانے کا بندوبست کر سکتے ہیں۔‏ (‏ططس ۲:‏۲‏)‏ یہ سب کچھ خطاکار کو سزا دینے کی بجائے اُس سے محبت کی بِنا پر کِیا جاتا ہے۔‏

۲۱.‏ بعض مسائل کو کیسے حل کِیا جا سکتا ہے؟‏

۲۱ بزرگ مختلف طریقوں سے روحانی طور پر مدد کر سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ اگر ماضی میں شراب‌نوشی کرنے والے کسی شخص نے گواہ بننے کے بعد بھی اکیلے میں ایک یا دو مرتبہ بہت زیادہ شراب پی لی ہے۔‏ یا شاید کوئی شخص پہلے تمباکونوشی کرتا تھا اور گواہ بننے کے بعد اس نے طلب محسوس ہونے پر ایک یا دو دفعہ چھپ کر سگریٹ پی لی ہے۔‏ اگرچہ اُس نے دُعا میں خدا سے معافی کی درخواست کی ہے اور اُسے یقین بھی ہے کہ خدا نے اُسے معاف کر دیا ہے توبھی اُسے کسی بزرگ سے مدد لینی چاہئے تاکہ وہ اس گُناہ کی عادت میں نہ پڑ جائے۔‏ ایک یا دو بزرگ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اُس بھائی سے بات‌چیت کر سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ بزرگ کلیسیا کے صدارتی نگہبان کو اس صورتحال سے ضرور آگاہ کریں کیونکہ اس کی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔‏

خدا کی طرف سے تنبیہ قبول کریں

۲۲،‏ ۲۳.‏ آپ کو خدا کی تنبیہ کو کیوں قبول کرنا چاہئے؟‏

۲۲ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تمام مسیحیوں کو یہوواہ خدا کی تنبیہ پر دھیان دینا چاہئے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۲۰‏)‏ پس جب صحائف اور مسیحی کتابوں اور رسالوں کے مطالعے یا یہوواہ کے گواہوں کی عبادتوں اور کنونشنوں پر پیش کی جانے والی مشورت کے ذریعے آپ کی اصلاح کی جاتی ہے تو اسے قبول کریں۔‏ یہوواہ خدا کی مرضی پوری کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔‏ خدا کی تنبیہ آپ کو روحانی طور پر مضبوط رہنے میں مدد دے گی اور گُناہ کے خلاف مضبوط دیوار ثابت ہوگی۔‏

۲۳ خدا کی تنبیہ کو قبول کرنا آپ کو خدا کی محبت میں قائم رہنے کے قابل بنائے گا۔‏ سچ ہے کہ بعض لوگوں کو مسیحی کلیسیا سے خارج کر دیا گیا ہے لیکن اگر آپ ”‏اپنے دل کی خوب حفاظت“‏ کرتے اور ”‏داناؤں کی مانند“‏ چلتے ہیں تو آپ کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا۔‏ (‏امثال ۴:‏۲۳؛‏ افسیوں ۵:‏۱۵‏)‏ اگر آپ خارج‌شُدہ ہیں تو کیوں نہ بحال ہونے کی طرف قدم بڑھائیں؟‏ خدا چاہتا ہے کہ تمام مخصوص‌شُدہ اشخاص وفاداری اور ”‏خوشدلی“‏ سے اس کی پرستش کریں۔‏ (‏استثنا ۲۸:‏۴۷‏)‏ یہوواہ خدا کی تنبیہ کو قبول کرنے سے آپ ابدتک ایسا کر سکتے ہیں۔‏—‏زبور ۱۰۰:‏۲‏۔‏

آپ کیسے جواب دیں گے؟‏

‏• بعض کو مسیحی کلیسیا سے کیوں خارج کر دیا جاتا ہے؟‏

‏• دلی توبہ میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

‏• سنگین گُناہ کا اقرار کرنا کیوں ضروری ہے؟‏

‏• کن طریقوں سے مسیحی بزرگ تائب خطاکاروں کی مدد کرتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

پولس رسول نے کرنتھس کے مسیحیوں کو خارج کرنے سے متعلق ہدایات کیوں بھیجیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

پُرانے زمانے کے چرواہوں کی طرح مسیحی بزرگ خدا کی زخمی بھیڑوں کی مرہم‌پٹی کرتے ہیں